"ایلاف مجھے آج بہت شرم آ رہی ہے۔"احدیہ نے
انگلیاں مسلتے ہوئے پوچھا ۔ایلاف کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"یہ تم کہہ رہی ہو ۔اللّٰہ اللّٰہ ۔اس بات پہ سیلفی بنتی ہے۔"ایلاف نے کہتے ساتھ ہی موبائل کے فرنٹ کیم آن کیا۔
"مرو تم۔جس دن تمہاری ہو گی اس دن میں بھی لوں گی بدلے ۔"احدیہ نے اسے گھور کے دیکھا۔
"ہاہا ۔اچھا سوری ۔ادھر آؤ۔دیکھو احدیہ وہ ہی تم ہو اور وہ ہی ولید پھر شرم کیوں ۔"ایلاف رسان سے بولی۔
"کیوں بعد میں ولید نے میرا بہت مذاق اڑانا ہے کہ میں کیسے شرما رہی تھی ۔"احدیہ رونے کو تھی۔وہ ایسی ہی تھی ۔
"ارے ارے میں ولید بھائی کی کلاس لوں گی اگر انہوں نے میری پیاری بہنا کو تنگ کیا تو۔"ایلاف نے اسے پیار سے ساتھ لگایا۔
سب لوگ آچکے تھے جیسے جیسے ایلاف نے ہدایات دی تھیں ملازموں نے سرو کرنا سٹارٹ کر دیا تھا ۔بڑے اب کوئی ڈیٹ فکس کرنے میں مصروف تھے۔اور ایلاف کو احدیہ نے ایک منٹ کے لئے اپنے پاس سے جانے نہ دیا تھا۔
ہر چیز اسےدیکھا دیکھا کے کر رہی تھی اور بار بار اسکی رائے لے رہی تھی۔
"احدیہ پچھلے آدھے گھنٹے میں کوئی سو بار تم مجھ سے پوچھ چکی ہو ۔ہاں بابا تم بہت پیاری لگ رہی ہو ۔" ایلاف نے بلکل سچ کہا تھا۔
"اب جلدی کروں تمہارے سسرال والے آچُکے ہیں ۔"ایلاف نے شوخ لہجے میں کہا۔
"سب کچھ بہت اچھا بنا ہے ۔آپکو اتنا تکلف کرنے کی ضرورت کیا تھی آپا ۔ہم گھر کے ہی تو لوگ ہیں ۔"تہمینہ بولیں ۔ثمینہ بیگم کی بہن ۔
"ارے تکلف کیسا۔اور یہ سب تو میری بیٹی ایلاف نے بنایا ہے۔خود اتنے پیار سے۔"ثمینہ کی لہجے میں پیار ہی پیار تھا۔سکندر صاحب بھی ایلاف کے ذکر پہ کھل اٹھے تھے۔
"ماشاءاللّٰہ ۔بہت ذائقہ ہے اسکے ہاتھ میں تو۔ہے کدھر وہ۔"تہمینہ نے پوچھا ۔
"ادھر ہی تھی۔بس احدیہ نے اسکو اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے ۔"ثمینہ بیگم ہنس کے بولیں۔
"ہمم۔ہمم۔جی بلکل بہت صلاحیتں ہیں ایلاف میں ۔کیوں ازمیر ۔"ولید کو بھی شرارت سوجھی ۔
"چپ کر کے بیٹے رہو تم آج تو۔"ازمیر نے اسے گھورا۔
"میں تو صرف ایلاف کے اوصاف کی بات کر رہا تھا۔"ولید بولا۔
"مجھے سب پتہ ہے تم زحمت نہ کرو۔"ازمیر اس کے انداز میں بولا۔
"دیکھو ازمیر دونوں کدھر رہ گئی ہیں ۔"ثمینہ بیگم بولیں۔
"جی۔میں دیکھتا ہوں۔"وہ کہتے ہوئے اٹھا۔
