سعد کی طرف باپ نے دیکھا اور پوچھا کہ بتاو بیٹا تم کیا کہتے ہو نتاشا سے شادی کرو گے یا عروبہ سے۔ عروبہ نے اسے کچھ غصے اور کچھ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو تو وہ اسے ترچھی نظر سے دیکھ کر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا اس بھوتنی کو ہی آزما لیتے ہیں۔ وہ تیزی سے اٹھی اور غصے سے اٹھی کشن اٹھایا اور بولی بھوتنی کسے بولا ہے خود ہو گے جن بھوت۔ باپ نے ایکدم ڈانٹا اور کہا کہ شوہر کی گاوں میں بہت عزت کی جاتی ہے۔ تم نے وعدہ کیا ہے کہ اپنے آپ کو چینج کرو گی۔
وہ وثوق سے بولی تو بدلوں گی نا۔ نرگس بولی تمھارے انکل کو کیسے یقین آئے گا تو عروبہ اکتا کر بولی پھر کیسے یقین دلاوں۔ نرگس نے کہا کہ چلو جا کر نتاشا کی شلوار قمیض پہنو دوپٹہ سر پر لو اور چاے اور پکوڑے بنا کر لاو۔ وہ چلا کر بولی کیا میں نتاشا کے کپڑے پہنوں۔
باپ نے کہا کیا ہوا تمھاری بہن ہے۔ وہ بولی ڈیڈ میں اکلوتی ہوں میری کوئی بہن نہیں۔
نرگس نے کہا کہ تم سے نہیں ہو سکتا رہنے دو۔ یہ مجھے شوہر کے سامنے ابھی سے شرمندہ کروا رہی ہے۔ میرا خیال ہے نتاشا کو ہی۔ ابھی وہ اتنا ہی بولی تھی کہ عروبہ جلدی سے بولی اچھا آنی میں کرتی ہوں۔وہ تیزی سے کچن میں چلی گئی۔
ہما نے کہا کہ بیٹا نتاشا سے سیکھ لو تو وہ جھٹ سے بولی نو تھینکس میں نیٹ پر سے ریکھ لوں گی۔
ماں نے کہا کہ بیٹا ہر چیز نٹ سے نہیں سیکھی جا سکتی۔ مگر وہ نہ مانی۔
نرگس نے ہما اور نتاشا کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ نتاشا خاموش اور اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ ہما نے نتاشا کو دیکھ کر کہا نتاشا تمھاری طبیعت خراب ہے جا کر لیٹ جاو وہ تیزی سے اٹھ کر چلی گئی۔
نرگس نے پوچھا عروبہ کیا کر رہی ہے ہما نے بتایا نٹ پر دیکھ کر پکوڑے بنا رہی ہے۔
عروبہ کو بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔کوئئ چیز آسانی سے نہ مل رہی تھی۔ ماں کو بھی نہیں بلا سکتی تھی کہ وہ لوگ سمجھتے کہ ماں نے بناے ہیں۔ نتاشا سے وہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔ بڑی مشکل سے چیزیں پوری کیں۔ اور جلدی جلدی بنانے لگی۔
ساجد کو بیٹی کی فکر ہو رہی تھی اس نے ہما سے کہا کہ وہ تیل گرم ہوتا ہے جلا نہ لے تو نرگس بولی بچی نہیں ہے کر لے گی۔ ہما کو بھی اندر سے فکر ستا رہی تھی مگر مجبور تھی۔
نتاشا لیٹی چھت کو گھور رہی تھی آنسوؤں کا سلسلہ روانی سے جاری تھا۔ اپنی قسمت پر غور کر رہی تھی کہ کیا قسمت تھی اس کی۔ وہ سوچنے لگی اس نے تو کھبی کسی کا برا نہیں چاہا تھا برا چاہنے والوں کی بھی دل سے خدمت کی تھی پھر جب اس نے سنا کہ عروبہ کی جگہ اسے قبول کیا گیا ہے تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ کتنے خواب اس کی آنکھوں میں سج گئے۔ مگر تعبیر کتنی بھیانک نکلی۔ اس کو ہما ہمیشہ سمجھاتی کہ کھبی خواب نہ دیکھنا کیونکہ خواب انسان اپنی مرضی سے دیکھتا ہے اور تعبیر رب العزت کی مرضی سے ہوتی ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہوتی ہے بس انسان اس کی رضا میں خوش رہے َاور رب العزت پر بھروسہ رکھے کہ جو بھی ہوا وہ اس کے بھلے کے لیے ہوا۔ تو اس صبر کا اس کو ایسا اجر ملتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے پر شرط یہ ہے کہ رب العزت کے ہر فیصلے کو خوشی سے قبول کرے اور اس کے فیصلے پر شاکر رہے۔اس نے رو کر اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے پیارے رب میں جانتی ہوں کہ تو نے جو میرے ساتھ کیا وہ میرے بھلے کے لیے کیا تیری منطق میں نہیں سمجھ سکتی۔ تو مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما اور مجھے پرسکون زندگی عطا فرما اب مجھ میں اور سہنے کی سکت نہیں ہے۔ میں تیرے ہر حکم پر راضی اور خوش ہوں۔ مجھے معاف فرما۔ اور کروٹ لے کر آنکھیں موند کر لیٹ گئ۔
سب ڈراہنگ روم میں عروبہ کے چاے پکوڑوں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ ٹرالی سجاے اندر آئی۔ ابھی تک اس نے ہاف بازو ٹی شرٹ اور چست ٹراوزر پہنا ہوا تھا۔
نرگس نے ٹوکا تم نے ابھی تک کپڑے چینج نہیں کیے کم از کم دوپٹہ ہی لے لیتی۔
وہ بولی آنی میں نے ابھی نہا کر چینج کرنے ہیں میں نے سوچا چاے ٹھنڈی ہو جائے گی اور پکوڑے بھی۔ بس میں ابھی آئی۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے نکل گئی۔
ساجد نے پہلی بار اس کے اس چست لباس کو دیکھ کر شرمساری محسوس کی۔ ورنہ تو وہ خود اسے ساتھ لے جا کر ایسے لباس لے کر دیتا تھا۔
ہما اٹھی اور چاے اور پکوڑے سرو کرنے لگی۔ چاے ٹھیک تھی مگر پکوڑے کچھ عجیب ٹیسٹ کے تھے۔ کھانے میں ٹیسٹی تھے۔
نرگس نے پوچھا یہ کس چیز کے بنے ہوئے ہیں۔
اتنے میں عروبہ شلوار قمیض میں ملبوس آ گئی۔
آتے ہی لاڈ سے لمبا سا کر کے بولی آنئ میں کیسی لگ رہی ہوں اس نے سر ہلایا اور کہا کہ سر پر دوپٹہ لو تو وہ سر پر دوپٹہ لے کر بیٹھ گئی۔ سعد بہت خوش دکھائی دے رہا تھا بڑے زوق وشوق سے پکوڑے کھا رہا تھا۔
عروبہ سب کو پکوڑے کھاتے بس دیکھ رہی تھی۔
وہ پوچھنے لگی کہ کیسے بنے ہیں۔
نرگس بولی لگتا ہے یہ بیسن کے نہیں ہیں۔ عروبہ جلدی سے بولی آنئ سچی بیسن کے ہیں۔
ہما نے نظریں جھکاے بتایا کہ لگتا ہے اس نے بیسن کی جگہ مکئ کا آٹا ڈال دیا ہے۔ سب ہنسنے لگے۔ عروبہ شرمندگی سے بولی سوری۔
نرگس کے شوہر نے کہا کہ پہلی بار ہے کوئی بات نہیں بہرحال کوشش اچھی ہے شاباش۔
نرگس نے حکم دیا کہ اب یہ برتن لے جاو۔ وہ خاموشی سے برتن سمیٹنے لگی سعد دیکھ کر مسکرا رہا تھا دوپٹہ اس سے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ سعد کو غصے سے آنکھیں دیکھانے لگی۔ اس نے اٹھ کر ساتھ برتن سمیٹنے میں مدد کی۔
