جوں جوں رات اپنے پر پھیلا رہی تھی سڑکوں پر رش کم ہو رہا تھا۔ سردی کی راتیں تھیں۔اور لمبی لمبی سڑکوں پہ چار سوں ہوں کا عالم تھا۔ بوندا باندی ہو رہی تھی۔ سڑک پہ سکا دیا گاڑیاں تھیں۔ ان میں سے اک گاڑی تھی سکندر حیات صاحب کی۔
مسز سکندر نے پریشان نظروں سے ساتھ بیٹھی شخصیت کو دیکھا تھا۔جو خود بھی کچھ دیر قبل آنے والی کال کی وجہ سے الجھن کا شکار تھے۔
کمرےمیں مدھم سی روشنی تھی۔ گہری خاموشی تھی صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
اس روشنی میں حیات سکندر صاحب مطالعہ میں مصروف تھے۔کمرے کی اس خاموشی کو فون کی چنگھاڑتی آواز نے توڑا تھا۔ حیات سکندر صاحب کو یہ آواز اس وقت ناگوار گزاری تھی ۔چشمہ اتار کے کتاب سائیڈ پہ رکھی اور فون اٹھایا جو خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
"یس حیات سکندر صاحب سپیکنگ" حیات سکندر صاحب اپنی رعوب دار آواز میں بولے تھے۔
"میں مسز مہرین بول رہی ہوں "دوسری طرف سے اطلاع دی گئی تھی۔
حال احوال کے روایتی تبادلے کے بعد مسز مہرین اصل بات کی طرف آئیں۔
" سکندر بھائی میں اس وقت این۔جی۔او سے بول رہی ہوں"مسز مہرین کی متفکر آواز فون سے ابھری تھی۔
"خیریت تو ہے " حیات سکندر صاحب نے پوچھا تھا ۔
حیات سکندر صاحب این ۔جی۔او کو ڈونیشن دیتے تھے ۔اور مسز مہرین کے ساتھ ان کے فیملی ٹرمز بھی تھے۔
"جی بھائی دراصل ابھی کچھ دیر پہلے ایک عورت کے ساتھ ایک لڑکی آئی ہے اور انکے پاس آپ کا اڈریس ہے ۔میرے پوچھنے پہ بھی کچھ نہیں بتا رہی۔ "
وہ مزید بولیں۔"میں آپ کا اڈریس انکے ہاتھ میں دیکھ کے زرا متجسس ہو گئیں ہوں۔ آپکا اڈریس انکے پاس کیوں۔"انہوں نے مزید بتائیں۔
"آپ کوشش کریں بھابھی اگر کچھ پتہ لگ سکے۔"سکندر صاحب بولے۔
"آپ دفتر آجائیں پھر حل نکالتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ جیسے اچھے انسان کے لئے کیوں مصیبت بن جائے ۔وہ لڑکی مسلسل رو رہی ہے۔"مسز مہرین حالات سے آگاہ کر رہی تھیں۔
"جی بہتر میں کچھ ہی دیر میں پہنچ رہا ہوں"۔
سکندر صاحب بولے۔۔۔
چند منٹ بعد وہ دونوں آفس میں تھے۔
"جی بھابھی اب تفصیلاً بتائیں"۔مسز سکندر بولیں تھیں۔
"رات میں جب میں آفس آئی تو امتیاز بابا نے مجھے بتایا کہ ایک عورت اور ان کے ساتھ ایک لڑکی آئیں ہیں دوپہر سے مجھ سے ملنے کا انتظار کر رہی ہیں ۔
مجھے لگا کوئی معمول کی طرح کا ہی کیس ہوگا۔جب وہ مجھ سے ملے تو کہنے لگیں کہ یہ لڑکی بے سہارا ہے ۔اس شہر انکو کوئی جانتا بھی نہیں وہ پہلی دفعہ یہاں آئیں ۔
