ہما بیاہ کر شوہر کے گھر ا گئ۔ نرگس کو ہما کی قسمت پر رشک آتا۔ جس کو اس سےزیادہ پڑھا لکھا امیر اور ہینڈسم نوجوان ملا تھا سسرال میں بھی کوئی جھنجھٹ نہ تھا۔ ایک نند تھی وہ بھی سہیلی۔ دوسرا اس کی قسمت شہر میں لکھی تھی۔ پھر اس کے ساس سسر گاوں کے انپڑھ تھے۔ اسے انہیں کسی سے ملواتے بھی شرم آتی تھی۔ مگر پھر بھی وہ بہن سے پیار کرتی تھی۔ ہما بھی اس کا بہت ادب کرتی۔ ہما کی شادی سے تھوڑا پہلے ہی نرگس شہر شفٹ ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
ہما بیاہ کر دوسرے شہر ا گئ۔ بیمار سسر اور ایک نند تھی۔ ہما کا شوہر ساجد اپنی سوتیلی بہن سے نفرت کرتا۔ ساجد چھ برس کا تھا تو اس کی ماں کو اچانک سر میں درد اٹھا ہاسپٹل پہنچنے تک وہ فوت ہو گئی ۔ باپ نے رشتے داروں کے اصرار پر ان کی ہی کوششوں سے چالیسویں کے فوراً بعد دوسری شادی کر لی۔ ایک سال بعد ہی اس کی بہن پیدا ہو گئی۔ اور سوتیلی ماں ساجد کے ساتھ برا سلوک کرنے لگی۔ باپ بھی مجبور تھا ایک تو وہ بیٹی کا باپ بن گیا تھا دوسرے اس نے گھر کو اچھے طریقے سے سنبھال لیا تھا۔ تیسرے وہ شوہر سے پیار جتاتی۔ خود طلاق یافتہ تھی۔ اب اسے خدا نے بیٹی عطاء کر دی تھی وہ ساری توجہ اور پیار بیٹی پر لٹانے لگی۔ اب ساجد کی حیثیت گھر میں فالتو چیز جیسی ہو گئی تھی۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا۔ اس نے پڑھائی کو اپنا مشن بنا لیا۔ جب اس کے ماں اور باپ دونوں اس کی بہن پر توجہ دیتے تو وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتا۔ وہ دونوں کی لاڈلی تھی۔ جو فرمائش کرتی پوری کی جاتی۔ گھر میں خوشحالی تھی۔ ساجد کو خرچے کے لیے عزر پیش کرنے پڑتے تب جا کر سوتیلی ماں اسے دیتی۔ اس کے دل میں بہن کے لیے نفرت بڑھتی گئی۔
ساجد پڑھ لکھ کر جلد جاب پر لگ گیا۔ باپ نے پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت کی اچھا کمایا۔ اب وہ بیمار رہنے لگا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد اس کو جو پیسہ ملا اس نے دس مرلے کا گھر بنایا۔ ایریا بھی اچھا تھا۔ گاڑی بھی موجود تھی جو اب ساجد کی دسترس میں تھی۔ کیونکہ اس کی سوتیلی ماں سیڑھیوں سے اچانک پاوں پھسلنے سے مر گئی۔ اس کی بہن ماں کے مرنے پر تڑپ تڑپ کر روئی تو ساجد کے دل میں اس کے لئے تھوڑا بہت نرم جزبہ پیدا ہو گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ بہن اور آزاد ہو گئی وہ ہٹ دھرم اور ضدی پہلے ہی تھی۔ اب اس نے ایک امیر لڑکے سے دوستی بھی کر لی۔ اور آزادانہ اس کے گھومنے پھرنے لگی۔ ساجد نے باپ کو اسے روکنے کو کہا خود بھی کچھ کہتا مگر وہ نہ سنتی۔ باپ نے اسے سمجھایا مگر اس نے کان نہ دھرے۔ باپ پچھتانے لگا۔ کہ اس کے بےجا لاڈ نے اس سرکش بنا دیا ہے۔ وہ تھی بھی بہت خوبصورت بلکل اپنی ماں کی طرح۔ جبکہ ساجد کا باپ سانولا تھا۔