نرگس کچن میں آئی اور عروبہ سے بولی یہ چاے بنانے میں پورا کچن بھر دیا ہے اسے سارا سمیٹو۔ پیچھے باپ آ گیا اس نے کہا آپا میری بیٹی نے ہم سب کو چیلنج کیا ہے دیکھنا یہ اب کھبی ہارے گی نہیں اور اب نتاشا سے بھی اچھی بن کر دیکھاے گی
نرگس بولی امید تو نہیں ہے آج بھی اس نے پکوڑے کس چیز کے بنا دیے۔ ابھی ہمارے نکلنے کی دیر ہے اس نے واپس اپنی ڈگر پر آ جانا ہے۔ نہ کوئی کام کاج سیکھنا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ لوگ اب نتاشا کے سارے کام اسے سکھاو اسے گھر کے سارے کام آہیں گے تب ہی میری ساس اسے قبول کرے گی رشتہ اگر ہو بھی جائے تب بھی آخری دن تک مجھے اپنی نند سے خطرہ رہے گا۔ اس نے صاف کہا ہے کہ بھائی کے لیے شہر کی لاے تھے تو وہ رچ بس نہ سکی اور بھائی بھی چلا گیا اب گاوں کی یا ایسی لڑکی ہو جو ادھر رچ بس جائے۔ گھر میں ننف کی چلتی ہے۔ اس نے نتاشا کا انتخاب کیا ہے کہ وہ اس گھر کے لیے مناسب ہے۔ میں اس کے آگے مجبور ہو گئی ہوں۔ سعد بھی ان سب کے ساتھ متفق ہے۔ اب اگر اس نے نتاشا جیسا بننا ہے تو تب ہی ادھر اس کی جگ بن سکتی ہے۔ اب ایک منٹ ضائع کیے بغیر اس کی ٹریننگ شروع کر دیں جب تک میری نند آتی ہے فاہنل فیصلہ وہی کرے گی۔ شکر ہے میرے شوہر نیم رضامند ہو گئے ہیں ورنہ مجھے کوئی امید نہ تھی۔
ساجد نے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ نرگس نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے مجبور ہو کر نتاشا کو ہی بہو بنانا پڑے گا کیونکہ اسے نتاشا بہت پسند ہے۔ اب جب تک وہ امریکہ سے آتی ہے آپ لوگ اسے تیار کر لیں ورنہ نتاشا تو ہے ہی۔ عروبہ کو نتاشا کے نام سے آگ لگ گئی اس نے بھی دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ ہار نہیں مانے گی اور نتاشا کو جیتنے نہیں دے گی۔
نرگس کے جانے کے بعد ساجد نے کہا کہ چلو بازار تمھارے لیے شلوار قمیض والے سوٹ خریدنے ہیں اب پرانے ڈریس کو بھول جاو۔ پہلی بار عروبہ کو اس شاپنگ کی خوشی نہ ہوئی۔ اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا کہ یہ نہ ہو کہ نرگس کی نند اسے ریجیکٹ کر کے نتاشا کو قبول کر لے۔ اس نے دل میں عزم کر لیا کہ وہ نتاشا کو جیتنے نہیں دے گی۔
ساجد اسے لیکر بازار چل پڑا اور ساتھ والی پڑوسن خالہ آ گئ۔ وہ ہما سے پوچھنے لگی کہ کیا بات ہے تو ہما نے ساری بات خالہ پڑوسن کو بتا دی کہ وہ لوگ نتاشا کو بہو بنانا چاہتے تھے اور عروبہ نے ان کو سنا دیں۔
