لالہ جی کو یہ بات کھل گئی کہ بڑھیا (لالائن) نے بال کٹوا دئیے اور ان سے پوچھا بھی نہیں۔
پچھلے مہینے ان کی بہو مائیکے گئی تھی تو اپنی ساس کو ساتھ لے گئی تھی، دلی۔ کہ ٹرین میں گود کے بچے کو سنبھالنے میں آسانی رہےگی۔
لالہ جی سے خود مایا دیوی نے پوچھا تھا ’’بہو کہہ رہی ہے دلی چلنے کے لیے، جاؤں؟‘‘
’’ہاں ہاں ضرور جاؤ۔ ٹرین کے دھکم دھکے میں بیچاری بہو کیسے سنبھالےگی بچے کو؟‘‘
ان کی بہو ’’منی‘‘ کے پتا ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ منی کے دو بھائی بھی ملٹری میں بڑے عہدوں پر ہیں۔ کرنل صاحب کا پارٹیوں میں آنا جانا آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ ظاہر ہے، ان کی پتنی انہی کے اسٹائل میں رہتی ہیں۔ ماڈران ہیں، سٹائلش ہیں۔ انہوں نے بال کٹوا رکھے ہیں۔ اس بار مایا دیوی کے بھی کٹوا دئیے۔
دو ہفتے بعد، بمبئی واپس لوٹیں تو لالہ جی دیکھ کر دنگ رہ گئے ’’یہ بالوں کا کیا کیا تم نے؟‘‘
’’سمدھن نے کٹوا دئیے۔ اپنی طرح بنوا دئیے‘‘۔ یہ کہہ کر مایا ہنسیں ضرور، لیکن ایک سایہ جو گزرا، اس کے
پتی کی آنکھ سے، وہ اس سے ڈر گئیں۔ اپنے شوہر کی نظر وہ پہنچانتی تھیں۔ اڑتالیس برس کا ریاض تھا۔ کھسیانی سی بولیں۔ ’’پھر رکھ لوں گی۔ بڑھ جائیں گے‘‘۔
لالہ جی چپ چاپ اندر چلے گئے اور بیٹھک میں جا کر بیٹھ گئے۔
رات کھانے کی میز پر بھی ان کا موڈ بجھا بجھا ہی رہا۔ منوج نے پوچھا۔ منی نے بھی بس سرہلا دیا۔ ’’کچھ نہیں‘‘۔
مایا دیوی نے جب پوچھا۔۔۔ ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ تو جواب کچھ اور ہی دیا۔ ’’تمہارے بال تو بہت اچھے تھے۔ خوبصورت تھے۔ کٹوا کیوں دئیے؟‘‘ کوئی جواب نہ ملا تو بولے۔ ’’اور تم نے۔۔۔ مجھ سے پوچھا بھی نہیں‘‘۔
منوج ہنستا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ ’’بابوجی کو ابھی تک ماں کے بالوں کی فکر لگی ہے۔ ستر بہتر کے ہوگئے لیکن مزاج سے عشق نہیں گیا ابھی‘‘۔
منی، بڑی کو کنگھی کر رہی تھی ہنس کے پوچھا۔ ’’بابوجی کی کیا لو میرج ہوئی تھی؟‘‘
’’نہیں۔ ماں کی شادی تو میرے سامنے ہوئی۔ ان کے ماں باپ نے کروائی تھی‘‘۔
’’مطلب؟۔۔۔‘‘
’’دونوں نے گھر سے بھاگ کے کورٹ میں شادی کرلی تھی۔ چار پانچ سال بعد میں پیدا ہوا۔ میری پیدائش کے بعد دونوں کے ماں باپ نے معاف کر دیا اور صلح ہو گئی۔۔۔ ماں مجھے لے کر پیرینٹس (والدین) کوملنے گئی تو انہوں نے بابو جی کو گھر سے نکال دیا یہ کہہ کے، کہ بچو، جاؤ، اب برات لے کر آؤ، تب لڑکی دیں گے، تب دوبارہ شادی ہوئی ان کی۔ مجھے یاد تو نہیں لیکن۔۔۔ پتہ ہے۔تصویر بھی ہے۔
لالہ ہیم راج کو کھانے کے بعد سیر کی پرانی عادت تھی۔ کچھ دیر ٹہلنے کے لیے باہر چلے جاتے تھے۔ نکڑ سے ایک پان بنواتے، اپنی طرح کا۔ عمر کے ساتھ سپاری ضرور کم ہو گئی تھی۔ لیکن اس روز وہ پنواڑی کی دوکان سے پہلے ہی لوٹ آئے۔ اتنی سی بات پتہ نہیں کیوں، بھنوروں کی طرح ان کی سوچ میں اٹک گئی تھی۔۔۔ سانجھ ہی تو ہے۔ اسے حق کہہ لو۔ ادھیکار کہہ لو یا۔۔۔ کوئی مناسب لفظ ملا نہیں۔ ایسے لگ رہا تھا ان کی کوئی بڑی قیمتی چیز چوری ہوگئی ہے۔
