وہ دونوں اس وقت مال میں داخل ہو رہی تھیں ۔۔۔
حیا تم ہی پسند کرو ڈریس پہلے ۔۔ویسے بھی تم کو لینا ایک سوٹ ہے پر دیکھو گی پوری دکان ...
ارے میری بہن پتا ہے نا تمہیں کے میں اپنے ڈریسسس کے بارے میں کتنی حساس ہوں
پچھلے ایک گھنٹے سے حیا دکاندار کا سر کھا رہی تھی مہر نے اکتا کر کہ دیا اب لے بھی لو ورنہ تمہیں یہی چھوڑ کے چلی جاؤں گی میں ۔۔۔
مہر نے تنبیہہ کیا
ہیں میں کیا آٹے کی بوری ہوں جو تم چھوڑ کے چلی جاؤگی ۔۔۔
حیا نے گھور کے کہا تبھی مہر کی ڈریس ایک خوبصورت سے بلیو کلر پر پڑی بھائی وہ والا سوٹ پیک کر دیں تبھی حیا کو بھی اللہ اللہ کر کے ایک بلیک اور گولڈن رنگ کا سوٹ پسند آ گیا ...
وہ دونوں جیولری شاپ پر آئے جہاں پر حیا کو کوئی نیک پیس پسند آگیا یہ کیسے دیا بھیا 7000 ہیں یہ اتنا سمپل نقلی سیٹ 7000 ہزار کیا ہیرے لگے ہیں اس میں اف حیا چپ کرو کتنا بولتی ہو تم بھائی آپ پیک کر دیں اف حیا قسم سے تمہارے ساتھ مارکیٹ جانا انتہائی فضول کام ہے وہ چپس کا پیکٹ کھولتے ہوے بولی اب اگر اگلا بندہ خود فضول ہو نا تو اسکو باقی بھی اپنے جیسے لگتے ہیں وہ شانے اچکا کے بولی ویسے مہر میں سوچ رہی تھی کے اگر وہاں شادی پر کوئی ہینڈسم سا لڑکا دکھ جائے نا تو میں تمہاری وہیں سے رخصتی کروا لوں گی
ہاۓ پتا نہیں کب وہ دن آئےگا جب میں تمہاری شادی پر بھنگڑے ڈالوں گی فضول باتوں میں تو تم سے کوئی نہیں جیت سکتا حیا ۔۔۔۔
مہر نے کمبل اوڑ ھتے ہوے بولا ایک دن آئے گا مہر بی بی جب آپ میری انہی فضول باتوں کو یاد کرینگی حیا نے کروٹ لیتے ہوے بولا
ماما جلدی کریں لیٹ ہوجاۓگا ورنہ مہر نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوے بولا اف لڑکی کیا ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو جو اتنی جلدی ہے مدیحہ بیگم نے پراٹھا اس کی پلیٹ میں رکھتے ہوے بولا آپ کو کیا پتا ماما یہ مجھے بھی اتنا جلدی اٹھاتی ہے جیسے اسکو کے ٹو پار کرنا ہو حیا نے پراٹھا کھاتے ہوے بولا اور تم جیسی نکمی لیٹ اٹھ کے پورا پلان خراب کر دیتی مہر نے گھور کے بولا اچھا اب چلو تم دونوں۔۔۔ بھائی باہر ویٹ کر رہے ہیں مدیحہ بیگم نے یاد دہانی کروائی۔۔۔ ہیں آج بھائی چھوڑنے جا رہے ہیں واہ بھئی کیا کہنے بھائی کے ۔۔۔۔۔خدا حافظ ماما مہر کہتے ہوے باہر نکل گئی حیا اسکے پیچھے لپکی کتنا ویٹ کرواتی ہو تم دونوں حماد نے کوفت سے بولا ۔۔۔ابھی تو چلیں ابھی کیوں لیٹ کر رہے ہیں حیا نے مسکراہٹ دبائی۔۔۔
بلیک جینز پر وائٹ شرٹ پہنے آنکھوں پر سن گلاسس لگاۓ شرٹ کے بازو کہنییوں تک فولڈ کیے وہ اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ریحان کو اپنی جانب آتا دیکھ رہا تھا کتنا ویٹ کرایا سالے ریحان اس کے گلے لگتے ہوۓ بولا۔۔۔ اب آگیا نا جانی اب غصّہ ختم کر ریحان نے اس کے چوڑے بازو پر پنچ مارا اف ظالم بازو توڑنے کا ارادہ ہے کیا تیرا ارحم نے بازو سہلاتے ہوے بولا اتنے ٹائم کے بعد آیا ہے تھوڑا حساب کتاب تو بنتا ہے ریحان نے ابرو اچکاے ویسے دیکھ رہا ہوں کافی ہینڈسم ہوگئے ہو ریحان نے اس کے سرخ سفید رنگت پر تبصرہ کیا جس پر ارحم کے گال پر موجود ڈمپل مزید گہرا ہوا اوہ ہو بندا شرما گی۔۔۔ا ریحان نے اسے چھیڑا بکواس نا کر اب کیا یہی پر رکنے کا ارادہ ہے ارحم نے مصنوعی غصے سے آدھے گھنٹے کے بعد گاڑی ایک خوبصورت گھر کے آگے روکی گھر کے کچھ فاصلے پر ہری ہری گھاس اور خوبصورت پھول لگے تھے جن کو مالی پانی دے رہا تھا لال گلاب ارحم کو بے حد پسند تھے انکو دیکھ کے اسکے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آ گئی ریحان نے اسکو مسکراتے ہوے دیکھا تو اسے کہنی ماری ارحم نے چونک کے ریحان کو دیکھا اکیلے اکیلے مسکرا رہا ہے سارہ یاد آرہی ہے کیا ریحان نے ابرو اچکاے ارحم دھیرے سے مسکرایا وہ تو ہر وقت ہی یاد آتی ہے میرے بھائی ارحم نے آنکھ ماری اچھا اب اندر چل بہت بک بک کرتا ہے تو ارحم نے ریحان کو کھینچتے ہوے بولا اس وقت سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے جب دروازے پر بیل بجی
کام والی نے دروازہ کھولا جب دروازے کے بیچ میں ارحم کو دیکھا تو تحمینا بیگم اور خلیل صاحب کھڑے ہوگئے ارحم نے آگے بڑھ کر تحمینا بیگم کو گلے لگایا انکی آنکھیں نم ہوگئیں السلام علیکم امی ارحم نے انکو ساتھ لگاتے ہوۓ کہا بہت ناراض ہوں میں تم سے باہر کیا گئے ہمیں تو بھول گیا تو تحمینا بیگم نے بھرائ ہوئی آواز میں بولا آؤ ۔۔۔
امی جب دور تھا آپ تب بھی یوں ہی روتی تھیں اب جب آ گیا ہوں تب بھی رو رہی ہیں ارحم انکے آنسو پونچھ کر بولا تحمینا بیگم نے اسکا ماتھا چوما ارے بھئی ہم بھی موجود ہیں یہاں پر خلیل صاحب نے ہنس کے بولا السلام علیکم بابا ارحم انکے گلے لگتے بولا وعلیکم السلام کیسے ہو یار ۔۔۔خود دیکھ لیں بابا آپ کے سامنے ہوں ارحم ان سے الگ ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔
پھوپھو وہ آپ کا دوسرا بیٹا کیا آگیا آپ تو مجھے بھول ہی گئیں ریحان نے منہ بنایا اسکی بات پر سب ہنس دیے ارے تم دونوں ہی میرے جگر کے ٹکرے ہو تحمینا بیگم نے ریحان کا ماتھا چومتے ہوئے بولا اچھا امی اب کھانے کو کچھ دیں بہت بھوک لگی ہے تم لوگ بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں تحمینا بیگم اٹھتی ہوئی بولیں بابا کیسا جا رہا ہے آفس کا کام ارحم نے چائے کا سپ لیتے ہوئے پوچھا بہت اچھا جارہا ہے اب تم آ گئے ہو تو تم کو ہی سنبھالنا ہے سب ۔۔۔
چل بیٹا تیرے آزادی کے دن ختم ریحان نے پراٹھا کھاتے ہوے بولا ارحم نے اسے گھورا پھوپھو میں تو کہتا ہوں اب اسکی شادی کرا دیں بچا اب بڑا ہوگیا ہے ریحان نے ابرو اچکاے ہاں ہاں اب تو اسکی ایک نہیں سنونگی اس بار کوئی اچھی سی دلہن ڈھونڈ کے شادی کر دونگی اسکی ارحم بیٹا آج شام کو ریڈی رہنا اپنے ایک دوست سے ملنے جانا ہے ٹھیک ہے بابا ارحم نے اثبات میں سر ہلایا وہ کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔
اف یہ لائنر کی پتا نہیں کیا دشمنی ہے مجھ سے کبھی جو ٹھیک لگ جائے حیا یار یہ لائنر لگانے میں ہیلپ کرو میری مجھ سے نہیں لگ رہا ۔۔
میں تو نکمی ہوں نا پھر میں کیوں لگاوں۔۔ لگا دو نا پلیز۔۔
لو لگ گیا اتنا ایزی تو تھا اچھا اب تم تیار ہوجاؤ جلدی ورنہ دیر ہوجاۓگی مہر نے بالوں کا جوڑا بناتے ہوے بولا ہیں تم ایسے جاؤگی شادی میں حیا نے اس کو دیکھتے ہوے بولا تو پھر کیسے جاتے ہیں اوہ فو مہر ادھر آؤ حیا نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے چیئر پر بٹھایا نہیں نہیں حیا میں یہ مانگ ٹیکا نہیں پہننے والی چپ کر کے مجھ پہنانے دو ما شاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو حیا نے اسکی بلاءین لیتے ہوے اسکی تعریف کی مہر نے اپنے آپ کو۔ اتنا سجا ہوا دیکھا تو دنگ رہ گئی بلو کلر کا لهنگا پہنے ماتھے پر مانگ ٹیکا لگاے بالوں کو ہلکا سا کرل کیے ایک سائیڈ پر دوپٹہ رکھے لائٹ مکیپ کے ساتھ نیچرل کلر کی لپسٹک لگاے وہ قیامت ڈہا رہی تھی حیا بی بی آپ کو اوروہ بی بی بلا رہیں ہیں باہر مہمان آے ہیں نازو ملازمہ نے اسے اطلاع دی اچھا میں آتی ہوں حیا اس کے ساتھ چل دی اور بتاؤ ارحم بیٹا کیسا جارہا ہے تمہارا کام حسین صاحب نے اسے پوچھا بہت اچھا انکل بہی اچھا کیسے نہیں جایگا ۔۔ آخر بیٹا کسکا ہے خلیل صاحب نے ناز سے کہا اور بتاؤ مدیحہ حیا اور مہر نظر نہیں آرہی تحمینا بیگم نے مہر اور حیا کی غیر حاضری کے بارے میں پوچھا اصل میں آج انکی فرینڈ کی طرف انکو شادی میں جانا ہے اس لیے تیاری کر رہی ہونگی السلام علیکم حیا نے سب کو۔ سلام کیا وعلیکم السلام بیٹا خلیل صاحب اور تحمینا نے یک زبان ہوکے بولا یہ حیا ہے میری دوسری بیٹی حسین صاحب نے مسکرا کے حیا کی طرف دیکھا بہت پیاری بچی ہے تحمینا بیگم نے مسکرا کے کہا حیا جاؤ مہر کو بلا لاؤ وہ سر ہلا کے کمرے کی طرف چل دی اوہ شٹ جوس ارحم کی شرٹ پر گر گیا تھا واش روم اس سائیڈ ہے آئیں میں آپ کو لے چلتی ہوں اور اسکو شرٹ صاف کرتے ہوے دیکھا تو بولی نہیں ۔اٹس اوکے آپ واشروم کا بتا دیں بس وہ اس سائیڈ ہے اور ہاتھ سے اشارہ کیا تبھی ارحم کی موبائل پر ٹون بجی وہ دھیرے سے مسکرا دیا کیوں کے وہ جانتا تھا کس کا ٹیکسٹ ہے اسنے جیب سے سیل فون نکالا اور انگلیاں چلانے لگا اف بھابی یہ مانگ ٹیکا اوچ ہاے اللہ میں مر گئی مہر کا سر زور سے کسی سے ٹکرایا جب اسنے آنکھیں کھولی تو ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گئی بلیو شرٹ پر وائٹ جینس پہنے ہلکی بڑھی ہوئ شیو سرخ سفید رنگات ماتھے پر بکھرے ہوے براؤن بال تیکھے نقوش خوبصورت چمکتی ہوئی بھوری آنکھیں مہر نے پہلی بار کسی کو اتنے قریب سے دیکھا تھا حیا کی آواز پر وہ چونک کے ارحم سے دور ہٹی سوری وہ باہر کی طرف لپکی اسکی سانسیں بے ترتیب ہورہی تھیں دل کی دھڑکن بے حد تیز ہوگئی تھی