خالہ پڑوسن بولی تو کتنی بےوقوف ہے جب تیری اپنی بیٹی کی قسمت کھل رہی ہے تو تو اب بھی بےبسی دیکھا رہی ہے۔ تو نے بہت قربانیاں دے لیں۔ ہما نے روتے ہوئے کہا کہ وہ کیا کرے پھر وہ پچھلی باتیں دہرا کر رونے لگی کہ وہ اپنا گھر بچانے کے لیے عروبہ کو اپنی بیٹی بتانا پڑا۔ شوہر نے صاف کہہ دیا تھا کہ لڑکا ہو یا لڑکی بس بچہ خوبصورت ہو ورنہ وہ اور شادی کر لے گا۔ اس جنونی انسان سے مجھے ڈر ہی لگتا تھا جس نے شادی کے بعد بھی چکر چلاے رکھے تھے۔ مجھے اس بےبس بوڑھے سسر پر ترس آتا جس کی جوان بیٹی فوت ہو گئی اور وہ اس کا منہ بھی نہ دیکھ سکا۔ پھر وہ میرا بہت احسان مند تھا کہ میں اس کی نواسی کو پالوں اور اسے اپنی بیٹی بتاوں۔ اس نے کہا کہ وہ حسن پرست ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ کچھ کر گزرے پھر وہ بہن سے نفرت کرتا ہے تو اگر بچی بدل دی تو اسے بہن کی بیٹی سے بھی پیار ہو جائے گا جب جوان ہو گی تو سچ بتا دینا اس وقت تک اسے بہن کی بیٹی سے لگاو ہو چکا ہو گا جو ویسے کھبی ممکن نہیں۔ پھر جب اپنی بیٹی کا پتا لگے گا تو اس وقت تک وہ سمجھدار ہو جائے گا اور خون جوش مارے گا تو وہ اپنی بیٹی کو بھی اپنا لے گا۔
خالہ پڑوسن بولی کہ اب وقت آ چکا ہے بتانے کا ورنہ وہ جاہیداد عروبہ کے نام لگوا دے گا وہ جو کہتا ہے کہ وہ عروبہ کی شادی دھوم دھام سے کرے گا وہ سب کچھ اس پر لٹا دے گا۔ تیری بیٹی سانولی ہے لوگ گورے رنگ پر مرتے ہیں۔ تیری بیٹی کی قسمت کھل رہی ہے تو خود کلہاڑی نہ مار اس کی قسمت پر۔ یہ نہ ہو وہ شادی سے پہلے جاہیداد بھی اس کے نام لگوا دے۔
خالہ پڑوسن نے کہا کہ تو اب بیٹی کو بھی بتا دے سچائی۔ ہما روتے ہوئے بولی میرا حوصلہ نہیں پڑتا کہ سچائی بتا سکوں کس منہ سے یہ ساری باتیں بتاوں کہ تیرا باپ خوبصورت اولاد چاہتا تھا ورنہ وہ خوبصورت اولاد کو پانے کے لئے دوسری شادی کر لیتا وہ میرے بارے کیا سوچے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ میری بیٹی صبر والی ہے۔وہ تو ہر جگہ ایڈجسٹ ہو سکتی ہے۔ مگر عروبہ کی عادتیں میری بہن اور سعد ہی سمجھتے ہیں اور وہ اس کو ان عادتوں سمیت قبول کر رہے ہیں تو میں شکر کرتی ہوں کہ اس کا گھر بس رہا ہے وہ بھی ہماری ہی زمہ داری ہے جب تک عروبہ کی شادی نہ ہو جائے وہ اچھی طرح وہاں رچ بس نہ جائے میں اس راز کو راز رکھوں گی۔ ابھی تو میری بہن بھانجی کی محبت میں اس کی بگڑی عادتوں سمیت قبول کر رہی ہے اگر اسے بتا دیا تو وہ اسے کھبی قبول نہیں کرے گی اور اپنی بھانجی کو ہی فوقیت دے گی۔ دوسری طرف عروبہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گی کہ ہم اس کے والدین نہیں ہیں اور وہ سعد کو بھی کسی اور کا نہیں ہونے دے گی اور یہ نہ ہو کہ وہ اس صدمے سے اپنے آپ کو کچھ کر نہ بیٹھے۔ پھر کیا کروں گی۔ اگر شوہر کو بتایا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا تو وہ اس بات پر بھی ناراض ہو سکتا ہے کہ جھوٹ کیوں بولا۔ میں تو ہر طرف سے پھنس چکی ہوں اپنی بیٹی کے لیے دل دکھتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس کو اب کس منہ سے اپنی مجبوری بتاوں کہ زیادہ سسر نے اس اقدام پر فورس کیا تھا شاید انہیں اپنی پوتی سے زیادہ نواسی کا مفاد عزیز تھا وہ اپنے بیٹے کو ڈانٹ کر سمجھا بھی سکتے تھے کہ خوبصورت اور بدصورت ہونا اپنے بس میں نہیں۔ یہ اوپر والے کی مرضی ہے۔ اس وقت تو وہ باپ کی سنتا بھی تھا مگر اس معاملے میں نہ ہی انہوں نے بیٹے کو سمجھانا ضروری سمجھا بلکہ میں نے جزبات میں آ کر یہ بول دیا کہ ساجد بھانجی سے نفرت کرے گا تو کیوں نا بچی بدل دیں تاکہ اسے اس سے ییار ہو جائے تو بعد میں بتا دیں گے تو انہیں یہ آہیڈیا بہت پسند آیا اور اس پر قاہم رہنے کے لئے مجبور کرتے رہے۔ جب نتاشا کے ساتھ ساجد نے زیادتی کی تو تب بھی انہوں نے بتانے نہ دیا بلکہ وعدہ لیا کہ جب تک عروبہ جوان نہ ہو جائے تم نے چاہے کچھ بھی ہو نہیں بتانا دیکھنا تمھاری اس نیکیوں کے سلسلے میں تمہیں اوپر والا کتنا اجر دے گا اب بس اپنی بیٹی کے لئے اپنے رب سے ہی امید ہے اسی پر بھروسہ ہے۔
اتنے میں نتاشا روتی ہوئی آئی اور ہما کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی بس روتی جا رہی تھی منہ سے کچھ نہ بول رہی تھی۔
پڑوسن خالہ کچن سے جا کر پانی لے آئی۔ بڑی مشکل سے دونوں نے اسے دلاسے دیے اور پانی پلایا تو وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس نے سب سن لیا ہے تو دونوں حیران اس کو پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ہما نے روتے ہوئے جھٹکے سے اسے گلے لگایا اور معافیاں مانگنے لگی وہ اسے ایسے چمٹا چمٹا کر چوم رہی تھی جیسے پہلی بار مل رہی ہو۔ کافی دیر ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے کے بعد ہما نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی تو نتاشا نے اس کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا کہ ماما آپ بہت نیک اور بھولی عورت ہیں جو دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرتی ہیں۔ اور دنیا کے دکھ سہتی ہیں میں آپ سے گلہ نہیں کرتی۔ اس وقت آپ کو جو ٹھیک لگا وہ کیا اب مجھے والدین مل گئے ہیں وہ بھی اصلی۔ مجھے دنیا بھر کی دولت مل گئی ہے۔ بےشک پاپا عروبہ کے نام ساری جاہیداد لگا دیں مجھے کچھ نہیں چاہیے اور نہ ہی آپ کو ساری زندگی اس راز سے پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ عروبہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گی۔ اور آپ نے اسے ایک دن کا پالا ہے اور مجھ میں اور اس میں آپ نے کھبی فرق نہیں رکھا۔ میں پہلے اسے اپنے محسنوں کی بیٹی سمجھ کر پیار کرتی تھی اور اس کی باتوں کا زیادہ برا نہیں مناتی تھی بس وقتی ہرٹ ہر کر جلد بھول جاتی تھی اب مجھے اس پر ترس آ رہا ہے اور پاپا بھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں وہ بھی زہنی ازیت میں مبتلا ہو جاہیں گے سب ڈسٹرب ہو جائیں گے سب کا زہنی سکون تباہ ہو جائے گا اب مجھے تو سہنے کی عادت تھی مگر اب تو میں بالکل بھی برا نہیں مناوں گی اب ہم دونوں تنہائی میں ماں بیٹی کے رشتے کو انجوائے کریں گے۔ میں صرف اپنی خوشی کے لیے سب کی خوشیوں کو گہن نہیں لگا سکتی۔ مجھے جاہیداد نہیں چاہیے۔ اسی طرح چلنے دیں جس طرح سے پہلے چل رہا تھا۔ مجھے اب بس دلی سکون مل گیا ہے کہ میں لاوارث نہیں ہوں والدین کا سایہ میرے سر پر موجود ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر میں ان حالات سے نہ گزرتی تو شاید کندن نہ بنتی۔ مجھے آپ کی تربیت پر فخر ہے۔ عروبہ میری بہن ہے میں اس کی خوشیاں برباد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ آپ اب پرسکون زندگی گزاریں۔ چلیں میں اچھی سی چائے بناتی ہوں اور مل کر پیتے ہیں رونے سے آپ کا سر بھی دکھ رہا ہو گا۔
پڑوسی خالہ نے اسے گلے لگا کر مبارک باد دی اور اپنے آنچل سے آنسو صاف کیے۔ وہ اجازت لے کر چل دی کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔
نتاشا چاے بنانے چلی گئی تو ہما اپنے آپ کو ہلکا پھلکہ محسوس کر رہی تھی۔ اسے اپنی بیٹی پر فخر محسوس ہونے لگا۔ اتنے میں سعد کا فون آگیا اس نے کہا کہ خالہ جانی میں نے نتاشا سے معافی مانگنی ہے آپ فون ریکارڈنگ پر لگا کر اسے سنا دیجئے گا میرا اس سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔
ہما نے کہا اچھا۔ پھر اس نے سب سے پہلے نتاشا سے معافی مانگی۔ اس نے بتایا کہ وہ عروبہ کو بچپن سے پیار کرتا آیا ہے وہ اس سے گریزاں رہتی تو اسکے پیار کو اور ہوا ملتی۔ اس نے نتاشا کو ہمیشہ دل سے بہن تصور کیا تھا مگر والد صاحب اور دادا دادی نے صاف حکم دے دیا کہ وہ نتاشا کو بہو بنانا چاہتے ہیں تو ماں نے عروبہ کا بولا مگر دادا دادی نہ مانے تو پاپا نے ماں کو بلیک میل کیا کہ اگر ان کی بات نہ مانی تو مجھے نہ صرف جاہیداد سے عاق کر دیں گے بلکہ ماما کو بھی گاوں نہیں آنے دیں گے اور خود اکیلے گاوں میں چلے جائیں گے۔ ماں نے مجبور ہو کر مجھے منانا شروع کیا تو میں نے وقتی طور پر جان چھڑوانے کے لیے ہاں بول دی کہ خالہ کے گھر جا کر سب مل کر پاپا کو سمجھائیں گے اور بات بن جائے گی۔ مجھے نتاشا کو آنے سے پہلے سچائی بتا دینی چاہیے تھی مگر یہ میری غلطی ہے۔ نہ جانے نتاشا میرے بارے میں کیا سوچتی ہو گی میں اس سے معافی مانگتا ہوں۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ میرے والدین دادا دادی کے اس فیصلے پر اتنے سیریس ہو جائیں گے وہ تو عروبہ نے ہمت دکھائی۔ مجھے عروبہ کے لباس رہن سہن اور اس کی عادات سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر دو سال کے لئے اسے تھوڑا سمجھا دیں کہ میں بعد میں اسے یا تو ساتھ باہر لے جاوں گا یا شہر لے آوں گا پھر اس پر کوئی پابندی نہیں ہو گی جیسے مرضی کرے۔
میں نتاشا کے لیے بھی اچھے رشتے کے لے کوشاں رہوں گا مجھے اللہُ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ آپ کی نیکیوں کے بدلے اس کے نصیب اچھے کرے گا انشاءاللہ۔