"تمیز کا مظاہرہ کرنا زیادہ پھیلنا مت ۔"ولید کی زبان پہ پھر کھجلی ہوئی۔ازمیر اسے گھورتا آگے بڑھ گیا۔
اسنے دستک دے کے دروازہ کھولا۔
"ماما بولا رہی ہیں ایلاف ۔"ازمیر نے اطلاع دی ۔اسکی نظر اسکے پشت پہ بکھرے بالوں پہ ٹھہر گئی۔سادہ سے سوٹ میں وہ از حد اچھی لگ رہی تھی۔چہرامیک اپ سے صاف تھا ۔اسے سادگی بھی جچ رہی تھی۔
"جی بس ابھی آتی ہوں ۔"ساتھ ہی اسنے ہاتھ بڑھا کے اپنا سر ڈھانپا۔ازمیر مسکرا دیا ۔وہ کبھی ڈوپٹہ کےبغیر
نظر نہ آئی تھی۔
"ایلاف تم چلو میں آتی ہوں ۔۔"احدیہ بولی۔جو اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہی تھی۔ازمیر کوابھی تک کھڑا دیکھ کے وہ بھی باہر کی طرف لپکی۔
وہ بھی اسکے ہم قدم ہوا۔
"میں بس آہی رہی تھی۔بس احدیہ کی ہیلپ کر رہی تھی۔"وہ بولی۔
"مماکوڈر تھا کہی آپ بے ہوش نہ ہو گئی ہو جتنی آپ نے ٹینشن لی تھی۔"وہ اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
"اب ایسی بھی بات نہیں۔"وہ منہ پھلا کے بولی۔
"اچھا ۔تو پھر کیسی بات ہے۔"وہ آنکھوں میں دلچسپی سموئےپوچھ رہا تھا۔
"ویسے بہت اچھی لگ رہی ہیں آپ ۔"وہ ہنس کے دل کی بات بولا۔
"جی ۔کیا۔"اسےاس تعریف پہ جھٹکا۔اور سامنے پڑے بڑے سے گملے سے ٹکڑا گئی۔ازمیر نے اسے بازوں سے پکڑ کے گرنے سے بچایا۔
"آرام سے ۔"ازمیر زیر لب مسکراتے ہوئے بولا۔اور ایلاف بازو چھڑا کے لاؤنج میں چلی گئی ۔
"کیا بے ہودگی کررہے تھے۔"ولید نے کڑے تیوروں سے استفسار کیا۔ازمیر نے نا سمجھی سے پوچھا ۔
"میں تمہاری حرکتیں دیکھ رہا تھا ۔"ولید نے گملے والی حرکت پہ پوچھا۔
"ہاں تووہ گر رہی تھی ۔میں پکڑ کے اخلاقی فرض ادا کیا ہے۔"وہ ڈھٹائی سے بولا۔ولید بھی ہنس دیا ۔
******••••••••*******••••••••******••••
"منگنی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔اور ابھی اتنی تیاری باقی ہے۔"ثمینہ بیگم پریشانی سے بولی۔
آپ پریشان نہ ہوں سب ہو جائے گا۔"ایلاف نے انکو یقعین دلایا۔
"ایلاف کیسے ہو جائے گی۔شاپنگ پہ تو تم جاتی نہیں ۔
مارکیٹ جانا تمیں لوگ کے منہ میں جانے جیسا لگتا۔میں کیسے کروں گی شاپنگ۔"احدیہ برا سا منہ بنا کے بولی۔اسے اپنی شاپنگ کی ٹینشن تھی۔
"ہاں تو شاپنگ تم کروں باقی کے کام میں دیکھو لوں گی ۔"ایلاف ابھی بھی اپنی بات پہ قائم تھی۔
"میں تمہاری ایک نہیں سننی میں ابھی بھائی جو کال کر رہی ہم ابھی جا رہے شاپنگ پہ سن لوں تم۔"وہ اسے وارن کرتے کمرے میں چلی گئی۔ایلاف نے مایوسی سے
