ایلاف کو یہاں آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔حلیمہ بی اسی دن واپس اپنے گاوں چلی گئی تھی۔سکندر صاحب سے وعدہ لے کے اسے کبھی بےآسراہ نہ چھوڑیں۔اپنوں نے تو جو کیا وہ کیا اب وہ اپنی دوستی کا فرض ادا کریں۔
اب وہ کچھ نارمل تھی ۔سکندر صاحب زیادہ ٹائم اس کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتے تھے جب گھر ہوتے ۔وہ بھی احدیہ اور ثمینہ بیگم کے ساتھ وقت گزارنے لگی تھی۔
اگر کسی سے ابھی تک زیادہ ملاقات نہ ہوئی تھی تو وہ تھا ازمیر شاہ ۔اس سلطنت کا بادشاہ ۔صرف ایک آدھ دفعہ سامنا ہوا تھا۔جو ایلاف کے خیال میں اسکا وجود گھر میں برداشت نہیں کر سکتا ۔کرے بھی کیوں آخری انکا اس سے رشتہ ۔صرف دوستی کا وہ بھی اسکے بابا کی ۔
آج کی دنیا تو خون کے رشوں کا لحاظ نہیں کرتی یہ تو پھر دوستی کا ہے۔۔
"ایلاف اب تم ہماری ٹیم میں شامل ہو گئی ہو۔اب ہم تین ہو گئے۔میں ،بابا اور تم ۔اور دوسری ٹیم ماما اور بھائی کی۔"احد یہ پرجُوش طریقے سے بولی تھی۔
"ہاں بلکل اب یہ بھی تو ہمارے گھر کا حصہ ہے "۔ثمینہ بیگم نے پیار سے ایلاف کے سر پہ ہاتھ پھیر کے ساتھ لگایا۔۔کبھی کبھی اتنے پیار پہ اسکی آنکھیں بھر آتی تھیں۔
"اسلام علیکم"ازمیر شاہ نے اندر آتے بلند آواز میں سلام کیا تھا۔
"وعلیکم سلام ۔میری جان۔"ثمینہ بیگم اپنے سپوت کو دیکھ کے بولیں۔
"بھائی چائے لاؤ آپکے لئے ۔یا پھر کھانا کھائیں گے؟"احد یہ نے بھائی سے پوچھا۔
"پانی پلا دو چائے میں فریش ہو کے پیؤں گا۔"ازمیر نے سر صوفے کی پشت سے لگا کر خود کو ریلکس کیا۔
احد یہ کچن کی طرف ہو لی۔
"کافی تھکے لگ رہے ہو ؟"ثمینہ بیگم نے بیٹے کو دیکھ کے پوچھا ۔
"نہیں بس کچھ کام تھا زیادہ آج ۔ٹھیک ہوں میں"۔ازمیر نے ماں کو جواب دیا ۔اور اک نظر ماں کے ساتھ بیٹھے وجود کو دیکھا۔جو تب سے ایک لفظ نہ بولی تھی۔۔باتوں کے دوران پروین پانی دے کے جا چکی تھی۔
اور ایلاف اپنی ہی سوچوں میں مصروف تھی۔کب تک میں ان پہ بوجھ بن کے رہوں گی یہ بات وہ یہاں آنے کے ۱۵ دن بعد کر چکی تھی مگر پھر سکندر صاحب کا ریکشن دیکھ کے خود بھی رو پڑی تھی اتنا پیار اتنا خلوص۔ضرور اسکے ماں باپ نے کچھ بہت بڑی نیکی کی ہو گی جو وہ آج محفوظ ہاتھوں میں تھی۔
لیکن ابھی بھی اس کے دماغ میں ایک ڈر تھا کہ سامنے بیٹھے شخص کو اسکا وجود گوارا نہیں اس گھر میں ۔وہ آج تک اس سے مخاطب تو دور آمنا سامنا بھی کم ہوتا تھا۔۔