ساجد نے بہن کو اس امیرزادے سے ملنے سے منع کیا تو اس نے کورٹ میرج کی دھمکی دے دی۔
ساجد اپنے آفس سے واپس آ رہا تھا کہ اسے بہن اس لڑکے کے ساتھ ہاتھ پکڑے کیفے سے باہر نکلتی نظر آئی۔ اس نے اتر کر اس لڑکے کو ڈانٹا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ اس وقت ساجد کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہما بھی اس کو دبے الفاظ میں سمجھانے لگی مگر اس نے دوستی کا بھی پاس نہ رکھا اور صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے پیار کو نہیں جھوڑ سکتی۔ اور بولی کہ ہو سکتا ہے تو اپنے شوہر کو سمجھاو کہ سیدھی طرح میری اس سے شادی کروا دے۔ میں اس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔ جو میرے باپ اور بھائی نے خاندان کا جو رشتہ میرے لیے پسند کیا ہے وہ مجھے قطعی قبول نہیں ہے۔ ان لوگوں کو جواب دے دیں ورنہ بعد میں شرمندہ ہونا پڑے گا۔ ہما نے شوہر کو ساری بات بتا دی مگر اس نے دھیان نہ دیا۔ ساجد نے اس کے باہر جانے اور فون رکھنے پر پابندی لگا دی۔ اس نے اسے کمرے میں بند کر دیا۔ اور اسے ڈانٹا کہ سدھر جاو ورنہ میں اور زیادہ سختی کروں گا۔ بوڑھا باپ بھی التجا کرتا کہ بیٹی سدھر جا اور بھائی کی بات مان لے ورنہ بعد میں پچھتاے گی۔ بند کمرے میں اسے کھڑکی سے ہما نے اسے اس کی پسند کے پیزا، برگر اور جوس پکڑاے اس نے جھٹ پکڑ کر مزے سے کھا لیے۔ پھر وہ باتھ روم چلی گئی۔ نہ وہ گھبرا رہی تھی نہ ہی اداس تھی۔ بلکہ نارمل تھی۔ سارا دن گزر گیا۔ ساجد بہت پریشان تھا آفس میں بھی صحیح طور پر کام نہ کر سکا۔ مگر گھر آنے کا دل بھی نہ کر رہا تھا۔ آخر مغرب ہو گئ۔ ہما اسے میسج کر کے سب بتا رہی تھی۔ ہما نے سسر کو زبردستی کھانا کھلایا اور ان کو بتایا کہ ان کی بیٹی نے سب کچھ کھا لیا ہے جو انہوں نے آرڈر کر کے منگوایا تھا انہوں نے خود آ کر دیکھا تو قدرے تسلی ہوئی۔ وہ الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ باپ کو گردن اٹھا کر ایک نظر دیکھا اور پھر منہ دوسری طرف کر لیا۔ باپ کو قدرے تسلی مل گئی اور اس نے ہما کے بہت اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا کیونکہ اس نے دوائی کھانی تھی۔ ہما کے سر میں درد تھا تو اس نے بسکٹ اور چاے پی کر پین کلر لے لی تھی۔ وہ سو بھی نہ سکتی تھی کیونکہ میاں کے آرڈر کے مطابق اس کی چوکیداری کرنی تھی۔
