نرگس کے سسر نے بہو کے ساتھ جانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ نرگس جلدی سے تیار ہونے چل پڑی۔
نرگس کو سامنے پا کر ہما گلے لگ کر رونے لگی تو بڑی مشکل سے اس نے اسے تسلی دے کر چپ کرایا۔ نرگس کے سسر نےشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔ اسے ان کے آنے سے کافی ڈھارس بندی۔
ساجد کو ہوش آ چکا تھا ساتھ والے بیڈ پر باپ آنکھیں موندے پڑا تھا ڈاکٹر ابھی ابھی گیا تھا اور بتایا تھا کہ باپ کو شاک لگا ہے۔ بروقت پہنچ جانے سے اس کا علاج ہو گیا ان کے سامنے کوئی پریشانی والی بات نہ دھرائی جائے۔ یہ بات ڈاکٹر نے نرگس وغیرہ کے سامنے بولی تو نرگس نے سسر اور شوہر کو سرگوشی میں منع کر دیا۔
نرگس کے شوہر اور سسر کو دیکھ کر ان سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ انہوں نے اس کا حال پوچھا تو وہ صرف ہونٹ ہلا کر رہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب ساجد کے دوست تھے انہوں نے کہہ دیا کہ کسی کو رات کو ساتھ رہنے کی ضرورت نہیں میں نے عملے کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔
رات کافی ہو چکی تھی ساجد نے ہما سے کہا اب سب گھر جا کر آرام کرو۔ ہاسپٹل کی کینٹین سے سسر اور شوہر کو نرگس نے کھانا کھانے بھیج دیا تھا۔ اس نے اور ہما کو برگر اور جوس کھلا دیا تھا۔ نرگس نے کہا کہ چلو اب ہما گھر چل کر آرام کرو ورنہ ایک بیڈ تمھارا بھی لگانا پڑے گا۔ پھر اس نے سسر کو گاڑی میں لے جانے کا اشارہ کیا اور ہما دروازے کے باہر کھڑی تھی تو نرگس نے ساجد کو ڈانٹ پلانے والے انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے تمہیں کچھ ہو گیا تو ہما کا کیا ہو گا تمھارے بوڑھے باپ کا کیا ہو گا۔ کچھ ان کا ہی خیال کر لو۔ اس بے وقوف لڑکی کی بےوقوفی سے اپنی زندگی داو پر لگا دی ہے۔ کچھ ایسا نہیں ہوا ہے جس کا تم نے اتنا اثر لیا ہے۔ زیادہ قصور تمھارا ہے جہاں وہ کہتی نہیں مان رہی تھی تو اس کی شادی کر دیتے۔ اگر تم لوگ سمجھتے تھے کہ اس سے شادی کر کے اس کے ساتھ کچھ برا ہو جائے گا تو اس برے سے بہتر تھا وہ برا۔ اب بھی وہی ہوا۔ اب بھی وہی بھگتے گی۔ کم از کم اتنی بدنامی کا باعث تو نہ ہوتا۔ اب جلدی سے اٹھو اور اپنے آپ کو نارمل کرو اگر باپ کا خیال نہیں ہے تو پڑے رہو ادھر اور باپ کو آگے بھیجنے کی تیاری کرو۔ اگر انکی زندگی، صحت کا خیال ہے تو جلدی سے اپنے آپ کو نارمل کرو ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ تاکہ باپ بھی نارمل ہو جائے۔ تمھیں پتا بھی ہے ہما کی کیا حالت ہے۔ وہ کتنی پریشان ہے۔اب میں کل تمھیں چلتا پھرتا دیکھوں اور کل تم نے ساتھ گھر چلنا ہے اپنے ابو کے ساتھ اور وہاں ان کو خوش اور نارمل رکھنا ہے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔ سب انتظار کر رہے ہیں۔
ساجد نے کمزور سی آواز میں آہستہ آہستہ بولتے ہوئے کہا کہ آپا آپ سب کا بہت شکریہ۔ اس مشکل وقت میں ساتھ دینے کا۔ میں آپ کی باتوں پر عمل کروں گا آپ سچ کہتی ہیں۔ مجھے اس کی پسند سے شادی کر دینی چاہیے تھی۔ ورنہ آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
