کچھ سال ہوئے ہمارے شہروں میں سے ایک شہر میں بظاہر ایک دن نکلا تھا یا محض اسے باور کرانے کے لئے ایک سویرا بھی ہوا تھا مگر کسی نے یہ فرض کرکے کہ وہ کوئی دن نہیں تھا ،وہ کسی دن کا سویرانہیں تھا ۔۔شہر کے مرکزی ایریا میں ٹھیک چوراہے پر ایک بلیک بورڈر کھ دیا تھا ۔اس پر ایک عبارت درج تھی ۔ چاک سے لکھی ہوئی عبارت کے الفاظ بہت نمایاں تھے ۔
یہ ایک کئی سال لمبی رات ہے
اور اس رات کو ایک پاگل کتّے نے کاٹ لیا ہے
یہاں یاد رہے کہ بلیک بورڈ کے پیچھے والی روڈ میئر کی کوٹھی کی طرف جاتی تھی ۔بلکہ اسی طرف اسپتالوں ،اسکولوں ،کالجوں اوریونیورسٹی کا ایریا تھا۔اس کے دائیں طر ف والی روڈ کی تختی سے گورنر ہاؤ س ،سیکٹریٹ،دیگر چھوٹے بڑے سرکاری دفتروں یہاں تک کہ سپریم کلاس ،اپر کلاس اور اپر مڈل کلاس والوں کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی نشاندی ہوتی تھی۔جبکہ بائیں طرف والی روڈ کے سطری منظر سے ملحق مڈل کلاس والوں کی کالونیاں تھیں ۔مگر ان سے بہت پیچھے غریب پسماندہ اجاڑ بستیاں تھیں البتہ بلیک بورڈ کے سامنے والی روڈ کے سطری منظر میں دور دورتک اس میں گُتھی ہوئی گنجان مارکیٹ،سپر مارکیٹ ،اسٹاک ایکسچینج،مختلف قسم کے مال تیار کرنے والی فیکٹریاں ،مال گودام ،بینکوں اور بیمہ کمپنیوں پر مشتمل جم گھٹی تعمیرات تھیں ۔اجتماعی نظر سے دیکھنے کی کوشش میں پورا شہر ٹاؤن پلاننگ سے محروم بلکہ غیر منصفانہ تناسبات کا منحوس ڈھیر دکھائی دیتا تھا ۔آئے دن ٹریفک حادثوں سے گھائل ہونے اور مرنے والوں کے سیریل کے اوپر دھول سے اٹے ہوئے پیڑ تھے ۔ان سے بھی اوپر ان گنت کوئے اڑرہے تھے اور سب سے اوپر یعنی شہر کے انتہائی اوپر آسمان اکثر گدلا دکھائی دیتا تھا۔ایسے میں بڑی سے بڑی اطلاع سے بہتوں کا چونک جانا ممکن نہیں تھالیکن جس دن سانجھ ڈھلے بائیں طرف والی روڈ کے بہت پیچھے کی ایک غریب بستی میں ایک پاگل کتّے نے بہت سے بچوں ،نوجوان لڑکے لڑکیوں ،عورتوں مردوں اور بوڑھوں کو کاٹ لیااو ر کاٹنے کے بعد غائب بھی ہوگیا ،تو شہر کے چاروں طرف لوگ چونک اٹھے ۔کتّے کے کاٹے کے فوری علاج کے لئے متاثروں کو اسپتال لے جایا گیا ۔یہ بھی سننے اور دیکھنے میں آیا کہ انہیں بچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔اسپتال کا عملہ رات کی سیاہی سے لڑتا رہا۔مگر کسی کو مرنے سے بچا یا نہیں جاسکا۔اسپتال کے آس پاس ایک ادھیڑعورت چیختی چلاتی بین کرتی پھرتی تھی ،کیونکہ مرنے والوں میں زیادہ تعداد اس کے متعلقین کی تھی۔کہاجاتا ہے کہ اس کے بین سے متاثر ہوکر کسی ہمدرد نے شہر کے چوراہے پر وہ بلیک بورڈ رکھ دیااور قیاس غالب ہے کہ اس پر اس نے وہ دل دہلادینے والی عبارت لکھی ۔اس پر جس کی نظر جاتی وہ وہیں ٹھٹھک کر کھڑا ہوجاتا ۔دیکھتے دیکھتے ایک بہت بڑی بھیڑ جمع ہوگئی ۔سرکاری اور غیر سرکاری کارندے بھی آپہنچے ۔ہمدرد لوگوں کی اپیل میں سب سے بڑامطالبہ پاگل کتّے کی کھوج تھی۔
کئی والنٹیر ٹائپ بہادروں نے تن من سے ہمت بٹورتے ہوئے پاگل کتّے کی کھوج شروع کی ۔بازار کی گنجان گلیوں ،قصائی گھروں ،پولیس کے تحفظ میں چلائے جانے والے چکلوں اور اسمگلروں کے اڈوں ٹھکانوں میں بھی کھوج لگائی گئی مگر کچھ پتہ نہیں چلا ۔ہاں اسی درمیان پتہ چلا کہ اسپتال میں کتّے کے کاٹے سے بچانے والی ویکسین سرے سے ہی نہیں ۔اس سے بڑھ کر حیران کردینے والا انکشاف یہ تھا کہ پاگل کتّے نے لوگوں کو کاٹنے سے پہلے اسپتال سے ویکسین چرائی،اس کے بعد لوگوں کو کاٹا پھر غائب ہوگیا۔
کھوج میں نکلے بہادروں کی ٹولیاں ایک ایک کرکے مایوس لوٹ آئیں ۔ ایک بورڈ کے سہارے ان کے سوالیہ چہروں کو دیکھ کر بس یہی کہا جاسکتا تھا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔پھر بھی ہرقسم کے تسلط کے جمود کے خلاف ہمیشہ سے پروٹیسٹ کرنے والوں نے نعرے لگائے ۔پاگل کتّا کہاں ہے ،جواب دو جواب دو۔۔۔ایک بپھرے ہوئے نوجوان نے تو اپنے ساتھیوں کے کندھوں پر کھڑے ہوکر پُرزور لفظوں میں کتّے کو اس کے محافظوں سمیت گولی مارنے کا چیلنج دیا ۔ نوبت ایسی تفصیل سے گزرنے کو آگئی کہ بہ تدریج لاٹھی چارج ،آنسو گیس ،فائرنگ اور کرفیو کے اندیشے نے آلیا ۔ تبھی نہ جانے کس طرف سے بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس کہانی کا مصنف آنکلا اور بورڈ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوگیا کہ اس کا چہرہ بھیڑ کے درمیان نمایاں دکھائی دے رہا تھا ۔البتہ تیور سے اچانک پیدا کی گئی خود اعتمادی اور دہشت کا ملاجلا تاثر ظاہر تھا۔
’’لوگو! میں نہیں جانتا کہ وہ پاگل کتا کہاں ہے ؟پر وہ کہیں غائب نہیں ہوا ،وہ یہیں کہیں موجود ہے لیکن اگرمیں اس کی نشان دہی کردوں تو سنسر لگ جائے گا۔