اگلی دن ایلاف جب بھی نظر آئی تو اسکا منہ پھولا ہوا تھا۔ اوّل تو ازمیر کی طرف دیکھ ہی نہیں رہی تھی اور اگر نظر پڑ جاتی تو منہ پھیر لیتی ۔غصہ تو اب ازمیر کا کم ہو گیا تھا ۔کچھ ماما نے بتایا کے وہ انکے اصرار پہ گئی تھی۔ کچھ غصہ اسکی غصے سے بھرپور صورت دیکھ کے اتر گیا تھا۔
"منہ کس خوشی میں پھولا ہوا ہے۔"جب وہ کچن میں کسی کام سے گئی تو ازمیر بھی پیچھے ہو لیا ۔اب سر پہ کھڑا پوچھ رہا تھا ۔
"اپکو اس سے کیا مطلب ۔"غصہ ابھی جوں کا توں تھا ۔ٹکا سا جواب دے کے پھر کام میں لگ گئی۔
"اب میرے سارے مطلب تم سے ہی تو ہیں ۔ موڈ ٹھیک کرو۔"ازمیر نے اسکی کلائی پکڑ کے اسکا رخ اپنی طرف کیا ۔
"منہ میرا ۔موڈ میرا میں جو مرضی کروں آپکو اس سےکیا ۔"ایلاف نے جواب دینے کے ساتھ کلائی چھوڑانے کی کوشش کی مگر گرفت مضبوط تھی۔
"تم میری ۔تو تمہارامنہ بھی میرا اور موڈ بھی ۔اور باقی سارے حق بھی میرے ۔"وہ شرارت سے بھرپور انداز میں بآوار کروا رہا تھا ۔
"آپ۔۔"وہ غصہ سے بولی ۔
"میں بھی تمہارا۔"اسکی بات پوری ہونے سے قبل وہ اسکی طرف جھک کے بولا۔تو ایلاف نے اسے ایک عدد گھوری سے نوازا ۔
"اچھا او۔کے بابا مانتا ہو کچھ زیادہ ہو گیا ۔بٹ میں تمہیں کسی ایسی جگہ نہیں بھیج سکتا جہاں مجھے لگتا ہو کہ تمہارا جانا مناسب نہیں ۔اور پھر مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ تم جا رہی ہو تو غصہ آگیا ۔" ازمیر نے اسکا گول گپے کی طرح سوجا منہ دیکھ کے بولا ۔
"سوری نہیں بولے گے کبھی بھی سڑو،کھڑوس۔"ایلاف منہ میں بڑبڑائی ۔
"آپکو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپکو ہزار کام ہیں جائیں اپ ۔میرا موڈ اتنا بھی ضروری نہیں ۔"ایلاف بولی
"ہاں یہ بھی۔آئی تھنک مجھے چلنا چاہیے ۔"وہ شرارت سے بولا ورنہ سب سے اہم کام تو سامنے ہی تھا ۔
اسکے جواب پہ ایلاف نے سر اٹھا کر اسے دیکھا واپس مڑی اور غصے سے شیلف پہ کپ رکھنے لگی ۔
وہ بلکل پیچھے آ کے کھڑا ہو گئے دونوں کے کندھے مس ہو رہے تھے وہ غصہ سے پیچھے مڑی جو اپنی تھوڑی اسکے کندھے پہ رکھنے لگا تھا اسکے اچانک مڑنے پہ اسکا لب ایلاف کی سر کو مس کر گئے ۔
"اب کیا ۔۔۔"باقی الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے اور آنکھیں پوری کھل گئی اور لبوں پہ ہاتھ رکھ لیا شرمندہ ہو کے۔
اسکی حالت دیکھ کے ازمیر کا قہقہ بلند ہوا ۔
"کچھ نہیں ۔بائے۔"شرارت سے اسکے کان میں گھس کے بولا اور نکل گیا ۔اور وہ وہی حیران کھڑی رہ گئ ڈھڑکتے دل کے ساتھ ۔