پولیس والوں سے محفوظ جگہ بھی انکو یہ لگی مدد کے لئے ۔۔لڑکی اس دوران صرف رو رہی تھی یہ سب گفتگو وہ عورت ہی کر رہی تھی۔پھر انہوں نے چند دن کی پناہ کے علاوہ دوسری مدد کا بولا تو میں پریشان ہو گئی۔
آپ کا اڈریس تھا انکے پاس ۔
اور وہ عورت کہہ رہی تھی لڑکی کے سر پہ ہاتھ رکھ کے یہ امانت ان تک پہنچانی ہے۔۔
اسلیے میں آپکو یہاں بلایا ہے ۔کہ آخر اسکا آپ سے کیا تعلق۔۔
مسز مہرین نے انکو تفصیل سے آگاہ کیا۔۔
"بات تو پریشانی کی ہی ہے ۔کون ہو سکتے"ٽمینہ بیگم بولی تھیں۔
"جی بلکل میں آپ کے سب ریلیٹوز کو جانتی ہوں۔اور وہ لوگ یہاں کیوں آتے۔۔مجھے لگا کہ جیسے کسی مخالف کی آپکو بدنام کرنے کی کوشش نہ ہو اسلئے آپکو آگاہ کیا۔"مسز مہرین نے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔
سکندر صاحب کا ایک مقام تھا بزنس میں ایسے میں مخالفین کا اس طرح کی کوشش کر کے انکی ساکھ خراب کرنا کچھ ناممکن بھی نہ تھا۔
"اپ انکو بلائیں تاکہ کھل کے بات ہو سکے"سکندر صاحب بولے تھے۔
چند منٹ بعد دروازہ کھلا اور ایک عورت اندر آئی اور اسکے پیچھے ایک ڈرے سی لڑکی جس نے بڑھی سی چادر اوڑھ رکھی تھی اور کالے رنگ کا ایک لیدر بیگ پکڑا ہوا تھا۔
"ادھر آؤ بیٹی "ٽمینہ بیگم نے اسے بولا اور ساتھ ہی اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس بیٹھا لیا۔
وہ عورت بھی وہاں رکھی ایک کرسی پہ ٹک گئی تھی۔
"یہ ہیں سکندر صاحب جنکا پتاآپ پوچھ رہی تھی ۔"مہرین نے عورت کو بتایا تھا۔
یہ بتانے پر لڑکی نے سر اٹھا کر سامنے بیٹھے سکندر صاحب کو دیکھا تو بےاختیار آنکھیں آنسوں سے بھر گئی ۔۔سکندر صاحب نے بھی اسکے آنسو دیکھے مگر وجہ نہ جان پائے۔۔
ایسا ہی ہوتا ہے جب اپنے بچھڑ جائیے تو ان سے منسلک ھر چیز بھی عزیز ہو جاتی ہے ۔۔انسیت ہو جاتی ہے ۔۔جب بھی
انکو دیکھوں تو ہر لمحہ یاد آجاتا گزرا ہوا۔
عماد احمد اور داؤد احمد دو بھائی تھے ۔۔عماد کی ایک بیٹی تھی اور داؤد کا ایک بیٹا تھا۔ داؤد بڑا تھا ۔
داؤد کی بیوی بہت ہی شاطر فطرت کی تھی۔بیٹا بھی ماں پہ گیا تھا۔لاپرواہ ،ضد ،بد تمیز ۔۔۔باپ کا دونوں ماں بیٹے نے خوب اڑایا۔آفس سے دلچسپی نہ تھی۔ایسے ہی آہستہ آہستہ بزنس کا دیوالیہ ہو رہا تھا۔
دوسری طرف تھی عماد کی فیملی ۔بیگم بے حد سلجھی ،نرم دل اور سلیقہ شعار تھی ۔بیٹی بھی ماں پہ ہی گئی تھی ۔یوں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