جب منوج پیدا ہوا تھا تو پہلے پہل ان کے ادھیکار پر سینہہ لگی تھی۔ مذاقاً بیوی سے کہا ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے بھئی ہم ،خود ہی کپڑے نکال لیں گے۔ تم دیکھو اپنے بیٹے کو۔ آتے ہی ہمارا بستر الگ کروا دیا اس چھٹنکی بھر کے لونڈے نے !‘‘
’’چھٹنکی بھر مت کہو۔ آٹھ پاؤنڈ کا بیٹا دیا ہے آپ کو‘‘۔
’’لیکن یہ تو بتا دو کہ پہنوں کیا؟ ہلٹن صاحب کے ہاں جانا ہے‘‘۔
’’نکٹائی تو ہرگز مت لگانا۔ بڑی اوت لگتی ہے آپ کے گلے میں۔ اسکارف لگا کے چلے جاؤ‘‘۔
پھر پنکی پیداہوئی تو کچھ اور کٹاؤ ہوا ان کے ادھیکاروں کا۔ کھانا نوکرانی کے ہاتھ کا ملنے لگا۔ لیکن دال کا بگھار، مایا خود لگاتی تھیں۔ کوئی اور لگائے تو انہیں فوراً پتہ چل جاتا تھا۔ مایا دیوی کو بڑا فخر تھا اس بات پر۔ ایک بار دال میں سے، لمبا سا بال نکل آیا۔ لالہ جی نے کو کرانی کو نکال دیا۔ مایا سے بولے ’’تمہارا بال ہوتا تو میں بٹوے میں رکھ لیتا۔ لیکن میں اس نوکرانی کے بال برداشت نہیں کر سکتا۔ اسے کہو، کام کرنا ہے تو سر منڈوا کے آئے‘‘۔
’’آئے ہائے، سہاگن بیچاری۔ وہ کیوں سر منڈوادے؟ کوئی ودھوا ہے؟‘‘
’’تو پھر کوئی نوکر رکھ لو‘‘۔
تب سے نوکر ہی رہا گھر میں۔۔۔ اب آکے چولہا چوکا بہونے سنبھالا تو ایک دن اسے بھی کہہ دیا ’’کھانا بناتے ہوئے بال کھلے مت رکھا کرو بیٹی، آنکھ پر آتے ہیں‘‘۔
منی نے کس کے جوڑا بنا لیا۔ لیکن بات مایا کی نظر سے بچ نہ سکی۔ وہ جان گئی تھی کہ آج تک نوکرانی والی بات وہ بھولے نہیں۔ دو چار روز تو بات ہنسی مذاق میں ٹلتی رہی۔ ماں دل ہی دل میں اترا بھی رہی تھیں کہ لالہ جی اس بڑھاپے میں بھی اپنا عشق جتا رہے ہیں۔ روٹھے سے رہتے ہیں لیکن کچھ روز اور گزرے تو سب نے دیکھا کہ باپوجی نے ماں سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ مایا بھی کچھ بے حال ہونے لگیں۔ بڑھاپے کی روٹھائی، انہیں جوانی سے بھی زیادہ جان لیوا لگنے لگی۔ کھانے کی میز پر سب ملتے اور لالہ جی چپ چاپ کھانا کھا کر اٹھتے اور سیر کو نکل جاتے۔ سیر بھی کوئی چھوٹی ہونے لگی تھی۔مایا نے پوچھا تو جواب دیا ’’اب جلدی تھک جاتا ہوں‘‘۔
ایک بےدلی سی رہنے لگی گھر میں۔ ساتھ ہی ایک دبا دبا سا تناؤ بھی شروع ہو گیا۔ کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے منوج نے کہا ’’بابوجی، آپ چشمے کا فریم بدل لیجئے۔ آج کل بڑے نئے نئے ڈیزائن ملتے ہیں۔۔۔‘‘
’’یہ ڈیزائن تمہاری ماں کا پاس کیا ہوا ہے بھئی‘‘۔
’’ماں کا؟‘‘ منی نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں انہیں گول فریم اچھا نہیں لگتا تھا۔ ہم نے چورس لے لیا۔ پھر کالے فریم پر اعتراض ہوا انہیں، تو ہم نے براؤن لے لیا‘‘۔
