ایمان صبح نیچے ای سب لوگ تیاری کر رہے تھے ایمان یار تم بھی ساتھ چلتی مزہ آے گا گڑیا نے کہا تم جاوں اور بہت انجوئے کرنا اور واپس اوگئی تو ایک سرپئز ہے تمہارے لیے (ایمان کو حمزہ والی بات یاد آئ) ایمان نے مسکراتے ہوے کہا گڑیا کو اس کی مسکراہٹ عجیب لگئ ایمان میری جان۔ کیا بات ہے تم نے پھر سے کچھ کیا ہے گڑیا نے پوچھا ایمان کو اس کی بات پر ہنسی آئ گڑیا میں نے کچھ نہیں کیا (اب جو کرے گا حمزہ ہی کرے گا )یہ بات ایمان نے دل میں کی
مجھے کیوں شک ہو رہا ہے کہ تم نے کچھ کیا ہے کہئی بھائ کے ساتھ ایمان نے اس کی بات کاٹی نہیں شاہ کے ساتھ کچھ نہیں کیا میں نے اچھا چلو جلدی کرو سب لوگ تیار ہے دیر ھورہی
ایمان اور گڑیا باہر آئ ایمان نے سب کو خدا حافظ کیا ایمان اپنا خیال رکھنا نانو نے کہا اور اپنے شاہ کا بھی گڑیا نے ایمان کے کان میں کہا اس کی بات پر ایمان نے گڑیا کو گھورا گڑیا کی بچی ایک بارا واپس اوپھر بتاتی ہو
شاہ جو ان کو دیکھ رہا تھا ایمان گڑیا بس کردو باتے پہلے ہی دیر ھورہی ہے جی چلو چندا خدا حافظ گڑیا نے آنکھ مار کر کہا ایمان اس کی حرکت پر مسکرائ
ایمان جلدی سے تیار ہوئی یونی چلی گئی وہ یونی سے واپس ائ گھر خالی دیکھ کر اداس ہو گئی رانی رانی ایمان نے کام والی کو آواز دی جی ایمان بی بی رانی نے کہا رانی کھانا بن گئے ھے ایمان نے پوچھا ایمان بی بی جی میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے سارا کام ہو گئے ہے بس کھانا میں ابھی بناتی ہوں کوئی بات نہیں رانی تم گھر جاو میں کھانا بنا لو گئ لیکن ایمان بی بی یار جاو تم گھر میں کرلو گئی جی ٹھیک رانی کہا اور چلی گئی
ایمان روم میں آئ فریش ہوی اور کچن میں ائ اب کیا کروں ایمان نے سوچا کھانا تو ایمان کو بننا نہیں آتا تھا خود تو وہ بھوکی بھی سو جاتی لیکن شاہ کے لیے کھانا بننا تھا نیٹ سے کچھ دیکھ کر بنا لیتی ہوئے
شاہ ابھی گھر آیا تھا چندا شاہ نے ایمان کو آواز دی جی کچن میں ہوں شاہ کچن میں آیا اللہ خیر ایمان یہ کیا حالت کی ہے اپنی اور کچن کی شاہ نے کہا
ایمان نے کچن کا جائزہ لیا سوری شاہ میں کھانا بننا کی کوشش کر رہی تھی بس بن گئے ھے ایمان پھر سے مصروف ہو کر بولی چندا کیا ضرورت تھی کھانا بننے کی رانی۔ کہاں ھے شاہ نے پوچھا تو ایمان نے ساری بات بتائی شاہ آپ فریش ہو جاو میں کھانا لگتی ہو ایمان نے کہا نہیں چندا چلو باہر سے کچھ کھالیتے ہیں شاہ نے دڈرتے ھوے کہا ایمان اس کا مطلب سمجھے گئی شاہ ۳ گھنٹوں سے میں کھانا بن رہی ہوں اور آپ کہ رہے ہیں کہ باہر چلتے ہے ایمان کو اب غصہ ارہا تھا ایمان تم نے پہلی بارا بننے ھے پتہ نہیں کیسا ہوگا اچھا ٹھیک ھے اگر آپ کو اچھا نہیں لگا تو آپ باہر چلے جانا ایمان نے کہا