ساجد نے صبح کا کچھ نہیں کھایا تھا۔ ہما بار بار اسے میسج پر اصرار کر رہی تھی۔ اس نے اس کے اصرار پر ایک بار جوس پی لیا پھر اس کا سر دکھنے لگا تو اس نے چاے پی لی۔ اور پریشان حال گھر آ گیا۔ وہ بہن کو دیکھنے کھڑکی میں آیا تو بہن اسے دیکھ کر تیزی سے کھڑکی میں آئی اور ساجد سے بولی میں نے بہت سوچا تو مجھے یہی صحیح لگا کہ مجھے آپ لوگوں کی بات مان لینی چاہیے۔ ساجد حیران رہ گیا۔ اس نے کہا تم سچ کہہ رہی ہو۔ وہ بولی جس کی قسم مرضی لے لو۔ ہما بولی نہ نہ قسم نہ کھانا۔ پھر وہ خوشی سے بولی جب وہ کہہ رہی ہے تو سچ ہی ہو گا نا۔ اس نے ہما کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ ہما نے دروازہ کھول کر اسے پیار کیا اس نے سوری بولا۔ باپ کے پاس گئی۔ باپ نے خوشی سے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اور کہا کہ رشتے والوں کو ہاں بول دیں تاکہ وہ آ کر رسم کر جاہیں۔ وہ بولی جب مرضی کریں۔ باپ کے اصرار پر بھائی نے اسی وقت فون کر دیا۔ اور اگلے دن ہی آنے کا بتانے لگے۔ ساجد بیوی کو ان کی خاطرمدارت کی ہدایات دینے لگا۔ ہما نے کہا آپ فکر نہ کریں میں فجر سے ہی تیاری شروع کر دوں گی۔ میں صبح سارے گھر کی اچھی سی صفائی کر لوں گی۔ وہ بولا مجھے بھی جلدی جگا دینا میں سامان لا دوں گا۔ نند بولی مجھے بھی جلدی اٹھا دینا میں بھی تمھاری ہیلپ کر دوں گی۔ وہ جوش سے بولی نہیں تم اپنے ٹاہم پر دوپہر کو اٹھنا میں کر لوں گی ویسے بھی ان لوگوں نے شام کو آنا ہے۔
ساجد اس کا باپ اور ہما ملکر لسٹ بنانے لگے۔ ہما نے کہا اب اس کا فون اسے دے دیں۔ وہ بولا ابھی نہیں۔ وہ اندر آ رہی تھی اس نے سن لیا اور ہما ڈارلنگ مجھے نہیں چاہیے اب فون۔ میں نے کسے کرنا ہے۔ جو بیسٹ فرینڈ تھی وہ بھابی بن کر گھر میں آ گئ ہے۔ باپ اور بھائی گھر میں ہیں پھر کسے کرنا ہے۔
ہما کا شوہر رات لیٹ ناہٹ تک اسے کمرے میں جاکر دیکھنے کی ہدایات کرتا رہا۔ مگر ہر بار وہ آنکھیں موندے ریلیکس سوئی ہوئی ہوتی۔ آخر گھر اچھی طرح لاک کر کے وہ لوگ سو گئے۔ رات تین بجے ہما واش روم کے لیے اٹھی تو ساجد نے بھی نیند بھری ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھ کر پریشانی سے پوچھا کہ کیا ہوا وہ بولی میں واش روم کے لیے اٹھی تھی سوچا دیکھ آوں وہ سو رہی ہے۔ وہ سن کر مطمئن ہو کر سو گیا۔
فجر کے الارم سے ہما کی آنکھ کھلی تو پہلے جا کر نند کو دیکھا وہ چادر اوڑھ کر سو رہی تھی وہ جوش اور خوشی سے کام نمٹانے لگی آج سسر بھی لیٹ اٹھے۔ اس نے شوہر کو سونے دیا کہ وہ جلدی تیار کر لے گی سب کچھ۔ نہ ہوا تو بازار سے لے آہیں گے۔ اس لئے شوہر لیٹ اٹھا تو اس نے کہا مجھے کیوں نہیں جایا۔ وہ بولی بازار سے آ جاے گا اور دیکھ کر آئی ہو۔ ہما وثوق سے بولی ہاں بابا سو رہی ہے۔ کتنی بار دیکھوں۔ اس نے جمائی لی تو ساجد نے کہا کہ تم بھی آرام کرو اس کی بھی آنکھیں بند ہونے لگی۔ تو اس نے کہا اچھا میں تھوڑی دیر آرام کر لیتی ہوں آپ کا ناشتہ بنا ہوا ہے وہ بولا میں لے لوں گا۔
