سب نرگس کا انتظار کر رہے تھے کہ اس نے بیل کی۔ ہما نے جا کر دروازہ کھولا۔ نتاشا جا کر جوس لے آئی۔ وہ لوگ جوس پینے لگے۔ اتنے میں عروبہ ڈرائنگ روم میں آئی اور بغیر سلام دعا کیے نرگس سے لڑنے لگی کہ آنی آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں ایک نوکرانی ٹائپ رشتہ دار کو آپ مجھ پر کیسے فوقیت دے سکتی ہیں۔ اور پھر وہ سعد کے سامنے کھڑی ہو کر بولی تمھاری مت ماری گئی ہے یا تمہاری آنکھوں کو کچھ ہو گیا ہے جو تم نے اس بدشکل کالی کلوٹی کے لیے ہاں کر دی۔ وہ چلا کر بولی بتاو کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت اور پڑھی لکھی ہے اس لاوارث لڑکی کو کیسے اپنے گھر میں لانے کا سوچ سکتے ہو۔ پھر وہ نرگس کی طرف مڑی اور وارننگ دینے والے انداز میں بولی یاد رکھنا میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔
ہما نے شوہر کی طرف دیکھا تو اس کی پیشانی پر پسینہ نظر آیا اور آنکھوں میں شرمندگی۔ اس نے ہما کو اشارہ کیا کہ اسے یہاں سے لے جاو۔ بڑی مشکل سے ہما اسے پکڑ کر کمرے میں لے گئی۔
ساجد نے دیکھا سعد کے باپ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے جبکہ نرگس کے چہرے پر شرمندگی۔ سعد کو غصہ ا رہا تھا۔
پہلی بار ساجد کو بیٹی پر غصہ آیا اور وہ اسے سمجھانے معزرت کرتا ہوا اس کے پیچھے گیا۔ اسے سمجھاتے ہوئے بولا یہ کیا بدتمیزی ہے۔ اس دن کے لیے تمہیں اتنے لاڈ پیار سے پالا تھا تم نے آج میرا سر ان لوگوں کے آگے شرم سے جھکا دیا اس کی آنکھوں میں نمی تھی اسی ڈر سے لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے ڈرتے ہیں کہ وہ پرایا دھن ہوتی ہیں اور انہیں گھر سے وداعِ کرنا ہی پڑتا ہے چاہے کتنی ہی لاڈلی ہوں یا دولت کے انبار ہوں۔
عروبہ نے باپ کی طرف دیکھا اور تڑپ گی۔ باپ نے کہا دیکھو نتاشا کوئی غیر نہیں میری بھانجی ہے۔ مجھے تمہارا اس طرح اسے ڈلیل کرنا برا لگا۔ عروبہ نے غصے سے کہا ڈیڈ وہ آپ کی بھانجی ہے بیٹی نہیں۔ بیٹی اور بھانجی میں بہت فرق ہوتا ہے وہ کبھی بیٹی کی جگہ نہیں لے سکتی۔
میں آپ کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں دیکھ سکتی۔ آپ کے دل میں اس کے لئے پیار کیسے امڈ آیا۔
وہ بولا جب لوگوں نے احساس دلایا کہ میں غلط تھا۔ میں نے تمھاری تربیت خود کرنا چاہی اور تمہیں ضدی اور خودسر بنا دیا جبکہ ہما نے نتاشا کی تربیت کی تو اس کی کم صورت کے باوجود اسے لوگ عزت سے اپنانے کے لیے تیار ہیں اور تم اس سے زیادہ خوبصورت ہونے کے باوجود ٹھکرائی گئ ہو۔
اگر اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس لانا چاہتی ہو تو ان لوگوں سے جا کر سوری بولو۔ صرف سوری بولو اور وعدہ بھی کرو کہ تم ان کی خواہشات پر پوری اترو گی جو کافی مشکل عمل ہے۔ اس کے لے تمہیں ٹوٹل چینج ہونا پڑے گا۔ سعد کے بغیر گاوں میں رہنا پڑے گا ان کے ماحول کو اپنانا پڑے گا گھر کے سارے کام کرنے پڑیں گے سب کی خدمت کرنی پڑے گی شلوار قمیض پہننی پڑے گی اور سر پر دوپٹہ لینا پڑے گا۔ سب کا ہر حکم ہر وقت بجا لانا پڑے گا۔ اپنی زات کی نفی کر کے گاؤں کے ماحول کے مطابق رہنا پڑے گا اور میں جانتا ہوں تمہارے لیے یہ سب کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے اس سب کے لیے بڑا دل بڑا حوصلہ اور صبر چاہیے۔ اور نتاشا اس پر پوری اترتی ہے۔ تمھاری خالہ عقلمند عورت ہے وہ جانتی ہے کہ شادی بیاہ کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں۔ بہو پوری نسل کی بنیاد ہوتی ہے۔ جو نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔ میرا بھی اگر کوئی بیٹا ہوتا تو میں نتاشا کو چنتا۔ ہما نے اپنے جیسی تربیت اس کی کی ہے۔ کاش میں نے تمہیں بھی اس کی تحویل میں دے دیا ہوتا تو آج میرا سر یوں شرم سے نہ جھکتا۔
شادی کوئی شاپنگ، سیر سپاٹے اور ہنی مون کا نام نہیں ہے ایک زمہ داری کا نام ہے۔ جو ایک عورت پر پورے گھر کی آ جاتی ہے۔ جیسے ہما نبھا رہی ہے اور نتاشا کو بھی تیار کیا ہے۔ سسرال ہر عورت کے لئے ایک چیلنج ہوتی ہے۔ اپنا تن من مارنا پڑتا ہے اپنی پسند ناپسند کو بھول کر دوسروں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تب جا کر عورت اس گھر میں جگہ بنا پاتی ہے۔ کاش ہم لوگ اپنی بیٹیوں کو سسرال کی امانت سمجھ کر بے جا لاڈ پیار کی بجائے انہیں صبروتحمل برداشت کرنا سیکھاہیں۔ اسے ایسے رکھیں جیسے ہم رحم دل اور اچھے مالک ہیں اور اپنے ملازموں پر محربان ہیں اور بیٹی ایک خدمت گار ملازمہ ہے۔ جس کے گھر کے سارے کام کاج کے علاوہ گھر والوں کو خوش بھی رکھنا ہے تاکہ اسے محنت کی عادت پڑ جائے سب کی خوشی کا خیال ہو مالک جو بھی کھانے کو دے وہی صبر وشکر کر کے کھاے جو پہننے کو دے وہ پہنے۔ جب اس کا موڈ ہو شاپنگ کراے باہر لے کر جاے۔ پیٹ بھر کر کھانا دے اور تن پر اپنی پسند کا لباس۔ مگر میں جانتا ہوں ہر والدین کے لیے اپنی پیاری بیٹیوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جتنا سکھ وآرم دے سکتے ہیں دیں جتنی اس کی خواہشات پوری کر سکتے ہیں کریں نہ جانے اگلے گھر اسے یہ سب ملے نہ ملے۔ والدین سب سے بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ انہیں شہزادی سمجھنے لگتے ہیں اس کے دل ودماغ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ گھر اس کا ہے اور وہ اس گھر کی شہزادی ہے۔
میں نے ہما کو کھبی اس گھر کی شہزادی نہ بننے دیا بیٹی کو بنایا۔ خود کو سیاہ وسفید کا مالک سمجھا مگر اسے کوئی اختیار نہ دیا۔ یہی رویہ میں اپنی بیٹی کے لئے کھبی نہیں سوچوں گا کہ اس کا شوہر اس کو کسی فیصلے کا اختیار نہ دے۔
ہر جاہز خواہش بیٹی کی بھی پوری کرنی چاہیے اور بیوی کی بھی۔ ناجائز نہیں ماننی چاہیے بیٹی اسراف سے بچنا سکھانا چاہیے۔ جو بھی شخص اپنی ضرورت سے زیادہ مال و اسباب جمع کرے گا قیامت والے دن اسے یہ سب سر پر اٹھا کر کھڑا ہونا پڑے گا چاہے وہ دولت ہو ہا زمین و جاہیداد۔
عروبہ باپ کی باتوں پر حیران ہو رہی تھی۔ ساجد نے کہا کہ ہر بیٹی کی شادی لازمی کرنی پڑتی ہے اسے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے اسے خود بھی مضبوط بننا پڑتا ہے تب پراے لوگ اسے دل وجان سے قبول کرتے ہیں۔ ان کے دل میں جگہ بنانے کے لیے ایک طرح سے پل صراط پر سے گزرنے جیسا ہے کہ اگر ہم نے قناعت، صبر، اور خدا کے بنائے ہوئے قانون پر چلیں گے اس دنیا میں رہتے ہوئے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے مردوں کو نوکری کرتے ہوئے اپنے اردگرد کے لوگوں کے رویوں کو سہنا پڑتا ہے اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے لیے۔ اور گھر میں عورت کو سہنا پڑتا ہے اس گھر میں ہمیشہ کی جگہ بنانے کے لیے۔ بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ والدین نے اپنی بیٹیوں کو نازونعم سے پالا اور وہ آگے کی سختی برداشت نہ کر سکیں تو ان کی زندگی برباد ہو کر رہ گئی۔ شوہر کو بھی وقت گزرنے کے ساتھ بیوی کی قدر آ جاتی ہے جیسے اب میرا اور اس گھر کا گزارہ ایک منٹ کے لیے بھی ہما کے بغیر نہیں ہے۔
ہما نے اس گھر کے لیے بہت کچھ سہا ہے۔ اور مرد بھی اپنی اناء اور حاکمانہ زہن کے پیش نظر بیوی کو لونڈی اور خود کو حاکم سمجھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو مرد ایسا نہیں سوچتا بیوی کو اپنی زندگی کا ساتھی اور برابری کا درجہ دیتا ہے اس سے ہر کام میں صلاح مشورہ لیتا ہے وہ بہت پرسکون ماحول گھر والوں کو مہیا کرتا ہے۔ بچے بھی سلجھے ماحول میں پلنے کی وجہ سے کامیاب رہتے ہیں۔ کسی ایک کی عقلمندی سے بھی گھر جنت بن سکتا ہے اگر دوسرا بےوقوف ہو چاہے مرد ہو یا عورت۔ مگر ہمارے معاشرے میں عورت کو زیادہ سہنا پڑتا ہے پورے گھر کے مزاج کو سہنا پڑتا ہے۔ جبکہ مرد کو صرف بیوی کو سہنا پڑتا ہے عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے جو پیار کی زبان سمجھتی ہے اگر مرد دو میٹھے بول عورت کو بول دے دوسروں کے رویے کی خود معافی مانگتا اور تسلی اور حوصلہ دیتا رہے تو عورت کو بھی زہنی سکون رہتا ہے کہ وہ جس کے لیے وہ یہ سب سہہ رہی ہے اس کو احساس ہے اور وہ اس کے ساتھ ہے۔ پھر ساجد کو خیال آیا کہ بات لمبی ہو گئ ہے اس نے کہا کہ اگر یہ سب کر سکتی ہو سب سہہ سکتی ہو اپنے آپ کو چینج کر سکتی ہو تو میں بھی ان کو سوری کے ساتھ منت کرنے کو بھی تیار ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ تمھارے بس کا یہ جھنجھٹ نہیں ہے۔
ہما شرمندہ بیٹھی ان لوگوں سے عروبہ کے رویے کی معزرت کر رہی تھی جبکہ نرگس بھی شرمندہ بیٹھی شوہر کی باتیں سن رہی تھی۔
وہ ہما سے بولا بہن جی آپ کو معزرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں کیا آپ کو جانتا نہیں ہوں۔ آپ نے تو نیک نیتی سے سسرال کی بچی کو اپنی بچی کی طرح پالا گھر بیٹھ کر ہی اس کے ایم بی اے کروا دیا اور کتنی دقتوں سے اسے تعلیم دلائی۔ اگر کسی اور کی بچی ہمیں ایسا سناتی تو ہم دو منٹ بھی یہاں نہ رکتے۔
اتنے میں ساجد اندر داخل ہوا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگی تو سعد اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ پکڑ کر بولا پلیز انکل۔ بس نادان ہے۔ نرگس کا شوہر بھی اٹھ کر اس کا کندھا تھپتھپا کر بولا کوئی بات نہیں اپنی بچی ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہاں رکے ہوئے ہیں۔ آپ پلیز بیٹھیں وہ لوگ بیٹھ گئے ساجد کی آنکھوں میں آنسو تھے دروازے میں کھڑی عروبہ یہ سب دیکھ رہی تھی بھاگ کر ساجد کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر روتی ہوئی بولی سوری ڈیڈ آپ کو میری وجہ سے شرمندہ ہونا پڑا میں آپ کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں سب سے َسوری کہتی ہوں۔ سب حیران رہ گئے۔ سعد کی آنکھوں میں خوشی کی چمک ابھر آئی۔ اس کے باپ نے بیٹے کو دیکھا جو بڑی محبت پاش نظروں سے عروبہ کو دیکھ رہا تھا پھر بیوی کو دیکھا وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔ اس نے ساجد اور ہما کو دیکھا جو بےبس اور مظلوم نظر آ رہے تھے۔
عروبہ نرگس کے پاس آئی اور اس کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی سوری آنی میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نرگس نے شوہر کو دیکھا اور آرام سے اس کے بازو پیچھے کیے۔ اور آہستہ سے بولی انکل سے مانگو وہ زور سے بولی میں نے آتے ہی سب سے مانگ لی تھی نا۔ اس نے باپ کو دیکھا جو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا پھر سعد کو دیکھا جو سپاٹ سا اسے دیکھ رہا تھا۔ ہما اٹھی اور بڑے پیار سے اسے بولی اپنی غلطی مان لینا بڑائی ہے بیٹا۔
ہما نے سعد کے باپ کے پاس جا کر کہا سوری انکل وہ کھڑا ہوا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا اوکے بیٹا۔ ماں نے سعد کی طرف اشارہ کیا تو وہ اسکے سامنے کھڑے دانت پسیج کر کر بولی سوری۔ سعد کے ساتھ سب مسکرانے لگے۔
نرگس کا شوہر بولا بیٹا آپ ہمارے سامنے بڑی ہوی ہو ہمیں تمہیں بہو بنانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر مسئلہ ہمارے والدین کی خوشی کا ہے ہم خود بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بیٹا ہمارے پاس رہے اسی طرح ہمارے والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ چلو نوکری اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمیں گاوں سے نکلنا پڑا اگر ہم وہیں رہتے اور بچے کو تعلیم کے لئے اکیلے شہر یا ہاسٹل ڈال دیتے تو وہ بھی درست نہیں تھا میری نوکری شہر میں تھی پھر میری بیوی بھی بچے کے لیے ضروری تھی اور مجھے بھی اس کی ضرورت تھی آخر یہ میرے لیے آئی تھی شہر کی تھی۔ اب والدین کو ہماری خدمت کی ضرورت ہے اور بچے کو دو سال بعد اجازت دیں گے کہ جدھر اس کا مستقبل سنورتا ہے بیوی کو لے کر چلا جاے۔ میں تو اب جب تک والدین زندہ ہیں ان کے ساتھ رہوں گا بیوی کو دو سال کے بعد اجازت ہو گی چاہے گاوں رہے یا بیٹے کے ساتھ رہے یا دونوں جگہ آتی جاتی رہے۔
نرگس کا شوہر معزرت کرتے ہوئے بولا کہ ہمیں بیٹے کے لیے نتاشا جیسی عادتوں والی سیدھی سادی گھریلو لڑکی چاہیے جس سے میری والدین راضی رہیں اور وہ اس ماحول میں رچ بس جائے ان کی خدمت کرے وہاں کے رسم ورواج کی پاسداری کرے۔ صرف دو سال کی ڈیمانڈ ہے۔ میری بیوی نے پانچ سال وہاں گزارے پھر میں نے سوچا اب بچے کے مستقبل کا سوال ہے۔ مگر میں نجو جی کو اس شرط پر لایا تھا کہ وہ گاوں میں ہر عید گزارے گی۔ وہ اس نے نبھایا ویسے کم جاتی لیکن عید پر لازمی جاتی ہے۔ اب بتائیں کیا میں نے غلط سوچا ہے نتاشا بھی کوئی پرائئ نہیں آپ کی بھانجی ہے آپ کا خون ہے۔ یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس بن ماں کی بچی کو سگی بیٹی اور اپنی بیٹی میں کوئی فرق نہ رکھنے والی ماں ملی۔ ویسے بھی وہ آپ کی ہی زمہ داری ہے آپ نے ہی اس کی شادی کرنی ہے۔ کیونکہ عروبہ نہ ہی گاوں رہ سکتی ہے نہ وہاں جیسی زندگی گزار سکتی ہے۔
عروبہ نے کہا کہ انکل میں اپنی آنی اور سعد کی محبت کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ دو سال کی بات ہے نا گزار لوں گی۔ نرگس بولی وہ یہاں سے بلکل مختلف لاہف ہے۔ چند دن کا جوش ہو گا پھر مجھے بھی زلیل کرواو گی۔ دو سال کیا تم وہاں دو دن بھی نہیں گزار سکتی۔ وہ بولی میں چیلنج کرتی ہوں کہ میں گزار کر دیکھا دوں گی۔ تم گھبرا جاو گی وہ بولی آنی آپ ساتھ جو ہوں گی۔
نرگس کے شوہر نے بیٹے کو دیکھا۔