•••••※※※※※※••••••※※※※※※••••※※※※•••••
"ماما میں آجاؤں۔"ایلاف نے اندر جھانک کے پوچھا۔
"ہاں بیٹا ۔تم پوچھ کیوں رہی آؤ ادھر میرے پاس۔"ثمینہ بیگم نے پیار سے اسےبیڈپہ بیٹھالیا۔
"کیاکررہی ہیں۔مامااحدیہ کے بعد کتنی اکیلی ہو جائے گی آپ ۔مجھے تو بہت یاد آئے گی۔"وہ ثمینہ بیگم کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گئی۔
"بات تو سچ ہے۔لیکن بیٹیوں نے ایک نہ ایک دن اپنے گھروں کو جانا ہی ہوتا ہے۔"وہ بھی نم لہجے میں بولیں تھیں۔
"میں تو بہت اداس ہوجاؤں گی۔"ایلاف کو اپنی دوست کے دور جانے کا دکھ تھا۔
"یہ تو ہےبیٹا ۔لیکن تم ہو نہ اس گھرکی رونق۔میرے ازمیر کی دلہن ۔اللّٰہ نے تمہاری صورت میں بہو اور بیٹی دے دی ہے مجھے۔"وہ اسکا چہرا ہاتھوں میں بھر کے پیار سے بولیں۔
"ماما ایک بات پوچھوں۔"جو بات ایلاف کو سکون نہ لینے دے رہی تھی آخر ہمت کرہی لی پوچھنے کی۔
"پوچھو۔"وہ بولیں۔
"ماماہرایک کا ارمان ہوتاہےکہ وہ اپنےبچوں کی شادی اپنی پسند سے کریں ۔ماما پلیز مجھے سچ بتائیں ۔مجھے اچھا لگے گا اگر آپ مجھ سے کچھ شئیر کریں گی ۔"وہ ہمت کر کے بولی۔
"دیکھوں بیٹا مجھےتمہارے انکل کے فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں۔بلکہ یہ تو خوش قسمتی ہے ہماری تم جیسی بیٹی۔اور جہاں تک سوچ کی بات ہے تو میں نےعلیزےکوسوچاتھا۔"وہ بتا رہی تھی اپنے شک کے تصدیق پہ ایلاف کےاندر کچھ ٹوٹا تھا۔
"مجھے بھی یہی لگتا ہے مامامیرااورازمیرکاکوئی جوڑنہیں ماما۔وہ کہاں اور میں کہاں۔"وہ آنسوں کو روکنے کے لیے کچھ دیر خاموش ہوئی ۔
"انہوں نے یہ سب کچھ انکل کے دباؤ میں آکے کر تو لیا ہے مگر ماما ایسے رشتے تو نہیں بنتے۔"وہ شاید اپنی ہمت آزما رہی تھی یا باہر کھڑے ازمیرکا امتحان لے رہی تھی ۔ازمیر جوماماسےکچھ بات کرنے آیا تھا زوجہ صاحبہ کی آواز سن کے باہر ہی کھڑا رہ گیا تھا ۔
اور اب مزید سننے کی ہمت ناہو رہی تھی۔اسنے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھی ۔
"آپ انکی شادی کروا دئیے ماما۔میں کچھ نہیں کہوں گی ۔بھلا میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔آپ علیزےسےکروادئیےانکی شادی۔میں انکے قابل نہیں ۔"آنسوگال پہ گر رہے تھے۔
"از حد خوشی ہوئی ہے مجھے آپکے خیالات جان کے۔چلیں اچھا ہوا آپ خود راستے سے ہٹ گئی ہیں۔"ازمیر دروازا کھول کے اندر داخل ہوا اور اب وہ چنگھاڑ رہا تھا۔ایلاف بیڈ سے ایک سکینڈ میں اٹھی۔
