یاد ہے اب تک سانولا چہرہ، ساعت چاند نکلنے کی
ہم نے تو بس آہ بھری تھی، باقی بات غزل نے کی
شہر کے چھوٹے سے کمرے میں یاد آ کر تڑپا جائے
گاوں کی چاندنی راتوں میں آواز ہوا کے چلنے کی
ہم تو سانسوں کی حدت سے راکھ میں ڈھلتے رہتے ھیں
آپ نے کیوں زحمت فرمائی، منہ سے آگ اگلنے کی
اپنی خواہش اور کوشش تھی بات مکمل ہو جائے
اور اس شوخ کو عادت تھی، تفریحاً بات بدلنے کی
جیسے کوئی لال پرندہ ھو آکاش کی مٹھی میں
مت پوچھو جو حالت دل کی اس نیلے آنچل نے کی
پیڑوں سے چھن چھن کر آئے، جلتے سر بانسریا کے
ایک ستم سانول نے ڈھایا، ایک جفا جنگل نے کی