عروبہ جو نرگس کو بچپن میں نجو جی بلاتی تھی بڑے ہو کر آنی بلانے لگی۔ جبکہ نتاشا خالہ جی پکارتی۔
عروبہ ہاتھ میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگ اٹھاے خوشی سے چلاتی ا کر نرگس کے گلے لگ کر مائی آنی کہتی پیار کیا۔ جواب میں اس نے بھی وارفتگی کا مظاہرہ کیا۔ اور عروبہ کا باپ جو چابی اٹھاے اندر داخل ہو رہا تھا دونوں خالہ بھانجی کو وارفتگی سے ملتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ سعد اٹھ کر عروبہ کے باپ سے ملا۔ اس نے گرمجوشی سے اس کی پیٹھ پر تھپکی دی۔
نرگس اپنے گاؤں سسرال اگر زیادہ دن کے لئے جاتی تو ہما سے اجازت لے کر نتاشا کو ادھر ہیلپ کے لیے ساتھ لے جاتی۔ ہما اس نظریے سے بھیج دیتی کہ چلو اس کا بھی چینج ہو جائے گا۔ اس نے دیکھا وہ گاوں جانے کے نام سے خوش ہوتی ہے۔ ہما کو یہ بھی خیال آتا کہ اس کی زندگی ویسے بھی اس کا شوہر اور بیٹی اجیرن رکھتے ہیں تو پھر بھیجنے میں کیا حرج ہے۔
نرگس گاوں لے جانے کے لیے اس کے چند نیو سوٹ سلوانے کا بولتی۔ اس طرح ہما کو اسے چند اچھے جوڑے سلوا کر دینے کا موقع ملتا۔ کیونکہ نرگس کا آرڈر ہوتا کہ میرے سسرال کا معاملہ ہے۔ وہ بچپن سے اسے وہاں لے کر جا رہی تھی۔ اور ادھر اس کے ساس سسر اس پر ترس کھاتے کیونکہ ہما نے اسے بچپن سے ہی ہر کام میں تاک کر دیا تھا۔ وہ وہاں جاتی تو اس کی ساس کو آرام ملتا خود نرگس کی بھی ہیلپ ہو جاتی۔
نرگس اور ہما دو بہنیں تھیں۔ نرگس دو سال بڑی تھی۔ وہ شروع سے ہی پتلی دبلی تھی۔ جبکہ اس کی بہن ہما ہما زرا اس سے موٹی تھی۔
نرگس کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق نہ تھا وہ گھر رہنا اور گھر کے کاموں میں دلچسپی لینا اسے پسند تھا۔ جبکہ ہما کو پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ کالج جانے لگی جبکہ نرگس میٹرک بھی نہ کر سکی۔ تو والدین نے سوچا وقت پر اس کی شادی کر دی جائے جبکہ ہما نے صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ تعلیم حاصل کر رہی ہے وہ شادی نہیں کرے گی۔
ہما کی ماں نے آس پڑوس میں کہنا شروع کر دیا کہ بیٹی کا رشتہ درکار ہے۔ یہ لوگ سفید پوش تھے۔ ہما کا والد سرکاری ملازم تھا۔ محلے میں رہتے تھے پانچ مرلے کا گھر تھا۔ ہما کے باپ کے آفس میں ہی سعد کا باپ ملازم تھا۔ اور کنوارہ تھا۔ ہما کے باپ کو سعد کے باپ میں گھن نظر آئے تو اس نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ اسے پتا چلا کہ وہ قریبی گاؤں میں رہتا ہے۔ دو بہن بھائی ہیں۔ گاوں میں اپنا گھر زمینوں، جاہیدادوں کے مالک ہیں۔ نرگس کا باپ جو نرگس کی غصے والی عادت سے واقف تھا اور نرگس نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ لڑکے کو دیکھے بغیر شادی نہیں کرے گی۔ اور جو رشتے آ رہے تھے وہ مناسب نہ لگ رہے تھے۔
