انگریزی حروفِ تہجی میں سیریل ٹو اور ٹوینٹی ٹو پر آنے والے دونوں حروف بی اور وی الگ الگ تو شاید کسی خاص اہمیت کے حامل نہ ہوں لیکن یہ دونوں مل کر ایک بہت خطرناک لفظ ”بیوی" بناتے ہیں جی ہاں یہی بیوی دنیا کے تقریباً اسی فی صد مردوں یا شوہروں کی زندگی میں آ کر دل دہلا دینے والا کردار ہے جو انہیں بنانے یا بگاڑنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔
عورت کے چار اہم روپ ہیں -----ماں، بہن، بیوی، بیٹی۔ یہ چاروں روپ اہم ہونے کے ساتھ ساتھ مقدس بھی ہیں۔ ان میں سے فی الوقت بیوی پر قلم زنی کا محل بن رہا ہے۔اِس لیے آغاز میں ہی”بیوی قبیلے“سے معذرت کر لی جائے تو بہتر ہے۔
بیوی مرد کی زندگی میں آنے والی وہ خاتون ہوتی ہے جو اُسے سکون بھی دے سکتی ہے اور مبتلائے اضطراب و عذاب بھی کرسکتی ہے۔ وفا شعار بیوی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔کسی بھی دین و مذہب کے مطابق ایک مرد اور عورت کو میاں بیوی کے رشتے میں باندھنے کے علاوہ ایک ضروری رشتہ اعتماد کا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ یہ بات شاید اُس وقت کہی گئی تھی جب دنیا میں دو پہیوں والی گاڑیاں مستعمل تھیں۔پوری دنیا مل کر یہ بات طے نہیں کر سکی کہ بات گدھا گاڑی یا ٹانگے کے لیے کہی گئی تھی یا سائیکل کے لیے۔بات سے بات نکلتی ہے تو یہ بھی کوئی نہ جان پایا کہ اگر یہ گدھا گاڑی یا ٹانگے کے پہیے ہیں تو ان میں سے دائیں والا کون سا ہے اور بائیں والا کون سا۔ اگر سائیکل ہے تو آگے اور پیچھے والے پہیوں کا جھگڑا ضرور سامنے آئے گا۔بہرحال یہ دونوں کسی بھی طرف کے پہیے ہوں، مل کر ہی زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں۔
اِس کائنات میں بحیثیت انسان وجود میں آنے والی دوسری ہستی عورت تھی جسے پہلے ہی لمحے بیوی کے اعلیٰ ترین رتبے پر فائز کردیا گیا اور آدم کی زمین پر آباد کاری کی کئی وجوہات میں سے ایک کا سہرا بلکہ گھونگھٹ اسی بیوی کے سر ہے۔ وجود میں آتے ہی بیوی کے ذمہ کافی سارے کام لگائے گئے اور کچھ اِس نے خود اپنے ذمہ لے لیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کام اختیارات کا درجہ حاصل کرتے گئے۔ اِن خود ساختہ اختیارات میں شوہر کی کڑی نگرانی،اُس کی جیبوں کی تلاشی، بٹوے سے چوری چھپے یا زبردستی رقم نکلوانا، شوہر کے لیے بے سکونی کا انتظام کرنا، دوسری خواتین سے راہ و رسم میں رکاوٹیں پیدا کرنا، شوہر کے دوستوں کو گنواراور جاہل سمجھنا اور
اُن کے آنے پر بے تکی گفتگو کرنا، اپنے میکے کی تعریف و توصیف اور سسرال کی توہین و تحریف میں مبالغے سے کام لینا وغیرہ شامل ہے۔اِن تمام کے علاوہ کچھ ”بیوی ترس“ شوہر خواہ مخواہ بیویوں کو بہت سارے صوابدیدی اختیارات سونپ کر پرسکون ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سراسرشوہرانہ قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جس کا خمیازہ وہ ساری زندگی بھگتتے رہتے ہیں۔
فی زمانی بیویوں کی کئی اقسام ہیں، جن پر کئی ادیب اور شاعروغیرہ قلم زنی کر چکے ہیں اورقرین از قیاس امر ہے کہ ہم یہاں اقسام گنوا کر اپنے انشائیے پر سرقہ کا الزام بھی نہیں لگوانا چاہتے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ تما م شوہروں کو بیویوں کی تقریباً تمام اقسام کا بخوبی علم ہے، خود بیویوں کو بھی اپنی قماش یا قسم کا ادراک ہوتا ہے۔کچھ خصوصی اقسام ہیں جن کے بارے میں ابھی دنیا کو آگاہ کیا جانا لازمی ہے، تاخیر کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان پر مزید تحقیق جاری ہے اور خاطر خواہ نتائج سامنے آنے کے بعد ہی اِن اہم اقسام کو طشت از بام کیا جائے گا۔
