(مبارکہ)
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
بیوی۔۔بالخصوص زندہ بیوی کا خاکہ لکھنااپنی خیریت کو داؤپر لگانے اور شیر بلکہ شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔بہرحال میں اقرار کرتاہوں کہ جو کچھ لکھوں گا سچ سچ لکھوں گا۔ سچ کے سوا کچھ نہ لکھوں گا۔ اللہ میری حفاظت فرمائے۔(آمین)
۔۔۔۔مبارکہ میری ماموں زاد ہے۔ میں غالباً چھ سال کاتھا، مبارکہ دو سال کی تھی۔ ہمارے بیشتر رشتہ دار ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ کسی تقریب کے باعث اوربہت سارے عزیز بھی جمع تھے۔ بڑی ممانی نے لاڈسے پوچھافلاں سے شادی کروگے؟ میں نے صاف انکار کردیا۔ پھر پوچھاگیا کس سے شادی کروگے؟۔ ۔ میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہااس کے ساتھ کرو ںگا۔ شاید بڑی ممانی کو میری پسند پر کوئی اعتراض تھایااپنی تجویز رد کئے جانے کا افسوس، فوراً بولیں: ”ہم ریاستیوں (سرائیکیوں) کو ایک رشتہ دے کر ہی بھولے ہیں۔ اور کسی ریاستی کو اب رشتہ نہیں دینا“۔۔ اس کا جواب مجھے اپنی یادداشت میں کہیں نہیں ملتا البتہ خاندان میں بڑی مستحکم روایت موجودہے کہ میں نے جواباًکہاتھا: اگر آپ مبارکہ سے شادی نہیں کروگے تو جب یہ روٹیاں پکارہی ہوگی جیپ لے کر آؤں گا اور اسے اس میں بٹھاکرلے جاؤں گا۔۔ ماموں ناصر جوپاس ہی بیٹھے تھے، میرا جواب سن کر بڑی ملائمت سے بولے: بیٹا!تم شرافت سے آنا میں خود ہی تمہیں بیٹی دے دوں گا۔
بچپن میں غیرشعوری اور غیر ارادی طورپر کہی ہوئی مذاق کی ایک بات اتنی سنجیدگی اختیارکرگئی کہ اب وہ سارا مذاق وجدانی معلوم ہوتاہے۔ممانی مجیدہ فوت ہوگئیں تو ماموں ناصر کے لئے بچوں کو سنبھالنا مسئلہ بن گیا۔ انہوں نے اپنے بیان کے مطابق خود ہی رشتے کا انتظام کردیا۔ یعنی اس زبانی مذاق کے ٹھیک بارہ سال بعد ہمارے ساتھ عملی مذاق ہوگیا۔ میں اٹھارہ سال کاتھا، مبارکہ چودہ سال کی تھی جب ہماری شادی ہوگئی۔ ہماری شادی کیاتھی گڈی، گڈے کابیاہ تھا۔مجھے کچھ پتہ نہ اسے کچھ خبر! بے خبری کے عالم میں ولیمہ بھی ہوگیا۔ کئی دن گزرگئے اور ہم بے خبری کی جنت میں سوتے رہے۔ پھر یکایک، از خود آگہی کا کوندالپکا۔ او رپھر ہم پتوں سے اپنے تن ڈھانپنے لگے۔ آدم اور حوا کی کہانی آگے بڑھنے لگی۔
بچپن کے اس واقعہ کے حوالے سے میں نے ایک دفعہ مبارکہ سے کہا: بچپن کی معمولی غلطی کی کتنی بڑی سزاملی ہے۔۔ اس نے فوراً کہا: غلطی آپ کی تھی، سزا میں بھگت رہی ہوں۔۔ خیربات ہورہی تھی آدم اور حواکی کہانی کی۔ اس کہانی میں اتوار کے دن کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ میں اتوارکے دن پیداہوا، مبارکہ بھی اتوارکے دن پیداہوئی، ہمارانکاح بھی اتوارکے دن ہوا۔ پہلی بیٹی رضوانہ اتوارکے دن پیداہوئی۔ پہلا بیٹا شعیب اتوار کے دن پیداہوا۔ آخر حکومت پاکستان نے تنگ آکر اتوار کی سرکاری چھٹی ختم کردی اور چھٹی کے لئے جمعہ کادن مقررکردیا۔
۔۔۔۔لڑکپن کے دو سال ہم نے اکٹھے گزارے تھے۔ پتہ نہیں یہ بچپن کی نامزدگی اور لڑکپن کی انڈرسٹینڈنگ تھی یا کچھ اور۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے مزاج شناس بن گئے۔ پھر بات مزاج شناسی سے بڑھ کر محبت اور دوستی کی سطح تک پہنچی اور وہاں سے بھی آگے بڑھی تو اس مقام کے بیان کے لئے کوئی لفظ نہیں ملا۔ بیوی، دوستی اور محبت۔۔ یہ سارے مقدس رشتے اب مبارکہ کے سامنے چھوٹے پڑگئے ہیں۔ (خدا کرے مبارکہ پر اس جملے کا کچھ اثر ہو)