ثمینہ بیگم کو دیکھا۔
"چلی جاؤ بیٹا ۔اسنے تمہارے بغیر کبھی بھی نہیں جانا۔"وہ ہنس کے بولیں۔ایلاف کا بلکل بھی موڈ نہ تھا مگر احدیہ کے سامنے ایک بھی نہ چلنی تھی اسکی۔
••••£※※※※••••※※※※※※※••••••※※※※※•••••
"کہاں رہ گئے ہیں بھائی گھنٹے سے ویٹ کر رہیے ہیں۔اب تو انکانمبر بھی نہیں لگ رہا۔"احدیہ لان میں چکر لگا رہی تھی۔
"مجھے پہلے ہی پتہ تھا لیٹ ہی آئیں گے۔پارٹی میں لیڈر کی طرح ۔ہر کوئی بےصبری سے انکا انتظار کرے۔"ایلاف پھولوں کا معائنہ کرتے ہوئے بولی۔
"میں ایسا کرتی ہوں ولید کو ہی بولا لیتی ہوں بھائی کہی بزی ہو گئے ہوں گے۔"کہتے ساتھ ہی وہ ولید کا نمبر ملا رہی تھی۔
آگے دس منٹ میں وہ آچکا تھا۔قریبی مارکیٹ میں ہی تھا کہی وہ۔۔۔۔
•••••※※※※※•••••※※※※••••※※※※※•••••※※※
رات گئے وہ بیگز لئےلاوئج میں داخل ہوئیں تھیں۔ولید انکو گیٹ پہ ہی چھوڑ گیا تھا۔گرنے کے انداز سے وہ صوفے پہ بیٹھی تھیں۔
"احدیہ میری تو توبہ ہو گئی۔"ایلاف بولی۔
"پروین پانی لاؤں ۔اور کھانا کب تک تیار ہوگا۔بچیوں کو بھوک لگی ہو گی۔"ثمینہ بیگم بولیں۔
"میدان جنگ سے نہیں آئیں ہیں آپکی بچیاں۔"ازمیر بھی جلا بھنا بیٹھا تھا۔وہ انکے نکلنے کے بلکل پانچ منٹ بعد ہی گھر تھا۔تب سے غصے میں بیٹھا تھا۔
"انکو فریش ہو لینے دو ازمیر آتے ہی تم نے انکو گھیر لیا ہے۔"ثمینہ بیگم کچن کی طرف چلی گئیں۔
"سوری بھائی ۔بس میں جلدی میں ولید کو کال کر دی۔چلیں فریش ہو کے شاپنگ دیکھتے ہیں۔"وہ کہتے ہوئے اپنے کمرے کی اور چل دی۔
"جب میرے ساتھ آپکو جانا پسند ہی نا تھا تو مجھے کہا کرنے کے زحمت کیوں کی تھی۔"اس سے پہلے کہ ایلاف اپنے کمرے میں جاتی توپوں کا رخ اسکی طرف ہو گیا۔
"ہمیں دیر ہو رہی تھی۔"وہ منمنائی۔
"ہم۔دیر کا تو بہانہ ہے آپ ویسے ہی اگر میرے ساتھ جانا پسند نہیں کرتی تو مجھے کال کروانے کی آپ پہلے زحمت ہی نا کرتی۔"وہ تو بھرابیٹھا تھا۔بات کا اور ہی مطلب سمجھ لیا تھا۔وہ حیران تھی۔
"مجھے انفارم بھی کیا جا سکتا تھا ۔میں اپنے اتنے اہم کام چھوڑ کے گھر آیا بیٹھا ہوں مگر۔"ازمیر کا غصہ کم نہ ہو رہا تھا ۔اسے پھر لگا تھا کہ اسنے اسے اگنور کیا تھا ۔حالانکہ اسکا کیا قصور تھا۔وہ پتہ نیں کیوں اتنا ٹچی ہو رہا تھا۔شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔
"تو جب ہم نہیں تھے آپ واپس چلے جاتے اپنے اہم کام تو کر لیتے ۔"اب کے وہ بھی بولی۔بھلا اسکی کیا غلطی۔وہ اپنے کمرے کی طرف آ گئی۔
"ہونہہ سڑو۔ہر ٹائم غصہ ناک پہ ہوتا ہے"وہ بڑبڑائی۔
اگلے دن میں بھی اسکا موڈ خراب ہی رہا کچھ ٹائم ہی
گھر نظر آتا تھا ۔جب ہوتا تو صرف کمرے تک یہ صرف سکندر صاحب سے چند ایک بات کر لیتا ۔
ایلاف اسکے رویے کو نوٹ کر رہی تھی مگر کہہ کیا سکتی تھی۔وہ ایسا کیوں کر رہا تھا ۔اتنا روڈ بےہیو تو پہلے نہ کرتا تھا ۔شاید کوئی بزنس کی ٹینشن ہو۔
مجھے پوچھنا چاہیے ۔ہاں جیسے وہ مجھے بتا ہی دیں گے۔ایلاف کا تو بلکل ہی بائیکاٹ تھا آج کل۔
ازمیر نے بھی اس دفعہ بات جو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا مگر کیا کرتا لاکھ دل کو سمجھا لیتا کوئی فائدہ نہ تھا۔وہ کوئی اور ہی کہانیاں چاہ رہا تھا۔
"بیٹا چند دن رہ گئے ہیں ۔تیاری سب ہو جانی چاہیے ۔ٹائم سے پہلی ہی۔"سب لاونج میں بیٹھے تھے تب سکندر صاحب بولے۔
"جی بابا سب ہو جائے گا آپ کیوں ٹینشن لیتے ہیں ۔"ازمیر بولا۔
"ایلاف بیٹا کارڈ سب بٹ گئے ہیں۔"وہ سب انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے۔
"جی۔کچھ کو آنٹی خود انوئیٹ کر آئیں تھی کچھ کو خان بابا دے آئے تھے انوٹیشن ۔"ایلاف نے بتایا۔
"اور مینو بھی کل تک آپ لوگ کنفرم کر دو۔"وہ بولے۔
"کر دیں گے۔آپ چائے لیں ۔ٹھنڈی ہو رہی ہے۔"ثمینہ بیگم بولی تھیں۔
"بابا بھائی کو میری انگیجمنٹ کی کوئی خوشی ہی نہیں ۔ایسے ہی بس غصے میں رہتے ہیں۔"احدیہ کو بھائی کا یہ موڈ بلکل بھی نہ بجا رہا تھا ۔کہاں وہ ہر وقت نوک جھونک کرتے رہتا تھا اپنے بہن سے۔
"ہاں یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہو۔کیا بات ہے کسی بات جی ٹینشن ہے کیا ۔"وہ بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولے۔
"نہیں بابا ایسی کوئی بات نہیں ۔آپ اس بلی کی باتوں میں مت آئیں۔"وہ بولا تھا ۔
"میں ٹھیک کہہ رہی ہوں بابا۔آپ ایلاف سے پوچھ لیں ۔"احدیہ نے اسے بھی کھینچ لیا -اصل وجہ بھی وہ ہی تھی۔
"جی ۔اور مجھے تو لگتا ہے کہ یہ اس دن شاپنگ والی بات سے ناراض ہیں۔میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں۔"وہ اب ازمیر سے پوچھ رہی تھی۔سکندر صاحب کو کوئی کال آ گئی تو اٹھ کے چلے گئے۔ثمینہ بیگم بھی ساتھ ہو لی.