ساجد چاے کا کپ پکڑے باپ کے پاس ا کر باتیں کرنے لگ گیا۔
ساجد چاے پی چکا تو باپ نے کہا کہ ہما جاگی ہےکیا۔ وہ بولا کچن سے آوازیں تو آ رہی ہیں اس نے کچن میں جاکر ہما سے پوچھا ایسا ہے کہ تم گھر میں کچھ نہ بنانا میں باہر سے لے آوں گا۔ وہ بولی سونے سے طبیعت بہتر ہو گئی ہے۔ ویسے بھی وقت کم ہے اور وہ لوگ ا نہ جائیں۔
وہ بولا اس ملکہ عالیہ کو بھی جگاو اور ڈھنگ کا ڈریس پہنے اور ان لوگوں سے ڈھنگ سے بات چیت کرے اسے سمجھا دینا۔
جی اچھا آپ فکر نہ کریں دیکھا نہیں کتنی بدل گئی ہے۔
وہ جواب میں خاموش رہا۔
اتنے میں باہر ڈور بیل ہوئی۔ ساجد بولا کون ہو گا۔ ہما بولی کوئی مانگنے والا ہو گا کام والی ملازمہ بھی ہو سکتی ہے گاوں گئ تھی بول رہی تھی کہ چند دن تک آ جاے گی۔ دودھ والا بھی دودھ دے گیا ہے۔ پھر زور سے بیل بجی۔
ہما بولی یہ بچے ہوں گے چھت پر بال آئی ہو گی۔
ساجد بولا میں تیار ہونے جا رہا ہوں تم دروازہ کھولو۔
ہما بولی آپ کی چھٹی کا مجھے کیا فائدہ۔ دودھ چولہے پر چڑھا رکھا ہے میں نہیں جا سکتی پلیز۔
وہ دروازے کی طرف چل پڑا ڈور بیل پھر زور سے بجی۔
ساجد زرا تیز آواز میں بولا آ رہا ہوں زرا صبر۔دروازہ کھولا تو سامنے اس کی بہن کے رشتے والے کھڑے ہوئے تھے وہ انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولے بای ہم سے صبر نہ ہوا ہم نے سوچا گھر کی بات ہے پہلے ہی چلے جاتے ہیں۔ وہ خوشی سے مسکراتے ہوئے لڈو اور مٹھائی کے ٹھوکروں سمیت اندر آ گئے۔
ساجد اپنے ناہٹ سوٹ پہنے شرمندہ سا ہو رہا تھا وہ بولے لگتا ہے۔ بہن کے شگن کے لیے آج چھٹی منا رہے ہو۔ وہ سر جھکا کر شرمیلی سے مسکرا کر انہیں اندر لے آیا۔
ہما کچن سے باہر نکلی اور حیرت سے انہیں مٹھائی، فروٹ کے ٹھوکروں سے لدھے پھندے دیکھ کر حیرت سے بڑے تپاک سے ملی۔ مہمان عورت نے پوچھا ہماری شہزادی کدھر ہے۔ ہما نے جلدی سے کہا جی وہ باتھ روم میں ہے آپ لوگ بیٹھیں میں اسے بلاتی ہوں۔ انہوں نے ڈرائنگ روم کی بجائے الاونج میں بیٹھنا پسند کیا۔ اور بےتکلف ہو کر ساجد سے باتیں کرنے لگے۔ ہما سسر کو بھی لے آئ۔
ساجد نے کھڑے ہو کر معزرت چاہی کہ میں زرا تیار ہو آوں تو مہمان عورت نے کہا کہ بیٹا گھر میں ہو ایزی رہو۔ ہم کون سا پراے ہیں۔ بیٹھو۔ ہم نے تو صبح ہونے کا انتظار بھی۔ مشکل سے کیا تمھارے انکل کہہ رہے تھے کہ میں نے انہیں شام کا بولا ہے مگر میں نے کہا کہ ہم کون سا پراے ہیں اپنا گھر ہے۔
ہما کے سسر نے کہا کہ جی بہت ا چھا کیا۔ آپ لوگوں کا اپنا گھر ہے۔ مگر آپ لوگوں نے اتنا تکلف کیوں کیا۔
