گھر میں نرگس لوگوں کی آمد کی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی تھی۔ ساجد نے عروبہ کو سمجھا سمجھا کر اس کی جان کھا لی تھی کہ یہ تمہارے پاس پہلا اور آخری موقع ہے ان لوگوں کو امپریس کرنے کا۔ سعد اور تمھاری آنی بھی ان کے آگے مجبور ہیں کوئی زرا سی بھی بھول چوک نہ کرنا۔ نرگس آپا کی ساس ابھی پوری طرح مانی نہیں ہے۔ تم نے اب اسے ماننے پر مجبور کرنا ہے اپنے behavior سے۔
ہما نے اس کا شلوار قمیض استری کر کے اس کے کمرے میں رکھ دیا تھا اور ہما اسے تیار ہونے کا بول رہی تھی۔ مگر وہ جوش میں ہاف بازو ٹی شرٹ اور گھٹنوں سے زرا نیچے ٹراوزر پہنے پانی کا پاہپ ہاتھ میں لے باہر گیراج دھو رہی تھی۔ ہما کچن میں تھی اور نتاشا واش روم میں تھی۔ ساجد بازار سے دہی لینے گیا ہوا تھا۔
ہما کچن سے عروبہ پر چلا رہی تھی کہ جاو جا کر لباس بدلو وہ لوگ آ نہ جاہیں۔
عروبہ نے اونچی آواز میں جواب دیا کہ موم آنی جو صبح سے فون پر پل پل بتا رہی ہیں وہ کہہ رہی تھی کہ نکلتے وقت فون کر دوں گی۔ ادھر وہ فون کریں گی ادھر میں واش روم گھس جاوں گی۔ ان کے آنے تک میں بلکل ریڈی ہو جاوں گی آپ فکر نہ کریں۔
ہما نے فکرمندی سے کہا کہ کافی دیر ہو چکی ہے اب تو ان لوگوں کو نکلنا چاہیے۔ تم زرا آنی کو فون کرو وہ بولی بس تھوڑا سا رہ گیا ہے ابھی کرتی ہوں۔
اتنے میں ڈور بیل بجی تو ہما نے آواز لگائی کہ عروبہ دروازہ کھولو تمھارے پاپا آے ہوں گے۔
اس نے جوں ہی دروازہ کھولا سامنے نرگس ساس کو تھامے اندر داخل ہوئی۔
عروبہ نے دیکھا تو حواس باختہ ہو گئی اور گھبرا کر پاہپ کا رخ ان کی جانب کر دیا وہ بھیگنے لگیں سعد نے چیخ کر اس کے ہاتھ سے پاہپ لیا اور اسے چلا کر بولا یہ کیا کر رہی ہو ساجد بھی پہنچ چکا تھا اور عروبہ کا یہ منظر دیکھ چکا تھا شور سے ہما بھی آ چکی تھی اور عروبہ کی حرکت پر سخت شرمندہ اور خجل تھی عروبہ پاہپ پھینک کر بھاگ چکی تھی۔ ہما نے اپنے حواس قابو میں کیے اور آگے بڑھ کر انہیں سلام کے بعد معزرت کی اور نرگس کی ساس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے آئی۔ نرگس اور اس کی ساس کے کپڑے جوتے بری طرح بھیگ چکے تھے ہما نے جلدی سے اپنے کپڑے نکال کر ان کو چینج کرواے اپنے جوتے ان کو دیے ام کے جوتے سوکھنے ٹیڑھے کر کے رکھے پھر نرگس کو بھی اپنے کپڑے جوتے دیے۔ اتفاق سے دونوں نیو سوٹ تھے جو ساجد ہما اور نتاشا کے گاؤں جانے کے لیے لایا تھا جوتے البتہ پرانے تھے۔
ہما نے ان کو تکیہ پیچھے رکھ کر بیڈ پر آرام سے بٹھایا۔ نرگس بھی ساس سسر سے سخت شرمندہ ہو رہی تھی ان سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی وہ بھی کپڑے بدل کر ساس کے پاس بیٹھ گئی شرم سے اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔
ہما معزرت کرنے لگی ساس جواب میں کچھ نہ بولی منہ ادھر کر لیا۔ ہما چاے کا بتا کر اٹھ گئی۔
نرگس کی ساس نے نرگس کی کلاس لینی شروع کر دی۔ یہی کڑی تھی جس کا تو بتا رہی تھی یہ پاکستانی انگریزنی۔ توبہ توبہ نہ شرم نہ حیا۔ کیسے بےشرم کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ نرگس نے صفائی دی کہ وہ صرف کام کرنے کے لیے ایسے کپڑے پہنتی ہے۔
ساس نے پھنکارا دفع ایسے کپڑوں پر۔ کیسے پاہپ سیدھا ہمارے اوپر چھوڑ دیا توبہ اس نے تو پورا نہلا ہی دیا مجھے تو سردی لگ رہی ہے۔ نرگس نے کھیس ڈھونڈ کر ان پر ڈال دیا اور لٹا دیا۔
اتنے میں سعد کمرے میں داخل ہوا تو دادی اس پر چلانے لگی بےغیرت یہ کڑی چنی ہے تم ماں بیٹے نے انگریزنی۔ اس نے تو مجھے سارا گیلا ہی کر دیا ہے۔ مجھے ٹھنڈ لگوا دی ہے۔ سعد دادی کی ٹانگیں دبانے لگا تو سب مرد بھی اسی کمرے میں آ گئے سعد ڈائننگ روم سے کرسیاں لے آیا۔
سب وہاں بیٹھ گئے۔
عروبہ چاے کی ٹرالی لیے شلوار قمیض میں ملبوس سر پر دوپٹہ لیے اندر داخل ہوئی اور سلام کیا۔ نرگس کے سسر نے مسکرا کر اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعاء دی۔ سعد کے باپ نے بھی وعلیکم السلام کہا پھر وہ نرگس کی ساس کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور سلام کیا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہما پیچھے کھڑی سب کے تاثرات نوٹ کر رہی تھی۔ ہما نے کہا عروبہ سب کو چاے بنا کر دو وہ بڑے اعتماد سے سب کو چاے بنا کر دیتی رہی۔ اور چیزیں پیش کرتی رہی دوپٹہ بار بار پھسل رہا تھا سعد اس کی ساتھ مدد کر رہا تھا۔ دادی نوٹ کر رہی تھی۔ وہ مسلسل عروبہ کے منہ کو تکتی جارہی تھی۔ ہما سب کے آگے بچھی جا رہی تھی۔ ساجد نرگس کے ساس سسر کو بہت پروٹوکول دے رہا تھا۔ عروبہ چاے سرو کر کے کمرے سے باہر چلی گئی تھی جبکہ ہما اور ساجد ان کے آگے بچھے جا رہے تھے۔ دادی موڈ بنا کر چاے پیتی رہی۔ چاے ختم ہوئی تو ہما اور ساجد بہانے سے باہر نکل گئے۔ عروبہ کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی جبکہ نتاشا فاصلے پر کھڑی اسے تسلی دے رہی تھی کہ رو مت اللہُ تعالیٰ سے مدد مانگو وہی بات بنانے والا ہے وہ دل میں نتاشا کی تسلی بھرے الفاظ سے سکون محسوس کر رہی تھی اور اس کے بتانے پر دل میں رب العزت سے خوب دعائیں مانگ رہی تھی۔ دل میں ڈر بھی رہی تھی نتاشا کی موجودگی اسے ڈھارس بندھا رہی تھی وہ خاموشی سے اس کی باتوں کے دوران روتے روتے اسے ایک نظر دیکھ لیتی تھی اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اس کے کندھے پر سر رکھ دے مگر اناء آڑے آ رہی تھی وہ دل میں مصمم ارادہ کر چکی تھی کہ وہ اب نتاشا بن کر رہے گی بس اس کی دادی کا دل پسیج جائے۔
