ریڈ کلر کے ڈریس میں ہلکی پھلکی جیولری پہنے وہ بہت دل کش لگ رہی تھی بیڈ پے بیٹھے ہوئے اس نے خود کو شیشے میں دیکھا پھر لیٹ گئی وہ سوچے بنا نہ رہ سکی میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہوں کاش زوار تمہیں مجھ سے محبت ہوتی کاش میں نے اس دن اتنی ضد نہ کی ہوتی کہ تمہیں اپنی محبت کا مجھے ہم راز بنانا پڑتا اسے کمرے میں تنہائی میں بیٹھے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا ۔. زوار کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا اسے مزید سجی سنوری حالت میں انتظار کرنا مناسب نہ لگا تو وہ چینج کر کے سو گئی ۔۔۔
زوار جب کمرے میں ایا تو وہ جو بہت سے بہانے سوچ کر ایا تھا ۔ اسے سوتا دیکھ وہ پرسکون ہو گیا
انسان کو جس سے محبت ہو اسی سے اپنے جذبات اور خواہشات کی تسکین چاہتا کائنات اب اسکی بیوی بن چکی تھی نام کاتو وہ اسکا ہو گیا تھا کیا وہ اپنا اپ اسکو سوپ پائے گا .. دل نے چیخ چیخ کر کہا کہ نہیں نییں کبھی نہیں یہ سب سوچتے ہی وہ صوفے پر لیٹے لیٹے نیند کی وادی میں اتر گیا ۔۔۔..۔
صبح زوار نے کافی جلدی کمرہ چھوڑ دیا
وہ اپنے بالوں کو برش کر رہی تھی جب ثانیا اندر ائی ۔ اسے دیکھتے۔۔۔۔ میں اجاوں اندر بیٹا ۔۔۔
جی خالہ جان وہ شرمندہ ہوئی تھوڑئ ان کے اجازت مانگنے پر ۔۔
کائنات کو دیکھتے ۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا بیٹا زوار کو بیڈ پے نہ دیکھتے زوار کہاں ہے ۔ کائنات کے چہرے سے بےدلی واضح تھی ۔
پتہ نہیں خالہ جان ۔ وہ ہنس مکھ کائنات ایک رات میں بدل گئی تھی اب جو اس کے جی میں اتا بول دیتی تھی اب نہ بولتی ۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہیں ناشتے پے بولانے ائی تھی ۔ نیچے او گئی یا یہاں بیجھوا دوں ۔
نہیں خالہ میں اپکے ساتھ ہی ناشتہ کروںگئی ۔ ساتھ ہی پھیکی سے سمائل دی
ثانیا کو دکھ ہوا کائنات کے لیے اور ۔۔۔زوار کے اس رویہ پر غصہ ۔۔۔ ٹھیک ہے تم اجاو ۔۔۔۔ تیار پو کے .....
.
سوری کائنات رات کے کیےمیں بہت لیٹ ایا تھا ۔
کائنات زوار کی بات پر چوکی ۔ اسنے اسے دیکھا تو وہ ٹرایک سوٹ پہنے ہوا تھا وہ سمجھ گئی کہ وہ واک کر کے ایا ہے
اٹس اوکے زوار ۔ اس شادی سےیہ مت سمجھانا کہ دوستی ختم ہو گئی ۔
اسنے کائنات کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کتنا بڑا دلہے تمہارا کائنات ۔۔۔ سوری پر تم جانتی ہو کہ یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی ۔ پر۔نیں پوری کوشش کروں گا کہ تمہیں خوش رکھ سکوں۔ تم میری زمہداری ہو ۔
اس نے کھل کر ہنستے زمہ داری ۔۔۔۔