لیکن قدرت کے فیصلوں کا کسی کو کیا پتہ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب عماد نے بیٹی کی گریجویشن مکمل ہونے پہ بھائی کی فیملی کو دعوت دی۔یوں تو گھر ساتھ ساتھ تھے مگر بڑے بھائی کی بیوی نے کبھی ملنے نہ دیا تھا آپس میں زیادہ۔
پارٹی میں جب دونوں ماں بیٹے نے عماد کی بیٹی کو دیکھا تو شیطانی چال چلی۔
اگلے دن رشتہ لے کے بڑا بھائی چھوٹے کے گھر آگیا ۔
جبکہ عماد بھی بھتیجے کی حرکتوں سے اچھے سے واقف تھا ۔تو مناسب الفاظ میں انکار کر دیا۔مگر یہ انکار لالچی بیوی کو پسند نہ آیا اور بھائی کو جذباتی بلیک ملینگ پہ اکسا کر لڑائی کروا دی۔
بڑے بھائی کے اس رویہ سے دل برداشتہ ہو کے انہوں نے کراچی سے جانے کا سوچا ۔بیٹی کو ایک دن کے لئے وفا دار حلیمہ بی کے گھر چھوڑا اور خود کچھ معملات طے کرنے بیگم ساتھ لاہور کے لئے نکل پڑے ۔نصیب کے کھیل کب کس نے جانے۔
ٹینشن میں ڈرائیو کرتے ہوئے بارباربھائی اور بھتجھے کی دھمکیاں یاد ارئیں تھیں۔
ہر حال میں آپکی بیٹی سے ہی شادی کرونگا۔
انکو یہ بھی پتہ تھا اچانک محبت پیسے کے لئے ہے بھتیجی کے لیئے نہیں ۔۔
انکی گاڑی کا ایکسڈنٹ ہو گیا۔جب میں انکی بیٹی کو لے کر ہاسپٹل گئی تو انکی زبان پہ چند الفاظ تھے۔
بی میری بچی ۔۔۔بچا لو اسے۔میری ڈائری ۔۔
اور وہ اپنے خلیق حقیقی سے جا ملے۔۔بیگم تو موقع پہ ہی دم توڑ گئی تھیں۔۔۔
پھر دنیا داری نبھانے بھائی بھی آ نکلا تھا ۔انکا کام تو اور آسان ہو گیا تھا اب۔۔سوئم کے بعد نکاح کا پروگرام رکھا گیا تھا تو لوگوں کی نظر میں اور عزت بڑھ گئی
حقیقت کوئی نہیں جانتا تھا۔۔
وہاں سے پھر جیسے ہم نکلے ہیں ہمارا خدا جانتا ہے اسنے آسانی پیدا کر دی اس بچی کے لیئے ۔۔۔
اب کون جانے آسانیاں یا مشکلیں۔۔۔
حلیمہ بی کے چپ ہوتے ہی اک سسکی گونجی تھی اس لڑکی کی۔۔۔
"اس سارے واقعہ پہ ہمیں افسوس ہے ۔اور جو مدد آپکو چاہئیے ہم وہ بھی کر سکتے ہیں ممکن حد تک ۔۔لیکن اس سارے واقعہ میں میرا تعلق ۔میرا اڈریس آپکے پاس ۔" سکندر حیات کی الجھن ابھی جوں کی توں تھی۔
"کیونکہ وہ جو انتقال کر چکے ہیں انکانام تھا عماد احد ۔۔لیدر انٹرپئراز کے مالک ۔اور یہ انکی بیٹی ایلاف "۔یہ اطلاع سکندر صاحب پہ بجلی کی طرح گری تھی ۔
کیا کیا یاد آیا تھا ۔محلے کا گروانڈ ۔ایک پتلا سا لڑکا بیٹ پکڑے خوشی سے سارے میدان میں بھاگتا ۔۔نعرے لگاتا "ہم جیت گئے "۔۔۔
