ہما کی نند ہما کے جانے کے بعد اداس ہو گئی۔ اسے باپ کی یاد ا گئ اس نے باپ سے فون پر معافی مانگ لی۔ اس نے گھر آنے کی اجازت مانگی تو اس کے باپ نے کہا کہ وہ ہمیشہ تمھاری اور تمہاری ماں کی باتیں مانتا رہا اور بیٹے کی طرف توجہ نہ دی اب میں اس کے خلاف جا کر نہیں مل سکتا۔ میں تم سے اب کھبی نہیں ملوں گا نہ ہی مجھے اب فون کرنا۔ میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ بس ہما کبھی کبھی تم سے مل لیا کرے گی۔ یہ بھی تمہارے بھائی کی مہربانی ہے جو تمہاری ماں کی زیادتیوں کے باوجود ہما کو تم سے ملنے بھیج دیا۔ وہ تمھارا دل سے بھلا چاہتا تھا۔ تم سے پیار بھی کرتا تھا۔ تمھارے اس اقدام کے بعد اب وہ تم سے نفرت کرے تو حق بجانب ہے۔ اب تم اپنی دنیا میں خوش رہو۔ توبہ تاہف کرو اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کرو۔ میری آنکھوں پر اس بری عورت کی محبت کی پٹی بندی تھی جو ایسی سیاست کرتی تھی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اب مجھے اس کی ساری باتیں سمجھ میں آ رہی ہیں۔ میں اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کے کیے کی سزا میری بچی کو نہ ملے۔ میں نے اسے معاف کیا رب بھی اسے معاف کرے
۔ آمین ثم آمین جھٹ ہما کی نند نے جواب دیا اور روتے ہوئے کہا کہ مجھے بھائی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اب شادی کے بعد احساس ہوا ہے کہ میں خود ماں بننے والی ہوں۔ اور میرا بچہ ننھیال، ددھیال کے پیار اور توجہ کے بغیر پلے گا۔ بیٹیاں والدین کے گھر سے ان کی دعاؤں کے ساے میں رخصت ہو کر اپنا مقام پاتی ہیں۔ مجھے اب کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شوہر کا پیار بھی حاصل ہے مگر اس کا پیار پانے کے لئے مجھے اپنوں کے پیار کی قربانی دینی پڑی ہے۔ شادی کے بعد عورت کو خاندان کی ضرورت ہوتی ہے یوں لاوارثوں کی طرح سنہری پنجرے میں قیدی جیسی زندگی لگتی ہے۔ اب تو نہ گھومنے پھرنے کا اور نہ ہی شاپنگ کرنے کا دل کرتا ہے۔ بس آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہُ تعالیٰ میری ماں کی مغفرت فرمائے اور مجھے بھی معاف کر دے۔
باپ نے ڈھیروں دعائیں دیں اور دونوں نے روتے ہوئے فون بند کر دیا۔
ہما کی نند بیٹھی شوہر کا انتظار کر رہی تھی وہ آیا تو اس نے آتے ہی پوچھا ڈاکٹر کے کلینک گئ تھی چیک اپ کروانے وہ ہنسنے لگی آپ میری اتنی فکر نہ کیا کریں آپ ہیں نہ میرے پاس۔ وہ نظریں چراتے ہوئے بولا یہی تو فکر ہے کہ میں کچھ ٹائم کے لیے میں جا رہا ہوں۔
کککیا مطلب اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ وہ اس سے آج کچھ نہیں چھپائے گا۔ اس نے بتایا کہ جب اس نے اسے پہلی بار دیکھا تو فیصلہ کر لیا کہ وہ اس سے ہی شادی کرے گا اس نے والدین سے بات کی تو انہوں نے انتہائی ایکشن لیا اور اسے خاندان میں لڑکی پسند کرنے کا اور اس کی جلد شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے بہت احتجاج کیا مگر باپ نے اپنے ساتھ مجھے بھی گولی مارنے اور ماں کو بھی مارنے کی دھمکی دے دی۔ میں نے بھی ضد میں سب سے کم پڑھی اور گاوں کی لڑکی کا انتخاب کیا۔ گھر والے سٹپٹاے مگر باپ نے فیصلہ دے دیا اور آناً فاناً میری دھوم دھام سے شادی کر دی۔