عورت بولی تکلف کیسا یہ تو ہماری خوشی ہے۔ ہما معزرت کرتی جانے لگی تو مہمان مرد بولا کچھ بھی تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ناشتہ کر کے آے ہیں اب ایک بار ہم شگن کی مٹھائی کھاہیں گے۔
مہمان عورت بولی بس جلدی سے ہماری بیٹی کو بلا لاو۔
ہما جلدی سے نند کے کمرے میں بھاگی۔
مہمان عورت بھی اٹھی اور بولی میں زرا واش روم سے ہو آوں۔ ساجد اٹھنے لگا تو وہ جلدی سے بولی بیٹھو بیٹھو میں ہما سے پوچھ لوں گی۔
ساجد کھویا کھویا مہمان مرد کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا ایک تو اسے اپنے ناہٹ ڈریس سے شرم آ رہی تھی۔ اوپر سے بہن کے رویے کی بھی فکر تھی۔
ہما کمرے میں پہنچی تو نند کے بیڈ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی تو دیکھا پیچھے مہمان عورت بھی مسکراتی کھڑی تھی بولی واش روم جانا تھا۔ ہما بولی لگتا ہے تھک کر پھر سو گئ ہے صبح سے میرے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ عورت بولی اچھا جگاو ہم نے شگن بھی کرنا ہے۔ پھر آج ہی شادی کی تاریخ بھی فکس کرنی ہے۔
ہما نے اس کے منہ سے چادر ہٹائی تو نیچے تکیے پڑے تھے ہما کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ عورت بھی حیرت سے بولی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہما جواب نہ دے سکی۔
ساجد کے باپ کا فون بجا اور اس نے جیب کمزور ہاتھوں سے نکالا۔ اور بیٹے سے بولا سپیکر آن کر دے۔ دیکھوں کس کا ہے۔ بیٹے نے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سپیکر آن کیا تو ہما کی نند بولی ڈیڈ میں نے آپ کو بھائی کو کتنا سمجھایا کہ جہاں میں چاہتی ہوں وہاں میری شادی کر دیں مگر آپ لوگوں نے میرے ساتھ پکی ضد لگائی مجھے سارا دن کمرے میں بند رکھا۔ اب میں گھر سے جا رہی ہوں اپنی پسند سے شادی کرنے۔ بھائی کے ہاتھ سے فون گر گیا۔ وہ عورت کمرے میں غصے سے آئی۔ ہما بھی پیچھے پیچھے آ گئ آگے فون پر سپیکر سے آواز آ رہی تھی۔
وہ عورت غصے سے چلائی توبہ توبہ کیسے دھوکے باز لوگ ہیں اپنی آوارہ لڑکی کو ہمارے سر منڈھ رہے تھے۔ یہ اپنے ہو کر ہمیں دھوکہ دے رہے تھے تو بندہ غیروں پر کیا بھروسہ کرے۔ یہ تو ہمارا بیٹا اس کی خوبصورتی پر فدا ہوا تھا پھر شوہر اور بیٹے کو سامان اٹھا کر چلنے کا بولا مرد بھی برا بھلا کہنے میں بیوی کا ساتھ دینے لگا۔ اور وہ طعنے دیتے بکتے جھکتے چلے گئے۔
ساجد کا شرمندگی اور غصے اور دکھ سے دماغ پھٹنے لگا تھا بیوی نے کندھے پر ہاتھ رکھ تسلی دی تو اس نے بےبسی سے اسے دیکھا۔ ہما کی نظر سسر پر پڑی تو وہ صوفے پر گرے ہوئے تھے۔
