صفحۂ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرتِ افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
آنکھ کی جھپکی میں ہوجاتا ہے تیغِ بے پناہ
آن واحد میں حریفوں کو جھکاتا ہے قلم
آندھیوں کا سیل بن کر عرصہِ پیکار میں
زلزلوں کے روپ میں محلوں کو ڈھاتا ہے قلم
دوستوں کے حق کا پشتیباں خود اپنے زور پر
دشمنوں پہ دشنہ و خنجر چلاتا ہے قلم
بندگانِ علم و فن کی خلوتوں کا آشنا
ان کے فکر و فہم کی باتیں سناتا ہے قلم
یادگاروں کا محافظ تذکروں کا پاسباں
گمشدہ تاریخ کے اوراق لاتا ہے قلم
محفلوں میں عشق اس کے بانکپن کا خوشہ چیں
محملوں میں حسن سے آنکھیں لڑاتا ہے قلم
شاعروں کے والہانہ زمزموں کی آبرو
دانش و حکمت کی راہوں کو سجاتا ہے قلم
اہلِ دل، اہلِ سخن، اہلِ نظر، اہلِ وغا
ان کے خدوخال کا نقشہ جماتا ہے قلم
برق بن کر ٹوٹتا ہے خرمنِ اغیار پر
دوستوں کے نام کا ڈنکا بجاتا ہے قلم
ہم نے اس کی معرفت دیکھا ہے عرش و فرش کو
آسمانوں کو زمینوں سے ملاتا ہے قلم
زندہ جاوید ہو جاتے ہیں اس کے معرکے
حشر کے آثار قوموں میں اٹھاتا ہے قلم
کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطینِ زمن
دبدبہ فرمانراواؤں پر بٹھاتا ہے قلم
حافظ و خیام و سعدی غالب و اقبال و میر
ماضیء مرحوم میں ان سے ملاتا ہے قلم
شہسواروں کے جلو میں ہفتمیںِ افلاک پر
سربکف اسلاف کے پرچم اڑاتا ہے قلم
کیسی کیسی منزلوں میں رہنما اس کے نقوش
کیسے کیسے معرکوں میں دندناتا ہے قلم
شاعری میں اس سے قائم ہے خمِ گیسو کی آب
نثر میں اعجاز کے تیور دکھاتا ہے قلم
قطع کرنی پڑتی ہیں فکر و نظر کی وادیاں
تب کہیں شورش ؔ مرے قابو میں آتا ہے قلم