نرگس نے بہن کو اس کے گھر کو سنبھالا۔ صبح سب کے لیے ناشتہ بنا کر کروایا۔ ہاسپٹل کے لیے سوپ بنایا اور چند دن وہاں رکنے کی اجازت چاہی۔ سسر واپس چلا گیا۔ نرگس کے شوہر نے دو چھٹیاں لے لیں۔
ساجد اور اس کا باپ گھر آ گئے۔ محلے والوں کو نرگس نے ان لوگوں سے سختی سے ملنے سے روکے رکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ملنے جلنے والوں سے منع کر رکھا ہے۔ اگر کوئی ہما کی نند کے ٹاپک پر بات کرتا تو اس کی طبیعت صاف کر دیتی کہتی۔ دو بندے اس وجہ سے مرتے مرتے بچے ہیں اور آپ لوگ زخموں پر نمک چھڑک کر پوچھتے ہیں اب طبیعت کیسی ہے۔ اس نے اتنی سختی کی کہ پھر کسی کو کم از کم سامنے بولنے کی جرات نہ ہوئی۔
ہما اور ساجد اس کے شکر گزار تھے کہ اس نے سب کے منہ بند کر دیئے۔ ساجد نے ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا۔ چند دن تک ساجد سنبھل گیا اور آفس جانے لگا۔ ساتھ ہی وہ گھر بیچ کر دوسری جگہ شفٹ ہو گیا وہاں بنا بنایا گھر خرید لیا۔ باپ بھی اب سنبھل چکا تھا کچھ ہما کی بے لوث خدمت اور نرگس کے سمجھانے بجھانے پر وہ ریلیکس ہو گیا تھا کیونکہ ہما نے جھوٹ بول دیا تھا کہ وہ بہت خوش ہے۔ آپ سے بات نہیں کرتی کہ شرمندہ ہے۔ وہ اس کے سامنے نرگس سے بات کرتی ایسے ظاہر کرتی جیسے وہ اپنی نند سے بات کر رہی ہے۔
اگر کوئی رشتہ دار بھی آتا تو ہما نرگس کی پڑھائی پٹی کے مطابق ان کی خبر لے لیتی کہ بمشکل ان کو موت کے منہ سے بچایا ہے آپ انہیں مارنا چاہتے ہیں۔
ساجد نے رشتہ داروں سے ملنا جلنا کافی حد تک کم کر دیا تھا۔ کچھ کو تو اس کے نیو گھر کا ایڈریس بھی معلوم نہ تھا۔
زندگی معمول پر آ چکی تھی۔ ساجد کو آفس کی طرف سے ایک سال کے لئے بیرون ملک جانا پڑا۔ ساجد کے پیچھے ہی اس کی بیٹی اور بھانجی نے جنم لیا دونوں میں دو ماہ کا فرق تھا۔
اس دوران نرگس آ نہ سکی۔ ہما نارمل ڈلیوری کی وجہ سے جلد اٹھنے کے قابل ہو گئ۔ سسر بیٹی کی موت سے ادھ منہ ہو چکا تھا۔ ساجد تک خبر پہنچ چکی تھی مگر اس نے اس وقت بچی کو گود لینے پر کوئی احتراز نہ کیا۔ اس نے دونوں کی فوٹو اس کو بھیج دی۔ وہ اپنی خوبصورت بیٹی کو پا کر بہت خوش تھا اور اس سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔
نرگس کے سسر کی ان دنوں طبیعت سخت خراب تھی جس کی وجہ سے وہ بہن کی طرف نہ جا سکی۔ سسر کے بعد ساس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ جوں ہی وہ ٹھیک ہوے چاروں عمرے پر چلے گئے۔ عمرے سے واپسی پر اس کی نند عمرے پر آ گئ اور اسے بہن سے ملے چار ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ پھر اس نے کوشش کر کے اسی کے شہر رہاہش اختیار کر لی۔ وہ اپنی خوبصورت بھانجی سے ملنے کو بےچین تھی۔ فوٹو دیکھ کر فدا تھی۔
ہما کے لیے دو بچیوں کو پالنا کافی مشکل تھا مگر اس نے اللہُ تعالیٰ سے مدد مانگی تھی اور اسے دن رات کے لیے ملازمہ دستیاب رہی۔
