ہما نے نتاشا کو سعد کے فون کا بتایا اور ریکارڈنگ سنا دی اس نے ایک سرد آہ بھری اور ماں سے کہا ماما میں نے کھبی سعد کے خواب نہ دیکھے تھے میں جانتی تھی خالہ ہر وقت عروبہ کو بہو بنانے کا بولتی ہیں اور سعد بھی عروبہ کو دلچسپی سے دیکھتا ہے اور میری طرف احترام سے دیکھتا ہے بس وہ مجھے عزت دیتا تھا اور میں اس کی کمپنی کو غنیمت سمجھتی تھی کہ کوئی تو ہے جو میری فیور لیتا ہے۔ پھر جب سنا کہ خالہ اور سعد سمیت سب نے میرے ساتھ رشتہ جوڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو میں دنگ رہ گئی اور خواب آنکھوں میں سجا لیے اور جب خواب ٹوٹے تو دکھی ہو گئی۔ سعد سے ویسے ہی بچپن کی نسبت سے لگاو ہے۔ میں جانتی ہوں اس کا کوئی قصور نہیں۔ نہ ہی اس نے مجھے کوئی خواب دیکھاے۔ اب تو اس نے کلیر بھی کر دیا۔ میں جانتی ہوں جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے سعد اور خالہ اگر میرا رشتہ نہ مانگتے تو عروبہ کھبی سدھرنے کا نام نہ لیتی اور آگے اس کے لیے مسائل برپا ہو جاتے۔ اب کمازکم یہ مسئلہ حل ہو رہا ہے وہ اب جزبے َاور میری ضد میں سب سیکھے گی۔ میں اس کے لیے بہت خوش ہوں۔
ہما نے اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ اور بولی صبر والی ماں کی صبر والی بیٹی۔
نتاشا بولی ماما کھبی کھبی میرے دل میں خواہش جاگتی کہ کاش آپ میری ماں ہوتی اور پاپا بھی میرے پاپا ہوتے۔ یہ گھر میرا اصل میکہ ہوتا اور میں بڑے مان سے ایسے آتی جیسے بیٹیاں اپنے والدین کے گھر آتی ہیں۔ اور واقعی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے میں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ بقول آپ کی نصیحت اوپر والا جس حال میں بھی رکھے اس کی رضا پر راضی رہو تو وہ بہت نوازتا ہے۔ انسان تکلیف پر شکوے شکایت کرنے کی بجائے اس کا شکر بجا لاے تو اس کی سوچ سے بھی بڑھکر اسے ملتا ہے۔ جیسے مجھے ملا مجھے لگتا ہے کہ ہفت اقلیم کی دولت مجھے مل گئ ہو۔ میں نے نماز کے بعد اپنے رب العزت کے حضور شکرانے کے نفل ادا کیے ہیں۔
آج میں سکون کی نیند سو سکوں گی اور اپنے سکون کے لئے عروبہ کا سکون برباد نہیں کروں گی کھبی اسے اپنے والدین کا طعنہ نہیں دوں گی نہ ہی اس پر احسان جتاوں گی کہ میں نہیں تم میرے والدین کے ٹکڑوں پر پلی ہو۔ میں یہ ناشکری کھبی نہیں کروں گی۔ کھبی لب نہ کھولوں گی کبھی اس گھر پر والدین پر حق نہیں جتاوں گی۔ میری خوشی کے لئے یہی احساس ہی کافی ہے کہ میں لاوارث نہیں ہوں بلکہ میرے والدین حیات ہیں۔ مجھے اب پاپا کو دیکھ کر خوشی ہوگی کہ وہ میرے پاپا ہیں بےشک وہ مجھ سے پیار نہ کریں۔ یہ احساس ہی کافی ہے کہ وہ عروبہ کے نہیں میرے پاپا ہیں سگے بلکل سگے۔