کککیا مطلب وہ ہزیانی ہو کر چیخی تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ شادی شدہ ہو کر مجھ سے کنوارے بن کر ملتے رہے۔ ڈیڈھ سال سے مجھے مسلسل پیار کا چکر چلاتے رہے اب تک تو کوئی بچہ بھی ہو چکا ہو گا۔
وہ سر جھکا کر بولا ایک بیٹا بھی ہے۔ کیا کیا یعنی میں ایک شادی شدہ اور ایک بیٹے کے باپ کی دوسری بیوی ہوں۔مجھے میں کیا کمی تھی میں خوبصورت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی مجھے تو کوئی کنوارہ آرام سے مل سکتا تھا۔ میں تو کسی شادی شدہ مرد سے دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کسی عورت کا گھر اجاڑنا اس کے شوہر کو اپنا بنا کر اس کے حق پر ڈاکہ ڈالنا۔ مجھے کسی دوسرے کے شوہر کو اپنا بنانا کھبی گوارا نہ تھا تم اگر ایک بار بھی بتاتے تو میں تمہیں چھوڑ دیتی۔ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ وہ اسے مارنے پیٹنے لگی اپنے بال نوچنے لگی اور روتے ہوئے بولی اگر مجھے کچھ ہو گیا تو کیا میرا بچہ بھی میرے بھائی کی طرح مظلومیت میں پلے گا اس کی سوتیلی ماں اس پر ظلم کرے گی اس کے اپنے بچے راج کریں گے۔ وہ اسے سنبھالنے لگا اور بولا تمہیں کچھ نہیں ہو گا میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا تھا کہ میں تم سے پیار کرتا تھا اور تمہیں کھونے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے نہ بتایا تمھارا مزاج سمجھتا تھا کہ تم شراکت برداشت نہیں کرو گی۔
وہ چلا کر بولی تمہیں مجھ سے کوئی پیار ویار نہیں ہے بس تم صرف میری خوبصورتی کے پیچھے مرتے ہو۔ اگر اتنا ہی سچا پیار ہے تو میں بھی تمھاری بیوی ہوں۔ میرا اور میرے بچے کا بھی تم پر اتنا ہی حق ہے۔ میں اپنا حق لے کر رہوں گی۔ اگر میرے گھر والوں کو پتا ہوتا تو وہ کھبی تمہیں رشتہ نہ دیتے۔ ہم خاندانی لوگ ہیں۔
وہ بولا میں نے تمہیں دھوکہ نہیں دیا۔ میں نے تمھارے بھائی کو یہ بتایا تھا کہ میں خاندان میں شادی کروں گا کیونکہ میرے والدین نہیں مان رہے ہیں اور میں تم سے پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ اس شادی کو نبھاوں گا مگر خفیہ رکھوں گا اور کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گا مگر وہ اس بات پر نہ مانا اور بے عزت کر کے فون بند کر دیا۔
وہ بولی میرا بھائی میرا بھلا چاہتا تھا نا۔ اس کے دل میں بھائی کے لیے بے پناہ پیار بھر آیا۔
وہ روتے ہوئے بولی کہ تم نے سوچا ہو گا کہ میں اس خوبصورت لڑکی کو ایک ساہیڈ پر رکھیل بنا کر رکھوں گا جو پوری طرح میرے دامن الفت میں گرفتار ہے۔ اس کے پچھلے بھی اس سے ناراض ہیں۔ اس کو پابند کرنے کے لیے نکاح کا ایک کاغذ دے کر زندگی کی آسائشیں دے کر بہلا لوں گا تو یہ تمہاری بھول ہے۔ میں اپنا اور بچے کا حق نہیں چھوڑوں گی۔ تمھارے گھر والوں کو سب بتا دوں گی۔ میں بچے کا جاہیداد میں سے حصہ بھی لوں گی۔میں چپ نہیں بیٹھوں گی۔ تم اپنے پلان میں فیل ہو گئے ہو بس بچہ ہو جائے پھر دیکھنا میں کیا کیا کرتی ہوں۔
