رات کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا تیز ہوا اس کے لمبے گہنے سیاہ _بالوں کو بار بار اس کے چہرے کے گرد لپیٹ رہی تھی مگر وہ کہیں اور ہی گم تھی چند کی روشنی اسکے جلد کو اور بھی روشن کر رہی تھی آج پھر ماضی کی تلخ یادوں نے اسکی آنکھیں آنسوو سے بھر دیں تھی وہ تو رونے والوں میں سے تھی ہی نہیں زندگی کے ہر لمحے کو اسنے خوشی خوشی جینا سیکھا تھا اسنے تو کبھی اپنی حد نہیں پار کی تھی لیکن پھر بھی اذیت اسکے مقدر کس حصہ بن گی تھی اسنے اپنے آنسو صاف کیے اور بیڈ پے سونے کے لیے لیٹ گی ایک وقت تھا جب اسے سکوں کی نیند میثر تھی اب نیند تو آجاتی ہے سکوں اس سے روٹھ گیا تھا آج اسے حیا کی بے حد یاد آ رہی تھی حیا کی نادانیان اس کا پاگل پن اس کا چھوٹی چھوٹی بات پر ہنسنا وہ ننم آنکھوں سے مسکرا دی تین سال ہوگئے تھے اسے اسلام آباد سے لاہور اے ہوے کس کے لیے اس بے حس پتھر دل کے لیے جو اسے محرم بنا کر اسے اپنی دسترس بنا کر ایک نا محرم کے لیے چھوڑ گیا آنسو کا ایک گولہ اس کے رخسار کو چھو گیا تین سالوں میں ایک ایک پل اسے وہ ذلت یاد آئ تھی جس کے وجہ سے اس شخص کے لیے نفرت میں مزید اضافہ کر دیا تھا لیکن ہاۓ یہ دل ی نادان اسی سے محبت کر بیٹھا تھا اس نے سختی سے اپنے گال رگڑے میں چاہ کر بھی اپنی اس محبت کی نا دانی کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روک پائی ارحم بیشک تم نے جو میرے ساتھ کیا اس کے بعد مجھ نفرت کرنی چاہیے پر دلوں پر کس کا اختیار ہوتا ہے ارحم میں اس محبت کو اپنے دل سے نکال تو نہیں سکتی پار تمہیں معاف بھی نہیں کر سکتی خدا کرے تمہیں بھی اسی محبت اور درد کی آگ میں جہلسنا پڑے جس میں میں جل رہی ہوں میری دعا ہے ارحم کے تمہیں بھی مجھسے محبت ہوجاے پھر اذیت کا اندازہ هو تمہیں وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی آئ ہیٹ یو ارحم آئ ریلے ہیٹ یو روتے روتے وہ نیند کی وادی میں چلی گیی
وہ اس وقت اپنے بیڈ پے لیٹا مہر کی تصویر کو اپنی موبائل کی سکرین پر دیکھ رہا تھا اس نے انگلی مہر کے مسکراتے ہوے ہونٹوں پر رکھی پھر موبائل کو اپنے ہونٹوں کے قریب لے جا کے مہر کی مسکراتی تصویر پر بوسہ دیا مجھے نہیں پتا تھا مہر میں نے جس کو چاہا وہ مجھ یوں دھوکھا دیگی تین سالوں۔ سے مہر ایک پل کے لیے بھی مینے تمہیں یاد کرنا نہیں چھوڑا تمہیں یاد کر کر کے کب محبت نے میرے دل میں تمہارے لیے جگہ بنا لی میں خود نا واقف ہوں بس اب انتظار ختم ہونے والا ہے بہت جلد میں ارحم خلیل تمہیں اپنی زندگی میں واپس لے آؤنگا اس نے سرد اہ بھری اور مہر کی تصویر دیکھ کے آنکھیں موند لیں
****ماضی ****
حیا اٹھو نا یونی کے لیے لیٹ ہوجاے گا ورنہ اف حیا کی بچی اٹھ جاؤ مہر نے کوئی سات ویں دفع حیا کو آواز دی تھی پر وہ تو جیسے گدھے گھوڑے بیچ کے سو رہی تھی حیا اٹھ جاؤ ورنہ میں تمہیں آج چاے نہیں دونگی مہر نے ہنسی دباتے ہوئے حیا کو آخری بار اٹھایا بس پھر کیا تھا چاءے اور حیا چھوڑ دے تو مانو قیامت آجاے ارے ارے اٹھ گی نا میری چائ کو کچھ کیا بولا وہ بولتی واشروم میں گھس گیی اف حیا جلدی جلدی ناشتہ کرو ورنہ لیٹ ہوجانی ہے پھر سے ہاں بس چلو حیا نے کپ رکھتے ہوے بولا خدا حافظ ماما وہ دونو امی کے گلے لگ کر بھاگتی کار میں بیٹھ گیں اف حیا تمہاری عادت کب جاۓگی لیٹ اٹھنے کی مہر نے حیا کو ڈانٹا سوری نا یار وہ واٹساپ پر پوسٹ سین کرتے کرتے کب لیٹ ہوگی پتا ہے نہیں چلا حیا نے معصوم سی شکل بنائی ہاں روز جی تمہیں لیٹ ہوتی ہ مہر نے خفا ہوتے بولا ارےمیری پیاری سی بہیں سوری نا اب ماں جاؤ حیا نے مہر کے گرد بازو حائل کر دے مہر نے منہ بنایا اچھا بھلا آج ایک سموسہ میری طرف سے فری تمہارے لیے تم بھی کیا یاد کروگی کتنی سخی دوست ملی۔ ہے تمہیں مہر کو اس کے انداز پر ہنسی aagei آگئی اتنے میں یونی آ گئی اور دونو بھاگتے ہوے کلاس میں داخل ہوگئیں