(طاہراحمد)
خوشی کے لمحے لکھو، عمرِ اضطراب لکھو
نکالو وقت کبھی عشق کا حساب لکھو
ایبٹ آباد میں ہم دونوں ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے تھے۔طاہرکامضمون ریاضی تھا۔ لائبرےری میں ایک بار اسے چند ادبی کتابیں اشوکراتے اور جمع کراتے دیکھاتو تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ استفسارکیاتو پتہ چلااچھا ادب پڑھنے کاشوق ہے۔ گفتگو کی تو معلوم ہواآپ کرشن چندرسے لے کر بانوقدسیہ تک اور فیض سے لے کر وزیرآغاتک ادیبوں پر بھی بات کرسکتے ہیں اور ان کے ادب پربھی۔ اس وقت تومجھے شدید حیرت ہوئی جب اس جوان نے بتایاکہ وزیرآغاکی غزلوں اور نظموں میں سیاسی اثرات بہت نمایاں ہیں اور ثبوت کے طور پر شعری حوالے بھی دے دیئے۔ دوستی کچھ اور بڑھی تو پتہ چلاطاہر کو کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور لوک موسیقی سے گہرا شغف ہے۔ فوٹوگرافی کا شوق ہے، پاک محبت کرنے کا جذبہ ہے۔ ان چیزوں کا کچھ کچھ شوق مجھے بھی ہے اس لئے اس طرح ہماری دوستی مزید بڑھی۔ ایبٹ آباد کی خوبصورت وادی نے ہم دونوں کو دیوانہ بنارکھاتھا۔ہم روزانہ لمبی سیر کے لئے نکلتے۔ آبادی سے باہرنکل کر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ گفتگو سے تھک جاتے تو شوقیہ گلوکاری شروع کردیتے۔ ہماری دوستی اتنی گہری ہوتی گئی کہ اچھاذہن رکھنے والوں نے کہنا شروع کردیا: خدا دوستوں کی یہ جوڑی سلامت رکھے اور کم ظرفوں کے لئے یہ دوستی حسد کا موجب بن گئی۔ موسیقی، فوٹوگرافی اور ”پاک محبت“کے مشترکہ شوق ایک طرف تھے تو دوسری طرف الہٰیات، ادبیات اور سیاسیات کے موضوعات ہمیں مزید قریب لاتے گئے۔ دوستی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہم میں مکمل اتفاق رائے پایاجاتاتھا۔ مکمل اتفاق رائے ہوتاتو میں یقینا یہ سمجھ لیتاکہ میرا موقف ہی غلط ہے۔ ہم میں ڈھیروں ڈھیر اختلاف رائے تھالیکن اس اختلاف رائے میں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے اور سمجھانے کا انداز ہوتاتھا۔
میں تصوف کے مضمون سے دلچسپی رکھتاہوں۔ طاہر کے نزدیک تصوف کی دوقسمیںہیں۔ ایک وہ جو مایوسی کازائیدہ ہے، دوسرا وہ جو اپنے دور کی آمریتوں کے خلاف کلمۂ حق بن کر ابھرااور جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا۔ ادب میں طاہر ترقی پسند مسلک کاحامی ہے۔ فیض کی شاعری کا دیوانہ لیکن وزیرآغا کی جدید شاعری بھی اسے پسند ہے اور اس میں سے ترقی پسند تصورات اس طرح نکال کردکھاتاہے جیسے رومال میں سے کبوتر نکال کردکھائے جاتے ہیں۔احمدندیم قاسمی کے لئے اس کے دل میں ایک نرم گوشہ تھالیکن جس دن جنگ میگزےن میں قاسمی صاحب کا وہ ”معرکة الآرائ“ انٹریو شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے دھمکیاں دیتے ہوئے کہاتھا میرے مداح اتنے زیادہ ہیں کہ اگر میں انہیں اشارہ کردوں تو وہ میرے مخالفین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ طاہر بجھے ہوئے دل کے ساتھ میرے پاس آیااور کہنے لگامیں اب تک قاسمی صاحب کے حق میں جو کچھ کہتارہاہوں اس پر شرمندہ ہوں۔ اس معاملے میں مجھے آپ کا موقف اب کافی درست لگنے لگاہے۔