رات کو غائب تھے تم اور خود کو زمہدار کہتے ہو ۔ اس نے دل میںسٹوچا ۔ پر زوار کو کچھ نہ کہا وہ بس طنزیہ مسکرا دی
زوار اسے دیکھتے مجھے تھوڑا سا وقت چاہیے ۔ کائنات ۔۔ کہتا وہ واش روم میں چلا گیا
کائنات اسےجاتا دیکھ میں اس وقت کا انتظار کروں گئی زوار ۔۔۔۔۔
ہیر بریش کی طرف ہاتھ بڑھاتے اسکی نظر شیشے میں نظر انے والے دوسرے عکس پر پڑی
بیڈ کے سائیڈ پر کھڑی کائنات اپنے کان میں ایرنگ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اسکے چہرے پرتکلیف ظاہر تھی
اگر نہیں پہنا جا رہا تو چھوڑ دو ۔ وہ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد بولا
کائنات نے اسے دیکھا اور پھر اس ایرنگ کو ۔ اس کے کان سے کچھ بوندیں بھی نکلی خون کی اسنے کوئی پرواہ نہ کی اور دوسرا بھی نکال دیا ائیرنگ
پر زوار اسے شیشے سے دیکھتا رہا ۔ فیصلہ کرنے کہ باوجود کائنات کی کھلی زلفوں سے اس کا دھیان بھٹکا دیا ۔ وہ ابھی اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کا فون بجا ۔۔۔ فون اٹھائے نمبر دیکھتے اس کے چہرے پر خوشی کی لہہر دوڈ گئی ۔ کائنات نے اس کے چہرے کو دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ کس کی کال ہو سکتی
میں نیچے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں ۔ جلدی اجانا کہتے وہ کمرے سے باہر چلی گئی ۔
زوار نے سر کے اشارے سے ہاں کہا اور کال اٹینڈ کر کے وہ صوفے پر بیٹھ گیا
اسلام وعلیکم ۔
زوار ۔نے مسکراتے وعلیکم اسلام
سلام کا جواب سن کر خاموشی چھا گئی ۔ کنزہ۔کچھ نہ بولی تو زوارر نے ۔پوچھ لیا کیسی ہو ؟؟
ٹھیک ہوں۔ وہ شادی جی مبارک باد کے لیے کال کی تھی ۔
اچھا بسبارکباد دینی تھی یا کچھاور بھی کہنا تھا ۔
ک۔شہ پھر خاموش ہو گئی
بولو جان زوار
نہیںبس مبارکباد ہی دینی تھی کنزہ کا دل اداس ہو گیا یہ کہتے ۔
کنزہ کیا ہوا پریشان ہو تم کچھ ہوا ہے یا کچھ کہنا ہے ۔ یا کچھ چھپا رہی ہو زوار نے سنجیدہ ہوتے پوچھا
نہیں کچھ نہیں الللہ حا فظ کہتے کال بند کردی تا کہ زوار اسکی دل۔کی کیفیت نہ جان لے ۔۔۔
کائنات میں دیکھ رہی ہوں تم کھوئی کھوئی سی ہو کھانا ھی صحیح نہیں کھا رہی
ا۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ نہیں ماما میں ٹھیک ہوں ۔
ر یو شیور کائنات
یس افکورس ماما ۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں اپ میری فکر نہ کریں
زوار تم بھی لو نہ اس کی خالی پلیٹ دیکھتے رانیا نے اسکی طرف بریانی کی ڈش کی
نہیںنہیں خالہ پہلے ہی بہت کھا لیا ہے اج میں نے پیٹ بھر گیا ہے میرا ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتے ...
