عروبہ آج بہت ایکٹو ہو رہی تھی۔ نرگس نے کہا کہ کہ اماں جی کے لئے کچھ کھانے کو لےآو انہیں دوا دینی ہے کوئی بریڈ پیس ہی لے آو۔ عروبہ نے کہا روٹی پکا دوں وہ بولی تم نہیں پکا سکو گی۔ عروبہ نے ماہنڈ کرتے ہوئے بولا آنی مجھے آتی ہے پکانی وہ بھی گول والی۔ سب ہنسنے لگے۔ نرگس بولی ان کی اسپیشل ہوتی ہے۔ پیڑے کے پیچ میں آہل یا گھی تھوڑا بہت ڈالتی ہوں تاکہ نرم رہے اور اوپر سے سوکھی ہوتی ہے۔
عروبہ اچھا کہہ کر چل دی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں سلاد اور دہی اور کریلے کا سالن ڈونگے میں ڈال کر ساتھ پلیٹ، جگ اور گلاس لے کر آئی۔
عروبہ کے سسر نے کہا واہ بای واہ کیا بات ہے۔ عروبہ خوش ہو گئی بولی دادا جی آپ کے لیے بھی لاوں وہ بولے ہمارا پسندیدہ سالن سامنے ہو تو کون کافر انکار کرے گا وہ خوشی سے پوچھنے لگی کیا آپ کو بھی پسند ہیں کریلے گوشت۔ وہ بولا بہت۔
اماں کو نرگس نوالے کھلا رہی تھی اماں بولی مزےدار بنے ہیں۔ عروبہ خوش ہو گئی۔ نرگس نے بھی خوش ہو کر عروبہ کو دیکھا۔
عروبہ نے کہا میں ابھی سب کے لیے پکا کر لاتی ہوں آج دادی اماں جیسی اسپیشل روٹیاں سب کے لیے پکا کر لاتی ہوں۔ عروبہ کا سسر بولا ہاں جلدی سے لے آؤ۔
وہ تیزی سے پکانے لگی سعد کچن میں آ گیا اور بولا کچھ ہیلپ کرو وہ جو تھکی ہوئی تھی بولی تم کھڑے ہو کر تماشا دیکھو وہ مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے دھیما بولنے کا کہنے لگا۔ عروبہ نے غصے سے بیلن دیکھایا تو وہ مسکرانے لگا۔
ساجد لوگ جب واپس آئے تو دیکھا سب کھانا کھا رہے تھے اور ان سے ملے تو وہ لوگ کھانے کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ اماں جی نے بھی تعریف کی تو ہما اور ساجد کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ وہ بہت خوش ہوے۔ نرگس کے شوہر نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ اتنا لزیز سالن دیکھ کر رہا نہ گیا اور آپ کا انتظار نہ کیا۔
وہ بولا مجھ سے بھی صبر نہیں ہو رہا میں بھی ہاتھ دھو کر آ جاتا ہوں۔
عروبہ نے خوشی سے کہا ڈیڈ میں نے آپ کے لئے اسپیشل پکاے تھے اور کھیر بھی بنائی ہے۔ وہ سن کر خوش ہو گیا۔ نرگس کا سسر بولا واہ بای ہمیں بھی ملے گی کھیر۔
عروبہ بولی جی جی کافی ساری پکائی ہے میں نے سوچا تھا پڑوس میں بھی بھیج دوں گی۔
نرگس کا شوہر مسکراتے ہوئے بولا بیٹا پہلے ان پڑوسیوں کو دو اگر بچی تو ان کو دینا۔
سعد نے شرارت میں کہا ہو سکتا ہے ساری ہی پڑوسیوں کو بھیجنی پڑے۔ عروبہ نے گھورا سب مسکرانے لگے۔
سب کھیر کی بھی تعریف کر رہے تھے۔ ہما اور ساجد سن کر دل میں خوش ہو کر پھولے نہیں سما رہا تھا۔ نتاشا برتن سمیٹنے لگی۔
سعد کے والد نے کہا شاباش بیٹا کھانے کا لطف آ گیا اتنا زیادہ کھا لیا ہے کہ اس کو ہضم کرنے کے لیے گرین ٹی کی ضرورت ہے۔ وہ کچن کی طرف چل دی۔