اتنے میں عروبہ اندر آئی اور نتاشا کو ماں کے ساتھ چائے پیتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی میں تو سمجھی تم ابھی تک روتی سوگ منا رہی ہو گی اپنے ٹھکرائے جانے کا مگر تم تو خلاف توقع مسکرا رہی ہو۔ اتنے میں ساجد گاڑی کی چابی اٹھاے ہاتھ میں کچھ شاپرز لیے اندر آیا تو نتاشا نے اپنے باپ کو فدا نظروں سے دیکھا وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر تھوڑا حیران ہوا ورنہ وہ تو اس کی طرف دیکھتی نہ تھی۔
ساجد نے ہما کو شاپر پکڑاے اور بولا یہ تم دونوں کے کچھ سوٹ ہیں عروبہ کے رشتے کے لیے شاید گاوں جانا پڑے۔ وہ خوش ہو کر نتاشا سے بولی نتاشا یہ دیکھو تمھارے پاپا تمھارے لئے کپڑے لاے ہیں وہ خوشی سے آ کر کپڑے دیکھنے لگی تو عروبہ اکر بولی اس کے نہیں میرے پاپا۔ پھر وہ نتاشا سے بولی چاے پلاو توبہ تھک گئی ہوں۔
ہما نے کہا تم خود بناو نا نتاشا بولی ماما میں بنا دیتی ہوں۔ ہما نے کہا کہ تم نے ٹاسک لیا ہے کام کی پریکٹس کیسے ہو گی۔
عروبہ کانوں میں ہیڈ-فون لگا کر صوفے پر آرام سے بیٹھ کر ٹانگیں میز پر رکھ کر فون پر لگ گئی اور ہما سے بولی موم میں نے صرف کام سیکھنا ہے نہ کہ منٹ منٹ بعد چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے اٹھتی رہوں۔ دیکھا نہیں آپ نے میں نے پہلی بار میں ہی بغیر کسی مدد کے چاے اور پکوڑے بنا ہی لیے تھے نا۔
ساجد بھی آ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور نتاشا دو کپ چائے کے لے آئی ایک کپ عروبہ کے پاس رکھا اور ایک کپ ساجد کو پکڑاتے بولی پاپا آپ کی چاے۔ عروبہ بولی کم از کم میرے سامنے تو یہ فیک لفظ نہ بولا کرو میرے پاپا۔ یہ تمھارے نہیں میرے پاپا ہیں تمھارے تو بدقسمتی سے ماموں ہیں وہ سوتیلے جو تمھاری ماں سے نفرت کرتے تھے۔ وہ جواب میں ہلکی سی مسکرائی اور چل دی۔ عروبہ نے دیکھا پہلے کی طرح اس کی باتوں سے نہ اس کے چہرے پر دکھ کے ساے لہراے اور نہ اس نے بےبسی سے اس کی طرف دیکھا بلکہ مسکراہٹ دباتی چل دی آج اس کی چال میں بھی ایک اعتماد تھا عروبہ آہستہ سے بولی ڈیڈ یہ بھی ڈھیٹ ہو گی ہے۔
ساجد نے کہا کہ عروبہ جان اب آپ نے نتاشا کو جلی کٹی نہیں سنانی ہیں اب یہ عادت چھوڑنی پڑے گی مبادا اب آپ کے سسرال والے آیا کریں گے تو بےاختیار کچھ منہ سے نکل گیا تو امپریشن اچھا نہیں پڑے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ لوگ میری شہزادی کا رتی بھر بھی مقابلہ کر کے اس کی تعریف کریں اور میری شہزادی کے لیے دل میں بدگمان ہوں۔ آپ کو کم از کم اب نتاشا کی طرح بننا ہے اس کو کاپی کرنا ہے آخر پہلے ان لوگوں نے اس کے رویے سے ہی اسے بہو کا مقام دینے کا ارادہ کیا تھا اب آپ اسے یہ جلی کٹی نہیں بولو گی۔ عروبہ لاڈ سے بولی ڈیڈ فیکٹ از فیکٹ آپ لوگ میرے پیرنٹس ہیں۔ ساجد اسے سمجھاتے ہوئے بولا مائی پرنسس وہ لوگ اسے تمھاری بہن اور ہما کی بیٹی مانتے ہیں کیونکہ ہما نے ایک دن کا اسے ماں بن کر پالا ہے تو ظاہر ہے سب ہمیں ہی اس کے پیرنٹس سمجھیں گے نا۔ آپ چاہتی ہو کہ آپ کی چھوٹی سی غلطی سے فیڈ ہو کر وہ لوگ واپس نتاشا کا سوچیں ابھی اس کا رشتہ بھی تو نہیں ہوا نا