نرگس کے باپ نے سعد کے باپ سے راہ و رسم بڑھا لیے۔ وہ کسی دوست کے ساتھ رہتا تھا۔ اکثر اسے گھر سے کھانا لا لا کر دینے لگے عزر یہ پیش کیا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں تم مجھے اپنے بیٹے جیسے دکھتے ہو۔ ہوٹل کا کھا کھا کر صہت خراب ہو گی اس لیے گھر کا لاتا ہوں۔ ایک دن بہانے سے گھر لے گئے۔ رضیہ کے کان میں ماں نے ڈال دیا تھا کہ تیرا باپ تیری اس سے شادی کروانا چاہتا ہے۔ رضیہ جو کچن کی کھڑکی سے اسے آتا دیکھ چکی تھی اور اسے پسند بھی ا گیا تھا۔ماں جو اسے دیکھتے دیکھ چکی تھی اس سے راے پوچھی تو اس نے شرما کر کہا ٹھیک ہے۔ماں ایکدم خوش ہو گئی اور فوراً شوہر کو خوش خبری سنائی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک رشتہ پکا نہ ہو جائے ہما کو سامنے نہ کیا جائے۔ ہما کو بھی اعتراض نہ ہوا۔
جب ٹرے اٹھاے سر پر دوپٹہ لیے سادہ لباس میں ملبوس ماں کے پیچھے شرماتی ہوئی نرگس آئی تو سعد کے باپ کو پسند ا گئ۔
سعد کے باپ کو رضیہ کے گھر بہت پروٹوکول ملا۔ اس نے َسوچا والدین شادی جلد کروانا چاہتے ہیں اور اس کے سامنے نرگس کے باپ نے اپنی بیٹی کے لئے کوئی اچھا رشتہ بتانے کا کہا تھا۔ تو وہ گاوں گیا اور بتایا کہ اس کے آفس کے سینئر ہیں اور ساری بات بتائی کہ لڑکی سمپل سی ہے۔ گاوں کے ماحول میں امید ہے رچ بس جائے گی۔ گھر والے جا کر دیکھنے پر راضی ہو گئے۔ گھر سے والدین اور چھوٹی بہن آئی۔ رضیہ بہت خوش مزاجی سے انہیں ڈیل کرتی رہی۔ آج وہ انگوری ریشمی سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ہما امتحان کی تیاری کے بہانے اندر بٹھا دیا گیا۔ ان کو ڈر تھا کہ وہ زیادہ پڑھی اور خوبصورت ہے تو رضیہ کو ریجیکٹ نہ کر دیں۔
رضیہ نے نند اور ساس کو متاثر کیا۔ ان لوگوں نے شرط رکھی کہ لڑکی شادی کے بعد گاوں میں رہے گی۔ والدین پریشان ہو گئے۔ جب رضیہ سے پوچھا گیا تو اس نے گاوں میں رہنا قبول کر لیا۔ والد نے کہا کہ پھر سوچ لو تو اس نے کہا سوچ لیا ہے رہ لوں گی۔ اس کی بہن کو رضیہ پسند آئی۔ وہ پہلے ہی انگوٹھی اور لے کر آئے تھے۔ کہ اگر بات بن گئ تو رشتہ پکا کر کے شادی کی ڈیٹ لے لیں گے۔
جب نرگس کے ساس سسر نے سنا کہ گاؤں میں رہنے کے لیے لڑکی تیار ہے تو وہ بہت خوش ہوے۔ اور واری صدقے جانے لگے۔ اور انگوٹھی پہنانے کی اجازت مانگی۔ پھر ہما کو بھی بلا لیا گیا۔ جو پہلے فقط سلام کر کے پڑھائی کا بہانہ بنا کر چلی گئی تھی۔ اس کو تیار ہونے سے منع کیا گیا تھا۔ ہما نے سنا کہ آپا کا رشتہ پکا ہو گیا ہے اور اب انگوٹھی پہنانے کی رسم ہونے لگی ہے تو وہ خوشی سے مسکراتی ہوئی بھاگی آئی۔
رضیہ کو سرخ دوپٹہ اوڑھا کر ساس نے انگوٹھی پہنا دی۔ ہما اور رضیہ کی نند نے موبائل پر مووی وغیرہ بنائی۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ سعد کا باپ سامنے بیٹھا مسکراتے ہوئے خوشی سے شرماتا ہوا وارفتگی سے اسے دیکھتا رہا۔ بہن اسے چھیڑ رہی تھی۔