شاہ اب کھانا کھانے لگا تھا چندا تم بھی کھاو جی کھانا بہت برا نہیں تھا لیکن اتنا اچھا بھی نہیں تھا شاہ نے اللہ اللہ کر کے کھایا شاہ اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو کوئی بات نہیں آپ نہ کھاوں ایمان نے کہا نہیں چندا اچھا ہے اور میری چندا نے محنت کی ہے تو انعام تو بنتا ہے چلو بتاو کیا چاہیے شاہ نے پوچھا کچھ نہیں ایمان نے جواب دیا کیوں کچھ نہیں باہر چلے آئسکریم کھانا شاہ نے کہا نہیں مجھے نہیں جانا میں ٹھک گئی ہو اور میں نے یونی کا کچھ کام کرنا ہے ایمان نے کہا
ایمان اپنے روم میں تھی شاہ ایا چندا یہ لو چاے شکریہ شاہ بہت ضرورت تھی اس کی۔ ایمان نے کہا
شاہ اپنے روم میں تھا کہ ایمان کا خیال آیا ایمان کے روم میں ایا ایمان جو صوفہ پر لیٹی کچھ پڑھ رہی تھی اور ساتھ گڑیا کو یاد کر رہی
آج پہلی بارا ہو تھا کہ وہ گھر میں اکیلی تھی چندا تم ابھی تک سوئی نہیں شاہ نے پوچھا وہ مجھے نیند نہیں آرہی ہے ایمان نے کہا نیند تو مجھے بھی نہیں آرہی ہے شاہ نے کہا شاہ مووی دیکھئے میرے لیپ ٹپ میں ایک اچھی اور نئی مووی ہے ایمان نے کہا ٹھیک ھے شاہ نے مووی لگئی شاہ نے اس کا نام دیکھا چندا تم نے پہلے یہ دیکھی ہے شاہ نے پوچھا نہیں میں نے نہیں گڑیا نے دیکھی ہے اور کہ رہی تھی اچھی ھے ایمان نے کہا
شاہ اس کی بات پر مسکرایا شاہ نے پہلے۔ دیکھی تھی چندا میرے روم میں سے لیپ ٹپ لے او اس میں اچھی موویز ہے شاہ نے کہا کیا یہ اچھی نہیں ہے ایمان نے پوچھا نہیں اچھی ھے لیکن
لیکن کیا ایمان نے سوال کیا شاہ اس پر مسکرایا کچھ نہیں چلو مووی دیکھتے ہے شاہ نے کہا اب اس کو کیا بتاتا کہ اس میں کچھ سین نہیں دیکھنے والے
کچھ ٹائم بعد ایمان نے شرمندہ ہوا کر لیپ ٹپ بند کر دیے شاہ نے مسکراتے ہوے اس کی طرف دیکھا وہ وہ مجھے نیند آرہی ہے ایمان نے کہا شاہ نے اس کی بات پر قہقہا لگایا اس کے ہنسا پر ایمان اور شرمندہ ہو گئی دل میں خود پر گڑیا کو گالیئاں دی اچھا اب جاو۔ میرا لیپ ٹپ لے او ایمان جلدی سے روم سے باہر گئی اس کی جلدی پر شاہ مسکرایا پاگل ہے شاہ نے کہا
شاہ اور ایمان اب مووی دیکھ رہے تھے کچھ وقت بعد شاہ نے ایمان کی طرف دیکھا تو ایمان سو گئی تھی شاہ مسکرایا لائیٹ آف کی اور اپنے روم میں ایا اور سونے کی کوشش کرنے لگا
کچھ ٹائم بعد