ہما کی نند اپنے شوہر سے کسی طور سنبھل نہیں رہی تھی۔ وہ اسے بولی میرے بھائی نے ٹھیک کیا تھا جو تمہیں جواب دے دیا تھا کاش بھائی یہ بات مجھے بٹھا کر سمجھا دیتا پھر خود ہی بولی پر میں اس سے فالتو بات کہاں کرتی تھی کاش میری ماں اپنے سوتیلے کو قبول کر لیتی تو اج وہ اس کا بھی بڑھاپے کا سہارا بنتا۔ وہ اس کی اہمیت میرے دل میں ڈالتی تو میں شاید اس طرح برباد نہ ہوتی۔ شاید یہ مکافات عمل ہے۔ میری ماں کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی۔ بیٹی کی بربادی پر۔ اس نے شوہر کو وارننگ دی کہ بس بہت رو لیا اب میں سسک سسک کر زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں اس وقت کا انتظار کروں گی کہ بچہ اس دنیا میں آ جاے۔ پھر میں چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتاوں گی کہ میں تمھاری بیوی ہوں۔ پھر میں دیکھتی ہوں تم مجھے سسرال والوں سے ملنے سے کیسے روک سکتے ہو۔ تمہیں خوشخبری سنا دوں کہ تمھاری بھی بیٹی پیدا ہونے والی ہے تم نے کسی کی بیٹی کے ساتھ کیا اب اپنی بیٹی کے مستقبل کا بھی سوچ لینا۔ اسے بھی دولت کے بل بوتے پر نکاح کی آڑ میں رکھیل بنا کر بھیجنا ہے۔ اس کے شوہر نے اسے تڑاخ سے ایک تھپڑ مار دیا۔ وہ روتے چلاتے بےہوش ہو گئ۔ وہ گھبرا گیا فوراً ایمبولینس منگوائی ہما کو فون کیا۔
ہما نے سسر کو بتایا اور جلدی سے آٹو میں اکیلی چل پڑی۔ اب وہ باہر کے کام کاج چیک اپ کے لیے ہاسپٹل اکیلی جانے لگی تھی۔ وہ جوں ہی ہاسپٹل پہنچی تو نند کا شوہر ایمبولینس کے پاس کھڑا تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے وہ پاس پہنچی تو وہ گھبرا کر بولا۔ بہن آپ کی نند اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ میں اس کی ڈیڈ باڈی آبائی گاؤں لے کر جا رہا ہوں۔ ادھر کے گورکن سے بات ہو چکی ہے۔ پلیز بچی کو اپنے ساتھ لے جاہیں۔ وہ سن کر چکرا گئ پاس دیوار سے سہارا لے لیا۔ پاس کھڑی عورتوں نے اسے پانی پلایا اور اسے تسلی دی وہ رو رہی تھی اس نے پڑوسیوں کو فون کیا کہ میرے سسر کو طریقے سے زرا بتا دیں پھر اس نے نرگس کو فون کیا اس نے بہت تسلی دی۔ وہ کسی وجہ سے آنے سے قاصر تھی۔ ہما نے جا کر بچی کو اپنی تحویل میں لیا۔ اور شوہر کو فون کیا تو وہ کافی حیران و پریشان ہوا۔ بچی کا سن کر کچھ نہ بولا۔
وہ خود بھی پریگننٹ تھی لاسٹ ماہ چل رہا تھا کہ اوپر سے اسے نند کی بیٹی کو سنبھالنا پڑا۔ گھر آئی تو پڑوسیوں نے بہت ساتھ دیا۔
پھر اس نے نند کے شوہر کو کہہ دیا کہ بچی مر گئی ہے۔ تاکہ بچی رلنے سے بچ سکے۔ کیونکہ نند اس کی دوست بھی تھی۔
شوہر نے اس کو بچی پالنے پر ہلکہ پھلکہ احتجاج کیا مگر سسر کے حکم پر چپ ہو گیا۔ وہ ملک سے باہر تھا۔ پھر ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی اپنی بیٹی کی پیدائش کی اطلاع ملی وہ خوشی سے دیوانہ ہو گیا اور اپنی بات پر زور دے کر بولا میری بچی خوبصورت ہے نا۔ تم جانتی ہو مجھے بدصورت بچے نہیں اچھے لگتے اسی وقت ہما نے بچی بدلنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اس کی اپنی بچی سانولی تھی جبکہ نند کی بچی بہت خوب صورت تھی۔ اس نے اس راز میں سسر اور پڑوسن اماں کو بھی شامل کر لیا۔ اپنی بہن کو شامل نہ کیا کہ وہ ایسا کرنے نہ دیتی۔ مگر ہما مجبور تھی۔ ساری پریگنینسی میں شوہر نے جان کھائی تھی کہ بچہ لڑکا ہو یا لڑکی خوبصورت ہو ورنہ اسے دوسری شادی کرنی پڑے گی۔
نرگس کو بھی اس نے نند کی بیٹی کو اپنی بیٹی بتایا۔ وہ بھی ان کے جوان ہونے تک عروبہ کو ہی اپنی بھانجی سمجھتی رہی۔