ایک مشہور مقولہ ہے کہ کسی بھی کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور اکثر یہ عورت اُس مرد کی ذاتی بیوی ہوتی ہے۔اِسی طرح ناکام مرد کے پیچھے بھی ایک یاایک سے زیادہ عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔اِس معاملے میں بیوی اپنی بھی ہوسکتی ہے کسی اور کی بھی یا کوئی اور خصوصی قسم کی عورت بھی اِس ناکامی کے اسباب میں ملوث پائی جا سکتی ہے۔
بیوی ہونا ایک انتہائی مشکل کام ہے،ویسے تو عورت ہونا ہی ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔وہ ایسے کہ بیوی کی آزمائش اور امتحان کا پہلا پرچہ اُس دن اُس کے سامنے آتا ہے جس دن وہ کسی اجنبی کے ساتھ اپنی باقی زندگی گزارنے کا عہد کرتی ہے۔ایک گھر جس میں اُس نے زندگی کی کئی بہاریں اور خزائیں، شام و سحر گزارتے ہوتے ہیں، اُسے چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں بسنااُس کی زندگی کی بہت بڑی قربانی ہوتی ہے اور اُس کے بعد وہ پے درپے قربانیاں دیتی چلی آتی ہے۔بیوی ہونا ایک جز وقتی نہیں بلکہ کل وقتی کام ہے۔صبح منہ اندھیرے اٹھ کر سب کے لیے ناشتہ بنانے سے لے کر رات کے کھانے کے بعد برتن دھونے تک، صبح بستر سمیٹنے سے رات کو سونے کے بستر بچھانے تک، بچوں کو سکول اور شوہر کو دفتر یا کام پر بھیجنے کے بعد سے ان کے واپس آنے تک یہ مخلوق مصروف ہی رہتی ہے۔مردوں کو کاروبار یا دفتر سے تو ہفتے میں چھٹی مل جاتی ہے مگر اِسے کوئی رخصت نہیں ملتی۔ مرد بیمار ہو تو یہ خدمت اور عیادت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتی۔مگر اِس کے سر میں درد ہو بھی تو کھانا اِسے ہی بنانا ہوتا ہے۔
ہر ایک بیوی کا سب سے بڑا خواب اپنا گھر بنانا، سجانا، سنوارنا ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی درجے یا طبقے سے تعلق رکھتی ہو، اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے گھر کی تزئین و آرائش اپنا فرض سمجھتی ہے۔وہ خواہ شکاگو سے ہو یا بیجنگ سے، دوہا سے ہو یا جدہ سے، لاہور سے ہو یا کابل سے یہ اُس کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔ صحرائے تھر میں ایک عورت کو اپنے گھر کی تزئین و آرائش مٹی اور گوٹے کناری سے کرتا دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں نے سوچا کہ وہ دنیا کا بہترین اور خوبصورت گھر تھا۔ کسی عورت کی بد ترین دشمن حتیٰ کہ بہترین دوست اُس کی ساس یا اُس کے شوہر کی ماں ہوتی ہے۔،یہ قسمت کی بات بھی ہے اور اُس کی محنت اور محبت بھی کہ وہ ساس کو دوست بناتی ہے یا دشمن۔ ویسے دونوں میں دوستی ہو جائے تو فائدہ مرد کو ہی ہوتا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ دونوں میں ٹھن جائے تو تب بھی مفعول بیچارہ مرد ہ ہوتا ہے۔
چلتے چلتے آزادئ نسواں کا ذکر بھی انتہائی مناسب ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو آزادئ نسواں کے نام پر اگر کوئی جنس متاثر یا استحصال زدہ ہے تو وہ خود عورت ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جہاں مرد باورچی خانے میں جانا، برتن یا کپڑے دھونا، بچوں کو سنبھالنا گوارہ نہیں کرتا، وہاں اگر عورت کسی دفتر میں کام کرتی ہو تو اُسے اپنے دفتر کے علاوہ گھر کے تمام کام بھی اُسی معیار کے مطابق کرنے ہوں گے۔