ہما نے چلا کر ساجد سے کہا ساجد ابا جی۔ اس نے باپ کو دیکھا تو تیزی سے اٹھا اور انہیں گود میں اٹھا کر بولا گاڑی کی چابی لاو۔
وہ بھاگ کر چابی لائ پچھلا دروازہ کھولا انہیں لٹایا۔ اتنے میں ہما اس کا پرس لے آئ۔
وہ دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھے باہر نکلے تو چند محلے دار کھڑے ہوئے تھے اور پوچھنے لگے ابھی وہ لوگ بتا رہے تھے کہ آپ کی بہن کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اور آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں ہما نے چلا کر کہا پلیز تنگ نہ کریں انکل کی طبیعت خراب ہو گئی ہے انہوں ہاسپٹل لے کر جارے ہیں۔ ایک بولا ظاہر ہے بیٹی جو ایسے کرتوت کرے تو باپ کی طبیعت تو خراب ہونی ہی تھی۔ وہ لوگ گیٹ بند کرنا بھی بھول گئے ہما نے دیکھا ایک محلے دار گیٹ بند کر رہا تھا۔
ساجد کے دوست کا کلینک تھا وہ اسی سے باپ کا علاج کرواتا تھا۔
ساجد تیز اور رف گاڑی چلا رہا تھا اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ گاڑی کو کسی گاڑی سے ٹکرا دے۔ ہما چلا رہی تھی۔ اس کا دماغ ماوءف ہو رہا تھا۔ ہما نے احساس دلایا کہ ابا جی بھی ساتھ ہیں۔ تو اسے ان کا احساس ہوا اور وہ محتاط ہو گیا۔ بڑی مشکل سے ہاسپٹل پہنچا تو ہما نے بھاگ کر اس کے دوست کے روم میں جا کر جلدی سے اسے ساری سسر کی طبیعت کا بتایا وہ چاے پی رہا تھا نرس پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا کہ بھابی آپ پریشان نہ ہوں چاے کا کپ رکھا اور نرس کو سٹریچر لانے کی ہدایت کرنے لگا۔
ہما باہر آئ تو ساجد بھی صوفے پر اوندھا گرا بےہوش پڑا تھا۔ ہما رونے لگی ڈاکٹر صاحب نے تسلی دی اور عملے کو بلایا۔
ایک طرف ساجد اور دوسری طرف سسر کا علاج جاری تھا۔ ہما نے چلتے وقت موبائل تو اٹھایا تھا مگر اب اس کے ہاتھ میں نہ تھا وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بھاگی۔ گاڑی کا ایک دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اور گاڑی کی چابی لگی ہوئی تھی گارڈ ا گیا وہ جانتا تھا اس نے کہا کہ دروازہ کافی دیر سے کھلا ہوا تھا میں دیکھ رہا تھا بی بی جی آپ پریشان نہ ہوں۔ اس نے اگلی سیٹ پر دیکھا موبائل نیچے گرا ہوا تھا اس نے گارڈ کو نظرانداز کیا تو وہ چل پڑا پھر اس نے گاڑی کے پاس کھڑے ہو کر نرگس کو رو رو کر فون ملایا اور ساری کہانی جلدی سے سنا ڈالی۔ وہ اس وقت گاوں سے ابھی شفٹ نہ ہوئی تھی وہ اسے پیار سے تسلیاں دینے لگی۔ وہ بولی میری جان میں آ تو نہیں سکتی۔ مگر تمھارے بہنوئی کو ابھی فون کرتی ہوں وہ آ جاہیں گے۔ پھر وہ اس سے مسلسل فون پر رابطے میں رہی اور تسلیاں دیتی رہی
