شاہ دیں، سید ابرار کی یاد آتی ہے
نعت پڑھتا ہوں تو سرکار کی یاد آتی ہے
مجھ کو درہم کی نہ دینارکی یاد آتی ہے
ذرہء کوچہء سرکار کی یاد آتی ہے
نام لیتا ہے کوئی سامنے طائف کا اگر
شاہ کونین کے کردار کی یاد آتی ہے
نور حق پھیلا ہے دنیا میں جہاں سے ہر سو
شہر مکہ کے اسی غار کی یاد آتی ہے
جس کے اخلاق کے قائل تھے سبھی دشمن جاں
دل کو اس صاحب کردار کی یاد آتی ہے
بے کسوں کے لئے اترا تھا جو سایہ بن کر
آج اس مونس و غمخوار کی یاد آتی ہے
شرک اور کفر کا بڑھتا ہے اندھیرا جس دم
اس گھڑی پیکر انوار کی یاد آتی ہے
دیکھتا ہوں کسی مکڑی کو میں جالا بنتے
تو مجھے ثور کے اک غار کی یاد آتی ہے
تذکرہ ہوتا ہے جبریل کی پرواز کا جب
آپ کی شوکت رفتار کی یاد آتی ہے
جس جگہ رہتا ہے ہر وقت فرشتوں کا ہجوم
شاہ لولاک کے دربار کی یاد آتی ہے
نعت سرکار کی پڑھتا ہے کوئی جب صابر !
مجھ کو حسان کے اشعار کی یاد آتی ہے