نرگس بیاہ کر گاوں چلی گئی اور وہاں جا کر اسے احساس ہوا کہ ایک تو اس کے ساس سسر گاوں کے تھے۔ صرف ایک پکا گزارے لاہق کمرہ آگے تھوڑا سا برامدہ تھا۔ واش روم کافی دور صحن کے کونے میں تھا۔
گاوں میں جانور وغیرہ موجود تھے اور مرغیاں، بکرے،گاے بھینسیں سب موجود تھے۔ وہ سلیقے والی تھی۔ شوہر ہر ویک اینڈ پر ا جاتا۔ وہ شکایتوں کا پلندہ کھول دیتی۔ وہ اس معاملے میں بےبسی ظاہر کرتا۔ تو وہ چڑ جاتی لڑتی۔ وہ لکڑیاں جلاتے تو اسے یہ سب کام نہیں کرنے آتے۔ جلد ہی نند کی شادی بھی ہو چکی تھی اور وہ بیاہ کر امریکہ چلی گئی۔ اس کے سسرال والے دور کے رشتے دار تھے پاکستان آے لڑکے نے کسی شادی پر دیکھا پسند کیا۔ رضیہ اس پر رشک کرتی کہ وہ گاوں کی میرے جتنی پڑھی اور اس کی قسمت میں امریکہ لکھی ہوئی تھی۔ وہ بھی اتنی پڑھی لکھی فیملی شوہر بھی پڑھا لکھا اور دولت مند بھی۔ وہ ٹھاٹھ سے پاکستان آتی۔ سارے رشتے دار اس سے ملنے پر فخر محسوس کرتے۔
رضیہ گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتی۔ اپنے پورشن کو صاف رکھتی۔ گاوں میں رشتے داروں کے گھر قریب قریب ہوتے ہیں۔ ان کے بچے اگر کمرے میں آ کر چیزیں خراب کرتے تو وہ تنگ پڑتی۔ ساس سسر َسے بھی الجھتی۔ شروع شروع میں انہوں نے اس کو پروٹوکول دیا مگر جب اس نے شہر رہنے کی ضد کی تو وہ بھی کوشش میں لگ گئے کہ بیٹا چلا نہ جائے۔ انہوں نے اسے بیوی کے خلاف کرنا شروع کر دیا۔
رضیہ کا بیٹا سعد پیدا ہوا۔ میکے میں ماں نے رکھا اور چھلے کے بعد اس کو بھیجا۔ اب تو بچے کا بھی مسئلہ تھا وہ اسے صاف ستھرا کر کے بھیجتی۔ واپس آتا تو اٹا ہوا ہوتا۔ میاں آتا تو وہ اس سے لڑتی۔ ادھر والدین اسے اس کی شکایت لگاتے۔ وہ اس سے تنگ پڑ گئے۔ ہما کے والد صلح جو تھے۔ وہ بیٹی کو سمجھاتے۔ داماد بھی تنگ پڑنے لگا۔ آخر ہما کے والد جو داماد کو بہت عزت دیتے تھے۔ وہ بھی ان کی عزت کرتا۔
ساس نے داماد کو سمجھانا شروع کیا کہ اگے بچے کے مستقبل کا مسئلہ ہے تو اس کو اچھے اسکول میں پڑھانے کے لیے تمہیں اسے ادھر شفٹ کرنا ہو گا۔ اس نے عزر پیش کیا کہ یہ اکیلی کیسے رہے گی۔ تو انہوں نے اسے اپنے پاس رہنے کی افر کر دی اور بچہ اسکول کے قابل ہوا تو وہ نرگس کے میکے شفٹ ہو گیا۔
نانا چونکہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ اور ہما نے پڑھائی کے بعد ٹیچنگ شروع کر دی تھی۔ داماد اسی شہر میں تھا اور روز آفس سے واپس آ جاتا تھا۔ اور لڑائی جھگڑے سے جان چھوٹ چکی تھی۔ سسرال میں سب عزت کرتے۔ ساس کھانا مزے کا بناتی تھی۔ وہ ہر ویک اینڈ پر گاوں جاتا اسے بھی لے کر جاتا۔ گاوں زیادہ دور نہ تھا اس لیے شام کو واپس آ جاتے۔ ساس سسر اب راضی ہو گئے تھے شکر کرتے تھے کہ وہ ادھر آتی ہے اور شوہر کو آنے دیتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ شہر سے آئی ہے تو گاوں کے ماحول میں رچ بس جائے گی۔ کچھ بس جاتی ہیں کچھ ایڈجسٹ نہیں ہو پاتی۔ مگر سسرال والے امید لگا لیتے ہیں۔
