آغا شورش کاشمیری صاحب کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘ شائع ہوئی جس میں ہیرا منڈی یا بازار حسن کے ذاتی مشاہدوں پر مبنی قصے تھے اگرچہ کچھ ناروا اور فحش نوعیت کے تھے اور یہ کتاب دنوں میں ایک بیسٹ سیلر ہو گئی۔ ہم نے اسے چوری چھپے پڑھا، بزرگوں سے نظر بچا کر پڑھا۔
اُس بازار میں اگر آج کے زمانوں میں شائع ہوتی تو حضرت شورش کب کے علماء کرام کے فائرنگ سکواڈ سے ہلاک ہو چکے ہوتے لیکن بدقسمتی سے وہ زمانے ذرا روشن خیال تھے۔ اس لیے شورش شہید نہ ہوئے، جہاں اُن کی نثر میں آغا حشر ایسا ایک ڈرامائی لہجہ اور سج دھج تھی وہاں شاعری پر اُن کی قدرت بھی بے مثال تھی۔ اُس بازار میں کے آغاز میں اُن کی شاعری کے شاندار لب و لہجے والے کرشمے ہیں.
رات اُس بازار میں اِک ور وش کی سیج پر
اِک فقیہہ شہر کی ریش حنائی بک گئی
دھن دھنا دھن کی صدا میںکھو گیا احساس زہد
منبر و محراب کی شعلہ نوائی بک گئی
بک گئی بکنے کی شے تھی پارسائی بک گئی
شورش کا کہنا ہے کہ پچھلے زمانوں کے لوگ طوائف کو ایک ثقافتی ادارہ سمجھ کر اُس کے ہاں آتے تھے (کیسے بھلے زمانے تھے) اُن کا معاملہ بدن کا نہ تھا تہذیب کا تھا چنانچہ سر سید نہایت شوق سے گانا سنتے تھے بلکہ ایک طوائف نے علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے ایک بڑی رقم عطا کی۔
(اور جب کچھ ’جہلا‘ کرام نے اعتراض کیا کہ یہ گندی رقم ہے تو سر سید نے کہا تھا کہ فکر نہ کیجیے اس سے ہم گندی جگہیں یعنی ٹائلٹ وغیرہ تعمیر کروائیں گے)۔ مولانا شبلی، شرر، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی، یہ زعماء گانا سننے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی محبوبہ امیر اور پھر ہمارے اخلاق کی اصلاح کرنے والے بزرگ اکبر الہ آبادی نے بوٹا بیگم سے نکاح پڑھوایا تھا۔ آغا حشر نے مختار بیگم کے عشق میں ڈرامے لکھے۔ امیر سے جب کبھی اقبال کا ذکر آتا وہ مسکرا دیا کرتی۔ شورش نے ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
21 اپریل 1948ء کی شب پاکستان میں پہلا یوم اقبال تھا، ادھر یونیورسٹی میں حکیم الامت کے عقیدت مند فلسفۂ خودی چھانٹ رہے تھے، اُدھر ریڈیو پر کلام اقبال نشر ہو رہا تھا اور کہیں کہیں فٹ پاتھ پر خوش لحن فقیر ’’ساقی نامہ‘‘ الاپ رہے تھے۔ گیا دورِ سرمایہ داری گیا۔
علامہ اقبال آغاز جوانی میں اس امیر ہی کی آواز کے معترف تھے۔ اور یہ حسن اتفاق تھا کہ آج اس کے ہاں کسی تقریب کا اہتمام تھا (عین ممکن ہے کہ وہ بھی یوم اقبال منا رہی ہوں) امیر کی بیٹیاں جن کا آفتاب ان دنوں نصف النہار پر ہے، خوبصورت کبوتریوں کی طرح غٹر غوں غٹر غوں کر رہی تھیں، سب پشتیی رنڈیاں اس کے ہاں مدعو تھیں، تمام احاطہ بقعہ نور بنا ہوا تھا جیسے اپسراؤں کا کوئی غول ستاروں سمیت کرۂ ارضی کی اس ٹکری پر اُتر آیا ہو۔
اقبال اکیدمی کی جانب سے شائع کردہ حیات اقبال کے تذکرے میں اس امیر نام کی طوائف کا حوالہ موجود ہے جو علامہ کی منظور نظر رہی تھی۔ بلکہ ایک بار جب اس کی والدہ محترمہ نے علامہ اقبال کو کوٹھے پر آنے سے منع کر دیا تھا کہ ایک شاعر زیادہ منافع بخش نہیں ہوتا تھا تو ان کے دوستوں نے اس نائکہ سے ذاتی طور پر گزارش کی تھی کہ یہ پابندی اٹھا دیجیے ہمارے شاعر پر شعر اترنے بند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ شورش کاشمیری نے جو قصہ بیان کیا ہے مجھے کسی حد تک اس سے اختلاف ہے۔ انہوں نے طوائف امیر کی زبان سے جو کچھ نہایت ڈرامائی زبان میں کہلوایا ہے وہ امیر کی نہیں شورش کی اپنی زبان اور لہجے کی کارستانیاں ہیں۔ ایک طوائف چاہے وہ حکیم الامت کی محبوبہ رہی ہو کلام پر اس قدر قدرت نہیں رکھتی۔ اگر شورش خصوصی طور پر امیر کی بیٹیوں کے آفتاب‘‘ کو نصف النہار پر قرار دیتے ہیں تو آخر در پردہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، مجھے اُن کی نیت پر کچھ شک ہے۔ اب اس بکھیڑے کے سلسلے میں اقبال شناس کچھ مدد کریں کہ اصل قصہ کیا تھا۔
روزنامہ نئی بات سے مستنصر حسین تارڑ کے ایک کالم کے چند اقتباسات