۔۔۔۔طاہرنے بی ایس سی کرنے کے بعد کچھ عرصہ ایک میڈیکل کمپنی کے نمائندہ کی حیثیت سے کام کیا۔اچھی خاصی آمدنی تھی لیکن پھر اس پر ایم ایس سی کرنے کی دھن سوارہوگئی۔ چنانچہ اس نے ریاضی میں ایم ایس سی کرلیا۔ میرے ایبٹ آباد آنے سے تھوڑاعرصہ پہلے طاہر نےPIPSکو جائن کرلیاتھااور جب میں نے ایبٹ آباد کو چھوڑاتو اس کے معاًبعد طاہر نے بھی ایبٹ آباد کو چھوڑکرلارنس کالج گھوڑاگلی مری میں ملازمت کرلی۔ طاہر کی بہت سی اچھی عادتوں سے میں بہت تنگ آیاہواتھا۔ مثلاً کہیں جاناہے تو طاہر کہتا بس میں پانچ منٹ میں تیار ہو جاتا ہوں اور پھر یہ پانچ منٹ آدھے گھنٹے سے پہلے مکمل نہیں ہوتے تھے۔ لباس کے رکھ رکھاؤ کے سلسلے میں جتنا میں غیر ذمہ دار ہوں، طاہر اتناہی نفاست پسند ہے۔خط لکھنے کے معاملے میں طاہرانتہادرجے کا سست واقع ہواہے۔ پہلے تو خط ہی نہیں لکھ پاتا۔ اگر غلطی سے کبھی کوئی خط لکھ لیاتو کم از کم ایک ہفتہ کے بعد جاکر اسے پوسٹ کرپاتا۔ خداکاشکر ہے کہ میرے ملک چھوڑنے کے نتیجہ میں طاہر کی کاہلی کسی حد تک ختم ہورہی ہے ۔ میرے خطوط کے بروقت جواب دے کر طاہر نے مجھے حیران کردیاہے۔ اللہ کرے میری یہ حیرت قائم رہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج ایبٹ آباد کی نئی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب تھی۔ بریگیڈئیر صاحب نے اپنے مرشدکو مدعوکیاہوا تھا۔ انہوں نے مختصر ساخطا ب فرمایااور بتایاکہ وہ چودہ سال یورپ میں گذارکرآئے ہیں۔ وہاں کی زندگی ایک سراب ہے۔ بعد میں طاہر کہنے لگامجھے دس سال یورپ میں گزارنے کا موقعہ مل جائے تو میں بعد میں پیر صاحب سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ مغربی زندگی کی مذمت کروں گالیکن پہلے اسے چکھنے کا موقعہ تو ملے۔ اس تقریب میں نماز عصربھی اداکی گئی۔ بعد میں میجراظہرکہنے لگے۔ ہم نے تو محض بریگیڈئیرصاحب کی وجہ سے یہاں نماز پڑھی ہے۔ کیا مجبوراً پڑھی گئی نماز کا ثواب ملے گا؟ میں نے کہاجو نماز آ پ اپنی مرضی سے پڑھتے ہیں کیااس کاثواب ملے گا؟۔۔ میری بات پر میجراظہر اور طاہرنے بھرپور قہقہے لگائے۔ طاہر نے تو اتنی بارداددی کہ مجھے وضاحت کرناپڑی کہ حضرت رابعہ بصریؒ، دعافرمایاکرتی تھیں: اے خدا اگر میں اس لالچ کی وجہ سے تیری عبادت کرتی ہو ںکہ تو مجھے جنت میں داخل کرے تو مجھے ہرگز جنت میں داخل نہ کرنا۔اور اگر میں اس خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں کہ کہیں تومجھے جہنم میں نہ ڈال دے تو مجھے ضرورجہنم میں ڈالنا۔لیکن اگر میں تیری عبادت تیری محبت میں کرتی ہوں تو پھر تو مجھ سے جوچاہے سلوک کر۔ میں خوش ہوں۔۔ یہ بات بتاکر میں نے کہاکہ عبادت تو ثواب اور عذاب کی مقصدیت سے بالاتر ہوتی ہے۔ سچی عبادت اپنااجرآپ ہوتی ہے۔ میری بات سن کرطاہر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی او رکہنے لگااب آپ بالواسطہ طورپر اپنا ادبی موقف بیان کرنے لگے ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں سچاادب بھی سچی عبادت کی طرح اپنا اجرآپ ہوتاہے۔
کالج کی ایک اور دعائیہ تقریب میں بھی مذکورہ پیرصاحب آئے ہوئے تھے۔ درودشریف کی فضیلت پر انہوں نے بڑاعمدہ لیکچردیا۔دوران تقریر انہوں نے فرمایاکہ مسلمان کو درود شریف پڑھنے کااجردنیا میں ملے نہ ملے آخرت میں ضرور ملتاہے لیکن اگر کوئی کافر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے تو اسے آخرت میں تو نہیں لیکن اسی دنیامیں ہی اس کا اجر مل جاتاہے۔تقریب کے بعد جب لڈو تقسیم ہونے لگے تو طاہر آہستہ سے مجھے کہنے لگازیادہ سے زیادہ لڈو لے لیں چونکہ ہمیں درود شریف پڑھنے کاجواجرملناہے اسی دنیامیں ملناہے۔ طاہرکاجملہ سنتے ہی فارسی کا ایک شعریادآگیا:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تارِ گشتہ حاجتِ زنّار نیست