عروبہ بولی ڈیڈ اب میں اس کی طرف سے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی اب آپ اس کے لیے جلدی سے کوئی رشتہ ڈھونڈیں اس کے لیول کا جو آپ کو آسانی سے مل جائے گا۔ اور ہاں کوئی غریب لاوارث گھر داماد ڈھونڈ لیں تاکہ موم کو پرمننٹ ہیلپ ملتی رہے ورنہ موم اکیلی سارے کام کیسے کریں گی۔ اور اس کا شوہر گھر کے باہر کے کام بھی کر دیا کرے گا۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا میرے آفس کے کلرک اپنے بھتیجے کے رشتے کا زکر کر رہے تھے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور انہوں نے اسے پالا تھا۔ میں کل ہی آفس جا کر بات کرتا ہوں۔
ہما اور نتاشا بےبسی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھیں۔
ہما نے کہا کہ مجھے اپنا لالچ نہیں ہے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اچھے رشتے اتنی جلدی نہیں ملتے مگر وہ قاہل نہ ہوا اور بولا میں جلد از جلد اس کا رشتہ طے کرنا چاہتا ہوں تاکہ میری بیٹی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔
عروبہ کے بار بار یاد کروانے پر اس نے اپنے کلرک سے پوچھا اسے اپنی بھانجی کے لیے گھر داماد کا رشتہ چاہیے بھانجی کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور اسے بھی ایسا رشتہ چاہیے جس کے والدین حیات نہ ہوں اور وہ اسے گھر داماد بنا کر رکھ سکے۔ کلرک نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اس کا رشتہ ہو چکا ہے دوسرے وہ گھر داماد بننے کو تیار نہیں تھا اسے پہلے بھی افر ملی تھی مگر وہ نہ مانا وہ ہمیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اتنے میں عروبہ کا پھر فون آ گیا جو اسی مقصد کے لیے بار بار فون کر رہی تھی کہ آفس کا ایک اور بزرگ ورکر اندر داخل ہوا جو ہاتھ میں فائلیں اٹھاے اندر آ رہا تھا اس نے ان کی گفتگو سن لی اور بولا سر میرا بھتیجا ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ گھر داماد بن کر رہ لے گا۔
ساجد نے خوش ہوکر پوچھا پڑھا کتنا ہے۔ دراصل مجھے کمازکم بی اے پاس چاہیے تو وہ جھٹ خوشی سے بولا سر وہ بی اے پاس ہے میں نے تو اس کی نوکری کی درخواست بھی ادھر دی ہے اس کی۔
ساجد نے کہا کہ ٹھیک ہے کل اسے مجھ سے ملواو۔
وہ خوشی سے بولا جی ضرور۔
ساجد گھر آیا تو عروبہ نے پھر جلدی ڈالی کہ جلدی سے اس کا رشتہ پکا کر دیں۔
ہما نے احتجاج کیا تو نتاشا نے کہا کہ ماما پلیز پاپا کو کرنے دیں جو بھی کرتے ہیں جس سے بھی کرتے ہیں مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ میرا باپ میرا رشتہ طے کر رہا ہے۔
ہما نے کہا کہ میری جان وہ باپ بن کر نہیں کر رہا بلکہ عروبہ کے جلدی ڈالنے پر بس فارمیلٹی کر رہے ہیں۔ مگر نتاشا نے کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے سے ماں کو سختی سے روک دیا۔
اب کل ساجد نے اس لڑکے سے ملنا تھا اور عروبہ بےچین ہو رہی تھی کہ بس جلدی سے رشتہ ہو جائے۔