۔۔۔۔میں نے کتابی سلسلہ ”جدید ادب“ جاری کیا۔ اس میں مبارکہ کی تمناؤں کالہوشامل تھا۔ ہر شمارے کے ساتھ اس کا ایک آدھ زیوربک جاتا۔ اس اللہ کی بندی نے ایک دفعہ بھی تکرار نہیں کی۔جب تک ا س کازیورساتھ دیتارہا ”جدید ادب“ جاری رہا۔ زیور ختم ہوگئے تو ”جدید ادب“ بھی بندہوگیا۔اب سوچتاہوں میں نے اس کے ساتھ ظلم کیاہے۔ لیکن مبارکہ نے بھی تو میرے ساتھ ظلم کیاہے۔ میرے اچھے برے ہر طرح کے کاموں میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ کسی نازک موڑ پر آکر اگر ساتھ دینا ممکن نہیں رہاتو اس نے کنارے پر کھڑے ہوکر نظارہ کیامگر مجھے دباؤڈال کر روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے اس طرز عمل نے میری عادتیں بگاڑدی ہیں۔ میری ”گمراہیاں“ اسے معلوم ہیں میرے” گناہ“ اس کے علم میں ہیں لیکن مجال ہے اس نے کبھی مجھے شرمندگی کا ہلکاسااحساس بھی دلایاہو۔
امی جی اور مبارکہ میں گہری انڈرسٹینڈنگ تھی۔ ساس بہو میں کبھی کبھی بدمزگی بھی ہوتی مگر ایسی نہیں جس میں اباجی کو یامجھے مداخلت کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ جلدہی ساس، بہو کی جگہ پھوپھی، بھتیجی آگے آجاتیں اور خود ہی سارا معاملہ سنبھال لیتیں۔ آخر دم تک امی جی اور مبارکہ ایک ساتھ رہیں، صرف ایک سال کا عرصہ دونوں کو الگ رہناپڑا کیونکہ خانپور چھوڑکراباجی اورامی جی نے بالائی پنجاب میں سکونت اختیارکرلی تھی اور ملازمت کے باعث ہم شوگرملز کی کالونی میں شفٹ ہوگئے تھے۔ اس ایک سال کے عرصہ میں بھی مبارکہ، امی جی سے ملنے کے لئے دودفعہ گئی۔۔ اسی دوران اباجی وفات پاگئے۔ شدید صدمے کااثر زائل ہونے لگاتوسارے عزیز اپنے اپنے ٹھکانوں کولوٹنے لگے۔ اکبر اور طاہر بھی امی جی سے اجازت لئے بغیر اپنی بیگمات کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ جاتے جاتے امی سے اتنا کہہ گئے کہ عدت پوری کرکے ہمارے ہاں آجائےے گا۔ مبارکہ جانتی تھی کہ امی جی اس طرح تو کسی بیٹے کے پاس بھی نہیں جائیں گی۔ اس نے مجھے الگ کرکے سارے صورتحال سے آگاہ کرکے کہا میں ایسی حالت میں پھوپھی کو اکیلے نہیں چھوڑسکتی۔ آپ جاکر بچوں کے سکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ بھجوادیں۔ میں اب پھوپھی کے پاس ہی رہوں گی۔ چنانچہ پھر مبارکہ اور بچے امی جی کے پاس ہی رک گئے۔
میں نے کہیں پڑھاتھاکہ میاں بیوی میں محبت بہت زیادہ ہو تو دونوں کی شباہت یکساں ہوجاتی ہے۔ فیض اور ایلس کی تصویریں دیکھ کر یہ بات سچ معلوم ہونے لگتی ہے۔ میرا خیال ہے میری اور مبارکہ کی شکلوں میں بھی کچھ ایسا تغیر رونما ہورہاہے۔ ”من توشدم تو من شدی“ کی حد تک تو محبت ٹھیک تھی لیکن جب ا س مقام سے آگے بڑھی تو پھر دونوں کی شکلیں بگڑنے لگیں اور بگڑتے بگڑتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ ”تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم“۔۔۔۔۔۔ اچھی بھلی شکلیں بگڑ گئیں مگر ہماری محبت کی شدت توثابت ہوگئی۔
میں اپنی فکر ی آزادہ روی کے باعث مبارکہ کے لئے بہت تکلیف کے سامان پیدا کر بیٹھا ۔ مذہبی تعصّب رکھنے والے عزیزوں نے طوفان اٹھالیا۔ مبارکہ دوہرے عذاب میں تھی۔اپنی سوسائٹی کو چھوڑنا بھی اس کے لئے ممکن نہیں تھا اور مجھ سے علیحدگی کابھی وہ سوچ نہیں سکتی تھی۔ میرا خیال ہے انسان کی مظلومیت بجائے خود ایک طرح کا مقام ولایت ہے۔ مبارکہ مظلومیت کی حالت میں تھی۔ محلے کی ایک پردھان عورت نے کہا: مبارکہ کوحیدر سے طلاق لے لینی چاہئے۔۔ چندماہ کے اندر اسی عورت کی اپنی نوبیاہتا لیڈی ڈاکٹر بیٹی کو طلاق ہوگئی۔ ہمارے ایک ”بزرگ“ نے امریکہ سے دباؤڈالا اور میرے ساتھ مبارکہ کے سماجی بائیکاٹ کا حکم صادرکردیا۔ حکم نامے کے ایک ماہ کے اندر ان کے اپنے خاندان میں بیٹے بہو میں پھوٹ پڑگئی جو بالآخر دونوں میں علیحدگی پر منبتح ہوئی۔ اسے مکافاتِ عمل کہئے۔ نظامِ فطرت کہئے یا مظلوم پر جبر کا انجام۔ رہے نام اللہ کا!