سعد دادی کے قریب بیٹھا اور شرارت سے پوچھنے لگا کہ کیسی لگی پاکستانی انگریزنی۔ وہ جھٹ اس کی کمر پر دو کس کس کے تھپڑ مارتے ہوئے بولی اے کڑی تجھے پسند ہے جو گاوں میں نہیں رہ سکتی۔ ماں پیو اچھے ہیں بس اک اے کڑی نہیں جچی۔
سعد نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ دادو وہ گاوں رہ لے گی اس نے خود کہا ہے بےشک بلا کر پوچھ لیں۔
سسر نے بیوی سے کہا کہ پلیے لوکی شہرن کڑی ہے پھر ہمارے پوتے کو پسند ہے پڑھی لکھی ہے۔ پوتا بھی پڑھا لکھا ہے اب اس کے لیے شہری کڑی ہی لانی ہے نا۔ اس کے ساتھ گاوں کی کڑی تو نہیں لگانی نا۔ نرگس کے شوہر نے بھی باپ کی باتوں میں ہاں میں ہاں ملای مگر ساس حجت پیش کرتی رہی۔
سعد نے دادی سے کہا کہ اس کی خوشی عروبہ سے ہے۔ باقی اب آپ کی مرضی۔ بیٹے کی خوشی کا سوچ کر باپ پگھل گیا اور دادا نے بھی ہاں میں ہاں ملائ کہ ہمیں بچے کی خوشی دیکھنی ہے۔
اب ہما سخت پریشان تھی عروبہ رو رہی تھی ساجد اس کے رونے سے تڑپ رہا تھا اچانک اس کی طبیعت خراب ہو گئی نتاشا پاس تھی اس کی حالت دیکھ کر تڑپ کر اسے تھاما اور چلا چلا کر پاپا کرنے لگی ساجد اسے اپنے لیے اتنا مضطرب اور تڑپتا دیکھ کر حیران رہ گیا سب جمع ہو گئے۔ عروبہ بھی پریشانی سے ڈیڈ ڈیڈ کرتی آگے بڑھی۔ سعد جلدی سے ہاسپٹل لے گیا۔ سب ساتھ چلے گئے صرف نرگس اور اس کی ساس گھر پر رہی۔
ڈاکٹر نے چیک کیا اور کہا کہ minor سا دل کا اٹیک ہوا ہے انہوں نے کوئی stress سے دور رکھیں ورنہ ان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ساجد ہوش میں آ چکا تھا باہر سے اسے سب کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سب سے زیادہ نتاشا کی آواز میں تڑپ تھی جو سعد سے بار بار پوچھ رہی تھی سعد میرے پاپا کیسے ہیں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔
ڈاکٹر نے جب ملنے کی اجازت دی تو سب سے پہلے تیزی سے نتاشا بھاگتی اندر پہنچی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے بولی پاپا کیسے ہیں آپ۔ اس نے گردن ہلا دی پھر وہ ڈاکٹر کے گرد ہو گئ ڈاکٹر صاحب میرے پاپا ٹھیک ہو جائیں گے نا۔ اس نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور ساجد سے بولا بای آپ کی بیٹی تو بہت پریشان ہے آپ خود انہیں تسلی دیں کہ آپ ٹھیک ہیں اور باہر نکل گیا۔ ہما جو بے آواز رو رہی تھی اٹھی اور نتاشا کو گلے لگا کر تسلی دیتے ہوئے بولی فکر نہ کرو صبر کرو ڈاکٹر نے انہیں سٹریس سے منع کیا ہے تمہارے اس طرح پریشان ہونے سے انہیں سٹریس ملے گا تو وہ فوراً چپ ہو گئ۔
نتاشا اتنے پراعتماد طریقے سے رو رو کر ساجد سے بات کر رہی تھی کہ عروبہ بھی حیران تھی کہ وہ اس کے ڈیڈ سے اتنا پیار کرتی ہے۔
نرگس کا سسر بھی نتاشا کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر تسلی دے رہا تھا اور ساجد حیرانگی کے ساتھ دل میں شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ وہ اسے باپ کا درجہ دیتی ہے اور اس نے اسے کھبی بیٹی کا درجہ نہیں دیا۔
عروبہ بھی باپ کے پاس آئی اور ہاتھ پکڑ کر پیار جتانے لگی مگر ساجد کو اس کے پیار میں وہ گرم جوشی اور تڑپ نہ نظر آئی جو نتاشا میں تھی۔ وہ سوچنے لگا جس بیٹی کی محبت میں اتنا سٹریس لیا کہ ہاسپٹل پہنچ گیا وہ نارمل انداز میں سب کو کہہ رہی ہے فکر کی کوئی بات نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر تک ہم ڈیڈ کو گھر لے جاہیں گے۔ اور نتاشا انتہائی پریشان لگ رہی ہے۔
ساجد کو گھر لے آے تو نتاشا کھبی سوپ بنا کر زبردستی پلا رہی ہے اور کھبی دلیا بنا کر لا رہی ہے۔
ساجد کے گھر آنے کے کچھ دیر بعد نرگس لوگ بغیر ہاں یا نہ کیے چلے گئے۔
ساجد چند دن تک ٹھیک ہو گیا اب اس کا رویہ نتاشا سے بہتر ہونے لگا جب وہ زبردستی اسے کچھ کھلاتی تو پیار سے احتجاج کرتے ہوئے کہتا بس بیٹا۔ اب وہ اسے کبھی کبھار بیٹا پکارنے لگا۔ عروبہ اگر اسے کچھ سناتی تو وہ عروبہ کو ٹوک دیتا عزر یہ دیتا کہ اب یہ عادت تمہیں چھوڑنی پڑے گی سعد کے گاؤں والے سنیں گے تو نہ جانے کیا ہو۔ تو اس نے کافی حد تک اسے تنگ کرنا چھوڑ دیا تھا اسے تو اب بس ایک ہی ٹاپک ملا تھا ہاے کیا ہو گا سعد کی دادی مانے گی یا نہیں۔ باپ نے صاف کہہ دیا کہ اب کوئی غلطی کی گنجائش نہیں ہے تمہیں عروبہ کو فالو کرنا پڑے گا تب ہی تم منزل کو پا سکو گی۔ تو اس نے اب نتاشا سے روٹی پکانا سیکھنا شروع کر دیا۔
ساجد سعد سے اکثر فون پر پوچھتا کہ دادی مانی تو وہ کہتا ابھی نہیں لیکن آپ فکر نہ کریں میں کوشش کر رہا ہوں امید ہے کہ انشاء اللہ مان جاہیں گی۔
نتاشا جو پہلے عروبہ سے دبی دبی رہتی تھی اب اس میں کمی آ چکی تھی عروبہ حیران تھی کہ نتاشا کو اب ڈیڈ کچھ اہمیت بھی دینے لگے ہیں مجھے بھی اسے اب کچھ نہیں کہنے دیتے نہ خود کچھ کہتے ہیں اس کے باوجود نتاشا نہ تو غرور میں آئی ہے نہ ہی اس نے اسے سکھانے میں کوئی احسان جتایا ہے۔ نہ ہی اسے کھبی پرانے برے روپے کے باعث کھبی کچھ جتلانا ہے۔ بلکہ اسے ہر چیز دل سے سکھاتی ہے۔ اور اسے لگتا اب وہ پہلے سے زیادہ اس سے پیار کرتی ہے۔