ساجد آفس میں لڑکے سے ملا اور مطمئن ہو گیا اسے لڑکا دبا دبا سا اور بی اے پڑھا ہوا مناسب لگا۔ اس کا چچا بھی ٹھیک تھا آفس میں اس سے کھبی کوئی شکایت نہیں ملی تھی۔ اس نے بتایا کہ بچپن میں اس کے بھتیجے کی ماں اس کی پیدائش کے دوران فوت ہو گئی تھی اس نے بیٹے کی طرح اسے پالا اپنا نام دیا کیونکہ باپ اس کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکا تھا۔ بڑا ہونے پر کسی رشتے دار نے اسے بتا دیا تو مجبوراً اسے بھی بتانا پڑا۔ اب اس نے اسے گھر داماد رہنے کا پوچھا تو وہ راضی ہے۔ ہم لوگ صرف شادی تک اس کا ساتھ دیں گے پھر اس کی زندگی میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ بیٹے کو ملنے کے لیے کھبی کبھار اسے گھر بلا لیا کریں گے خود نہیں آہیں گے۔
ساجد چاہتا بھی یہی تھا کہ لڑکے کے گھر والے اس کی زندگی میں دخل اندازی نہ کریں اور اس سے دور رہیں انہوں نے خود ہی اس بات کا تزکرہ کر کے اسے مطمئن کر دیا۔ اسی لمحے اس کو بہن کی یاد ا گئ جس نے اسے پسند سے شادی کر کے زمانے بھر میں رسوا کروایا تھا جس کی وجہ سے اسے وہ گھر سیل کر کے شہر بھی چھوڑنا پڑا تھا تو اس کے دل میں بھانجی کے لیے بھی نفرت عود کر آئی اس نے سوچا کہ جلد از جلد اس کی شادی کر دے کہیں ماں کی طرح یہ بھی نہ باغی ہو جائے۔
وہ لڑکا اپنے چچا اور چچی کے ساتھ آیا اور چچی نے رسم ادا کی بولی انگوٹھی کا ساہز پتا نہیں تھا اس لیے نہیں لاے اور مٹھائی کھلا کر اور سرخ دوپٹہ اوڑھا کر رسم ادا کر دی اس سارے معاملے میں ہما بت بنی ربوٹ کی طرح رہی کیونکہ نتاشا نے ماں کو سمجھا دیا تھا کہ وہ ان کو منع نہ کرے آخر وہ بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کر رہے ہوں گے اور وہ ان کے ہر فیصلے پر راضی ہے۔
عروبہ بہت خوش تھی وہ سامنے نہیں لائی گئی تھی کہ کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے وہ زیادہ خوبصورت ہے تو اس کو سامنے نہ لایا جائے۔
ہما ساجد سے کھنچی کھنچی رہنے لگی فالتو بات نہ کرتی۔ جبکہ عروبہ بہت خوش تھی۔ ساجد نے عروبہ کی شادی پہلے کرنے کا فیصلہ کیا پھر اس نے عروبہ پر زرا سختی شروع کر دی اس کو گھرداری سیکھنے کا حکم دے دیا عزر یہ پیش کیا کہ اگر اس نے سستی دکھائی اور سسرال کی ڈیمانڈ پر پوری نہ اتری تو وہ نتاشا جیسی ان کو بہت مل جائیں گی تم سیریس ہو جاو اور ماں اور نتاشا کی مدد سے ہر کام میں اس قدر مہارت حاصل کر لو کہ وہ لوگ نتاشا کو بھول کر تمھارے گن گانے لگیں ہر کام کو شوق اور لگن سے دل لگا کر سیکھو۔
عروبہ نے جوش دیکھانا شروع کر دیا اب وہ نٹ پر سے نیو ڈشز دیکھ کر بنانے لگی کھبی ٹھیک بنتی کھبی خراب ہو جاتی اب وہ ہما سے سیکھنے لگی کھبی نتاشا کی مجبوراً مدد لے لیتی سیکھنے میں۔