ایمان کی آنکھ کھولی روم میں اندھیر دیکھ کر ڈدر گئی گڑیا گڑیا گڑیا ایمان نے نیند میں گڑیا کو آواز دی اور روم سے باہر آئ گڑیا نانو مامی آپ لوگ کہاں ہو ایمان اب رونے لگئ
شاہ جو سو رہا تھا ایمان کی آواز پر اٹھا اور روم سے باہر۔ ایا ایمان کو دیکھ کر اس کا پاس ایا چندا کیا ہوا شاہ نے پوچھا شاہ کو۔ دیکھ کر ایمان کچھ ہمت آئ اور بھاگ کر شاہ کے سینے سے لگئی شاہ سب سب چلے گئے علی ماما نانو مامی گڑیا سب مجھے چھور۔ کر چلے شاہ نے دیکھا وہ ڈدر کی وجہ سے گاپب رہی تھی میں ہوں اپنی چندا کے پاس چلو روم میں شاہ نے کہا نہیں مجھے نہیں جانا اندر اندھیر ہے ایمان نے کہا شاہ کو یاد نہیں رہا تھا کہ ایمان اندھیر سے ڈدرتی ہے سوری چندا چلو میرے روم میں چلو
شاہ نے ایمان کو لیٹیا اور خود بھی ساتھ لیٹا شاہ مجھے گڑیا کے پاس جانا ہے ایمان اب بھی خوف ذرد تھی چندا گڑیا گھر نہیں ہے میں اپنی چندا کے پاس ہوں لیکن لیکن کچھ نہیں ھوتا میں ہوں شاہ نے اس کو یقین کروائے کچھ ہی دیر میں ایمان سو گئی شاہ نے ایمان کے ماتھے پر لب رکھے اور خود بھی سو گئے ۔
صبح ایمان کی آنکھ کھولی تو شاہ نماز پڑھ رہا تھا ایمان کچھ دیر شاہ کو دیکھتی رہی
شاہ مسجد جاتا تھا لیکن ایمان کی وجہ سے نہیں گئے اس نے گھر پر ہی نماز ادا کی
شاہ نے اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھئے ایمان اب شاہ پاس آئ شاہ میرے لیے بھی دعا کرے ایمان نے کہا شاہ دعا مانگ کر فارغ ہوا میری چندا کو کیا چاہیے شاہ نے پوچھا سکون چاہیے شاہ اس کی بات پر مسکرایا چندا ایک کام کرو گئ شاہ نے پوچھا جی جاو وضو کر کے او اور نماز ادا کرو ایمان اب ابھی شاہ کو دیکھ رہی تھی جاوں ایمان وقت کم ہے جی
ایمان اب وضو کر کے آئ نماز پڑھنے لگئی ایمان رونا نہیں چاہتی تھی لیکن انسو ارہے تھے
شاہ اس کو روتے ہوے دیکھ کر روم سے باہر چلا گئے
ایمان اج پورے دو سال بعد اپنے رب کے سامنے تھی نماز ادا کر کے ایمان میں دعا کرنے کی ہمت نہیں تھی وہ سجدے میں کتنی دیر تک روتی رہی
شاہ اب اندر آیا اس نے ایمان کو اٹھیا اس کو پانی دیے کچھ دیر اس کو دیکھتا رہا ایمان اب چپ تھی چندا سکون ملا شاہ نے پوچھا بہت شکریہ آپ نے مجھے بھولا ہوا سبق یاد کر وے ہے کہ سکون اپنے رب کو یاد کرنے سے حاصل ہوتا ہے ایمان نے کہا
امید کرتا ہو کہ میری چندا اب نہیں بھولے گئی چلو اب ناشتہ کرتے ہیں شاہ نے کہا جی
شاہ آفس کے لیے تیار تھا ایمان اب میں چلتا ہو آج نہیں جاو میں گھر پر اکیلی ہوں ایمان نے کہا
چندا رانی گھر پر ہے وہ میں جلدی آنے کی کوشش کروے گا
ایمان اب اپنے روم میں تھی کچھ دیر پڑھتی رہی پھر گڑیا کا فون اگئے اس سے باتے کرتی وقت کا پتہ نہیں چلا پھر سو گئی