بیوی زندگی کے سٹیج پر بیک وقت کئی کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ اُسے بیوی ہونے کے علاوہ محبوبہ، ماں، بیٹی، بہن، نوکرانی، باورچن، ذمہ کافی سارے کام لگائے گئے اور کچھ اِس نے خود اپنے ذمہ لے لیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کام اختیارات کا درجہ حاصل کرتے گئے۔ اِن خود ساختہ اختیارات میں شوہر کی کڑی نگرانی،اُس کی جیبوں کی تلاشی، بٹوے سے چوری چھپے یا زبردستی رقم نکلوانا، شوہر کے لیے بے سکونی کا انتظام کرنا، دوسری خواتین سے راہ و رسم میں رکاوٹیں پیدا کرنا، شوہر کے دوستوں کو گنواراور جاہل سمجھنا اور اُن کے آنے پر بے تکی گفتگو کرنا، اپنے میکے کی تعریف و توصیف اور سسرال کی توہین و تحریف میں مبالغے سے کام لینا وغیرہ شامل ہے۔اِن تمام کے علاوہ کچھ ”بیوی ترس“ شوہر خواہ مخواہ بیویوں کو بہت سارے صوابدیدی اختیارات سونپ کر پرسکون ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سراسرشوہرانہ قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جس کا خمیازہ وہ ساری زندگی بھگتتے رہتے ہیں۔
فی زمانہ بیویوں کی کئی اقسام ہیں، جن پر کئی ادیب اور شاعروغیرہ قلم زنی کر چکے ہیں اورقرین از قیاس امر ہے کہ ہم یہاں اقسام گنوا کر اپنے انشائیے پر سرقہ کا الزام بھی نہیں لگوانا چاہتے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ تما م شوہروں کو بیویوں کی تقریباً تمام اقسام کا بخوبی علم ہے، خود بیویوں کو بھی اپنی قماش یا قسم کا ادراک ہوتا ہے۔کچھ خصوصی اقسام ہیں جن کے بارے میں ابھی دنیا کو آگاہ کیا جانا لازمی ہے، تاخیر کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان پر مزید تحقیق جاری ہے اور خاطر خواہ نتائج سامنے آنے کے بعد ہی اِن اہم اقسام کو طشت از بام کیا جائے گا۔
ایک مشہور مقولہ ہے کہ کسی بھی کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور اکثر یہ عورت اُس مرد کی ذاتی بیوی ہوتی ہے۔اِسی طرح ناکام مرد کے پیچھے بھی ایک یاایک سے زیادہ عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔اِس معاملے میں بیوی اپنی بھی ہوسکتی ہے کسی اور کی بھی یا کوئی اور خصوصی قسم کی عورت بھی اِس ناکامی کے اسباب میں ملوث پائی جا سکتی ہے۔
بیوی ہونا ایک انتہائی مشکل کام ہے،ویسے تو عورت ہونا ہی ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔وہ ایسے کہ بیوی کی آزمائش اور امتحان کا پہلا پرچہ اُس دن اُس کے سامنے آتا ہے جس دن وہ کسی اجنبی کے ساتھ اپنی باقی زندگی گزارنے کا عہد کرتی ہے۔ایک گھر جس میں اُس نے زندگی کی کئی بہاریں اور خزائیں، شام و سحر گزارتے ہوتے ہیں، اُسے چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں بسنااُس کی زندگی کی بہت بڑی قربانی ہوتی ہے اور اُس کے بعد وہ پے درپے قربانیاں دیتی چلی آتی ہے۔بیوی ہونا ایک جز وقتی نہیں بلکہ کل وقتی کام ہے۔صبح منہ اندھیرے اٹھ کر سب کے لیے ناشتہ بنانے سے لے کر رات کے کھانے کے بعد برتن دھونے تک، صبح بستر سمیٹنے سے رات کو سونے کے بستر بچھانے تک، بچوں کو سکول اور شوہر کو دفتر یا کام پر بھیجنے کے بعد سے ان کے واپس آنے تک یہ مخلوق مصروف ہی رہتی ہے۔مردوں کو کاروبار یا دفتر سے تو ہفتے میں چھٹی مل جاتی ہے مگر اِسے کوئی رخصت نہیں ملتی۔ مرد بیمار ہو تو یہ خدمت اور عیادت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتی۔مگر اِس کے سر میں درد ہو بھی تو کھانا اِسے ہی بنانا ہوتا ہے۔