نرگس آتی اور اس کا حوصلہ بڑھاتی۔ سعد اس کے کام کی تعریف کرتا۔ باپ مزید کوشش کرنے کی ہدایت کرتا۔ کھبی وہ تنگ پڑ جاتی تو باپ اسے ڈرا دیتا کہ ابھی بھی تم سب کچھ کھو سکتی ہو تو وہ ڈر جاتی اسے نتاشا کو سعد کے ساتھ سوچ کر جھرجھری آ جاتی۔ اب سعد نتاشا سے بات نہ کرتا کیونکہ عروبہ نے دونوں کو سختی سے منع کر دیا تھا۔ البتہ سعد نے نتاشا کے رشتے پر اچھا خاصہ احتجاج کیا تھا مگر ساجد ٹس سے مس نہ ہوا اس رشتے کو لے کر وہ سینسٹیو ہو گیا تھا کہتا وہ اس کا بھلا سوچ کر اسے گھر داماد بنا رہا ہے۔
نرگس نے ہما کو سمجھایا کہ نتاشا کے لیے یہ رشتہ بہت مناسب ہے تمہیں بھی تسلی رہے گی جب وہ ساتھ رہے گی اور گھر کے کاموں میں بھی مدد ملتی رہے گی اور تنہائی کا احساس بھی نہیں ہو گا تو وہ خاموش ہو گئ۔
نتاشا اب خوش رہنے لگی تھی وہ خوش تھی کہ شادی کے بعد بھی وہ والدین کے ساتھ رہے گی۔
ہما نے دیکھا نتاشا خوش ہے تو وہ بھی قدرے مطمئن ہو گئی۔نتاشا کے سسرال والے اکثر آنے لگے وہ ان کی بہت او بھگت کرتی۔ اس کی ایک جوان کزن ماں کے ساتھ آتی اسے بھابی بلا کر چھیڑتی نتاشا اسے پیار سے ٹوکتی ابھی بھابی بنی نہیں ہوں ابھی ایسے نہ کہا کرو۔وہ تو بھائی کا فون نمبر بھی دینے پر مجبور کرتی مگر نتاشا نے کہا مجھے شادی سے پہلے ایسی باتیں پسند نہیں۔ وہ بتاتی بھائی اس کے لیے پاگل ہے مگر نتاشا اس کی باتوں میں دلچسپی نہ لیتی۔
عروبہ تنگ پڑنے لگی۔ اس نے باپ سے شکوہ کیا کہ یہ کیا صرف لڑکا چاہیے تھا ہمیں ادھر اس کا سارا خاندان ا جاتا ہے۔ میری پرائیویسی ڈسٹرب ہوتی ہے۔ وہ بھی اندر سے پریشان ہو گیا۔
جب نرگس کو یقین ہو گیا کہ عروبہ کافی حد تک گھر کا کام کاج بھی سیکھ چکی ہے اور اسے اب شلوار قمیض کی بھی پہننے کی عادت ہو گئی ہے تو اس نے ساس سسر کو لانے اور رشتہ پکا کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اس کی نند نے جان کھائی ہوئی تھی کہ جلدی کرو۔ وہ شکر کر رہی تھی کہ نتاشا کی جگہ اس کی نند کو عروبہ کی تصویر پسند آئی تھی مگر ساس ابھی تک نتاشا کے حق میں بول رہی تھی۔ جس بات کی فکر نرگس کو بہت تھی اسی ڈر سے عروبہ ہر طرح سے نتاشا کی طرح بننا چاہتی تھی باپ کا بھی حکم تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اس کی ساس بمشکل مانی ہے۔ تم نتاشا کو observe کیا کرو اور اسے کاپی کیا کرو۔ یہ نہ ہو کہ نرگس کی ساس پھر مکر جائے تو میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا اور تمہاری آنی بھی مجبور ہیں۔ بس دو سال کسی طرح ان کی مرضی سے گزار لو پھر مجھے سعد نے پرامس کیا ہے کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ باہر لے جائے گا۔
عروبہ کے لیے یہ سب مشکل امر تھا مگر جب نتاشا کو سعد کے ساتھ سوچتی تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ جوش میں لگ جاتی اور چوری چوری نتاشا کو نوٹ کرتی۔ وہ سوچتی دوسروں کو خوش کرنا کتنا کٹھن کام ہے اور نتاشا ہر وقت لگی رہتی تھی پھر بھی وہ اس سے خوش نہیں ہوتی تھی اس کے دل میں نتاشا کے لیے ہمدردی کے جزبات ابھرنے لگے مگر اپنی اناء میں وہ ظاہر نہ کرتی۔