"ماما نہ پریشان ہوا کریں ۔میں بلکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ٹائم پہ ہی کھانا کھاتا ہوں"ازمیر کی آواز اسکو اپنے خیالوں سے کھینچ لائی تھی۔وہ ماں کو پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ۔وہ اپناآپ مس فٹ محسوس کرنے لگی جب ازمیرنے اسکو دیکھ کے نیچے منہ کر کے اپنی مسکراہٹ چھپا رہا تھا ۔شاید نہیں یقعیناً وہ اسکے غائب دماغی نوٹ کر چکا تھا ۔جو تب سے پاگلوں کی طرح ادھر ادھر گھورتے ہوئے سوچوں میں گم تھی ۔وہ بے حد شرمندہ ہوئی۔
"میں احدیہ کو دیکھ لوں"ایلاف ثمینہ بیگم کو بول کے اٹھی ۔
"ہوں دیکھو کدھر رہ گئ یہ لڑکی۔"ثمینہ بیگم بولی۔
"میں فریش ہو کے آتا ہوں تب تک بابا بھی آ جاتے ہیں ۔انکے ساتھ چائے پیؤں گا"وہ کہہ کے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔
سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھ چکے تھے۔سکندر صاحب اخبار کی ورق گردانی کے ساتھ ساتھ ناشتہ کر رہے تھے ۔
"ارے ایلاف نہیں اٹھی ابھی تک اسکی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟"کپ میں چائے ڈالتی احدیہ سے پوچھا ۔احدیہ کے کچھ کہنے سے قبل ازمیر بول پڑا۔
"بابا وہ پہلے ہمارے ساتھ کھاتی ہے جو آج کھائے گی۔"وہ رکھائی سے بولا۔
"احدیہ بیٹا اسے ناشتے کے ٹیبل پر ساتھ لے آیا کروں ۔وہ ابھی ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی "سکندر صاحب بجھ سے گئے تھے ۔اور ناشتہ بھی بے دلی سے کیا ۔
ثمینہ بیگم بھی افسردہ ہو گئی تھی۔
ازمیر کو یہ بات برداشت نا تھی کہ کوئی بلاوجہ اس کے والدین کو نخرے دیکھائے ۔اسکا اپنا خیال تھا۔
وہ ایک لائحہ عمل سوچ کر آرام سے ناشتہ کرنے لگا۔
دستک کی آواز پر ایلاف نے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا۔کمرے میں گہرااندھیرا تھا۔وہ بیڈ پہ گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی ۔دستک کے بعد دروازہ کھلتا گیا۔اور کوئی اندر داخل ہوا۔
"لائٹ نہیں جلا سکتیں آپ کیا "کمرے میں اندھیرے کی وجہ سے سیدھا بیڈ سے ٹکرا گیا ۔وہ غصہ سے بولا تھا۔
وہ ۔۔مم۔۔وہ ۔۔۔وہ گھبراہٹ کی وجہ سے ایک لفظ ادا نہ کر سکی ۔ازمیر نے آگے بڑھ کے لائٹ ان کی ۔
"کیا میں میں لگا رکھی ہے "غصہ ابھی بھی برقرار تھا ۔
"احدیہ۔تو باہر ہی "اسنے احدیہ کے بارے میں بتانے کے لئے لب کھولے کہ وہ کمرے میں نہیں۔
" پتہ ہے مجھے وہ باہر ہے مجھے آپ سے ہی کام تھا۔بات کرنی ہے آپ سے۔"ازمیر اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سمجھ گیا۔
"مجھ سے"ایلاف نے حیرت سے پوچھا۔