"صحیح کہاتم نے تم اس قابل نہیں۔نہیں قابل تم میرے والدین کے خلوص کے ۔میرے بابا کے پیار کے۔انتہائی گھٹیا سوچ ہے تمہاری ۔جو لوگ بنا کسی غرض کے اتنا پیارکر رہے تم انکے خلوص کا یہ صلہ دے رہی ہو۔"ازمیر کا بس نہیں تھا چل رہا کہ وہ سب کچھ ختم کر دے ۔وہ تو اسکا ساتھ پا کے خود کو عرش پہ محسوس کررہا تھا اور وہ اس رشتے کو ختم کرنے کی بات کر رہی تھی ۔یہ وہ کیسےبرداشت کرتا۔
"اور رہا دوسری شادی کا سوال تو اسکے لئے مجھے آپکی اجازت کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ۔"ازمیر سرخ آنکھوں سے اسکو گھور رہا تھا ۔ایلاف تو اب کانپ رہی
تھی۔وہ تو صرف بات کر رہی تھی۔
" چھوڑوں تم تو شروع ہو گئے۔بچی صرف بات کر رہی تھی۔"ثمینہ بیگم نےایلاف کو خود سے لگاتےہوئے ازمیر کو ڈپٹا۔
"ہونہہ بچی آپکی بچی کے ہی ارمان پورے کروں گا اب۔"
"نہیں ماما اسے بہت شوق ہےناں ۔تمہیں وہ بھی پورا کر دیتا ہوں۔ماما آپ آج ہی ماموں سے بات کریں۔اسی ہفتے شادی کروں گا میں علیزے سے ۔"ازمیر کی بات نے ایلاف کے ہوش اڑدئیے تھے۔وہ جیسے آیا تھا ویسے نکل گیا تھا ۔اور ایلاف کو لگا کے اسکا سانس بند ہو جائے گا۔
وہ پھٹی نظروں سے ثمینہ بیگم کو دیکھ رہی تھی۔
"ماما میں تو صرف ایک بات کی تھی۔مگر وہ دیکھیں کتنا غصہ ہو گئے۔"وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
"ماما میں ۔۔میرا ہرگز وہ مطلب نہ تھا۔میں کہا تھا نہ کہ وہ مجھے نہیں پسند کرتے۔"اصل دکھ ہی اس بات کا تھا ۔
"نہیں بیٹا ۔تم الٹا مت سوچوں۔کچھ بھی نہیں ہو گا ۔میں ہوں ناں۔"وہ اسکے آنسو صاف کر رہے تھیں۔
"اور تم تو اپنےشوہرکی دوسری شادی کروا رہی تھی۔اسکی باتیں سن کے تمہارا یہ حال ہےپاگل۔"وہ اصل بات سمجھ کے ہنس کے بولیں ۔
"ماما وہ بہت ناراض ہو گئیں ہیں ۔"ایلاف کا دھیان ابھی بھی اسکے غصے میں اٹکا تھا۔
"کچھ نہیں ہوتا ۔تم فکر نہ کرو۔"انہوں نے اسے تسلی دی۔
آج دوسرا دن تھا ۔نہ ڈھنگ سے کھاتا تھا نہ پیتا ۔گھر صرف سونے ہی آتا تھا ۔ایلاف خود اسکے سامنے آنے سے اجتناب کر رہے تھی۔
"کدھر ہوتے ہو آج کل بیٹا ۔میں کل سے تم سے بات کرنا چاہ رہی ہوں ۔"ثمینہ بیگم نے اسکے کمرے میں داخل ہو کے پوچھا۔
"بس کچھ بزی تھا۔کوئی کام تھا مجھے بلا لیتیں۔"ماں کواندر آتے دیکھ کے پوچھا۔
"ادھر آؤ ذرا میرے پاس۔"انہوں نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے ازمیر کو پاس بلایا جو فائلیں کھولے بیٹھا تھا ۔
انکے پاس آیا اور انکی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا۔
