’’کہ افسانہ کوئی جدمد یا سنگ بستہ صنف نہیں ہے ۔ اس میں تجربہ ،تبدیلی اور اضانہ کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت موجودہے‘‘ ۔
( پروفیسرخورشید احمد، جدید اُردو افسانہ ’’ہیٔت و اسلوب میں تجربات کا تجزیہ‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ ۱۹۹۷ء ، ص ۱۱)
’’۱۹۶۰ء کے عشرے کو اُردو افسانے کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسی عشرے کے دوران اُردو افسانے کا نیا رُخ اس وقت متعین ہوا جب جیمز جوائس James Joyee،ورجینیا وولف Virginia woolf،البیرٹ کامیوAlbert Comusاور فرانزکا فکاFranz Kafkaکے زیرِ اُردو افسانے میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس کے خدو خال میں یہ تبدیلیاں جو منٹو کے ’’پھندے ‘‘ کرشن چندر کے ’’غالیچہ‘‘ احمد علی کے ’’قید خانہ‘‘ اختر اور ینوی کے ’’کینچلیاں اور بال جبریل‘‘ عزیز احمد کے’’ تصورشیخ ‘‘حسن عسکری کے ’’حرام جادی‘‘ سہیل عظیم آبادی کے ’’الا ‘‘ اور غلام عباس کے افسانہ’’ آنندی‘‘ میں ذرا دھندلی دھندلی سی تھیں وہ اب بالکل واضح ہوچکی تھیں اور جدید افسانے کا نیا چہرہ دمکنے لگا تھا‘‘۔
( صبا اکرام، جدید افسانہ چند صورتیں ، این پبلی کیشنز ،کراچی ،۲۰۰۱ء ،ص ۱۳)
’’جب سے افسانہ اپنے مخصوص دائرے سے باہر آیاہے اس میں بلا کا تنوع،وسعت اور قوت آگئی ہے۔افسانوی ادب متمول اورآزاد ہو گیا ہے۔ساری پابندیون کو توڑ کر زندگی کی ساری وسعتوں اور پیچیدگیوں کو اپنے آپ میں سمولینا چاہتا ہے۔اب ایسے افسانے بھی ہیں جن میں پلاٹ نہیں ہوتا،جن کی کوئی متناسب اورمکمل شکل نہیں ہوتی،وقت اور مقام کا تسلسل نہیں ہوتا‘
(ممتاز شیرین کے مضمون ـــــــ،ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع" سے)
’’جدید افسانہ نگاروں نے روایتی بیانیہ اسلوب کی بجائے ملامتی و استعاراتی انداز اختیا ر کیا۔عدم تکمیلیت ، ابہام ، اشاریت ، رمز و اعما ، تجریدیت اورشعر یت اس اسلوب کی نمایاں خوبیاں بن کر اُبھریں تحریر کے ٹھوس پن کی بجائے سیال کیفیت زیادہ اہم ہوگئی، اسلوب میں دائرے ، لکیریں ، قوسیں اورنقطے نمودار ہونے لگے ، جملوں کو توڑنا،فقروں کو نا مکمل چھوڑنا اور وقفہ ، سکتہ اور خط کا استعمال عام ہوا اورلفظوں کو ادلنا بدلنا ، شاعرانہ تلازمے بنانا ، تمثیل و پیکر تراشی اور تشبیہات وا ستعارات لانا ضروری پایا ۔
( پروفیسرطارق چھتا ری ، جدید اُردو افسانہ ، ایجوکیشنل بُک ہاؤ س ،علی گڑھ ۱۹۹۲ء، ص ۷۸۔)