"کیوں آپ سے بات کرنے کے لئے اپائمنٹ لینی پڑتی ہے۔"ازمیر نے اس کی کنفیوژن دیکھ کے جان بوجھ کے بات بڑھائی۔
"جی"وہ ہونق سی بولی۔ بعد میں سمجھ آنے پہ جی بھر کے شرمندہ ہوئی۔وہ پہلے ہی اسکے یہاں آنے پہ حیران تھی ۔اوپر سے وہ اس سے ہی بات کرنے آیا ۔۔
"رئیلی"وہ زیر لب مسکراتے بولا ۔تو وہ مزید سر جھکا گئی۔
"آخر آپکا مسئلہ کیا ہے یہ ہی پوچھنے مجھے یہاں انا پڑا"اب وہ طنزیہ بولا تھا ۔اسکی بات کو سن کے مقابل آنکھوں میں آنسووں آ گئے ۔
وہ اپنے گلابی گالوں پہ آئے آنسووں کو صاف کر رہی تھی۔ازمیر نے ڈوپٹے میں چھپے چہرے کو دیکھا جسکی سادگی لاجواب تھی ۔کچھ دیر وہ بول نہ سکا پھر صبح کا واقعہ یاد آنے کے بعد سختی سے بولا۔
"دیکھو مجھے اندازہ ہے جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت ہی تکلیف دہ ہے ۔میرے ماں باپ نے آپکو اپنی بیٹی بنا کے رکھا ہے ۔اور وہ بہت مخلص ہے آپکے ساتھ اس بات کا آپکو اندازہ ہو گیا ہو گا "ازمیر بولا تھا ۔وہ سر جھکائے سن رہی تھی۔
"اس گھر میں آپکو ایک اچھی حیثیت دی گئی ہے مگر آپکا رویہ میرے ماں باپ کو دکھ دے رہا ہے ۔اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا "۔ کچھ دیر کے لئے وہ خاموش ہوا۔
"تم سمجھ رہی ہوں نا میری بات "انکے وہ غصے سے بولا۔
"جی ۔میں کوشش کروں گی۔"وہ ہمت کر کے بولی۔
"مجھے کوشش نہیں عمل چاہیے سمجھی ۔بہتر ہے کہ انکی خوشی کا خیال رکھو جو آپکی خوشی کا کرتے ہیں"کہنے کا بعد وہ رکا نہیں۔باہر نکل گیا۔
فجر کی نماز کے بعد ایلاف لان میں چلی گئی۔ہو طرف ہریالی تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔کچھ دیر بعد کچن کا رخ کیا۔دو کپ چائے کے بنا کے ٹرے میں رکھے اور سکندر صاحب کے کمرے کی طرف چل دی۔
دستک کے بعد اندر داخل ہوئی ۔سکندر صاحب بیف پہ نیم دراز تھے اور ثمینہ بیگم جائے نماز پہ بیٹھی دعا منھ رہی تھی۔
"اسلام علیکم"ایلاف کی آواز پہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے۔سکندر تو خوشی سے مسکرا دئیے۔
"میری بیٹی آج اتنی جلدی اٹھ گئی۔اور چائے اپنے کیوں بنائی۔"سکندر صاحب نے اسکے ہاتھ میں پکڑی ٹرے دیکھ کے پوچھا جو وہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھی چکی تھی۔
میں نے سوچا کیوں نہ میں انکل کو اپنے ہاتھوں کی چائےپلواوں"ایلاف کے جواب پہ دونوں کو خوشگوار حیرت ہوئی ۔اور دونوں کی طرف چائے بڑھائی۔
"واہ مزہ آگیا بہت اچھی بنی ہے ۔"دونوں نے دل سے تعریف کی۔
