سرمد اٹھ جائیں ہمیں اج ہوسپٹل رپورٹس لینے جانا پے میں کچن میں جا رہی ہوں ناشتہ بنانے ۔ تب تک اپ فریش ہوجائیں شازیہ بیگم ان کو یاد دلا کر کچن میں چلی گئی
اج میری بہت ضروری میٹنگ بھی ہے اپنی ٹائی ٹھیک کرتے سرمد نے کہا
وہ جو ناشتہ کے برتن رکھ رپی تھی اپ گاڑی سارٹ کریں میں تیار ہوں بس ایک منٹ میں اتی ہوں ۔۔۔ وہ سڑھیاں چڑنے لگی ایک دم روک کر سرمد بہت عجیب لگ رہا ہے بہت گھبراہٹ ہو رپی ہے مجھے ۔ سرمد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے خدا بہتر کرے گا تم زیادہ مت سوچو ۔.
گاڑی چلاتے ہوئے پھر سے اسے اتنا پریشان دیکھا تو امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو ۔ خدا ہمارے حق میں بہتر فیصلہ کرے گا ۔۔۔
گاڑی ہوسپٹل کے سامنے اکر روکی وہ لوگ اندر اکر سیدھا ڈاکٹر ماریہ کے پاس چلے گئے اسلام علیکم ڈاکٹر ماریہ
ڈاکٹر نے شگفتگی سے جواب دیا وعلیکم اسلام مسز سرمد بیٹھیں
. بیٹھتے ہی ڈاکٹر ماریہ رپورٹس میں کیا ہے ؟ دھڑکتے دل کے ساتھ شازیہ نے پوچھا
سوری مسز سرمد اپکی رپورٹس نیگیٹو ائی ہیں اپ ماں نہیں بن سکتی
سرمد کا دل بوجھل ہو گیا پر ان کو خود کو مضبوط کرنا تھا تاکہ وہ شازیہ کو سنبھال سکیں
انکو اتنا افسردہ دیکھ ڈاکٹر نے فورا لیکن ایک گڈ نیوز بھی ہے مسز سرمد خدا جب ایک در بند کرتا ہے تو دوسرا ضرور کھولتا ہے ۔ خدا بہت رحیم ہے
ایک ماہ پہلے ایک ایکسیڈنٹ کیس میں میاں بیوی ائے تھے وہ کافی زخمی تھے انکو تو ہم نہیں بچا سکے لیکں ماں کے پیٹ میں جو بچہ تھا اسے ہم نے بچا لیا تھا ہم نے پولیس میں رپورٹ کی پر ابھی تک کوئی نہیں ایا اگر اپ چاہیے تو میں ہوسپٹل اتھارٹی سے بات کر کے اپ لوگوں کو وہ بچہ دے سکتی ہوں ۔ ۔۔ .
شازیہ نے امید بھری نظر سے سرمد کو دیکھا پر سرمد ۔ے نہیں شازیہ ہم ایسا نہیں کرسکتے پتہ نہیں کس کا بچہ ہے جائز ہے بھی کے نہیں ۔۔۔
ایسا مت کہیے سرمد ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اخری اپشن بھی ختم ہو جائے ۔ ڈاکٹر کو دیکھتے ہم چلتے ہیں ڈاکٹر اپ کو اس بارے میں ہم سوچ کے بتاتے ہیں ۔۔۔
وہ ہوسپٹل سے باہر نکلی تو دل بہت بوجھل تھا لیکن پھر ارام سے جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
اسے بہت دکھ ہوا اپنے ماں نہ بننے کا ایک ویک اسے بخار رہا وہ چھپ چھپ کر روتی رہتی سرمد سے شازیہ کی یہ حالت برداشت نہ ہوئی پر اگر وہ شازیہ کی بات مان لیتا تو خاندان والے انکو طعنے دے دے کر ہی انکا جینا حرام کر دیتے ۔ پر شازیہ کی حالت دن بدن بگڑتی گئی ۔ سرمد کو شازیہ کی بات مانی پڑی وہ ہوسپٹل جا کر ساری فرمیلٹی پوری کر کے اس بچی کو گھر لے ائے ۔
شازیہ نے گود میں اس بچی کو لیے اپ نے ہر مشکل۔میں میرا ساتھ دیا ہے میں بہت خوشنصیب ہوں سرمد ۔مجھے اپ ملے