رضیہ کو لکڑیاں جلانی نہ آتی تھی۔ ساس نے رضیہ سے جلانے والے آبلہ مانگا جس کو وہ گھوبر کے بسکٹ کہتی تھی۔ اس کا دل خراب ہوا اس نے شکل بنا کر دو تنکوں سے پکڑ کر پکڑایا تو خوب مزاق بنا۔ کچھ گاوں کی عورتیں اس کے سلیقے کی تعریف کرتیں۔ پانچ سال اس نے گزارے تھے مگر اپنے پورشن میں رہتی۔ کسی سے گھلتی ملتی نہ تھی۔ نہ کسی سے فالتو بات کرتی تھی۔ اپنا کچن الگ رکھا ہوا تھا اپنی سلامیوں کے پیسے سے اس نے کھڑے ہو کر پکا نے اور برتن دھونے والا سسٹم گزارے لائق کر لیا تھا۔ سلنڈر پر پکاتی۔ ناشتہ، انڈے بریڈ، نوڈلز انہی چیزوں کو شوق سے کھاتی۔ باتھ روم کے باہر تین جوتوں کے جوڑے اپنا، بچے اور شوہر کا رکھا ہوتا۔ تین صابن دانیاں اپنی، بچے اور شوہر کی رکھی ہوتی۔
گاوں والے حیران ہوتے اور اس کی کاپی بھی کرتے۔ وہ کہتی اس کے سسر ہر جگہ تھوک دیتے ہیں تو اس کا دل خراب ہوتا ہے۔ گاوں کی عورتیں جگہ جگہ بچوں کو پیشاب کروا دیتی تھیں۔ اس سے بھی رضیہ چڑتی تھی۔
گاوں میں رضیہ کی وجہ سے شرمندہ رہتے۔ اب وہ ہر ویک اینڈ پر کھبی جاتی کھبی نہ جاتی۔ میاں بھی شرمندہ ہوتا مگر وہ موڈی ہو گئ تھی بچے کو اکثر باپ کے ساتھ گاوں بھیج دیتی۔ اور ریلیکس ہو جاتی۔
والدین کی فوتگی کے بعد پانچ مرلے کا گھر سیل کر کے دونوں بہنوں نے حصے لے لیے۔ اس حصے سے گھر تو نہیں آ سکتا تھا۔ ہما کی بھی شادی ہو چکی تھی۔ رضیہ کراے کے گھر میں رہتی تھی بچے کو اچھے اسکول میں داخل کروایا تھا۔ جہاں سے بچے کا اسکول نزدیک پڑتا تھا۔ رضیہ نے استعمال کے لئے گاڑی لے لی اور فیملی کے ساتھ عمرہ کرنے چلی گئی۔ اس نے ہما کو بھی بہت ساتھ چلنے کو کہا مگر بچیوں کا مسئلہ تھا۔ عروبہ کو ادھر سنبھالنے کے لیے تیار تھی۔ اور نتاشا کو ساتھ لے جانے کے لیے تیار نہ تھی۔ کہتی اسے کسی پڑوس میں دے جاو۔ مگر ہما نہ مانی۔ وہ اسے کوستی چل پڑی۔
ہما کالج میں پڑھتی تھی تو اس کی دوستی شوہر کی سوتیلی بہن سے ہو گی۔ ہما ان کے گھر بھی کھبی جواہن سٹڈی کے لیے جاتی تھی وہاں اس کے بھائی کو ہما پسند آ گی۔ ان کے گھر میں ایک بوڑھا بیمار باپ اور ہما کی نند تھی۔ ہما کے سسر نے بیٹے کو شادی کرنے کا مشورہ دیا تاکہ بعد میں وہ بیٹی کی شادی کر کے سرخرو ہو سکے۔ تو اس نے شرماتے ہوئے ہما کا نام لیا۔ اس کی بہن خوش ہو گئی۔ نند نے ہما سے خوشی میں اسے فون کر کے راے پوچھی۔ ہما کی نظر میں اس کے بھائی کا سراپا آ گیا۔ جو پڑھا لکھا ہینڈسم نوجوان تھا۔ اس نے اپنے لیے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی جھلک دیکھ لی تھی اس کو بھلا کیا اعتراض تھا۔ اس نے شرماتے ہوئے ہاں کہہ دی۔