شاہ ابھی گھر پر آیا باہر موسم خراب تھا بارش ہونے والی تھی شاہ کو دیکھ کر ایمان خوش ہوئی شاہ آپ فریش ہو جاو میں کھانا لگتی ہوں ایمان نے کہا
ایمان بہت وقت شاہ کا انتظارا کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا ایمان اب شاہ کے روم میں تھی شاہ کو دیکھا وہ سو رہا تھا ایمان مسکراتی ہوئے شاہ کے جوتے اتارے
اور اپنے روم میں آئ گڑیا سے بات کر لگئی
شاہ کی آنکھ کھولی تو وقت دیکھا تو 9 بجے تھے
اففف اتنا ٹائم ہو گئے مجھے سوتے ہوے شاہ نے کہا اب شاہ کی نظر اپنے پاوں پر گئی اور مسکرایا
فریش ہوا ایمان کے روم میں ایا ایمان جو موبائل پر مصروف تھی شاہ کو دیکھ کر بولی آپ اٹھ گئے چلو کھانا کھاتے ہیں اہمم
ایمان اپنے روم میں تھی شاہ اس کے روم میں ایا چندا چاے پیوں گئی نہیں مجھے نہیں پینی
باہر بارش شروع ہو گئی ایمان آج بہت خوش تھی کھڑکی میں بارش کو دیکھا اور گانے لگئی
Yah Mausam Ki Barish yah Barish Ka Pani yah Pani Ki bunde Tujhe hi to dhundhe yah milane Ki Khwahish yah Khwahish purani ho Tujhi Se Meri yah kahani
Hawaon se tera Pata puchta hun Tu Aaja ab Kahin Se Samundar Ki Tarah Ye Dil Hai safar mein Tu Mila De Zindagi Se Bas Itni Jyada Tu Aake Ek Dafa Jo Dil Ne Kaha Jaan Le Ye Mausam Ki Barish Ye barish ka pani Ye Pani Ki bunde Tujhe Hi To dhunde Ye Milne Ki Khwahish Khwahish purani Koi Tujhe Se Meri Kahani
شاہ بھی اس کا گانا سن رہا تھا اس کو یاد ایا کہ یہ گانا علی ہر وقت سنتا تھا علی کی اس کو بہت یاد آئ اس کی آنکھیں میں پانی ائے
ایمان جو اب چپ ہوئی تھی اب شاہ کو دیکھا جو کچھ سوچ رہا تھا شاہ آپ کیا ہوا ایمان نے پوچھا
شاہ اس کی آواز پر حال میں ائے کچھ نہیں بہت اچھا گاتی ہو چندا شاہ نے کہا شکریہ ایمان نے جواب دیا چندا ایک بارا پھر گاو گئی شاہ نے کہا ایمان کو لگا وہ رور رہا ہے نہیں مجھے نہیں گانا ایمان نے جواب دیے علی کے لیے بھی نہیں شاہ نے کہا ایمان نے نفی میں سر ہلایا اگر آپ اپنے لیے کہوں تو سوچا جاسکتا ہے ایمان نے کہا شاہ اس کی بات پر حیران ہوا
ایمان اس کو حیران دیکھ کر مسکرائ ٹھیک ھے شاہ آپ بیٹھوں میں گاتی ہو
گانا شروع ہوا شاہ نے رونا شروع کر دیے ایمان کو پتہ چل گئے تھا کہ وہ علی کو یاد کر کے رورہا ھے ایمان نے جلدی سے اس کو اپنے ساتھ لگایا اب دونوں ہی رورہے تھے
کچھ ٹائم بعد
میں نے سنا تھا کہ بیوی شوہر کو رورلتی ھے آج دیکھ بھی لیا ہے ایمان نے کہا اس کی بات پر شاہ مسکرایا اس کو مسکراتے دیکھ کر ایمان خوش ہوئی