۔ اس کا شوہر بھی پہنچ چکا تھا۔ اور ہما کو کچھ آسرا مل گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے ہما سے پوچھا بھابی کیا بات ہے آخر کیا ہوا ہے۔ وہ نظریں جھکائے بولی بھائی شوہر کی اجازت کے بغیر آپ کو نہیں بتا سکتی۔ کچھ گھریلو معاملہ ہے مگر اتنا بتا دوں کہ دونوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے جو ان دونوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہے۔ اور وہ جلدی اس شاک سے نہیں نکل سکتے۔ بحرحال میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گی۔ کہ جلد ان کو شاک سے نکال سکوں۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبا سانس کھینچا اور بولا مجھے بھی شک تھا کہ ان لوگوں کو کوئی گہرا صدمہ لگا ہے۔ بہرحال زندگی میں یہ باتیں لگی ہوئی ہیں۔ دکھ سکھ ملتے رہتے ہیں۔ آپ کو ان دونوں کو یہاں ایڈمٹ کرنا پڑے گا۔ میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہوں گا۔ پر آپ بھی تو حوصلے سے کام لیں ورنہ مجھے لگتا ہے آپ کو بھی ایڈمٹ ہونے کا شوق ہے۔ پلیز بھابی آپ ہمت سے کام لیں۔ اللہُ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے ڈاکٹر صاحب کی ہمت بندھانے سے قدرے ہمت ملی۔ نرگس بھی بار بار اسے سمجھا رہی تھی کہ خدانخواستہ کوئی مر تو نہیں گیا نا جو تم اتنی پریشان ہو کر اپنا سکون اپنی صحت خراب کر رہی ہو۔ خود بھی نارمل رہو اور ان کو بھی تسلی دو۔ پاگل لڑکی گھر بھی کھلا چھوڑ آئی ہو۔ کسی اعتبار والی پڑوسن کا فون نمبر ہے تو اسے فون کر دو تاکہ وہ خیال رکھے۔ سارے محلے کو پتا ہے کہ گھر کھلا ہوا ہے۔ ایک کسی کو زمہ داری دے دو۔ وہ بولی اچھا آپا ہے نمبر میں کرتی ہوں۔ مجھے تو فکر ہو رہی ے کہ میں محلے والوں کا فیس کیسے کروں گی۔ بہت بدنامی ہوئی ہے سارے محلے کو پتا چل چکا ہے۔کمبخت جاتے جاتے سارے محلے کو بتا گئ۔ اسے ادھر سے بہت جہیز ملنے کا لالچ تھا۔ وہ باتوں باتوں میں کہہ رہی تھی کہ لوگ بیٹی کے جہیز میں چھوٹی موٹی اور فضول چیزوں پر اتنا روپیہ برباد کرتے ہیں۔ فرنیچر، برتن کپڑا لتا۔ یہ سب چیزیں ہر گھر میں پہلے ہی موجود ہوتی ہیں۔ پھر اور گھر بھر دیتے ہیں بہتر ہے کہ کوئی ایک ہی بڑی چیز دے دیں جیسے، پلاٹ، گاڑی وغیرہ۔
نرگس بولی میں نے تو ساس سسر کو سب سچ بتا دیا ہے ویسے بھی ان کو بیٹا بتا دے گا۔ اور ان کو ایک دن پتا تو چل جائے گا۔ تم بھی فکر نہ کرو محلے والے باتیں بنائیں گے پھر خود ہی بھول جاہیں گے۔ میں ساس کو منانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ سسر کے ساتھ آ جاوں۔ کچھ نیم رضامند ہو گئ ہیں اور ان کو بھی منا رہی ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔ میں خود تمہارے پاس آنے کے لئے تڑپ رہی ہوں میری جان۔