اب یہ سب چھوڑو بس جلدی سے ٹھیک ہو جاو ۔ میں نے یہ سب تمہارے لیے کیا پے
شکریہ سرمد اللہ ہماری بیٹی کو بھی اپ جیسا شوہر دے دونوں نے مل کر امین کہا
تم نے اس ننھی پری کا کوئی نام سوچا ہے ۔۔۔
بچی کو دیکھتے جی کنزہ نام سوچا ہے میں نے ۔۔۔
بیت ہی پیارا۔نام ہے
ارے یہ چاند سا بچہ کس کا ہے ۔ سرمد کی ماں کہتی اندر ائی سرمد نے کنزہ کو اٹھاکر ماں جی گد میں ڈالا ۔
شازیہ نے سلام کہا اور کچن میں چلی گئی ۔ ساس کے لیے چائےبنانے ۔۔
سرمد نے بچی کو پیار سے دیکھتے یہ ہماری بیٹی ہے امی کنزہ ۔۔۔ ماں نے سرمد کو حیرت سے دیکھا تو
ہم نے اسے اڈوپ کیا ہے امی ۔ اس کے ماں باپ ایکسڈنٹ میں نہیں رہے ۔ یہ کہنا تھا کہ انہوں نے کنزہ کو سرمد کی طرف اچھلا جیسے کوئی اچھوت ہو ۔
واپس کر کے او اسے تم جانتے بھی ہو کیا کیا ہےتم نے پتہ۔نہیں کس کی بچی ہے جائز ہے یا نا جائز تم۔کیا جانو خاندان والے کیا کہیے گئے ۔ بچہ شازیہ کا نہیں ہو سکتا تمہارا تھوڑی تم ابھی واپس کر۔کے او میں نےرضیہ سے بات کی ہے میں جلد ہی تمہاری دوسری شادی کردوں گئی تمہیں یہ بچہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
سرمد کی ماں بس بولے جا رہی تھی اور وہ شوکڈ طریقے سے سنتا رہا ۔
جب ہوش ائی تو یہ۔کیا کہہ رہی ہیں اپ میں دوسری شادی نہیں کروں گا می شازیہ کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا
ادھر شازیہ سرمد کی دوسری شادی پر بےہوش ہوتے
بچی وہ رودینے کو تھی ۔ اولاد کا ہو نا نہ ہوناتو خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے اس نعمت سے نواز دےاور جسے چاہے نہ دے اس نے کبھی نہیں سوچا تھاکہ اس کو ا یسے حالت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا
سرمد تو لاینج سے باہر نکل۔گیا وہ۔مزید بات کو بڑھنا نہیں چاہتا تھا ایک طرف اس کی محبوب بیوی اور دوسری طرف اسکی جان سے پیاری ماں ۔۔۔ پر وہ سوچ چکا تھا اسے کیا کرنا ہے ۔۔
Ay zindgi kis mor pe tune la khra kiya
,, muhabat ko bachao ya jannt ko
,, tu he bta ay zindgi
کافی دونوں کی محنت کے بعد سرمد نے اپنا سارابزنس فرانس شفٹ کر دیا ۔ وہ یہاں رپتا تو ماں اسکی شادی کروا دیتی یہ وہ جانتا تھا اسلیے اپنوں کے لیے وہ اپنوں سے ہی دور چلا گیا ۔ وقت پر لگاتے اڑ گیا ۔ سرمد کو بیس سال ہوگئےتھے فرانس گئے ۔
شازیہ کو ساس اور سسرال والوں نے بہت طعنے دیےکہ اس نے ماں کو بیٹے سے دور کر دیا اور کنزہ اسے تو کوئی دیکھنا گوارا کرتا سب اسے حقیقت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔۔۔ صرف ماں کی محبت تھی اس کے پاس ۔ شازیہ خود دن بھر گھر کے کام اور کنزہ کے ساتھ مصروف رہتی پر رات وہ سرمد کی یادمیں ہی
گزاردیتی ۔
کنزہ بچپن سی ہی جان گئی تھی کہ وہ شازیہ اور سرمد کی اپنی اولاد نہیں ۔ اور لوگوں کا رویہ ہی اہسا ہوتا تھا اسکے ساتھ۔۔۔۔