"کل میرے بیٹے کو اتنا غصہ کیوں آیا تھا۔اور ابھی تک بھی وہ ہی موڈ ہے ۔کیوں بیٹے۔"وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھیں۔
"ماما بات ہی ایسی تھی ۔آپ خود سوچیں ۔میری بیوی ہے وہ ۔تھوڑا بھی ٹرسٹ نہیں مجھ پہ ۔بلکل بھی عقل نہیں اس میں ۔"وہ غصے سے بولا۔
"اور تم مجھے بتاؤ ۔کب کروں تمہارے ماموں سے بات ۔"انہوں نے جان بوجھ کے بیٹے کو چھیڑا۔
"ماما۔آپ نےایسا سوچا بھی کیسے ۔آپ ہرگز نہیں بات کریں گی ان سے۔"وہ کرنٹ کھا کے سیدھا ہوا۔
"وہ کیوں ۔کل تو بہت غصے میں کہا تھا اسی ہفتے ہی کرو گی شادی مجھے لگا تم اسے پسند۔"وہ بیٹے کے دل کے بات جاننا چاہ رہی تھی۔
"بلکل نہیں ماما۔میں کبھی علیزے کے بارے میں نہیں سوچا ۔
اور وہ سب آپکی بہو صاحبہ کی عقل ٹھکانے لانے کے لیے بولا تھا ۔مگر اسکو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔"وہ منہ پھلا کے بولا۔
"مجھے تو پہلے ہے شک تھا ۔"وہ ہنس کے بولیں۔
"میری زندگی میں وہ پہلی لڑکی ہے ماما۔ایک وہ ہی نہیں سنبھالی جا رہی۔دوسری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اسکو تو میری نہ کوئی فکر نہ پرواہ۔احمق۔"وہ بڑبڑایا۔
"دیکھو بیٹا جس سے لڑکی کی شادی ہوتی وہ اسے اپنا سب کچھ مانتی ہے۔ہاں جھجک کی اور شرم کی وجہ سے کبھی کچھ کہہ نہیں پاتیں ۔نکاح ہے ہی ایک ایسا بندھن ۔ایلاف کی جن حالات میں نکاح ہواوہ مختلف تھے۔"وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔
"کم از کم آپکی بہو تو مجھے اپنا کچھ نہیں مانتی ۔باقیوں کا مجھے نہیں پتہ ۔"اسنے شکوہ کیا۔
"یہ اب تم جاننے کی کوشش کروں ۔اپنے سے اندازے مت لگاؤں ۔بیٹا نکاح کے بندھن میں بہت طاقت ہوتی ہے ۔اس دن تو وہ ویسے ہی اپنا ڈر ظاہر کر رہی تھی۔جن حالات میں یہ اب کچھ ہوا تو یہ سوالات ذہن میں آنے قدرتی ہیں ۔"وہ انکو سمجھا رہی تھی۔اسنے سر ہلایا۔
اگلےدن ازمیر کی پھوپھو پاکستان آ گئی تھیں۔وہ لندن سے چار سال بعد آرہی تھی ۔سرپرائز دیا تھا ۔ازمیر اپنی پھوپھو کے از حد قریب تھا۔ساتھ انکی بیٹی بھی آئی تھی۔علیزے کی بھی انکی بیٹی سے اچھی خاصی دوستی تھی۔تو وہ بھی آج ادھر ہی آگئی تھی۔رات زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ادھر ہی روک گئی تھی۔سب ہی خوش تھے۔ایلاف کا تو کل والے واقعہ سے دل ہی بوجھل تھا کچھ ازمیر کا رویہ اوپر سے علیزے بھی ادھر ہی تھی۔
"ادھر آؤ میرے پاس ۔یہاں بیٹھو۔"ازمیر کی پھوپھو کو یہ لڑکی بہت پیاری لگی تھی۔اس پیار پہ سکندر صاحب بے حد خوش تھے کہ انکی بہو انکی بہن کو بھی اچھی لگی ۔مگر شادی والی بات پتہ نہیں تھی کسی کو۔