ہر ایک بیوی کا سب سے بڑا خواب اپنا گھر بنانا، سجانا، سنوارنا ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی درجے یا طبقے سے تعلق رکھتی ہو، اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے گھر کی تزئین و آرائش اپنا فرض سمجھتی ہے۔وہ خواہ شکاگو سے ہو یا بیجنگ سے، دوہا سے ہو یا جدہ سے، لاہور سے ہو یا کابل سے یہ اُس کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔ صحرائے تھر میں ایک عورت کو اپنے گھر کی تزئین و آرائش مٹی اور گوٹے کناری سے کرتا دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں نے سوچا کہ وہ دنیا کا بہترین اور خوبصورت گھر تھا۔ کسی عورت کی بد ترین دشمن حتیٰ کہ بہترین دوست اُس کی ساس یا اُس کے شوہر کی ماں ہوتی ہے۔،یہ قسمت کی بات بھی ہے اور اُس کی محنت اور محبت بھی کہ وہ ساس کو دوست بناتی ہے یا دشمن۔ ویسے دونوں میں دوستی ہو جائے تو فائدہ مرد کو ہی ہوتا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ دونوں میں ٹھن جائے تو تب بھی مفعول بیچارہ مرد ہ ہوتا ہے۔
چلتے چلتے آزادئ نسواں کا ذکر بھی انتہائی مناسب ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو آزادئ نسواں کے نام پر اگر کوئی جنس متاثر یا استحصال زدہ ہے تو وہ خود عورت ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جہاں مرد باورچی خانے میں جانا، برتن یا کپڑے دھونا، بچوں کو سنبھالنا گوارہ نہیں کرتا، وہاں اگر عورت کسی دفتر میں کام کرتی ہو تو اُسے اپنے دفتر کے علاوہ گھر کے تمام کام بھی اُسی معیار کے مطابق کرنے ہوں گے۔
بیوی زندگی کے سٹیج پر بیک وقت کئی کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ اُسے بیوی ہونے کے علاوہ محبوبہ، ماں، بیٹی، بہن، نوکرانی، باورچن، پرسنل سیکرٹری، منتظم وغیرہ کی بھرپور اور مکمل اداکاری کرنی پڑتی ہے اور ہر کوئی اُس سے یہ توقع کررہا ہوتا ہے کہ وہ یہ تمام کردار مکمل طور پر بغیر کسی دادو تحسین کے نبھائے۔ ہاوراقِ تاریخ میں کئی نامی گرامی بیویوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ حوّا کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی بیوی نامی اِس قابلِ قدر ہستی کے ذکر کے بغیر تاریخ بھی تکمیل کی سند نہیں پا سکتی۔ پیغمبروں،صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کی معتبر بیویوں کے علاوہ کئی بادشاہوں، شاعروں، ادیبوں، سیاستدانوں، سائنس دانوں، اساتذہ وغیرہ کی بیویوں کے حوالے بھی کئی معتبر تاریخ دانوں نے دیے مگر تقریباً سب اپنی بیوی کا تذکرہ بھول گئے، جیسے میں اِس انشائیے میں اپنی خاتونِ خانہ کا تذکرہ گول کر رہا ہوں۔لہٰذا آج سے تمام تاریخ دانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بیوی کا تذکرہ بھی ضرور کریں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت جان بخشی کے لیے سند کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