"ذرا جلدی نہیں خیال آگیا محترمہ کو اس دن والی بات کا۔"ازمیر نے گھور کے پوچھا۔
"بھائی اپنے شاپنگ بھی نہیں کی۔"احدیہ روٹھی انداز میں بولی۔
"بلی میرے پاس ہیں میں وہ ہی یوز کر کوں گا۔تم ٹینشن نہ لوں"وہ اٹھ کے اسکے پاس آگیا۔اور اب منا رہا تھا ۔ایلاف اٹھ کے کمرے میں آگئی ۔ازمیر نے اسے مڑ کے دیکھا۔
اگلے دن احدیہ پھر ایلاف کو شاپنگ پہ کھینچ لے گئی۔
تھک کے واپس آہیں۔
"اگر اب تم مجھے ساتھ لے کے گئی تو تم میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤں گی احدیہ۔"ایلاف نے اسے دھمکی دی۔جو اب بین پہ اوندھی پڑی تھی۔
"اچھا بابا اب نئیں کے کے جاتی۔ایلاف چھوٹا سا کام کر دوں۔وہ شاپنگ بیگ بھائی کو دے آؤ ۔میں بہت تھک گئی۔کل فنکشن بھی ہے۔"احدیہ معصومیت سے بولی۔
"میں ۔میں کیسے جاؤں ۔"ایلاف ہڑبڑائی۔
"یار ٹانگوں سے ۔پلیز ۔"احدیہ دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پہ سجا کے بولی۔
"اچھا اب زیادہ ڈرامہ نہ کروں ۔کروں اب تم آرام میں جاتی ہو۔آنٹی لوگوں کو بھی دیکھ آؤں۔"وہ مسکرا کے بولی۔
"ولڈ بیسٹ سسڑ۔لو یو۔"احدیہ کی آواز باہر تک آئی اور وہ بھی مسکرا دی۔
"پاگل۔"
دستک دے وہ اندر داخل ہوئے وہ بیڈ پہ اوندھے پڑا تھا۔
دستک کی آواز پہ سیدھا ہوا۔ایلاف کو دیکھ سارا غصہ واپس آگیا تھا۔
"اب کیا افتاد آن پڑی ہے۔"وہ بےزاری سے بولا۔
"نہیں وہ۔یہ بیگ دینا تھا آپکو۔"اسنے شاپنگ بیگ اسکے پاس رکھا ۔
"میں پوچھ سکتا ہوں یہ کیا ہے۔"لہجہ ہنوز وہ ہی تھا۔ایلاف کو اب احدیہ پہ غصہ آرہا تھا ۔
"وہ اس میں آپ کے لئے کچھ شاپنگ ہے وہ۔"اس سے پہلے کہ وہ احدیہ کا بتاتی کہ اسنے بھیجا ہے۔وہ خود بول پڑا۔
"اس کرم نوازی کی وجہ جان سکتا ہوں میں۔"اب وہ سینے پہ بازوں باندھے اسکے مقابل کھڑا پوچھ رہا تھا ۔
"وہ آپ نے شاپنگ نہیں کی اسلئے۔"وہ جانے لگی ۔
"مجھے ضرورت نہیں ۔لے جائیں سب کچھ ۔"ازمیر نے اسکی کلائی پکڑ کے اسے روکا۔
"میں لے تو نہیں جاؤں گے۔آپ اب انکو پھینکے یا آگ لگائیں ۔"وہ بھی اب غصے سے بولی۔
"اور آپ ہمیشہ مجھے ڈانٹے ہیں ۔بلاوجہ غصہ ہوتے ہیں۔"اب وہ منہ پھولا کے بولی۔
"تمہاری حرکتیں ہی ایسی ہیں ۔"اسنے بھی جواب دیا۔
"جی بلکل ایک میری ہی حرکتیں آپکو اچھی نہیں لگتیں ۔بلکہ میں ہی نہیں اچھی لگتی آپکو۔"وہ جذبات میں بول گئی۔
"میں یہ تو نہیں کہاکہ تم مجھے اچھی نہیں لگتی ۔"اب نے اسکے لہجے میں کچھ اور انداز تھا۔
"نہیں میں تو یہ کہنا چاہ رہی تھی آپکے پاس میرے لئے صرف ڈانٹ رہ گئی ہے۔"اب اس سے بھی غلط بول گئی ۔جس کا احساس ازمیر کے معنی خیز جواب سے ہوا۔
"اور بھی بہت کچھ ہے کبھی فرصت میں بتاؤں گا۔"وہ شوخ ہوا۔ایلاف نے اب یہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔اور وہ دل کھول کے مسکرا دیا۔۔