شاہ آپ روتے ہوے اچھا نہیں لگتے اچھا میں تمہیں اچھا کب لگتا ہوں شاہ نے پوچھا کبھی نہیں ایمان نے شرارت سے کہا
شاہ اس کی بات پر مسکرایا اور اس کی گود میں اپنا سر رکھا اس کی حرکت پر ایمان نے شاہ کو گھورا
چندا میں علی کے جانے کہ بعد دوسرئ بارا رور ہوں شکریہ یار میرا غم کچھ کم ہوا ہے شاہ نے کہا آنکھیں بند کی اور کچھ وقت بعد سو گئے
ایمان اس کو دیکھتی رہی اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے ایک نظر علی کی فوٹو کو دیکھا
علی میں کوشش کر رہی ہوں سب کو خوش کرنے کی صبح ہو گئ شاہ کی آنکھ کھولی تو ایمان اس کو دیکھا رہی تھی چندا تم سوئی نہیں ساری رات ایمان نے نفی میں سر ہلایا
سوری ایمان مجھے پتا نہیں چلا میں کب سو گئے تم سو جاو مجھے آفس جانا ہے شاہ نے کہا
کوئی نہیں جارہے ہو آپ آفس میں ساری رات آپ میری گود میں سوتے رہے ہوں اور آپ کو میں دیکھتی رہی ہوں اب میری باری ایمان نے کہا اور شاہ کی گود میں سر رکھا
جب تک میں نہیں اٹھتی ہوں مجھے دیکھوں اچھا
شاہ اس کی بات پر مسکرائ ٹھیک ھے چندا سو جاو۔
ایمان کی آنکھ کھولی تو شاہ کمرے میں نہیں تھا وہ آفس چلا گئے تھا ایمان کو اب غصہ ارہا تھا شاہ آپ نے اچھا نہیں کیا
شاہ آفس سے گھر آیا اس کو پتا تھا کہ ایمان غصہ میں ہو گئی رانی ایمان نے کھانا کھایا ہے
نہیں شاہ جی ایمان بی بی نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور کھانا بھی نہیں کھایا رانی نے جواب دیا
پاگل لڑکی شاہ نے کہا اور ایمان کے روم میں ایا ایمان جو گڑیا سے بات کر رہی تھی شاہ کو دیکھ کر نظر انداز کیا
شاہ کچھ دیر تک خاموشی سے ایمان کو دیکھاتا رہا ایمان اب اپنے روم سے باہر جانے لگئ شاہ نے جلدی سے اس کا فون لیا اور کہا گڑیا ایمان بعد میں بات کرتی ہے اور فون بند کر دیا
چندا سوری بہت ہی ضروری کام تھا اپنے شاہ کو معاف کر دو سوری
ایمان اب بھی چپ تھی یعنی وہ ناراض ہے شاہ اس کو خاموش دیکھ کر پھر بولا چندا سوری غلطی ہو گئی اب تو معاف کر دو
شاہ آپ فریش ہو جاوں میں کھانے کا کہتی ہوں ایمان نے کہا یعنی وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی
شاہ نے گہرا سانس لیا اور اپنا حق اسعتمال کیا
سوری نا اب ابھی ناراض ہو شاہ نے کہا ایمان اپنی سانس درست کرتی ہوئی اب بھی چپ تھی شاہ نے پھر سے اس کے ہونٹوں کو قید کیا اس بارا ایمان کو لگا کہ سانس نہیں آے گئی شاہ نے نرمی سے خود سے الگ کیا اب بھی ناراض ہو شاہ نے پوچھا ایمان کو اب غصہ ارہا تھا بس میں نہیں ناراض ہو جاوئے آپ اپنے روم میں شاہ ایمان کو غصہ میں دیکھ کر مسکرایا چندا یار غصہ کرو جگھرا کرو لیکن یار آنئدہ چپ نہیں ہونا میرے دل کو کچھ ہوتا شاہ نے کہا ایمان اس کی بات پر حیران تھی