ہما نے ساجد سے کہا کہ گراسری لانی ہے تو ہمیشہ ہما، نتاشا اور ساجد جاتے۔ عروبہ کو اس طرح کی شاپنگ کرنے کے لیے جانے کا کوئی شوق نہ تھا وہ گھر پر رہی اور آجکل وہ گھر کے کاموں میں دلچسپی لے رہی تھی۔ باپ نے کہا تھا کہ جلد از جلد سارے کام سیکھ لو تاکہ کھبی تمھارے اوپر ایسا موقع آئے تو کامیابی ملے ادھر سے نرگس نے بھی اس کی جان کھائی ہوئی تھی کہ جلد سارے کاموں میں پرفیکٹ ہو جاو تاکہ اگر ایسا کوئی موقع آئے تو کوئی شرمندگی نہ ہو صرف دو سال کے لیے محنت کر لو پھر سعد تمہیں باہر ساتھ لے جاے گا اسے فیملی ویزہ مل جائے گا۔
عروبہ مستقبل کے خواب بننے لگی کہ وہ سعد کے ساتھ ملک سے باہر جاے گی ابھی تک وہ جہاز میں بھی نہ بیٹھی تھی اسے ملک سے باہر جانے کا اور جہاز میں سفر کرنے کا بہت شوق تھا اس کا اظہار وہ ساجد سے کئی بار کر چکی تھی اور اس نے پرامس کیا تھا کہ وہ اسے ملک کے کسی شہر کے سفر میں جہاز پر لے کر جاے گا مگر اسے ابھی تک دفتری معاملات سے فرصت نہ ملی تھی۔ نتاشا اسے دل سے کام سکھاتی تھی اور کافی کام وہ سیکھ چکی تھی زہین تھی بہت جلدی سیکھ لیتی تھی پھر نئ نئ ڈشز نٹ سے بھی سیکھ رہی تھی اپنے مطلب کے لیے اب نتاشا سے فالتو بات تو نہ کرتی تھی مگر طنز کرنے کافی کم کر دیے تھے اب اگر اپنی عادت کے مطابق اگر کر بھی جاتی تو نتاشا کاچہرہ اب پرسکون ہی رہتا اور وہ پہلے کی طرح دکھی صورت نہ بناتی۔ عروبہ اس کے confidence پر حیران تھی۔
آج وہ اپنے ڈیڈ کو خوش کرنے کے لیے کریلے گوشت پکا کر چولہا بند کر کے جلدی جلدی آٹا گوندھ رہی تھی کہ وہ لوگ آنے والے تھے اور ساجد کو گھر کی روٹی پسند تھی۔ ہاتھ آٹے سے بھرے ہوئے تھے کہ باہر ڈور بیل بجی وہ بمشکل دوپٹہ کر کے غصے سے گئ کہ آج ان بچوں کو سیدھا کرتی ہوں جو بال کے لیے ٹاہم بے ٹاہم بیل کرتے رہتے ہیں دروازہ کھولا تو سامنے نرگس اپنی ساس کو تھامے کھڑی تھی اور باقی سب پیچھے تھے وہ گھبرا سی گئی جلدی سے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور بولی دراصل میں آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ لوگ اندر آ گئے اور اس نے سعد سے کہا پلیز تم انہیں بٹھاو میں آتی ہوں۔ جلدی سے آٹا فاہنل کیا اس کے کام کرنے کی سپیڈ بھی کافی تیز تھی۔ آج اس نے ڈیڈ کے لیے کھیر بھی بنائی تھی۔ جلدی سے ڈیڈ کو فون پر بتایا اس نے جوس پلانے کا کہا وہ ان کے لیے جوس ڈال کر سلیقے سے دوپٹہ لیے اندر گئی۔ اور سب کو جوس پیش کیے۔ دادی نے اسے بڑے غور سے دیکھا وہ دل میں سوچنے لگی کہ کسی کو جیتنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس پینڈو سی بڑھیا کو کتنا پروٹوکول دینا پڑ رہا ہے۔ اس نے سوچا بس زرا شادی ہو جانے دو پھر گاوں میں میں کیسے ان پیڈووں کو پوچھوں گی اپنی مرضی کروں گی۔