گرین ٹی پیتے ہوئے سعد کے دادا نے کہا شاباش چاے بھی مزے کی ہے عروبہ نے آہستہ سے کہا کہ میں نے نہیں بنائی میں تھک گئی تھی نتاشا سے کہا تھا اس نے بنائی ہے۔
نرگس کے سسر نے کہا شاباش بڑی صاف گو بچی ہے۔
عروبہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی کھانا بھی کھانے کا اس کا موڈ نہ تھا پریشان تھی کہ دادی کیا فیصلہ دیتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد ہما خوشی سے اندر آئی اور عروبہ کو مبارک باد دیتے ہوئے گلے لگایا کہ وہ لوگ مان گئے ہیں اور رسم کے لیے بلا رہے ہیں۔ نتاشا نے بھی بھرپور انداز میں مبارک باد دی تو ہما نے کہا کہ وہ سب اسے تمھاری بہن مانتے ہیں اور ساجد کو دوسری بیٹی۔ اب کم از کم دو سال اسے بہن مانو اور اب پلیز شادی تک کوئی غلطی نہ کرنا اور اسے بہن سمجھنا چلو نتاشا سے گلے مل کر ابتدا کرو وہ ہلکی سی اگے ہوئی تو نتاشا نے بھرپور گرمجوشی سے اسے گلے لگا کر پیار کیا اور دعائیں دیں۔ عروبہ اس کے پرخلوص رویے پر حیران ہوئی اور اندر سے خوش ہو گئی وہ سمجھتی تھی کہ وہ تو اس کے اتنے شاندار پڑھے لکھے ہینڈسم لڑکے کے رشتے سے جیلس ہوتی ہو گی مگر وہاں تو ان چیزوں کا شاہبہ تک نہ تھا۔ اس نے سوچا یہ اپنے اس معمولی پڑھے لکھے اور ان متوسط طبقے کے لوگوں کے رشتے سے ہی بہت خوش ہے۔ اس کی سوچ ہی محدود ہے اس بونگے سے لڑکے سے یہ بہت خوش ہے۔ پر اسے جلانے کا مزہ تھا ڈیڈ نے اگر اس کا رشتہ پہلے نہ طے کیا ہوتا تو آج وہ اس کو خوب جلاتی مگر گھر داماد والا آہیڈیا اس نے ہی تو ڈیڈ کو دیا تھا تاکہ جب وہ شان سے میکے شوہر کے ساتھ آے تو اسے خدمت کے لیے نتاشا موجودہ ہو۔
ساجد جو بلانے آیا تھا اس نے نتاشا کا خلوص دیکھا اور اس کے دعائیں دینے پر کافی حیران ہوا۔ نرگس کے سسرال والے اسے دو بیٹیاں بتا کر شرمندہ کرتے تھے کہ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ دل میں سوچتا تھا کہ اس نے تو اسے کھبی بیٹی مانا ہی نہ تھا جبکہ نتاشا نے اب ثابت کیا تھا کہ وہ اسے باپ سمجھتی ہے۔ عروبہ کے مستقبل کا اس نے ہمیشہ اچھا سوچا اس کو اعلیٰ تعلیم دلائی اس کے لیے پڑھا لکھا اچھے عہدے دار سعد کا رشتہ پانے کی سر توڑ کوشش کی۔ جبکہ نتاشا کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں روڑے اٹکائے اس کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا ضروری نہ سمجھا اور اس کا رشتہ بھی اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے ڈھونڈا نہ کہ اس کی خوشی اور بہتر مستقبل کے لئے۔ اس کے ظمیر نے ملامت کی۔ کھبی انسان کا ظمیر ضرور جاگتا ہے جو اسکو ملامت کرتا ہے اور خوش قسمت لوگ سدھر جاتے ہیں اور اپنی سابقہ غلطیوں کی تلافی کرتے ہیں اور بدقسمت لوگ اس آواز کو دبا کر اپنی پرانی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ ساجد کے دل میں احساس شرمندگی جاگنے لگا اس نے سوچا اس کی نانی اور ماں نے اس کے ساتھ برا کیا مگر اس نے تو کچھ نہیں کیا تھا پھر وہ ان کی زیادتیوں کی سزا اسے کیوں دیتا رہا اس کو ہما نے بارہا احساس دلانے کی کوشش کی کہ اس میں اس بچی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ حالانکہ بچی اس کی بہن کی تھی اس نے تو سسر کی التجا کی لاج رکھی اور اس میں اور بیٹی میں فرق نہ رکھا۔ اور وہ جوش انتقام میں اپنے باپ کے اس سے رشتے کو بھی بھول گیا۔ دراصل ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مرد حاکمانہ مزاج رکھتے ہیں اور ان کو حاکم بنانے میں زیادہ تر ان وفاشعار اور نیک عورتوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے جو بچپن سے دیکھتی سنتی آتی ہیں کہ مرد گھر کا سربراہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے مگر وہ ہر وقت اس کی خدمت میں لگی رہتی ہیں اور اپنی بہو بیٹیوں کو بھی باور کراتی رہتی ہیں کہ باہر سے مرد کے آتے ہی اس کو کھانا پانی ملے ملنا بھی چاہیے مگر مرد بھی اتنے قصور وار نہیں کہ ان کو بھی بچپن سے یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ انکے باپ دادا وغیرہ ہی ہر فیصلے کرتے ہیں اور عورتوں پر حکم چلاتے ہیں ان کو اہمیت نہیں دیتے نہ ان سے کسی معاملے میں راے لیتے ہیں اور بعض اوقات ان سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں دل شکنی ہوتی ہے مگر چونکہ معاشرہ ایسا بنا ہے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ جیسے اگر وہ دیر سے گھر آئے بیوی بچوں کو سلاتے خود بھی سو گئ تو وہ خود سے کھانا نہیں ڈالتے ماں بہو کو آواز دیتی ہے یا بیٹی کو کہ بھائی آ گیا ہے کھانا ڈال کر دو تو وہ کھٹکے سے اٹھتی ہے نیند بھری آنکھوں سے دیکھتی ہے اور گرتی پڑتی کھانا ڈالنے چل پڑتی ہے۔ کچھ مرد جو سمجھتے ہیں کہ ہم عورتوں کو برابر سمجھتے ہیں وہ ان کو مردوں جیسی ناجائز آزادی دے دیتے ہیں تو پھر وہ ماڈرن بن کر پھرتی ہیں اور مردوں کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ آگے سہہ نہیں پاتیں مرد کی حاکمیت کو اور زندگی برباد کر لیتی ہیں۔ بس عورت کو صرف بچوں اور دنیا کے سامنے صرف عزت سے رکھا جائے جو کام حکم دے کر کرایا جاتا ہے اسے پیار وعزت سے بھی پکار کر لیا جا سکتا ہے اور اہم معاملے میں عورت سے بھی راے لے کر اگر اختلاف رائے ہو تو اس پر غور کر کے سوچا بھی جاسکتا ہے اور ہو سکتا ہے عورت کی راے بہتر ہو اگر بہتر نہ لگے تو اسے پیار ودلیل سے سمجھایا جائے تو پیار کی زبان ہر کوئی سمجھتا ہے تو بچے بھی باغی نہیں ہوتے۔ جہاں عورت کی عزت ہو۔ کیونکہ بچے زیادہ تر ماں کے انڈر رہتے ہیں اور اس کا ڈر دل میں موجود ہو گا تو وہ غلط کاموں سے بچے رہیں گے اور ان کا مستقبل سنور جائے گا۔ ہر چیز میں میانہ روی ہونی چاہیے اگر مرد نے آزادی دی تو عورت اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاے اور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلے اور اس کا احترام کرے اور بچوں کو بھی سکھاے۔ اور بےپردہ نہ نکلے۔ ورنہ ایسی عورتوں پر شرفا کی نظر بھی اٹھ جاتی ہے۔ ساجد نے سوچا کہ اب وہ نتاشا پر کوئی زیادتی نہیں کرے گا۔ وہ بلانے آیا تو عروبہ خوشی سے باپ سے لپیٹ گئ۔
عروبہ کو سرخ دوپٹہ نرگس نے اوڑھایا۔ سعد کی پھوپھو بھی ان لاہن ان ہو گئ سعد نے ایل سی ڈی پر لاہیو کر دیا۔ نتاشا نے جا کر پڑوسی خالہ اور ان کی فیملی کو بھی انواہیٹ کر دیا۔ خوب رونق لگ گئی۔ نتاشا نے ڈیک بھی آن کر دیا۔ سعد کی پھوپھو کی ساری فیملی بہت غور سے اور دلچسپی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔
نتاشا کو خالہ پڑوسن کی بہو نے زبردستی کوئی براہیٹ سوٹ پہننے پر مجبور کیا اور زبردستی اس کا میک اپ بھی کروایا عروبہ خود ہی تیار ہوئی تھی اور اپنا میک اپ بھی خود ہی کیا تھا اور کافی خوبصورت لگ رہی تھی سعد اسے پرشوق نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کا باپ اور دادا بیٹے کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔
نتاشا تیار ہو کر آئی تو بہت پرکشش لگ رہی تھی سب نے تعریف کی۔ ہما نے نظروں سے بلائیں لیں۔
نتاشا اور پڑوسن خالہ کی بہو مووی بنا رہی تھی۔ نرگس نے انگوٹھی نکالی تو نتاشا نے کہا خالہ جانی سعد کو دیں وہ پہناے نرگس کے شوہر نے کہا کہ ہاں بیٹا کیوں نہیں اور سعد جلدی سے اٹھا اور جاکر عروبہ کے پاس بیٹھ گیا۔ سعد کے تینوں کزنز اسے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔ اور دونوں کی تعریف کر رہے تھے۔ دونوں بہت پیارے لگ رہے تھے سعد آج کریم کلر کے شلوار قمیض ڈریس میں آیا تھا۔ نرگس عروبہ پر واری جا رہی تھی جبکہ داری سپاٹ چہرے لیے بیٹھی تھی۔ سعد کی پھوپھی عروبہ کی بہت تعریف کر رہی تھی۔ انگوٹھی کی رسم ادا کی گئی سعد نے عروبہ کو انگوٹھی پہنائی۔ تالیوں میں رسم ادا کی گئی۔ سعد کے کزنز امریکہ سے لاہیو دیکھ کر شوروغل مچا رہے تھے۔ وہ بھابھی بولنے لگے تو ماں نے ٹوک دیا کہ ابھی شادی نہیں ہوئی اس لیے اسے آپی بلاو۔وہ تالیاں بجا بجا کر آپی اپی کرنے لگے۔
سعد نے انگوٹھی پہنائی تو سب نے تالیاں بجاہیں اور زور و شور سے مبارک باد دی۔ دادی خاموشی سے بیٹھی تماشا دیکھتی رہی۔ پھر سب نے ان دونوں کو اور آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔
سعد کی پھوپھو نے ہما اور نرگس کو مبارکباد دی تو ہما نے بہت اخلاق سے اسے بات چیت کی اور پاکستان آنے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی وہ بہت خوش ہوئی اور آنے کا وعدہ کیا۔ پھر سب بچوں نے بڑے خلوص سے بات کی اس کے بعد اس نے کہا آپ دونوں کی میں اپنے شوہر سے بات کرواتی ہوں بچوں نے بتایا کہ ڈیڈ کال پر بات کر رہے ہیں۔ سب بچوں نے نتاشا سے بھی بات کی۔ اور نتاشا ان سے خلوص سے بات چیت کرتی رہی۔ ان کو اپنے گھر پر آنے کی دعوت دیتی رہی ان لوگوں نے وعدہ کر لیا۔ سب سے چھوٹا نتاشا سے گاؤں میں جب آتا تو کھانے کی تعریف بھی کرتا اور بات چیت بھی کرتا تھا اس نے گلہ کیا کہ آپی پہلے کبھی آپ نے ہمیں اپنے گھر پر انواہیٹ نہیں کیا تھا وہ جواب میں مسکرا کر چپ ہو گئ کیا بتاتی اس وقت وہ دبی دبی سی رہتی تھی اب بڑے اعتماد اور مان سے سب کو بلا رہی تھی۔ ساجد یہ سن کر شرمندہ ہو رہا تھا کہ اس نے تو اسے کھبی یہ گھر اپنا سمجھنے ہی نہ دیا تھا اس نے دیکھا آج وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی اس نے سوچا اگر وہ اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے دیتا تو وہ بھی کسی اچھے خاندان میں جا سکتی تھی اس کو کوئی بھی خاندان پسند کر لیتا وہ اتنی بھی بری نہ تھی۔ اس میں جو اعتماد اسے نظر آیا اس نے سوچا شاید اس کے رشتہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
ہما اور ساجد بہت خوش تھے۔ ساجد نے نرگس کی نند اور بچوں سے بات چیت کی انہیں گھر آنے کی دعوت دی وہ بہت خوش ہوے۔ چھوٹے نے گلہ کیا انکل نتاشا آپی نے پہلے کھبی اپنے گھر انواہیٹ نہیں کیا تھا اب بڑے زور وشور سے کر رہی ہیں تو ساجد سن کر دل میں شرمندہ سا ہو گیا۔ اس کے شوہر سے بات چیت کی تو ان کی بزنس پر باتیں ہونے لگیں اور ان کا بزنس پر کسی ڈیل پر اتفاق رائے ہوگیا اور اسے مشترکہ طور پر کرنے پر ڈیل ہو گئ۔ اس نے ہما سے بات کرانا چاہی تو وہ بار بار مصروفیت کا بہانہ کر دیتی مگر ساجد زبردستی اسے بلا لایا اور ڈانٹ کر بولا کام بعد میں کر لینا پہلے بات کرو تو وہ مجبوراً سامنے بیٹھ گئی تو سامنے اس کی عروبہ کا باپ بیٹھا تھا اور مسکرا رہا تھا وہ مسکرایا اور بڑے ادب سے سلام کر کے بولا کیسی ہیں باجی آپ؟ اس نے اپنے اوپر قابو پایا اور بڑے اعتماد سے بات کی پاس اس کی بیوی مسکرا کر دیکھ رہی تھی ہما کو ساجد نے گھر انواہیٹ کرنے کا اشارہ کیا تو اس نے اسے کہا بھائی صاحب آپ اپنی فیملی سمیت ادھر بھی آہیے گا تو وہ خوشی سے بولا کیوں نہیں ہماری امانت بیٹی جو آپ کے گھر میں ہے اسے لینے تو آنا ہی ہے۔ اس نے مختصر بات کی اور معزرت کرتی مصروفیت کا بہانہ بنا کر اٹھ گئی اور کمرے میں چلی گئی ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا نتاشا اس کو پریشان دیکھ کر قریب آئی تو نتاشا نے پوچھا ماما کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی۔ اس نے قابو پاتے ہوئے کہا کچھ نہیں بس عروبہ کی جدائی کا سوچ کر دل بھر آیا تھا تو وہ تسلیاں دینے لگی نرگس بھی آ گئ اور وہ بھی اسے تسلی دینے لگی کہ اپنی خالہ کے گھر جا رہی ہے فکر نہ کرو میں تو پہلے ہی بھانجی پر فدا تھی اب تو اکلوتے بیٹے کی بیوی بننے والی ہے۔ ہما نے جزباتی ہو کر پوچھا کہ اسے پیار سے رکھو گی نا چاہے کچھ بھی ہو۔ نرگس حیران ہوتے ہوئے اسے گلے لگا کر بولی پاگل کیسی باتیں کرتی ہو میری بھانجی ہے وہ۔ ہما رونے لگی تو نرگس اسے گلے لگا کر تسلی دیتے ہوئے بولی پاگل ہے تو وہ اتنی خوش ہے دیکھو کیسے سب سے گھل مل کر باتیں کر رہی ہے سعد کے کزنوں سے۔ وہ بھی اس کے دوست بن گئے ہیں۔ میں گاوں میں اس کے ساتھ ہوں گی نا۔ نتاشا بھی اسے تسلی دینے لگی کہ جب نرگس خالہ ہیں تو پھر کیا فکر۔
سب کے جانے کے بعد عروبہ بولی موم میں تھک گئی ہوں سونے جا رہی ہوں۔
نتاشا برتن دھونے بیٹھ گئی۔ ہما نے کہا بھی مگر وہ نہ مانی۔ ساجد سوچنے لگا کہ شاید نتاشا کا یہاں رہنا قدرت کی طرف سے اس گھر کے لیے انعام تھا۔ یہ ہما کو کتنے سکھ دیتی ہے۔ اور اس نے کاش عروبہ کی پرورش ہما کو کرنے دیتا تو آج اس کے رشتے کے لیے ان لوگوں کے آگے نہ زلیل ہونا پڑتا۔ کاش میں نے اس کو نتاشا کے ساتھ پیار کا رشتہ استوار کیا ہوتا تو دنیا کے سامنے بھی عزت رہ جاتی۔ نتاشا تو اس کا بہن کی طرح ساتھ دیتی ہے۔ دونوں اگر اکھٹی ایک جیسی زندگی گزارتیں تو میری بیٹی کو بہن مل جاتی اور وہ خوش رہتی۔ اس نے تو بیٹی کے زہن کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب تو وہ کسی کو منہ نہیں لگاتی۔ قسمت اسے اتنا ہی گاؤں میں ان لوگوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اسے فکر تھی کہ شادی کے بعد وہ زیادہ عرصہ ادھر نہ رہ سکے گی پھر کیا ہو گا اسے ابھی سے نتاشا کو خود بھی اہمیت دینی پڑے گی اور اس کو بھی اس کے رشتے کا احساس دلانا پڑے گا وہ سوچ کر رہ گیا۔
اگلے ہفتے نکاح کا فون آ گیا اور ساتھ ہی جلد شادی کا حکم بھی آ گیا۔
نکاح سادگی سے گھر میں ہی ہونا قرار پایا۔
ہما کو اب اکثر پریشانی رہنے لگی کہ اسنے سعد کے پھوپھا کو پہچان لیا تھا اور اب یقیناً وہ جان گیا ہو گا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور دوسری اس کی ہے اب وہ کیا کرے گی اگر سچ سامنے آ گیا تو وہ سب کو کیا بتاے گی شوہر کو کیسے مطمئن کرے گی اسے سب سے زیادہ فکر ساجد کی تھی۔اسے نیند نہیں آ رہی تھی ساجد سو چکا تھا عروبہ بھی سو چکی تھی۔ وہ اٹھی اور کچن میں پانی پینے آئی تو نتاشا کچن میں چائے بنا رہی تھی بولی کھانا کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا چاے کے ساتھ کچھ سنیک بنانے لگی ہوں آپ کے لیے بھی بنا دیتی ہوں آپ نے کھانا کم کھایا تھا ہما سامنے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ نتاشا اب بلاجھجک ہر چیز کھاتی پیتی اور رہتی تھی اس کی اس تبدیلی پر عروبہ نے پہلے پہل نشتر چلاے جب اس نے دھیان نہیں دیا تو عروبہ بھی یہ سوچ کر چپ ہو گی کہ شاید بچپن سے بےعزتی کھا کھا کر اب یہ ڈھیٹ ہو گئی ہے۔ باپ نے عروبہ کو سمجھایا کہ تم بھی اب ایسی باتیں بند کر دو مبادا تمہارے سسرال والے نہ سن لیں۔
ہما اور نتاشا چاے وغیرہ لے کر سٹور نما نتاشا کے کمرے میں آ گئیں تو ہما نے کمرے کو دیکھ کر کہا ہاے میری شہزادی باپ کی اتنی بڑی کوٹھی کی مالک ہوتے ہوئے اس سٹور میں تجھے رہنا پڑتا ہے۔ نتاشا بولی ماما آپ کیوں ایسا سوچتی ہیں۔ اپ کی نیکیوں کا صلہ آپ کی بیٹی کو ملا ہے کہ مجھے ایسا رشتہ ملا ہے کہ میں ساری زندگی آپ کی نظروں کے سامنے رہوں گی۔
ہما بولی میں اس رشتے پر بلکل بھی خوش نہیں ہوں میرا جی چاہتا ہے کہ میں اج اس رشتے کو توڑ دوں مجھے تجھے پاس رکھ کر ایسا رشتہ جوڑنے کا لالچ نہیں ہے۔ اچھا رشتہ ہو چاہے سات سمندر پار ہو پھر بھی میں خوش ہوں۔ ماما آپ میرا آہیڈیل ہیں جو اپنی بیٹی سے زیادہ نند کی بیٹی کو اہمیت دی اور اب اسے مجھے امید ہے کہ پاپا سارے جہان کی دولت اس کے جہیز میں دیں گے تو آپ اف نہیں کریں گی۔ پھر نتاشا پچھلی باتیں دھرانے لگی کہ کیسے اسے پہلی بار پتا چلا تھا اور اس کے کیا تاثرات تھے۔ ہما اسے گلے لگا کر پیار کرنے لگی۔
ساجد کی پیاس سے آنکھ کھل گئی تو اس نے دیکھا ہما بیڈ پر موجود نہیں ہے وہ باہر نکلا تو اسے کچن سے ان دونوں کی آوازیں آنے لگیں تو وہ سن کر دنگ رہ گیا کہ نتاشا اس کی بیٹی ہے۔ پھر وہ دبے پاؤں کمرے میں آ گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اوٹ سے دیکھا وہ دونوں نتاشا کے کمرے میں داخل ہو رہی ہیں تو وہ دبے پاؤں باہر کھڑا ہو کر سننے لگا تو نتاشا پچھلی باتیں دہرا رہی تھی تو اس پر ساری حقیقت آشکار ہو گئ۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ اس جیسے حاکمانہ مزاج کے مرد بیوی کو اتنا ڈرا دبا کر رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ڈر سے بعض اوقات اتنے غلط فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کی اپنی بیٹی اسی کی وجہ سے کہ ایک اسے خوبصورت اولاد چاہیے تھی اس وقت واقعی اس کا دماغ خراب رہتا تھا کہ وہ دھمکی کے ساتھ کچھ کر بیٹھتا یا اسے اپنی بیٹی دنیا میں سب سے حسین لگتی جیسی اسے اب لگ رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جاکر اسے سینے سے لگا کر دھاڑیں مار مار کر روے۔ اس نے زور زور سے ہما کو آوازیں دیں تو ہما اور نتاشا دوڑتی آ گی گھبراتے ہوئے بولی کیا ہوا اس نے کہا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے نتاشا بھاگ کر پانی لے آئی۔ وہ غٹا غٹ بہت سا پانی پی گیا نتاشا اس کی پاوں کی تلیاں ملنے لگی اسے سکون ملنے لگا وہ بہتر محسوس کرنے لگا۔ اس نے لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ دو مہربان ہستیاں اس کے ساتھ تھیں جنہیں سب سے زیادہ اس نے دکھ پہنچاے تھے وہ پچھتانے لگا۔ اس نے اپنے رب سے توبہ استغفار کی۔ اور سکون سے سو گیا تب نتاشا اپنے کمرے میں ا گئ۔
جس دن نکاح تھا اس نے سادگی کو ترجیح دی اور سعد سے پوچھا کہ میں نتاشا کا بھی ایک کروڑ لکھواوں گا اور عروبہ کا بھی فارمیلٹی کے لیے۔ سعد نے کہا کہ میں نے بسانے کے لیے لے کر جانا ہے بےشک دو کروڑ لکھوا دیں تو نکاح کے وقت نرگس نے احتجاج کیا کہ گھر کی بات ہے مگر سعد اور نرگس کا سسر نہ مانا مجبوراً نرگس کو چپ ہونا پڑا۔ مگر اس کا منہ بن گیا۔
لاہیو وڈیو میں اس کی نند نے بھی لکھوانے پر اوکے کیا۔ ساجد پر ہما اور نتاشا کی باتوں سے حقیقت کھل چکی تھی کہ عروبہ سعد کے پھوپھا کی بیٹی ہے۔ ہما نتاشا سے مشورہ مانگ رہی تھی تو اس نے جواب میں کہا تھا کہ جب تک کوئی اور اوپن نہیں کرتا آپ چپ رہیں۔ جب اوپن ہو گا دیکھا جائے گا۔ اب اسے دشمن کی بیٹی پر روپیہ خرچ کرنا محال لگ رہا تھا۔ اسے نتاشا سے انسیت کم نہ ہو سکی تھی۔ اس نے سعد سے پوچھا جہیز میں کیا لینا ہے تو اس نے کہا کہ گاوں میں سب کمرے ابھی میں نے جدید فرنیچر سے آراستہ کیے ہیں پھر برتن، فرنیچر کچھ بھی دینے کی ضرورت نہیں۔ ساجد نے کہا کہ نقد رقم دے دوں تو سعد بولا انکل میں جہیز کے سخت خلاف ہوں اور نقد رقم بھی جہیز کی ایک صورت ہے اس کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ساجد نے کہا کہ دنیا کیا کہے گی تو سعد نے کہا کہ ہم پڑھے لکھے دنیا کے ڈر سے اس رسم کو نہیں توڑیں گے تو معاشرہ کیسے سدھرے گا۔ امیر لڑکیوں کے جہیز کے ٹھاٹ باٹھ دیکھ کر احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں شاید اسی لئے امیروں کو ان کی بدعاہیں اور آہیں لگتی ہیں جو ان کو بڑی بیماریوں پر دولت خرچ کرنی پڑتی ہیں وہی تھوڑا اپنے بچوں کا صدقہ نکال کر کم رقم سے ہی کسی غریب کی شادی یا کسی اور مسلے میں مدد کر دی جائے تو یہ ان کے اپنے بچوں کی بلاوں کو بھی ٹالتا ہے۔ ان کے بچوں کے بھلے کا سبب بنتا ہے۔ مگر کوئی سمجھے تو تب نہ۔ اگر ایک سو کے اوپر ایک روپیہ الگ کر کے خیرات نکالی جائے تو میرا خیال ہے صدقہ، خیرت، و زکوٰۃ سب کور ہو جائے گا انسان کتنی شاپنگ کرتا ہے کتنی نئ چیزیں سالوں پڑی رہتی ہیں۔ سال بعد ان کی زکوۃ بن جاتی ہے مگر ان چیزوں کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا۔
ساجد سعد کی باتوں سے امپریس ہوا۔