"بھائی یہ بچی بہت پیاری ہے۔"انہوں نے اسے پیار سے خود میں بھینچا۔سب لاونج میں ہی تھے۔بچوں کی محفل بڑوں سے الگ تھی وہ اپنی باتوں میں لگے تھے ۔قہقے پڑ رہے تھے انکے ۔ولید بھی ادھر ہی تھا۔ازمیر تو آج زیادہ ہی خوش تھا ۔ایلاف کے دل کو کچھ ہوا ۔وہ تو اسکی طرف دیکھ بھی نہیں تھا رہا ۔
"جس کو میں پیاری لگنا چاہوں اسنے تو نظر اٹھا کہ بھی نہیں دیکھا۔"ایلاف نے جل کے سوچا ۔اسکا دل چاہ رہا تھا کہ اس آگنورنس پہ رو ہی دے۔
"ماما میں چائے کا کہہ آؤں ۔"ایلاف بولی۔
"ہاں بیٹا ۔بچوں آپ لوگ بھی بتا دوں کیا لو گے۔"ثمینہ بیگم وہی سے اونچی آواز میں بولیں تھیں ۔جو اپنی باتوں میں مگن تھے خاص نوٹس نا لیے تھا ۔ایلاف اب انکے پاس کھڑی بچوں کے سر پہ(بقول ثمینہ بیگم )انکےآڈر کا انتظار کر رہی تھی۔آج وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہو رہی تھی۔وہاں کوئی اسکی طرف متوجہ نہ تھا۔وہ بےوقوفوں کی طرح وہاں کھڑی انکے بولنے کی منتظر تھی۔ازمیر نے سرسری سے نظر اٹھا کے دیکھا تو سامنے وہ بھری آنکھوں سے کھڑی نظر آئی ۔آنسوں چھلکنے کو بے قرار تھے۔
"ایلاف آپ جائیں جس نے جو لینا ہو گا وہ خود بنوا لے گا ۔اور میرا پتہ ہی ہے آپکو میں اس وقت کیا لیتا ہوں"اسکی حالت کا باخوبی اندازہ ہو رہا تھا ازمیر کو اسلئے وہ بولا۔علیزے تو ازمیر کی آخری بات سن کی ہی غصے میں آگئی۔اور نفرت سے ایلاف کو دیکھا ۔ایلاف وہاں سے نکلتی گئی۔کچن میں آ کے روکے آنسوں پھسلتے گئے گالوں پے۔خود کو سنبھالتے ہوئے اسنے چائےبنانے کے لیے چیزیں نکالنا شروع کر دیں۔
"میں بناتی ہوں آپ جا کے بیٹھ جاؤ ۔بیٹا کیوں الگ تکلف کرتی ہوں خود کو دوسروں سے۔"پروین بی اسکو سمجھنا شروع ہو گئ۔وہ ایلاف کی طبیعت سے واقف تھی اس گھر کی پرانی وفادار ملازمہ تھیں۔
"نیہں پروین بی میں خود بنا لوں گی آپ ازمیر کے لئے کافی بنا دیں۔"ایلاف ہلکے سے بولی۔
"اور ویسے بھی ان لوگوں میں میرا کیا کام ۔"وہ اذیت سے بولی۔
"لو بھلا ۔تمہارا کام کیوں نہیں ۔فرد ہو تم اس گھر کی۔"پروین بی کو پتہ تھا ۔اسنے ایلاف کی عقل پہ ماتم کیا ۔
"کچھ لوگ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی خالی ہوتھ رہ جاتے ہیں جیسے میں۔"وہ خود ترسی کا شکار تھی۔
"پتہ نہیں کیا بولے جا رہی ہوں تم تو۔ایسی باتیں نہیں منہ سے نکالتے ۔"انہوں نے اس ڈپٹا۔
