مَیں بہت مطمئن تھا کہ وہ افسانہ اپنے پورے سیاق و سباق کے ساتھ نکھر کر سامنے آیا تھا۔ یہ دس صفحات پر مشتمل ایک ایسا افسانہ تھا جس کا آغاز بھی جاندار تھا اوروسطانیہ بھی اور پھر انجام۔۔۔ اُس کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اُس میں انجام کار وہ سب کچھ آگیا تھا جو افسانہ نگار عام زندگی میں کہہ ہی نہیں سکتا۔۔۔ یعنی وہ الفاظ ہی میسر نہیں ہوتے جو اپنا مافی الضمیر نہایت سادگی اور سلاست سے ادا کردیں۔۔۔
عام زندگی میں کیا ؟ خاص زندگی میں بھی بلکہ خاص الخاص زندگی میں بھی یہ سب ہونا آسان نہیں ہے۔۔۔ اُس افسانے کی تکمیل پر مَیں دیر تک جی ہی جی میں خوش ہوتا رہا تھا۔۔۔ گویا مَیں نے وہ مقصد حاصل کر ہی لیا تھا جس کے لئے یہ افسانہ لکھنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا۔۔۔ مگر یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی تھی۔۔۔ افسانے کے دو صفحات کہیں اِدھر اُدھر ہوگئے تھے۔ یہ دونوں صفحات گویا افسانے کی جان تھے۔ چھٹے صفحہ پر ہی تو افسانہ اپنے ارتقا کے اگلے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور ساتواں صفحہ آئندہ کے تین صفحات کا مقدر طے کرتا ہے۔ یہ دو صفحات غائب کیا ہوئے، میرے افسانے کا مقدّر ہی تاریک ہوگیا تھا۔ دو صفحات کہاں چلے گئے تھے؟ بات کچھ پلّے نہیں پڑرہی تھی۔۔۔ کل رات تک بھی میں نے دس صفحات کی گنتی کی تھی۔۔۔ پورے کے پورے دس صفحات میں نے تہہ کرکے ایک فائل میں رکھ دیے تھے۔ بس غلطی یہ ہوئی کہ انہیں فائل میں باقاعدہ طور پر لگایا نہیں تھا۔۔۔ مَیں نے سوچا تھا کہ صبح اُٹھتے ہی ان صفحات کو کمپوزنگ کے لیے دے دوں گا اور جب یہ ٹائپ ہوجائیں گے تو پھر انہیں فائل میں سیٹ کرکے لگاؤں گا اب تو ساری سیٹنگ (Setting) ہی خراب ہوچکی ہے۔۔۔ اب ان دو صفحات کو دوبارہ سے لکھنا بھی آسان نہیں ہے اور پھر پہلے پانچ صفحات کی ترتیب اور اگلے تین صفحات کی ترتیب میں جس طرح سے وہ دو صفحات ایک پل کا کام دے رہے تھے، وہ پل اب دوبارہ تعمیر کرنا میرے بس کا روگ نہیں ہے۔۔۔ کبھی تو سوچتا ہوں کہ فی الوقت بھول جاؤں اُن دو صفحات کو اور جو صفحات میسر ہیں اُن کی نئی ترتیب قائم کردوں۔ اس نئی ترتیب کے اعتبار سے یہ آٹھ صفحات پر مشتمل ایک افسانہ بن سکتا ہے۔ مگر پھر یہ سوچ کر ہمت نہ پڑتی کہ افسانے کا اصل عندیہ جاتا رہے گا یہ سوچ کر ہمت نہ پڑتی کہ چند سطروں کی بات ہوتی تو کوئی حرج نہیں تھا۔ مگر اتنی بڑی نا انصافی کہ وسطانیے کے دو صفحا ت ہی غائب کردیے جائیں؟ یہ مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔
ویسے تو وہ افسانہ بھی میرے عام افسانوں جیسا ہی تھا۔ کوئی خاص بات نہیں تھی ۔ کوئی ایسی بات جس پر سر دھُنا جاسکے یا واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جاسکیں۔ نہ تو کوئی چونکنے والی بات تھی اور نہ چونکانے والی۔۔۔وہی عام سے منہ بسورتے کردار، اپنی پریشانیوں کی دہائی دیتے ،سیاستدانوں کی باتوں کو بے وقعت قرار دینے والے۔ نہ حکمرانوں سے خوش اور نہ حزب اختلاف سے راضی۔ جس کی بات کی جاتی اُسی پر جرح شروع کردیتے ’’ہم اُسے خوب جانتے ہیں، کل تک ایک موٹر سائیکل بھی نہیں تھی۔ آج دیکھو تو گھر پر لمبی لمبی کاروں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔‘‘ کل تک حضرت جوتے چٹخاتے پھرتے تھے آج درجنوں جیپیں لئے پھرتے ہیں۔’’ عوام کا پیسہ لوٹ کر محل کھڑے کرلئے ہیں۔‘‘سیاست کے نام پر چوری چکاری اور بلیک میلنگ کا دھندا کرتے ہیں۔ غریبوں کا خون چوستے ہیں‘‘۔۔۔ ایک کردار کا لقمہ دینا بھی یاد آتا ہے۔ ’’پہلے خون چوستے ہیں پھر ناکارہ وجود کو کرائے کے قاتلوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ کسی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’اس ترقی یافتہ دور میں انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور کوئی مزاحمت کا سوچتا بھی نہیں ہے‘‘