ایک روز کھانے پر بیٹھے تو چونک کر دیکھا مایا کی طرف، ’’آج بگھار تم نے لگایا ہے؟‘‘
مایا کو جی بھر آیا۔ بہو نے پوچھا۔۔۔ ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’ارے بیٹی، تمہاری ساس کے بگھار میں ہمیں ان کے ہاتھوں کی خوشبو آ جاتی ہے‘‘۔
لیکن ان کی خاموشی برقرار رہی۔ جب دبی دبی سنوائی کا بھی اثر نہ ہوا تو منی نے ایک دن صاف صاف معافی مانگ لی ’’مجھ سے غلطی ہو گئی بابو۔ میں اپنی ممی کو منع نہیں کر سکی۔ اور ممی بھی تو مان ہی گئیں!‘‘ وہ دونوں کو ممی کہتی تھی۔ اپنی ماں کو بھی، ساس کو بھی۔
منوج نے مناتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں بابوجی۔ بال ہیں پھر بڑھ جائیں گے‘‘۔
ایک دبی سی مسکراہٹ کے ساتھ بابو جی بولے ’’باتیں بڑی معمولی ہیں بیٹا۔ نہ ہونے سے کوئی دنیا ادھر کی ادھر نہیں ہو جاتی۔ لیکن زندہ رہنے کا رس بنا رہتا ہے۔ بس۔ ہم بوڑھے ہو گئے ہیں، ایک دوسرے سے بیگانے تو نہیں ہو گئے۔۔۔‘‘
اگلے دن ہی بابوجی نے کہا ’’میں کچھ دن کے لیے پنکی کے پاس رہ آتا ہوں۔۔۔ ذرا تبدیلی ہو جائےگی‘‘۔
پنکی جبل پور میں بیاہی ہوئی تھی۔ معمولی سے پس وپیش کے بعد سب مان بھی گئے۔ منوج نے تو مذاق بھی کیا۔ ’’ٹھیک ہے جب تک ماں کے بال بھی کچھ اور لمبے ہو جائیں گے‘‘۔
ماں نے سمجھایا۔۔۔ ’’بیٹی کے ہاں زیادہ دن مت رک جانا۔ ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔ جلدی لوٹنا‘‘۔ دوسرے دن لالہ جی ٹرین سے روانہ ہو گئے۔
دو دن، چار دن، چھ دن، ہفتہ گزر گیا۔ لیکن لالہ جی جبل پور نہیں پہنچے۔ سب کو فکر ہو گئی۔ دوستوں، رشتہ داروں کے ہاں کھوج شروع ہوئی۔ خدا نہ کرے کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو راستے میں۔ کچھ ہوتا بھی تو لالہ جی خبر کرتے۔ کوئی معقول وجہ ان کے غائب ہونے کی سمجھ میں نہ آئی۔ بہت مایوس ہونے کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی اور اخباروں میں تصویر چھاپ دی گئی۔۔۔ مگر سراغ ندارد! پریشانی اس حد کو پہنچی کہ ممکن، نا ممکن ہر طرح کے خیالات ذہن سے گزرنے لگے۔
ڈھائی مہینے گزر گئے اور ایک دن اچانک ایک خط ملا۔ بدری ناتھ کے کسی آشرم سے۔ لالہ ہیم راج بہت بیمار تھے۔ ان کی حالت بہت نازک تھی اور آشرم کے کسی پنڈت نے ان کی ڈائری سے پتہ لے کرخط لکھ دیا تھا۔
سب لوگ فورا بدری ناتھ پہنچ گئے۔۔۔ بس ذرا سی دیر ہو گئی۔ اسی صبح ان کا دیہانت ہو گیا تھا۔
داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ بال بڑھ کر جٹائیں بن گئی تھیں۔ چٹائی پر پڑے ہوئے بالکل سنیاسی لگ رہے تھے۔
مایادیوی نے چوڑیاں توڑ کے پھینک دیں اور ان کے کان کے پاس جا کر پوچھا ’’اب بتاؤ۔۔ بال کٹوا دوں؟ اب تو منڈن کروانا ہوگا۔ ودھوا ہوں نا‘‘۔
اور اس بار لالہ جی سے پوچھ کے، بڑھیا نے سر منڈوا دیا۔