دروازے پر بیل بجی نتاشا واش روم میں تھی ہما کچن میں۔ عروبہ دروازہ کھولنے گئی تو سامنے نتاشا کے ہونے والے ساس سسر، نند اور لڑکا دروازے پر کھڑے تھے۔
عروبہ کا پارہ ہائی ہو گیا نند بڑی شوخی سے بولی سلام باجی۔ عروبہ نے کہا باجی کسے بولا خود کو چھوٹی سمجھتی ہو۔ وہ ہکلا کر بولی وہ ہم آج شادی کی ڈیٹ لینے آئے تھے۔ عروبہ نے کہا کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے۔ نند شوخی سے بولی نتاشا بھابی ہیں۔ عروبہ نے کہا کہ کیوں اس سے ڈیٹ لینی ہے۔ ڈیٹ کے لیے میرے ڈید کو فون کیا تھا۔ ہم نے صرف لڑکے سے رشتہ رکھنا ہے گھر والوں سے نہیں۔ پہلے تو آپ لوگوں نے بڑے وعدے کیے تھے کہ ہم صرف شادی تک ساتھ آہیں گے ڈسٹرب نہیں کریں گے ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تو آپ لوگ وعدہ بھول گئے روز ڈسٹرب کرنے آ جاتے ہیں اب آپ لوگ جب ہم بلائیں تب ہی تشریف لاہیے گا۔
نند بولی آپ ہمارے توہین کر رہی ہیں تو وہ تڑخ کر بولی میں نے گالیاں دی ہیں کیا تو رشتہ توڑ دو اور چلے جاو۔ ویسے بھی مجھے تم لوگوں سے الجھن ہوتی ہے۔ ماں نے ایکدم بیٹی کو ڈانٹا اور میاں بیوی دونوں معزرت کرنے لگے بیٹی کو ڈانٹ کر بولی معافی مانگو بہن سے۔ عروبہ اکتا کر بولی پلز میں اکلوتی ہوں میری کوئی بہن وین نہیں ہے۔ اور معافی مت مانگیں بس چلے جاہیں۔
دونوں میاں بیوی خوشامدی لہجے میں بولے اب ہم اپ لوگوں کے بلانے پر ہی تشریف لاہیں گے بس آپ ہم سے ناراض مت ہونا۔ اچھا ہم چلتے ہیں عروبہ نے سر ہلا دیا اور دروازہ بند کر کے مڑی تو ہما خوش کھڑی تھی۔ نتاشا نے پوچھا کون تھا عروبہ جوش سے بولی تمھارے سسرالیے۔ میں نے ان کی طبیعت صاف کر کے بھیج دیا ہے۔ نتاشا حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ پھر ماں کو دیکھا جو بہت خوش نظر آ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ ماں اس رشتے سے خوش نہیں ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ خوبصورت نہیں ہے اور ماں اس کے رشتے کے لیے پریشان رہتی ہے پہلے بھی عروبہ کو پسند کر جاتے اور اسے ٹھکرا جاتے۔ اب یہ واحد ایسا رشتہ تھا جن لوگوں نے نہ صرف عروبہ کی موجودگی کے باوجود اسے پسند کیا لڑکے کو بھی اعتراض نہ تھا اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ والدین کے ساتھ رہے گی ان کی خدمت کرے گی۔
اس نے فکرمندی سے کہا کہ وہ لوگ ناراض تو نہیں ہو گئے تو عروبہ بولی فکر نہ کرو ناراض نہیں ہوں گے کافی خوشامدی لوگ ہیں۔ ساجد جو الاونج میں کھڑا سب سن رہا تھا۔ وہ بھی ان لوگوں کے روز آنے سے تنگ پڑا تھا پھر دفتر میں بھی ان لوگوں نے نشر کر دیا تھا تو ساجد شرمندہ ہوتا تھا۔ وہ ان لوگوں کو مروت میں کچھ کہہ بھی نہیں پا رہا تھا مگر آج عروبہ نے ہمت دیکھای تھی۔
نرگس نے فون کیا کہ کل سنڈے ہے اور اس کے ساس سسر رشتہ پکا کرنے آ رہے ہیں تو عروبہ سے کہنا سر سے دوپٹہ نہ اتارے ان سے ادب سے پیش آے۔ اور بہت سی ہدایات اس نے عروبہ کو بھی دیں۔