ایک دن وہ رو رپی تھی تو شازیہ نے اس سے پوچھا
۔۔ کیا ہوا میری جان اپ رو کیوں رہی ہو ۔
کنزہ نے فورا آنسوؤں صاف کیے ماں کی پریشانی اور مشکلات سے واقف تھی مزید انکو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ پر جب ماں نے بہت پوچھا تو اسے ماں کودیکھتے ۔ بابا ہم سے پیار نہیں کرتے نا تبھی وہ ہم سے کبھی۔ملنے نہیں ائے
نہیں بیٹا وہ ہم۔سے بہت پیار کرتے ہیں دیکھنا ایک دن وہ ضرور ائیں گئے ۔ اس نے کنزہ کو دلاسہ دیا
نہیں وہ کبھی نہیں ائیں گئے وہ ہم سے پیار ہی نہیں کرتے
۔۔۔۔۔۔ اس نےروتے ۔۔۔۔۔اپ اور بابا میں جدائی کی وجہ۔میں ہوں کاش میں بھی اس دن مر جاتی اپکی زندگی میں ہی نہ اتی
شازیہ بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا کوئی الفاظ نہ تھے انکے پاس اس کےدلاسے کے لیے ۔ جیسی زندگی وہ کنزہ کودینا چاہتی تھی وہ نہیں دے پائی تھی نہ ہی اپنے خاندان میں وہ عزت جس کی وہ حق دار تھی ۔ وہ خود اپنی جگہ شرمندہ تھی
.................
دن بہت تیزی سے گزرے شادی کے ہنگاموں میں ۔ شادی شروع ہو چکی تھی مگر اس کے باوجود گھر میں ایک اداسی تھی زوار تو ان دنوں ویسے ہی الجھ گیا تھا کنزہ کی باتوں کی وجہ سے اس نے سوچا ہی نہیں تھا اس کی زندگی کے اتنے اہم موقع پر اس کی بے دلی کا یہ عالم ہو گا ۔۔۔ مہندی کا جوائن فنکشن تھا پر زوار تھوڑی دیر ایا اور حاضری لگوا کر گھر سے ہی چلا گیا ۔ صبح چار بجے جب وہ گھر ایا تو ماں اسے دیکھ کر اواز دی ۔ زوار ۔۔۔
کہاں چلے گئے تھے تم کچھ تو خیال۔کرو مہندی تھی تمہاری اور تم پوری رات غاہب تھے میرا نہیں مہمانوں کا خیال کر لیتے سب تمہارا پوچھ رھے تھے
وہ تھوڑا شرمندہ ہوا
ثانیا نے بیٹے کو دیکھا تو مجھے پتہ ہے تمہارے دل۔کی کیا کیفیت ہے پر کائنات بہت اچھی لڑکی ہے شادی کے بعد تم سب بھول جاو گئے مجھ پر بھروسہ رکھو زوار
لیکن امی میں اسے خوش نہیں رکھ پاوں گا اس کی۔میرے دل میں وہ جگہ۔نہیں ہے جو میں کنزہ کو دے چکا ہوں یہ شادی روک دیں امی کوئی خوش نہیں
رہے گا
بس کرو زوار کوئی سن لے گا کل تمہاری برات ہےا
اور تم ۔ تمہیں کنزہ کو بھولنا ہوگا کونسی ماں ہو گئی جو اپنے بچی کی خوشی نہیں چاہتی ہو گئی ۔ تم جس لڑکی کا کہہ رہے ہو اس کا بیک گراؤنڈ ہی نہیں پتہ کسی کو ۔کس کی اولاد ہے کوئی نہیں جانتا جائز ہے یا وہ روکی پھر اسے دیکھتے اسلیے پورا خاندان شازیہ اپا سے نہیں بولتا سب نے شازیہ سے تعلق اسلیےتوڑ دیے ہیں
اور میں تمہاری شادی وہاں کردوں تاکہ کوئی مجھے بھی نہ پوچھے تاکہ خاندان والوں کو موقع مل جائے باتیں بنانے کا ۔۔۔۔
زوار کو لگا اس کےاس پاس دھماکے ہو رہے ۔ اب وہ سمجھ سکتا تھا کنزہ کی الجھی الجھی باتوں کو ۔ وہ کیوں اسے کہتی تھی کہ جو وہ اسے سمجھتا ہے ۔۔۔وہ۔نہیں ہےوہ ۔۔۔۔۔