کالج میں پنگے ۔۔پیپر سے ایک رات پہلے کے راٹے۔۔
اوٹنگ ۔بائیک پہ پورے شہر کے روانڈ۔۔گریجویشن تقریب جس کے بعد صحیح معنوں میں زندگی بدل گئی تھی۔۔
"بابا جان "اندھیر کمرے میں انکی لخت جگر کی آواز گونجی تھی۔آنے والے نے آتے کی لائٹ ان کی تھی۔
سکندر صاحب نے اسے دیکھا۔چھ فٹ قد ،متناسب جسم ،پرکشش نقوش ،تیکھی ناک۔۔پر عزم آنکھیں۔۔۔
"ادھر آؤ میر بیٹا "۔سکندر صاحب نے اپنے پاس بلایا۔
ازمیر شاہ ۔۔۔جسے پیار سے میر پکارتے تھے۔۔۔
"بابا جان ایسے کب تک آپ کمرے میں رہیے گے آپکی صحت خراب ہو جائے گی سوچ سوچ کر"ازمیر بولا تھا۔
"میں نے اسے بولا تھا کہ واپس نہ جاؤں ۔لاہور رہ کے ہی ہم اپنی مزید پڑھائی کر سکتے ہیں۔لیکن اسکے بہت بڑے خواب تھے ۔اسے باہر جاناتھا سٹڈی کے لئے"سکندر صاحب کسی اور ہی دنیا میں تھے۔ازمیر شاہ نے انہیں بولنے دیا تاکہ انکا دل ہلکا ہو۔خود انکا ہاتھ پکڑ کے انکے پاس بیٹھ گیا۔
وہ اسکو ہر قصہ سنا رہے تھے جب انکی ملاقات ہوئی تھی کراچی میں جب وہ اک کمپنی کھول چکا تھا ۔پھر زندگی کچھ ایسی مصروف ہوئی کہ بات چیت فون کال تک محدود ہو کے رہ گئی ۔ابھی چند پہلے ہی انکی کال آئی تھی وہ پریشان لگا تھا لاہور انا چاہ رہا تھا پر یہ نہیں بتایا تھا کہ کب۔میں بھی اسکا انتظار کر رہا تھا ۔شاید وہ میرے پاس ہی آرہا ہو ۔مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔
ازمیر شاہ نے اپنے ہاتھ کی پشت پہ گرے پانی کے قطرے کو محسوس کیا وہ درد کی شدت سے لب بھینچ لئے ۔۔۔
زندگی کسی کے جانے سے رکتی نہیں ۔یہ زندگی کی اچھائی بھی ہے اور برائی بھی۔
"ایلاف تمہاری ہوبز کیا ہیں۔"یہ سوال اسکے سامنے بیٹھی خوبصورت اور زندگی سے بھرپور لڑکی احد یہ نے کیا تھا۔
سکندر صاحب کی اکلوتی بیٹی ۔ماں کی طرح خوش اخلاق ۔مخلص اور صاف دل۔۔۔۔
"بک ریڈنگ"ایلاف کا جواب دو لفظوں کا تھا ۔احد یہ صبح سے اسے باتوں میں لگائے ہوئی تھی ۔مگر ایلاف ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی۔
"تم اتنا کم کیوں بولتی ہوں۔میں تو سب کے کان کھاتی ہوں۔اور بھائی جان تو ہاتھ جوڑ کے چپ کرواتے مجھے۔"احدیہ نے اگلا سوال کیا ۔۔۔
ایلاف کو اپناباباجان اور ماما کے ساتھ گزرے پل یاد آگئے جب وہ ہر بات کے لئے بحٽ کرتی تھی۔بابا بھی اسے تنگ کرتے تھے۔ایلاف کی آنکھوں میں انسوں دیکھ کر احد یہ بھی دُکھی ہو گئی ۔وہ تو اسے نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
لیکن زخم بھرنے میں ٹائم لگتا ہے ۔