چلے پھر کھانا کھائے ایمان نے بات بدلی
آج گڑیا لوگوں نے گھر آنا تھا ایمان خوش تھی ان تین دنوں میں اس کہ دل میں شاہ کی جگہ بن گئی تھی اس رشتہ کو بھی قبول کر لیا تھا
ایمان اور گڑیا یونی میں تھی کہ حمزہ ان کہ پاس ایا اور اسلام کیا گڑیا میں آتی ہوں ایمان نے کہا اور چلی گئی گڑیا اس کی حرکت پر حیران تھی
گڑیا مجھے تم سے بات کرنی ہے حمزہ نے کہا ھاں
گڑیا جب تمہیں دیکھا تھا تم مجھے اچھی لگئی تھی آہستہ آستہ مجھے تم سے محبت ہو گئی
I love you will you marry me
گڑیا اس کی بات سن کر پریشان ہوئی
حمزہ تم اچھا لڑکے ہوئی۔ لیکن
لیکن کیا گڑیا حمزہ نے پوچھا تمہیں میرے بھائ سے ملنا ہوگا اگر ان کو تم پسند ائے تو میری طرف سے ھاں ہے گڑیا نے کہا
اور اگر میں نہ پسند اوئے تو تم شادی کر لو گئی یہ
کون سی شادی گڑیا نے پوچھا تو حمزہ نے ساری بات بتائی حمزہ میری شادی نہیں ہونے والی گڑیا نے کہا حمزہ اور گڑیا نے ایک ساتھ غصہ سے کہا
ایمان
ایمان جو ان کو اپنی طرف آتے دیکھ رہی تھی بھاگی پھر کیا تھا پوری یونی میں ایمان آگے اور گڑیا اور حمزہ پیچھے سب لوگ جانتے تھے کہ ایمان نے پھر سے کچھ کیا ہوگا
اچھا یار سوری ایمان نے کہا ایمان حد ہے میری جان پر بن گئی تھی کہ گڑیا کی شادی ہونے والی ہے حمزہ نے کہا اگر میں ایسا نہیں کرتی تو تم میں انتی ہمت نہیں ہونی تھی گڑیا کو بتاو کہ اس سے محبت کرتا ہوں ایمان نے کہا یہ بات تو ہے
گڑیا میری جان سوری نا ایمان نے کہا تم نے اچھا نہیں کیا ایمان اسے کوئی کرتا ھے اچھا آنئدہ تمہارے حمزہ کو تنگ نہیں کرتی ایمان نے شرارت سے کہا
ایمان گڑیا کو اب غصہ ارہا تھا حمزہ اس کی بات پر مسکرایا حمزہ تمہیں میں اپنی بہن پلس دوست پلس نند دے رہی ہوں لیکن میری ایک شرط ہے تمہیں گھر داماد بنا ہو گا ایمان نے کہا
حمزہ پریشان ہو گئے جبکہ گڑیا اس کی بات پر مسکرائ ایمان تم نے ابھی کہہ کے حمزہ کو تنگ نہیں کرو گئی گڑیا نے کہا
وہ تو میں نے تمہارے حمزہ کو کہا تھا یہ تو میرا دوست ہے ایمان نے کہا اس کی بات پر دونوں مسکرائے
ٹھیک ھے کرلو تنگ مجھے لیکن گڑیا یہ تمہاری بھابھی ہے حمزہ نے پوچھا ھاں حمزہ ان سے ملو یہ شاہ بھائ کی مکوحہ ہے گڑیا نے ہنستا ہوے کہا