سسر بھی بچیوں کو دیکھ کر خوش بھی ہوتے اور بہو کے بھی شکرگزار تھے۔ وہ روتے کے آخری وقت بیٹی کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ بیٹا بھی آنے والا تھا۔ ہما اکیلی تھی آس پڑوس اچھے تھے اس کا ساتھ دیتے۔ جس سے اس کا مشکل وقت آسانی میں بدل گیا۔
اب نرگس قریب بیس منٹ کی ڈرائیو پر شفٹ ہو گئی تھی۔ اور آتی جاتی رہتی۔ بھانجی پر جان چھڑکتی مگر نند کی بیٹی کو کوستی رہتی۔
ساجد پاکستان آ چکا تھا۔ اس کے آنے کے ایک ماہ بعد اس کا باپ چل بسا۔
ساجد نے آ کر بھانجی کو اس کے باپ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ مگر ہما نے اسے سچ بتا دیا کہ اس نے اپنی اور نند کے ساتھ شادی کو والدین سے چھپائے رکھا اور اب بیوی مر گئی ہے تو وہ بچی کو نہیں پال سکتا اسے پالنے کی رکوسٹ کی۔
بچی کی بہتری کے لئے اس نے باقی باتیں شوہر سے چھپا لیں کہ اس نے جھوٹ بولا کہ بچی مر گی ہے۔ اور اب وہ چلا گیا ہے اور اسے اس کا اب کوئی علم نہیں۔ یہ بات سچ تھی کہ ہما کو اس کا کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے نہ ہی دوبارہ اس نے کھبی رابطہ کیا تھا۔
ساجد جب بھانجی کو دیکھتا تو اسے کے زخم ہرے ہو جاتے۔ وہ اسے گھر سے نکالنے کا ضرور کہتا مگر یہ بات وہ دل سے نہ چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ہما اسے کھبی نہ چھوڑے گی۔ ایک دن کی اس نے پالی تھی۔ اپنی بیٹی اور اس میں فرق نہ رکھتی تھی۔ وہ اس کے خلوص پر حیران ہوتا۔ دل سے اس کا قائل بھی ہوتا مگر اپنی اکڑ والی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے اس بچی کی بابت کوستا رہتا۔ جو بیوی کو غلام دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی پر چلانا چاہتے ہیں۔ ہما نے اس کی ہر بات مانی تھی سوائے اس بچی کے۔ جس کی وجہ سے ساجد چڑچڑا رہتا اسے یہ بات ہضم نہ ہوتی کہ کیسے اس کی بیوی اتنا بڑا فیصلہ اس کی غیر موجودگی میں اکیلی کر سکتی ہے۔ جب باپ زندہ تھا تب وہ اسے لینے پر کچھ نہ بولا تھا جب ہما فیصلہ کر چکی تب آ کر باپ کے مرنے کے بعد اسے اعتراض یاد آیا۔ اس کی اناء کو ٹھیس لگی تھی۔ ہما اس سے دبی رہتی اس کی ہر بات مانتی مگر بچی کو پالنا نہ چھوڑ سکتی تھی۔ ساجد کچھ بہن کے دیے زخم اور کچھ ہما کی اس معاملے میں نافرمانی برداشت نہ تھی جس کی تسکین وہ اسے طعنے دے کر پوری کرتا۔
ہما کو ایک دن نند کا میسج آیا کہ پلیز فری ہو کر کال کرنا تمہیں اپنی دوستی کا واسطہ۔ ہما نے اسے میسج کیا میں خود تمہارے لیے پریشان تھی۔ میں نیو سم نیو چھوٹا Nokia موبائل لوں گی اور چھپا کر جب بھی موقع ملے تم سے بات کیا کروں گی۔
اس نے جب اس سے بات چیت کی تو کافی پریشان رہی۔ میاں اس کا باہر جانے والا تھا اس لیے وہ اس سے زیادہ بات نہ کر سکتی تھی۔ جب میاں پردیس چلا گیا تو اسے گھر کے باہر کے کام بھی خود ہی انجام دینے پڑتے۔ اب وہ نند سے بات کرتی۔ اس کے لیے پریشان رہتی۔ شکر کرتی کہ اس ایریا کے پڑوسی اچھے اور ساتھ دینے والے تھے۔ ساتھ جڑا گھر اس کے لیے نعمت سے کم نہ تھا بوڑھے میاں بیوی اور ان کی بہو بیٹا رہتے تھے۔ ان کے تھوڑے بڑے دو بچے تھے ایک بیٹا ایک بیٹی۔ بیٹا بارہ سال کا اور بیٹی دس سال کی۔ شروع میں ہما نے ان کا بہت ساتھ دیا جب بہو باپ کے مرنے پر چالیس دن ادھر ہی رہی۔ اتفاق سے بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ ہما نے اس کے ساس سسر کی پوری زمہ داری سنبھال لی۔ ناشتے سے لیکر رات کے کھانے تک۔ اپنی نگرانی میں ان کی ماسی سے صفائی کرواتی کپڑے ان کے اپنی آٹومیٹک مشین میں دھوتی۔ غرض جی جان سے خدمت کرتی۔ ان سے کھانے پینے کا خرچہ بھی نہ لیا۔ تب سے اس فیملی نے ہما کا جی جان سے ساتھ دیا۔
ہما کی نند نے اپنے بوائے فرینڈ سے بات کرنے کے لیے ایک سمارٹ فون میں اس کا نمبر save کیا اور ایک Nokia چھوٹے موبائل میں جسے وہ چھپا کر رکھتی۔ اسے ڈر تھا کہ باپ اور بھائی اس کا خاندان میں رشتہ کرنا چاہتے ہیں وہ لوگ اسے سخت ناپسند تھے لڑکے کی ماں اسے لالچی اور چڑیل لگتی۔ اور لڑکا اس کے آہیڈیل کے بلکل برعکس اسے بونگا لگتا جو جاہلانہ طریقے سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا۔ خاندان کے ہر فنکشن میں اس کے گرد منڈلاتا رہتا۔ رشتے دار لڑکیاں طنزیہ مسکراتیں۔ اسے اس کا مجنون قرار دیتیں۔ اسے سخت الجھن ہوتی۔ اس کی ماں بھی اس پر واری صدقے جاتی۔ کئی بار تو اس نے مشہور کر دیا تھا کہ اس نے اس کا رشتہ کر لیا ہے۔ وہ یہ سن کر کھول کر رہ جاتی۔ اس نے ان لوگوں کو کھبی لفٹ نہ کرائی۔ وہ لڑکا ایف ایس سی تھا اور کسی پرائیویٹ فرم میں ملازم تھا۔ جبکہ وہ انجینئر تھی۔ اسے حیرت ہوتی کہ گھر والے بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتے۔ وہ اس رشتے سے مسلسل انکار کرتی مگر وہ دھیان ہی نہ دیتے۔ اس نے کئی بار انتہائی قدم اٹھانے کی بھی دھمکی دی مگر وہ لوگ ٹس سے مس نہ ہوے۔ اس کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد کا بہانہ بنا کر ٹالتے رہے۔ ان لوگوں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا مسلسل اصرار کرتے رہے۔
ہما کی نند بہت خوب صورت اور اکڑوں تھی۔ فیشن کی دلدادہ بھی تھی۔ پہلے تو والدین نے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ بھائی اس وقت کسی گنتی میں ہی نہ تھا۔ جب تک سوتیلی ماں زندہ تھی۔ حالانکہ ساجد برسرروزگار تھا باپ بھی ریٹائرڈ ہو چکا تھا۔ بہن تو اسے لفٹ ہی نہ کراتی تھی۔
ماں کی وفات کے بعد بھائی سربراہ بن گیا تو بہن بھی اس کے آگے اب زیادہ نہ بول سکتی تھی کیونکہ ماں کے مرنے کے بعد باپ کی توجہ کا مرکز اب بیٹا بن گیا تھا اور باپ اب اسے بھائی کی فرمانبرداری کرنے اور فضول خرچی پر باز پرس کرنے لگا تھا۔ بھائی بھی اب اس پر روک ٹوک کرنے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ چڑچڑی ہو گئ تھی۔ وہ لاہف کو ہر لمحہ انجوائے کر کے گزارنا چاہتی تھی۔ اس لیے وہ ہر وقت انجوائے کرنے کے لیے کبھی شاپنگ کے لیے نکل جاتی کھبی قریبی پارک چلی جاتی۔ اسے اس بات کی قطعی فکر نہ ہوتی کہ کوئی کیا کر رہا ہے اور کوئی کیا کہے گا۔ گھر ہوتی تو اونچی آواز میں میوزک سنتی۔ کھبی ڈانس کرتی۔