وقار نے اسے مسکراتے ۔دیکھا تو او زوار ہم ٹی وی دیکھتے ہیں رانیا اپ چائے بنا دیں ۔
ٹھیک ہے میں اور کائنات جاتے ہیں ۔۔۔
کچن۔میں کھڑے وہ ماں کو چائے بناتے دیکھ رہی تھی تو ماما اپ اور بابا میرے بنا اکیلے ہوگئے ہیں نہ
مجھے ں
بہت مس کرتے ہو گئے نا
۔ اپنی بیٹی کو پیار سے دیکھتے مس تو بہت کرتے پر یہ قدرت کا قانون ہے ایک دن بیٹی کو جانا پڑتا اور بیٹی اپنی گھر میں خوش ہو تو ماں باپ بہت پر سکون پو جاتے ہیں
تم خوش ہونہ کائنات ۔۔۔
وہ ماں کو دیکھتے مسکرا دی ۔۔۔۔
ماما میں اج یہاں روک جاوں اپ اور بابا کے پاس ۔
رانیا نے بیٹی کو دیکھا نہیں بیٹا ابھی تمہاری نئی نئی شادی ہے ۔ تم زوار کو ٹائم دو ۔۔۔
پلیز ماما میں وہاں اپ کے بنا بہت اداس تھی پلیز اج رہنے دیں
ٹھیک ہے زوار سے تو پوچھ لو ۔۔۔۔
اس۔نے ہاں میں سر ہلایا ۔ لیکناس کا دل جانتا تھا کہ زواع کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔
وہ جاتے ہوئے وقار کے گلے ملا کر موغا تو کائنات نے زواریں اج یہاں روک رہی ہوں۔ کل افس واپسی پر۔مجھے لے جانا ۔۔۔ زوار نے اسے دیکھا تو ٹھیک ہے ۔ تم روک جاو ۔۔ الللہ حافظ خالہ بولتے ہی وہ باہر نکل گیا ۔ وقار اور رانیا بھی اندر چلے گئے وہ وہی کھڑی اس گیٹ کو دیکھتی رہی جہاں سےزوار گز کر گیا تھا ۔
__________
.ایک سال بعد
یہ سب مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے زوار ہماری شادی نہیں ہو سکتی میں اپنی خوشی کے لیے کسی اور کی خوشیوں کو اگ نہیں لگا سکتی نیں جانتی ہوں کائنات
بہت اچھی ہے لیکن میں اس کا حق کیسے چھین لوں ۔
تم کوئی اس کا حق نہیں چھین رہی اس نے خود مجھے اجازت دی ہے دوسری شادی کی اور اسلام میں تو چار شادی ہے میں تو پھر دوسری کر رہا پوں ۔ اور میں جانتا ہوں میں تم دونوں کو خوش رکھ سکتا ہوں اسلیے میں تمہارے پاس ایا ہوں تمہارا جواب سنے زوار اج ٹھان کے ایا تھا کہ وہ کنزہ کو منا کر رہے گا ۔ جب سے کنزہ نے اسے اپنے دلی کیفیت بتائی تھی تب سے اس کے لیے مشکل ہو گیا تھا خود کو سمجھانا ۔
بولو ہنزہ تمہارا کیا جواب پے ۔
کنزہ نے اس کی طرف دیکھا تو کیا بولو ۔ پھر سوچتے تم انصاف کر پاو گئے
زوار نے اس کا پاتھ پکرتے ہاں کیوں نہیں میں اپنی پوری کوشش کرو گا اور یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے
کنشہ نے اسے ٹوکتے زوار تم جذباتی ہو رہے ہو ۔ یہ فیصلہ اتنی جلدی مت کرو
میں کوئی جلدی میں فیصلہ نہیں کر رہا ۔ بیت سوچ کے بدعد ہی میں نے کائنات سے بات کی ہے اور اب تم سے کر رہا ہوں وہ شادی میں نے امی کے کہنے پر کی تھی ان کی خوشی کے لیے اور شادی میں اپنی محبت اپنی خوشی کے لیے کر رہا ہوں ۔۔۔۔ پلیز جان زوار مجھے پے بھروسہ کر کے دیکھو میرے دل کی دنیا میری روح کا سکون صرف تم ہو ۔
زوار کی انکھوں میں اتنی محبت دیکھ کر وہ مسکرائی اس کو مسکراتا دیکھ زوار نے اسے تو پھر میں ہاں سمجھوں ۔۔۔۔
اس نے اپنا سر جھکا دیا ۔ ۔۔۔
تھینکس سولٹ ۔۔۔۔وہ خوشی خوشی چلا گیا ۔اب ان کی زندگی۔میں بہار کا موسم ا چکا تھا
سرمد بھی اتنے سالوں بعد پاکستان اپنی فیملی کے پاس لوٹ ایا تھا اپنی بیٹی کی شادی پے اسے رخصت کرنے اس کی نئی زندگی میں اس کی خوشیوں میں شریک۔ہونے ۔۔ ۔
اتنی خوشیاں پا کر اج اسے یقین ہو گیا تھا کہ زوار اس کا نصیب ہے اور محبت پر اسکا بھی حق ہے اس کے نصیب میں بھی محبت لکھی گئی ہے ۔۔۔ اسے اس کے نصیب کا لکھا مل گیا تھا ۔۔
The end