امام غزالی کی طرح طاہرنے بھی کوچۂ الحاد کی سیر کی ہے۔ مذہب کے نام لیواؤں کی نفرت انگیزاورانسانیت سوز حرکات نے اسے مذہب سے بدظن کردیاتھا۔ پھر پرویز صاحب کامطالعہ کرنے سے اسے دوبارہ دین سے رغبت ہوئی۔ خودسیدھاسادہ مسلمان ہے لیکن پرویز صاحب کی دینی خدمات کا مداح ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کی حالت زار پر میں نے اسے کڑھتے دیکھاہے۔ ایک بارکہنے لگامسلمانوں کے تنزل کا سبب ان کی فرقہ پرستی اور خوش عقیدگی ہے۔ ہلاکو خاں کے بغداد پر حملہ کے وقت بڑے بڑے علماءان ایمان افروز موضوعات پر مناظرہ بازی میں مشغول تھے کہ سوئی کے ناکے میں سے سترہزار فرشتے بیک وقت گزرسکتے ہیں یانہیں؟اور حضرت آدم کی ناف تھی یانہیں تھی؟۔۔ ایک طرف یہ مناظرہ بازی تھی، دوسری طرف یہ خوش عقیدگی کہ خلیفہ کوخدانے بنایاہے کوئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگاسکتا۔ چنانچہ جب ہلاکوخاں نے پورے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تب خلیفہ کوہاتھ لگانے کی جرأت نہیں کی۔ بس ایک قالین میں اسے رول کرکے، اس پر گھوڑے دوڑا دوڑاکر اسے ہلاک کرایا۔ طاہرکا خیال ہے کہ جب تک مسلمان متحدہوکرسچے دل سے قرآن پرعمل پیرانہیں ہوتے ان کے اچھے دن نہیں آسکتے۔قرآن پر عمل کرنے کے لئے ان تمام روایات کو چھوڑناہوگاجن کی وجہ سے مسلمان گروہ درگروہ ہوتے چلے گئے اور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
۔۔۔۔طاہرنے سبط حسن کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ میں نے اسے ”مزید گمراہ“ کرنے کے لئے سید علی عباس جلالپوری کی کتابیں پڑھنے کی راہ پر لگادیا۔ سیدصاحب کو پڑھتے پڑھتے اسے فلاسفروں کو پڑھنے کا شوق چرایا۔ طاہر نے اپنے شوق سے مجھے آگاہ کرتے ہوئے یہ شکایت کی کہ یونانی فلاسفرخاصے مشکل ہیں۔ ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔میں نے علیگڑھ کے مشہور اسٹائل میں کہا:
کہا ہم فلسفہ پڑھ لیں کہا تم فلسفہ پڑھ لو
کہا یونان کا ڈر ہے کہا یونان تو ہو گا
طاہردیرتک اس ”تک بندی“ کا لطف لیتارہاپھر کہنے لگایونان تو ہمارے ہر شعبۂ علم پر چھایاہواہے۔ اس سے نجات ممکن نہیں۔
اپنے بھائی سے اسے محبت ہے۔ بہنوں سے بے حد محبت ہے۔ بھانجیوں سے دوستی ہے۔ بھتیجے سے یاری ہے(اور اب تو شادی شدہ بھی ہوگیاہے) لیکن والد اور والدہ کے معاملے میں بے حد جذباتی ہے۔ایک بار اطلاع ملی کہ والدہ کو سرپرچوٹ لگی ہے۔ طاہر فوراً سرگودھاجانے کے لئے تیارہوگیا۔میں نے اسے سمجھایاکہ پہلے فون پر معلوم کرلوپھر جیسے جی چاہے کرنا۔ طاہر نے فون کیاتو دوسری طرف سے والدہ نے ہی فون اٹھایااورطاہرکو اپنی خیریت بتائی، تسلی دی۔ اس وقت مجھے ایسے لگاجیسے کوئی چھوٹا سا بچہ ماں کے سینے سے چمٹاہوااس کا سارا درد اپنے سینے میں اتاررہاہو۔ طاہر کی حالت ایسی جذباتی ہورہی تھی کہ فون پر بات ہوجانے کے بعد ہم دونوں دیر تک خاموش رہے۔
اُس جذباتی حالت کے حوالے سے تو ہم آج تک خاموش ہیں۔
٭٭٭