ایلاف کے جانے بعد سکون تو اسے بھی ایک پل کے لئے نا آیا تھا۔بار بار آنسووں سے بھری آنکھیں گھوم رہی تھی ۔اسے تکلمیف میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔اور یہ سارا اگنورنس کا وہ جان بوجھ کے کر رہا تھا تاکہ اسکی عقل ٹھکانے آئے۔وہ اٹھا اور قدم خودبخود کچن کی طرف بڑھتے گئے۔
پروین بی کچن میں نہ تھی ۔اور وہ چائے کو پھیٹنےمیں مشغول تھی۔
"اس سوگ کی وجہ جان سکتا ہوں۔"وہ کھٹور لہجے میں بولا۔ایلاف نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا اور پھر کہوں میں چائے ڈالنے لگی۔
"کچھ پوچھ رہا ہوں میں۔"وہ چیخا تھا ۔وہ بری طرح ہڑبڑائی۔وہ اورگرما گرم چائے کپ کی بجائے ہاتھ پہ پڑی ۔وہ سسکی کے رہ گئی۔
"تم ۔دیکھ کے کوئی کام نہیں کر سکتی ۔دھیان کدھر رہتا ہے تمہارا۔"اسکا ہاتھ تھامے اب وہ اسے ڈانٹ رہا تھا جو سرخ ہو گیا تھا۔
ایک تکلیف میں تھی اوپر سے وہ ڈانٹ رہا تھا۔آنسوؤں میں اور شدت آگئی۔ہاتھ پکڑے اسے چئیر کھینچ کے اس پہ بٹھایا ۔خودبھی مرہم ڈھونڈنے کے اسکے سامنے چئیر کھینچ کے اسکے ہاتھ پہ لگانے لگا ۔
"اگر یہ سب کچھ پچھلے واقعہ کے زیر اثر ہو رہا تھا تو کوئی فائدہ نہیں ۔جو میں ایک بار ٹھان لیتا ہوں تو وہ کرتا ہوں۔"وہ ابھی بھی باز نہ آیا۔
"اور ویسے بھی وہ تمہاری ہی سو کالڈ خواہش ہے آفٹر آل۔"وہ ہنکارا بھر کے بولا۔
"میں خود کر سکتی ہوں ۔"ایلاف نے اپنا ہاتھ کھینچا۔اس سفاکی کی اسے امید نہ تھی وہ یہاں سے جلدازجلد جانا چاہتی تھی۔مگر دوسری طرف کو اثر نہ ہوا۔
"اچھا ۔اور کیا کیا کر سکتی ہیں آپ ۔میری شادی تو آپ کرو ہی رہیں ہیں ۔"وہ دل جلنے سے باز نہ آیا اور ہنسا۔ایلاف کی حالت بری تھی آنسوؤں روکنے کے چکر میں ۔ایلاف نے پھر ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی۔
"خود کو جتنا دور کرو گی اتنا ہی پاس آتی جاؤں گی۔"ازمیر نے اسے ایک جھٹکے سے خود کے قریب کیا۔اور پر شوق نظروں سے اسکے آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
"بولوں اب ۔جب دور ہوتی ہو تب تو بہت شکوے شکایات ہوتیں ہیں ۔سب بول دو اب جو بھی دل میں ہے۔"ازمیر گھمبیر لہجے میں کہتا اسے کسی اور ہی جہاں میں لے جانا چاہ رہا تھا۔
"آپ نہایت برے ہیں۔بہت برے ہیں۔"اسکا ضبط بھی ٹوٹا تھا۔اپنے ہاتھوں پہ رکھے اسکے ہاتھوں پہ سر رکھ کے بری طرح بلک اٹھی۔
"اور اس برے انسان کے پیچھے تم نے اپنی یہ حالت بنا لی ہے۔"وہ اسے سر کو تھپکتے ہوئے بولا ۔
کوئی اعتراف چاہ رہا تھا۔
ایلاف کو احساس ہوا تو اسنےسر اٹھایا۔اور باہر کو بھاگ گئی۔ازمیر سر ہلا کے رہ گیا۔
"کچھ ناں کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔"