ہما کے لیے دو بچیوں کو پالنا مشکل عمل تھا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ تیری رضا کے لیے اس بچی کو پال رہی ہوں۔ بچی کے بارے میں جھوٹ بھی مجبور ہو کر بول رہی ہوں تاکہ میرا شوہر خوبصورت بچی پا کر خوش ہو جائے اور میرا گھر بچا رہے۔ اور دوسرے یہ معصوم کلی میرے شوہر کے برے برتاؤ سے بچی رہے گی۔ جب موقع ملے تو سچائی بتا دوں گی۔ وہ دونوں کے ساتھ برابر امتیازی سلوک روا رکھنے لگی۔ پڑوسن خالہ اس کے حسن سلوک کو دیکھ کر متاثر ہوتی۔ سسر اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیتے وہ بیٹے کو جانتے تھے وہ بھی بہو کے فیصلے سے متفق ہو گئے۔
وہ بیٹی کے غم سے نڈھال تھے پھر پوتی اور نواسی سے دل بہلانے لگتے۔ وہ بیٹی کو یاد کر کے روتے۔ انہیں آخری دیدار بھی بیٹی کا نصیب نہ ہوا۔ وہ بہت بیمار اور کمزور رہنے لگے تھے۔ بیٹے کے پاکستان آتے ہی جلد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ساجد عروبہ کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ اس نے دن رات کے لیے ملازمہ رکھ لی تھی۔ اگر دونوں بچیاں اکھٹی روتی تو ساجد چیختا تو وہ پہلے اسے بہلاتی اور نتاشا کو ملازمہ کے حوالے کر دیتی۔ ساجد اپنی عروبہ کے خوب ناز نخرے اٹھاتا اس کی ہر خواہش پوری کرتا۔ اس کو کوئی کام نہ کرنے دیتا۔ ہما سمجھاتی کل کلاں اس کی شادی ہونی ہے اس کو کام کاج سیکھنے دیں اگلے گھر جا کر کیا کرے گی۔ وہ تڑخ کر جواب دیتا میں اس کی شادی ایسے لوگوں میں کروں گا جو اس کو شہزادی بنا کر رکھیں گے اور کام کاج نہیں کرنے دیں گے۔ وہ پوچھتی کھبی ایسا سسرال دیکھا ہے تو وہ کہتا پھر میں اس کی شادی ہی نہیں کروں گا۔ وہ آہ بھر کر کر یہ کہتی اٹھ جاتی کہ آپ سے کون بحث کرے۔
سعد کا آفس ہما کے گھر کے نزدیک ترین تھا تو ساجد اور ہما کا اسے سختی سے آرڈر تھا کہ وہ لنچ بریک میں ادھر آ کر کھانا کھاے گا۔ پھر ہما نے اسے ریکویسٹ کی تھی کہ وہ آفس سے واپسی پر نتاشا کی پڑھائی میں مدد کر دیا کرے۔ نرگس مروت میں مان گئی ایک تو اس کے بیٹے کو گھر کا کھانا نصیب ہو رہا تھا دوسرے وہ جانتی تھی کہ ہما کو نتاشا کی پڑھائی کی بہت فکر رہتی ہے وہ اسے ایم بی اے کروا رہی تھی پرائیوٹ طور پر۔
نتاشا کے لیے سعد کی کمپنی نعمت تھی۔ ایک ماں کے بعد وہی اس کو عزت سے مخاطب ہو کر حال بھی پوچھتا۔ تو وہ سارے وقت میں اس کے آنے کا انتظار کرتی رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ سعد اور عروبہ کے بارے میں سنتی آئی تھی کہ نرگس خالہ اسے بچپن سے اپنی بہو بنانے کے بارے میں بولتی رہتی تھی۔ اور کسی کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہ تھا۔ سعد ہر وقت مزاق اڑاتا نہ جانے میری ماں کو اس بھوتنی میں کیا نظر آتا ہے۔ مجھے تو یہ پوری چڑیل لگتی ہے سب مسکراتے۔ خالہ پیار سے ڈانٹ دیتی کہ خبردار جو میری لاڈلی بھانجی کے بارے میں کچھ بولا تو لاکھوں میں ایک ہے۔ دنیا میں اس جیسی خوبصورت کوئی نہیں۔ عروبہ مسکرا کر آنی کہہ کر نرگس کے گلے لگ جاتی اور عروبہ اسے انگوٹھا دیکھاتی وہ جواب میں مسکرا کر سر جھکا لیتا۔
عروبہ سعد سے فالتو بات کھبی نہ کرتی نہ اسے لفٹ دیتی۔ بلکہ ہر وقت کانوں میں ہیڈ-فون لگاے اسی میں مگن رہتی۔ نتاشا سعد کی خدمتگار بنی رہتی۔
سعد اپنی فرمائشیں کرتا۔ نتاشا آج چاے کے ساتھ پکوڑے تو بنا لو وہ مسکراتی ہوئی چل پڑتی۔ پکوڑے بنا کر عروبہ کے آگے رکھ دیتی کبھی کیچپ دینا بھول جاتی تو وہ اسے ڈانٹ کر بلاتی سعد اسے سرزش کرتا تو وہ اسے جتا کر کہتی یہ میرے ڈیڈ کا گھر ہے۔ یہ اس گھر کی ملازمہ ٹائپ رشتہ دار ہے۔ اس لیے میں اسے ہر وقت اس کی اوقات یاد دلاتی رہتی ہوں۔ نرگس پرجوش طریقے سے اس کی بات کی تاہید کرتی۔ سعد افسوس کرتا رہ جاتا۔ نتاشا کی آنکھوں میں آئی نمی کو محسوس کرتا اور اس کی دلجوئی میں لگ جاتا۔ اس سے ہنسی مزاق کی باتیں کرتا تو وہ جلد سب کچھ بھول جاتی۔ جب سے وہ بڑی ہو رہی تھی ہما اب کافی حد تک اس کے فیور میں شوہر کو سنا جاتی۔ عروبہ کو بھی سمجھانے لگ جاتی مگر وہ باپ کی شہ پر اثر نہ لیتی۔
عروبہ سعد کے آنے یا نہ آنے پر کسی کوئی تاثر نہ دیتی۔ وہ نتاشا کو پڑھاتا اس سے فری ہوتا،اس سے ہنسی مزاق کرتا حتکہ اس کی تعریفیں بھی کرتا رہتا مگر عروبہ پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ سعد ہر وقت اس پر طنز کرتا رہتا کھبی وہ جواب دیتی کھبی جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھتی۔
عید وغیرہ کے موقع پر وہ پارلر سے تیار ہو کر آتی ہر کوئی تعریف کرتا مگر سعد دیکھتے ہی کہتا بھوتنی ا گئ۔ وہ کھبی چڑتی کھبی دھیان نہ دیتی۔ جبکہ وہ نتاشا کی بہت تعریف کرتا کھبی اس کے کھانے کی، کھبی اس کو جو اسٹور نما کمرہ ملا تھا اس کی صفائی ستھرائی اور سلیقے کی۔ جبکہ وہ عروبہ کے کمرے کی خوب برائی کرتا۔ وہ کھبی ان کے کمروں میں گیا نہیں تھا مگر دروازے دونوں کے کمروں کے کھلے رہتے تھے اور عروبہ اس لیے نہ بند کرتی تھی کہ اس نے کمرے میں بیٹھ کر نتاشا کو چارجر پکڑانے اور چارجر لگانے تک کے لیے بھی آوازیں دیتی رہتی تھی۔ سعد نتاشا سے کہتا تم کیوں اس کا ہر حکم ملازموں کی طرح مانتی ہو۔ تمھارے یہ نانا کا بھی گھر ہے ماموں کا بھی گھر ہے تمھارا بھی اس گھر پر حق ہے۔ تو وہ جواب میں کہتی ایک ماں کے علاوہ کوئی میرے ساتھ رشتہ نہیں جوڑتا۔ تو وہ دکھ محسوس کرتے ہوئے لاجواب ہو جاتا۔
ساجد نے بیوی سے کہا کہ عروبہ جوان ہو گئ ہے اور پڑھائی سے بھی فارغ ہے آپا سے کہو کہ آ کر شادی کی تاریخ طے کریں۔
ہما نے نرگس کو فون کر کے ساجد کا پیغام دیا تو اس نے جو جواب دیا وہ ہما کے لیے شاک سے کم نہ تھا۔
ہما نرگس کی بات سن کر پریشان ہو گئی اور ڈر بھی گئ کہ اس کا شوہر اس فیصلے کو سنے گا تو قیامت لا دے گا۔ اس نے کہا آپا آپ خود آ کر ساجد سے بات کریں مجھے تو ڈر لگتا ہے اس سے۔ نرگس نے حوصلہ دیا اور کہا کہ تم بات تو کرو پھر میں خود ا کر اس سے بات کر لوں گی۔
ہما کھوئی کھوئی اور پریشان تھی اس نے ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھایا اور شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ نتاشا نے پوچھا ماما آپ پریشان لگ رہی ہیں مگر وہ اسے پیار کر کے ٹال گئ کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
شوہر آیا کھانا کھا چکا تو ہما نے بات کرنی شروع کی۔ اس نے شوہر کو بتایا کہ اس نے آپا کو شادی کی بابت فون کیا تھا وہ بولا گڈ پھر کب آ رہی ہیں وہ شادی کی تاریخ لینے۔ وہ کچھ پریشان سی ہاتھوں کو مروڑتے ہوئے بولی کہ آپا کا گاوں والا گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور ان کے شوہر اب ریٹائرڈ ہیں اور اب وہ گاوں والے گھر میں شفٹ ہونا چاہتے ہیں سنا ہے کافی بڑا اور جدید طرز کا گھر بنایا ہے۔ ساجد کچھ سوچتے ہوئے بولا کہ وہ تو گاوں شفٹ ہو جاہیں گے تو عروبہ اور سعد اکیلے کیسے رہیں گے۔ آپا ساتھ ہوتی تو مجھے فکر لاحق نہ تھی مگر عروبہ کو تو گھر داری آتی ہی نہیں ہے اور سعد کے افس جانے کے بعد وہ اکیلی کیسے گھر کو مینج کرے گی۔
ہما نے جھجکتے ہوئے کہا کہ سعد بھی ساتھ گاوں شفٹ ہو رہا ہے۔ ساجد نے کہا کہ وہ وہاں سے آفس کیسے جاے گا تو ہما نے آہستہ سے جواب دیا کہ وہ شادی کر کے دو سال کے لئے باہر ملک جا رہا ہے آفس کی طرف سے اور فیملی کو کم از کم دو سال تک نہیں لے جا سکتا ہے۔
ساجد چلا کر بولا مگر میری بیٹی گاوں میں نہیں رہ سکتی وہ بھی شوہر کے بغیر۔ (عروبہ لاونج میں لیب ٹاپ لے کر بھٹی سب سن رہی تھی ساتھ ہی نتاشا کھڑی اس کے موبائل کا چارجر لگا رہی تھی دونوں تک آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔)
ہما نے کہا کہ اسی لیے آپا کی ساس، سسر اور شوہر نے نتاشا چونکہ گاوں رہ لیتی تھی اس لیے انہوں نے نتاشا کو بہو بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ساجد گلا پھاڑ کر چیخا وہ کیسے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آپا سے کہو وہ بولیں تو ہما بولی کہ اس نے بہت کہا مگر وہ لوگ اسے عاق کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
ساجد غصے سے بولا سعد کیا کہتا ہے۔ تو ہما بولی سعد نے کہا کہ جیسے سب کی مرضی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
عروبہ نے اتنا سنا کہ سعد نے بھی نتاشا کو اس پر فوقیت دے دی ہے تو وہ لیب ٹاپ پٹخ کر چلاتی ہوئی باپ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ وہ اپنی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمارے ہی ٹکڑوں پر پلنے والی کو آنی اور سعد بیاہ کر لے جاہیں میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔ وہ روتی چلاتی رہی نتاشا کو کوستی رہی۔ وہ نتاشا کو مارنے دوڑی تو ہما نے نتاشا سے چیخ کر کہا کہ وہ اپنے کمرے میں جا کر لاک لگا لے۔
عروبہ اس کے بند دروازے پر کھڑے ہو کر پیٹتی رہی چلاتی رہی کہ میں تمہیں جان سے مار دوں گی۔ ساجد نے بیٹی کو پیار سے یقین دلایا کہ تم فکر نہ کرو میں اس کی شادی سعد سے کھبی نہیں ہونے دوں گا۔ وہ روتے ہوئے بولی ڈیڈ میں سعد کے بغیر مر جاوں گی میں اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔
ساجد نے بیٹی کی حالت دیکھی اور بیوی کو وارننگ دے دی کہ جیسے بھی ہو اس کی شادی سعد سے کرواو ورنہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور تم دونوں کو گھر سے نکال دوں گا۔
ہما نتاشا کو کھٹکھٹا کر اس کے کمرے میں آئی۔ نتاشا رو رہی تھی اس نے اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ نتاشا آج ماں کے سامنے دل کھول رہی تھی کہ ماں میں شروع سے ہی بدقسمت ہوں نا۔ ساری زندگی میں نے سعد کو عروبہ کی امانت سمجھا مگر اب سعد سمیت ان لوگوں نے میرا انتخاب کر کے مجھے حیران کردیا کہ میں بھی کھبی اتنی خوش قسمت ہو سکتی ہوں کہ اتنا پڑھا لکھا، ہینڈسم اور باشعور لڑکا عروبہ جیسی حسین ترین لڑکی کو چھوڑ کر مجھ جیسی سانولی اور معمولی شکل و صورت کی لڑکی کے لئے اوکے کر دے۔ جو ساری زندگی کا بندھن ہے اور وہ نبھانا بھی جانتا ہے۔ ماں نے کہا کہ میری بیٹی تو بہت حسین ہے۔ تجھ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ سعد کا خیال دل میں نہ لانا عروبہ اسے کھبی تمھارا نہیں ہونے دے گی۔ تمھیں اس سے بھی کئ گنا اچھا مل جائے گا انشاءاللہ۔
عروبہ جو کان لگا کر ان کی باتیں سن رہی تھی چلا کر بولی تم کسی خوش فہمی میں مبتلا مت رہنا میں نے آنی اور سعد کو کلائی کاٹ کر مرنے اور ان کے زمے لگنے کی دھمکی دے کر بلایا ہے۔ سعد آے زرا میں اس کی طبیعت صاف کرتی ہوں۔ اس نے جرآت کیسے کی تمھارا نام لینے کی۔
ہما نے نرگس کو رو رو کر ساری بات بتا دی کہ اب تم ہی اس کا گھر بچا سکتی ہو۔ ساجد واقعی جو کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا۔ اس نے اسے تسلی دی اور کہا کہ میں پوری کوشش کروں گی کہ ساس اور سسر اس کے لیے مان جائیں۔ وہ بھی ان کے آگے مجبور ہے۔ ادھر شوہر نے بھی دھمکی دی کہ میرے والدین کی بات نہ مانی تو میں تمھیں چھوڑ کر گاؤں چلا جاوں گا۔
نرگس نے بتایا کہ بیٹا بھی باپ اور دادا دادی کی طرف داری کر رہا ہے۔ بیٹا کہتا ہے کہ دادا دادی کی ڈیمانڈ جاہز ہے۔ جس طرح آپ کا اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کا دل کرتا ہے اس طرح ان کا بھی کرتا ہے۔ اتنے سال وہ آپ کی خوشی کے لیے بیٹے سے دور رہے۔ اب وہ عمر کے آخری حصے میں ہیں تو میں ان کی خواہش رد نہیں کر سکتا وہ جس بھی لڑکی سے شادی کا بولیں گے میں کر لوں گا۔
نرگس روتے ہوئے بولی شوہر شاید مان جاتا مگر اسے بھی بیٹے کی شہ مل گئی ہے اور سب ڈٹ کر ایک ہو گیے ہیں اور میں اکیلی رہ گئی ہوں اب میرے شوہر بھی ساتھ آ رہے ہیں ساجد سے فاہنل بات کرنے۔ ساس سسر کو منانے کی کوشش کی ہے تو ان کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ سعد کی بیوی دوسال تو لازماً گاوں میں رہے گی جب دو سال بعد سعد آے گا تو تب دیکھا جائے گا۔
ہما سے عروبہ کی حالت بھی برداشت نہیں ہو رپی تھی اس نے ایک دن کا اسے پالا تھا وہ اسے پیار کرنے جاتی تو وہ اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیتی۔
سب اب نرگس کا انتظار کر رہے تھے