۔۔۔۔مبارکہ صاف دل اور صاف گو عورت ہے۔ محبتی بیوی اور بے تکلف ماں ہے۔ رضوانہ کو دیکھ کر عام طورپر ناواقف خواتین یہی سمجھتی ہیںکہ مبارکہ کی چھوٹی بہن یانند ہوگی مگر جب انہیں معلوم ہوتاہے کہ یہ اس کی بڑی بیٹی ہے تو حیران ہوتی ہیں ۔ماں بیٹی میں صرف ساڑھے سولہ سال کا فرق ہے جبکہ میرے سب سے چھوٹے بھائی اعجاز اور میری عمر میں انیس سال کافرق ہے۔ (پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے)۔ اپنے پانچوں بچوں رضوانہ، شعیب، عثمان، طارق اور درِّ ثمین کے ساتھ مبارکہ نے دوستی کررکھی ہے۔ ماں والی دھونس نہیں جماتی البتہ دوستانہ دھونس ضرور جمالیتی ہے۔
۔۔۔۔کسی کی شادی ہو۔۔مبارکہ شادی بیاہ کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ جب لڑکی کی رخصتی کا وقت آتاہے دلہن سے زیادہ اس کے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں۔ میں اس کی اس رقیق القلبی سے خاصا تنگ تھا۔ خدا بھلاکرے ماموں سمیع کی بڑی بیٹی نوشی کا۔۔ نوشی کی رخصتی ہونے لگی تو ممانی راشدہ پرسکون تھیں۔ چھوٹی بہنیں مطمئن ۔مگرا ن کی کزن مبارکہ بیگم حسب معمول روروکر ہلکان ہورہی تھی۔ اتفاق سے میری نظر نوشی کی طرف اٹھ گئی۔ دولہا کے ساتھ گھر سے باہرآتے ہوئے بی بی مسکرارہی تھی۔۔ گاڑیاں رخصت ہوتے ہی میں نے مبارکہ بیگم کوپکڑلیا۔ یہ کیا شرافت ہے۔ جس کی شادی ہے وہ مسکرارہی ہے۔ اس کی ماں بہنوں کے چہروں پر اطمینان ہے اور آنجناب روروکر ہلکان ہورہی ہیں۔ اللہ اس کا بھلاکرے کہ تب سے اس نے شادی بیاہوں پر رونے دھونے کا سلسلہ فی الحال ترک کردیاہے۔ (فی الحال اس لئے کہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر وہ ساری کسر نکالے گی٭)
۔۔۔مبارکہ کو مشرقی پنجاب سے غائبانہ انسیت ہے۔ اس کی ظاہروجہ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے کئی برس بعد ممانی مجیدہ ہندوستان گئیں تو وہیں مبارکہ کی پیدائش ہوگئی۔ ممانی مجیدہ سے ہی اسے معلوم ہواکہ اس کی زچگی کرانے والی خاتون کانام پیاری دیوی تھا۔ سواسے مشرقی پنجاب سے بھی ایک لگاؤہے اور ”پیاری دیوی“ نام بھی بہت پیارا لگتاہے۔ ا س انسیت کی بعض لاشعوری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔مثلاً مبارکہ کے ددھیال، ننھیال سب مشرقی پنجاب سے پاکستان آئے تھے اور کئی جانوں کانذرانہ دے کرپاکستان پہنچ پائے تھے۔ ہوسکتاہے آباؤ اجداد کی سرزمین سے اسے لاشعوری طورپرمحبت ہو۔ پھر مبارکہ ذات کے لحاظ سے باجوہ جٹ ہے جوپنجابی جٹوں کی ایک اعلیٰ ذات ہے۔ پانچویں چھٹی پشت سے یہ لوگ سکھ تھے۔ اب جومشرقی پنجاب میں سکھوں کی تحریک چل رہی ہے ممکن ہے مبارکہ کے اندر کی چھپی ہوئی سکھنی کو مشرقی پنجاب کی موجودہ حالت کے باعث بھی اس علاقے سے انسیت محسوس ہوتی ہو۔۱۹۸۷ء میں ہم بھارت گئے تو مبارکہ کی شدید خواہش تھی کہ مشرقی پنجاب کے علاقے دیکھے جائیں مگر دہلی میں بعض دوستوں نے سمجھایاکہ وہاں کے حالات بے حد خراب ہیں۔ ایک دوست نے کہا ویزہ میں کل لگوادیتاہوں مگر آپ لوگوں کو ادھر جانے نہیں دوں گا۔دراصل انہیں دنوں میں پنجاب میں ایک بس روک کر اس کے تمام مسافروں کو بغیر کسی تخصیص کے ہلاک کردےاگیاتھا۔ اسی وجہ سے دلی کے دوستوں نے ہمیں مشرقی پنجاب نہیں جانے دیااور اس علاقے کو دیکھنے کی مبارکہ کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔
میری شاعری کو اس کے پورے پس منظر کے ساتھ جاننے والی واحدقاری مبارکہ ہے۔ اسے علم ہے کہ میری کون سی غزل یا نظم کب کہی گئی اور کیوں کہی گئی۔۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ میں کس کس کویہ باورکراچکاہوں کہ فلاں غزل درحقیقت آپ کے لئے کہی گئی او ریہ بھی علم ہے کہ اصلاً کس کے لئے کہی گئی۔ میری شاعری سے باہر کے اس سارے کھیل تماشے کو مبارکہ نے مزے لے کردیکھاہے۔ میری دوستوں سے اس نے کبھی خارنہیں کھائی، الٹا محبت کی۔
ایک دفعہ میری ایک بہت اچھی دوست نے مبارکہ کی موجودگی میں بتایاکہ ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والے ایک ماہر نے بتایاہے کہ تمہاری شادی کسی میرڈMarried سے ہوگی۔کوئی اور شاعر ہوتاتواس کی بیوی نے جوطوفان اٹھایاہوتااس کی لہریں اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں تک پہنچتیں مگر مبارکہ نے زوردار قہقہے میں ساری بات اڑادی۔ ایک دفعہ بعض عزیزوں نے اسے سمجھایاکہ مردکااتنااعتبارکرنا بھی ٹھیک نہیں ہوتا(گویا تھوڑابہت شک کرتے رہناچاہےے) مگر مبارکہ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جھلاکر ایک عزیز نے یہاں تک کہہ دیا: اب تمہاری آنکھیں اسی وقت کھلیں گی جب وہ بچوں سے بھراٹوکرالے کر گھر آئے گا۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتاہے مبارکہ کے اندروہی دوسال کی بچی بیٹھی ہے جسے دیکھ کر میں نے کہاتھااسی کے ساتھ شادی کروں گا۔ معصوم، بھالی بھالی ایسے کبوتر(بلکہ کبوتری)کی طرح جو بلّی کو دےکھ کر آنکھیں بند کرلے اور خود کو محفوظ سمجھ لے۔مگر نہےں۔۔ مبارکہ نے توآنکھیں بھی ہمیشہ کھلی رکھی ہیں اور بلیو ںکو دیکھ کر بھی خود کو محفوظ سمجھتی رہی ہے۔ قدرت خداکی۔ ہر خطرے سے محفوظ بھی گزرجاتی رہی ہے۔ہرچند اس میں خدا کی قدرت کے ساتھ میری شرافت کا بھی دخل ہے۔
ایک دفعہ میں نے مبارکہ سے پوچھا: تمہیں مجھ پر اتنااعتمادکیوں ہے؟
”اعتماد“؟۔۔مبارکہ نے حیرت سے کہااو رپھر رواں ہوگئی ”تمہارے ساتھ شادی کون کرے گی؟ کس کا دماغ خراب ہے؟شکر کروکہ میں مل گئی ہوں اور وہ بھی اس لئے کہ تمہارے ماموں کی بیٹی ہوں“
ان جملوں سے ہمارے درمیان پائی جانے والی (یک طرفہ) بے تکلفی کااندازہ کیاجاسکتاہے۔اس سے زیادہ مبارکہ کے بارے میں لکھنے کی جرأت نہیں۔ اس خاکے کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی۔
٭٭٭