"انکل اپنے بابا کے بعد مجھے زندگی دی۔میں آپکا شکریہ کیسے ادا کروں ۔میں نے پھر بھی اپنے رویئے سے آپکو ہرٹ کیا۔مجھے معاف کر دئیے۔"ایلاف نے اپنے گزشتہ روئیے کی معافی مانگی۔
"کوئی بھی بیٹی اپنے باپ کا شکریہ ادا نہیں کرتی ۔سمجھی تم ۔ائندہ ایسی بات مت کرنا۔"سکندر صاحب نے پیار سے کہا۔
"میرے لیئے احدیہ اور تم برابر ہو بھلےمیں نے تمہیں جنم نہیں دیا۔"ثمینہ نے اسے گلے سے لگایا۔
••••••••••※※※※※※※※••••••••※※※※※※※•••
ناشتے کے ٹیبل پہ سب آ چکے تھے۔سوائے ازمیر شاہ اور ایلاف کے ۔دونوں ایک ساتھ کمروں سے نکلے ۔ایلاف کو اس ٹائم آتا دیکھ کےوہ چونکا ۔مطلب تبدیلی ۔
"مجھے پتہ تھا کہ بات تو میری آپ مانوں گی ۔مگر اتنی جلدی خاصی فرمانبردار ہیں ۔گڈ "معظم نے پاس سے گزرتے سرگوشی کی۔
"سڑو۔ہر ٹیم لیکچر دیتا رہتا ہے"ایلاف نے جل کے سوچا اور اسکے پیچھے چل دی۔
ناشتے کے ٹیبل پہ سب آ چکے تھے۔سوائے ازمیر شاہ اور ایلاف کے ۔دونوں ایک ساتھ کمروں سے نکلے ۔ایلاف کو اس ٹائم آتا دیکھ کےوہ چونکا ۔مطلب تبدیلی ۔
"مجھے پتہ تھا کہ بات تو میری آپ مانوں گی ۔مگر اتنی جلدی خاصی فرمانبردار ہیں ۔گڈ "معظم نے پاس سے گزرتے سرگوشی کی۔
"سڑو۔ہر ٹیم لیکچر دیتا رہتا ہے"ایلاف نے جل کے سوچا اور اسکے پیچھے چل دی۔
••••※※※※※•••••※※※※※※※•••••••※※※※※•••
پھر ایلاف کے لاکھ منع کرنے پہ بھی اسکا ایڈمشن ایم۔بی۔اے میں کروانے کی ذمہ داری ازمیر کو سونپ دی گئی۔اسنے لاکھ احتجاج کیا کہ وہ نہیں جائے گی ۔مگر کوئی بھی نہ مانا۔
"ماما کہاں ہیں سب لوگ"ازمیر لاوئج میں کسی کو نہ پا کے اونچی آواز میں بولا۔
"آگئے تم۔صبح سے گئے ہو اور اب ٹائم ملا آنے کا ۔جب سے تم نے آفس جوائن کیا نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا۔"ثمینہ سخت پریشان تھی ۔بزنس میں اسنے جلد بہت نام کما لیا تھا آج انکی کمپنی کا شمار ملک کی بہترین کمپنیوں میں ہوتا تھا۔
"میری پیاری ماما کیوں پریشان ہوتی ہیں آپ ۔بس کام تھے کچھ وہ ہی نمٹا رہا تھا۔اچھا وہ ایلاف کا ایڈمیشن ہو گیا ہے ۔اسے بتا دی جائیگا کلاسز بھی چند دن میں ہو جائے گی سٹارٹ "۔ اسنے مطلع کیا۔
"ایک وہ گدھا ولید مل گیا تھا ۔اسکی وجہ سے دیر ہو گئی۔" اسنے اپنے خالہ زاد کے بارے میں بتایا جو کمپنی کے کام سے شہر سے باہر تھا ۔
"اچھا گڈ۔تم نے ایلاف کے متعلق بتایا کچھ ۔انکو بتا دینا بہتر ہے نہ کہ وہ خود ایلاف کو دیکھ کے کچھ بولے جو ایلاف کو اچھا نہ لگے۔"وہ بولیں۔
"ہم ۔۔آپ خالہ کی طرف ہو آئیے ویسے بھی وہ لوگ آنا چاہ رہے ایک دودن میں۔"ازمیر ایلاف کو لے کر اپنے گھر والوں کے کنسرن کو دیکھ کے رہ گیا