ان دو صفحات میں کیا کیا تھا ، سوچتا ہوں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں۔۔۔ مَیں وہ سب کچھ دوبارہ نہیں لکھ سکتا۔۔۔ ویسے تو وہ افسانہ بھی عام افسانوں جیسا ہی تھا مگر کوئی خاص بات ضرور تھی جس پر میں دیر تک دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا تھا۔۔۔ بلکہ نہیں۔۔۔ مَیں دل ہی دل میں دیر تک کڑھتا رہا تھا یہ کڑھنے کا عمل ہی اس افسانے کو میرے دیگر افسانوں سے ممیز کررہا تھا۔ یہی خاص بات تھی مگر اُن دو صفحات کی اپنی کہانی کیا ہوئی؟
ان کا انجام کیا ہوا؟ وہ کہاں جاکر فسانہ ہوئے؟
مَیں محض اس خدشے کے تحت اِن آٹھ صفحات کو تلف کرنے سے گریزاں ہوں کہ مبادہ اُن دو ؔ صفحا ت کو مجھ پر رحم آجائے اور ایک بار پھر افسانے کی صفحاتی ترتیب میں شامل ہوجائیں۔۔۔
***
جدید اردو افسانہ
حاصل مطالعہ:احمدمنیبؔ
شہزاد منظر لکھتے ہیں:
’’کردار جسم اورپرچھائیں دونوں پر جدید اُردو افسانے میں توجہ دی گئی مگر ہوا یوں کہ۱۹۶۰ء کے بعد یہ رحجان عام ہوا ور پھر اس میں شدت آگئی کہ اب افسانوں سے جسم غائب ہوگئے او رمحض پرچھائیاں ہی باقی رہ گئیں۔لہٰذا کرداروں نے اپنا وجود کھودیا اور چندہیولے ہی نظر آنے لگے‘‘
( شہزاد منظر ، جدید اُردو افسانہ، عاکف بک ڈپو ، دہلی،۱۹۸۸ء، ص ۴۸)
ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان ایک مضمون ’’ہمعصر افسانہ میں فن اور تکنیک کے تجربات "میں لکھتی ہیں۔
’’جدید افسانہ نے کئی سنجیدہ مسائل بھی پیدا کئے۔بالخصوص علامتی ،پیکری ، استعاراتی اور تجریدی ذریعہ اظہار نے تخلیق کاروںمیں کئی غلط فہمیاں پیدا کردیں ۔ وہ پیکر ،ا ستعاراتی علامتی اسالیب میں تفریق نہ کرسکے ۔ نہ ہی علامت نگاری اور تجریدیت کے صحیح مفہوم کو سمجھ پائے۔ ان اسالیب کے فن احکامات کو سمجھنے کے بغیر محض تقلید کے شوق میں انہوں نے ان نئے اسالیب کو اپنا لیا۔اس لیے وہ انہیں صحیح طور پر برت نہ سکے۔ ‘‘
( ڈاکٹر صغیر افراہیم،اردو فکشن تنقیدو تجزیہ،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ،۲۰۰۳ء،ص ۲۲۸)
مرزا حامد بیگ نے اس ضمن میں لکھا ہے:
’’آج افسانے کی نثر میں نظم کے بیچ خطِ امتیاز نہیں کھینچاجاسکتا اس لئے کہ یہ نثر کے منصب کو گھٹاتاہے ۔نثر نظم تصوریت آہنگ اور ترنم کے راستوں ایک ہو رہی ہیں۔ ‘‘
(ڈاکٹر شفیق انجم، اُردو افسانہ، (بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں اور رحجانات کے تناظر میں)، پور پ اکادمی، اسلام آباد ، ۲۰۰۸ء)
’’غیر روایتی زبان میں شعور کی رو کا اظہار ،منتشر خیالی کے لفظی پیکر اورعلامتی ابہام نے نثری اسلوب کی رو سے بھی ملایااورآزاد یا نثری نظم کی طرح چھوٹی بڑی سطروںمیں افسانہ لکھا جانے لگا۔بلکہ متعدد افسانوں سے تویہ تاثر عیاں ہے کہ افسانہ نگار نے شعوری طور پر افسانے کو نظم بنانے کی کوشش کی ہے۔ پھر چند لکھنے والوں کے خالص شعری تشبیہی اسلوب برتنے سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ افسانہ واقعی شاعری بنتا جارہاہے۔ ‘‘
(مرزا حامد بیگ ، افسانے کا منظر نامہ، مکتبہ عالیہ ، لاہور، ص ۱۳۶)