ارحم سکتے کے عالِم میں اپنے باپ کی بات کو سن رہا تھا اس کے دماغ میں اس وقت صرف سارا تھی خلیل صاحب اور ریحان اس کو کیا نصیحت کر رہی تھے اس
کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسکا دماغ بلکل ماؤن ہوگیا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ پوری دنیا کو آگ آگ لگا دیتا
مہر ت تم ٹھیک تو ہو عروہ نے اس کا شانہ ہلایا مہر بوکھلا کے پیچھے ہٹی بھا بھابی بابا کہاں ہیں و وہ میرے ہاں کے منتظر ہونگے نا م میں بابا کو اتنا ویٹ نہیں کرا سکتی وہ کیا سمجھیںگے نہ نہیں میں بابا کے پاس جا رہی ہوں کہاں ہیں بابا بابا بابا مہر دروازے کی طرف بڑھی حیا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا مہر سمبھالو خود کو کیا حالت بنا رکھی ہے تھمنے اپنی حیا نے بے بسی سے مہر سے کہا حیا مہمان اے ہیں باھر تمہیں پتا ہے نہ کہاں ہیں بابا ماما مہر نے مدیحہ بیگم کو کندھوں سے تھام کے پوچھا مہر حسین صاحب دروازے پے کھڑے مہر کی غیر ہوتی حالت کو دیکھ رہے تھے بابا مہر بھاگ کے ان کے گلے لگ گئی مجھ معاف کردیں بابا میری اس میں کوئی غلطی نہیں ہے پلیز آپ میرا یقین کریں مہر ہچکییوں کے درمیان روتے ہوے بولی حسین صاحب نے اس کو خود سے الگ کیا تم کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے میرے بچے جو ہوا وہ قسمت میں لکھا تھا اس میں تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے مہر جو ہوا اسے بھول جائیں آپ کا نکاح ابھی ہوگا مہر نے نہ سمجھی سے حسین صاحب کی طرف دیکھا حسین صاحب نے اس کے سر پے ہاتھ رکھا آپ کو ہمارے فیصلے پے یقین ہے نہ حسین صاحب نے پر امید نظروں۔ سے مہر کی طرف دیکھ کے پوچھا مہر نے اثبات میں سر ہلایا نکاح پڑھایا گیا ارحم نے بے تاثر لہجے میں نکاح نامے پے دستخط کیے اس کے دل میں اب نفرت پیدا ہوگئی تھی اس لڑکی کے لیے جس کے لیے اسکو اپنی محبت تیاق کرنا پڑی مہر نے خالی خالی نظروں سے نکاح نامے پے دستخط کیے وہ کون تھا کس کے ساتھ اسکا۔مقدر جڑا تھا اسس کچھ معلوم نہیں تھا وہ بس اس کے لیے اسکا محسن تھا رات کے بارہ بج رہے تھے مہر دلہن بنی سر جھکاے ارحم کا انتظار کر رہی تھی لیکن اب تک اسکی واپسی نہیں ہوئی تھی رخصتی کے وقت بھی وہ خلیل صاحب اور تحمینا بیگم کے ہمراہ اپنے سسرال آئ تھی قدرت کے اس اتفاق پے وہ بہت حیران تھی اس نے سرد آہ خارج کی اور نچلا ہونٹ بے دردی سے کاٹنے لگی اس کی دھڑکن بے ترتیب ہی رہی تھی دل ہی دل میں وہ درود شریف کا ورد کرنے لگی جو بھی تھا اسنے اپنے رب کی مرضی کو قبول کیا تھا دروازہ کھلنے کی آواز پے وہ سیدھی ہوکے بیٹھ گئی ارحم نے جھٹکے سے اسے کلائی سے کھینچ کے بیڈ سے نیچے اتارا وہ اسکی اس حرکت کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے بوکھلا کے ارحم کی طرف دیکھنے لگی ارحم کی آنکھیں بے حد سرخ تھیں مہر کو اسسے وحشت ہوئی چٹاخ ارحم نے مہر کے گال پے تہپھڑ رسید کیا مہر لڑکھڑا کے صوفے پے گر گئی بہت معصوم بنتی ہو نہ تم اچھی طرح جانتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو اسنے مہر کو بازوسے بے دردی سے کھینچا مہر کا جسم لرزنے لگا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا بتاؤ کیا جادو کیا تھمنے میرے گھر والوں پر کے انکو مجھسے زیادہ تم سے ہمدردی ہونے لگی ارحم نے اسے کندھوں سے تھامتے ہوے پوچھا کیا سمجھتی ہو تم کے نکاح کے تین بول بولنے سے میں تمہیں تمام حقوق دے دونگا تمہیں اپنی بیوی تسلیم کر لونگا ایک بات کان کھول کے سن لو میرے دل میں صرف ایک شخص کی محبت ہے اور اسی کی ہی رہیگی نہ میرے دل میں تمہاری کوئی جگہ ہے نہ ہی اس گھر میں نہ آج نہ پھر کبھی سمجھی تم اسنے چیخ کے کہا م میں تمہیں ایک منٹ بھی برداشت کرنے کا نہیں سوچ سکتا نہ میری زندگی میں نہ ہی اپنے گھر میں اب صرف وہ ہوگا جو میں چاہوںگا چلو اٹھو اسنے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیڑئیوں سے گھسیٹتا ہوا بے رونی دروازے تک لے آیا وہ کسی مقناتیس کی طرح کھینچی چلی آئ ارحم نے اسے گاڑی میں دھکےلا اور خود فرنٹ سیٹ پے بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کردی گاڑی ہوا میں باتیں کرنے لگی اس کے سر پے جنوں سوار تھا جھٹکے سے گاڑی مہر کے گھر کے سامنے رکی ارحم نے مہر کی سائیڈ کا دروازہ کھول کے مہر کو جھٹکے سے گاڑی سے باہر نکالا ایک بات ذہین نشین کرلو مجھسے یہ امید ہرگز مت کرنا کے میں تمہیں قبول کر چکا ہوں نہ آج نہ پھر کبھی سمجھی تم وہ اتنا کہتا گاڑی میں بیٹھ کے زن سے گاڑی بھگا لے گیا حیا ٹیرس سے یہ سب شاک کے عالم میں۔ دیکھ رہی تھی اسکی تو مانو کسی نے جان مٹھی میں لے لی ہو وہ پاگلوں کی طرح سہیڑیان پھیلانگنے لگی مہر زمین پے بیٹھ گئی اسنے خالی خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا ایک قیامت تھی جو آج مہر پے ٹوٹی تھی وہ ڈھاڑیں مار کے رونے لگی کس کس کے ستم پے روتی ارحم کے ظلم پر یا پھر یاسر کے دھوکے پر ایک ہی پل میں قسمت نے اسے منہ کے بل گرایا تھا وہ ہچکیوں کے درمیان رونے لگی آج وہ بے گناہ ہوتے ہوے بھی گناہگار بن گئی تھی اسنے تو کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی تھی لیکن آج اس کے دامن میں تکلیفیں ہی تکلیفیں تھیں