گڑیا اور ایمان لان میں تھی اور ایک دوسرے کو اشارے کر رہی تھی شاہ جو کب سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا تنگ اکر بولا چندا گڑیا کیا بات ہے گڑیا ایمان نے پھر کچھ کیا ہے
وہ بھائ گڑیا کچھ کہتی ایمان نے اس کی بات کاٹی وہ آپ لوگ بات کرو میں چلتی ہوں لیکن ایمان گڑیا کچھ کہانا چاہتی تھی گڑیا میری جان تم بہن بھائ بات کرو میں چلتی ہوں اور چلی گئی
گڑیا میری جان کیا بات ہے شاہ نے پوچھا وہ بھائ یونی میں ایک لڑکا ہے اور گڑیا نے ساری بات بتائی میری گڑیا اتنی جلدی بڑی ہو گئی ہے شاہ نے پیار سے کہا بھائ آپ یاد کہ علی کیا کہتے تھے
ماضی
گڑیا میری جان جب میں بہن کو کوئی پسند ائے گا تو سب سے پہلے کسی کو بتائے گئی مجھے یا شاہ کو علی نے پوچھا
آپ کو علی بھائ اس کی بات پر شاہ نے منہ بنایا گڑیا یار میں بھی تمہارا بھائ ہوں شاہ نے کہا
حال
بھائ۔ مجھے علی بھائ یاد ارہے ہے گڑیا رونے لگئ نہیں میری گڑیا بہت اچھی ہے روتے نہیں ہے علی کے لیے دعا کیا کرو شاہ نے کہا جی بھائ
ایمان جو ابھی ای تھی گڑیا کیا ھوا رور کیوں رہی ہوں شاہ آپ نے کچھ کہا ایمان نے پوچھا نہیں اس کو نہیں کہا لیکن تمہیں کہوں گا تم نے حمزہ کے ساتھ کیا کیا ہے شاہ نے پوچھا
وہ وہ کیا وہ وہ شاہ نے پوچھا
پھر کیا شاہ نے ایمان کی حوب کلاس لی سوری شاہ میں کل حمزہ سے معافی مانگ لو گئی ایمان نے کہا اور اپنے روم میں آئ
بھائ کیا ہو گئے آپ کو ایمان نے بس مزاق کیا تھا آپ نے میری دوست کو ناراض کر دیا ہے
شائد کچھ زیادہ ہی ہوگے شاہ نے کہا بھائ کچھ زیادہ نہیں بہت زیادہ
آج شاہ نے پہلی بارا نہیں کہا تھا کچھ لیکن آج میرا دل رورہا ہے ایمان نے سوچا اور ماضی میں چلی گئی
چلو ایمان کی کہانی سنتے ہے
__________________________
ماضی(اسلام آباد)
میرے ایک چچا جان تھے انہوں نے میرے بابا کو بزس میں دھوکہ دیے لیکن جلد ہی اس دنیا سے چلے گئے ان کا ایک بیٹا تھا عمر
ایمان کے بابا مسٹر ملک اپنی فمیلی سے بہت محبت کرتے تھے ایمان کی دادو فردس بیگم کو پتہ چلا کہ ان کا ایک بیٹا دنیا میں نہیں رہا تو اپنے پوتے کو گھر لیے آئ لیکن مسٹر ملک نے عمر کو گھر رکھنے سے منع کر دیے فردس بیگم ناراض ہو گئ تو ماں کی محبت میں مان گئے لیکن عمر سے نفرت کرتے تھے عمر جو باپ کے جانے کے بعد چپ ہو گئے تھا عمر اس وقت ۸ سال کا تھا ایمان اس وقت ۳ سال کی تھی عمر جب بھی ایمان کو دیکھاتا تو خوش ہوتا سارا دن میری ایمان میری ایمان کرتا رہتے لیکن جیسے ہی مسٹر ملک گھر آتے اپنے روم میں چلا جاتا کیونکہ اس کے تایا اس کی کوئی بھی غلطی پر بہت مارتے تھے وقت کا کام ہے گزرانا تو گزرا گئے عمر اب 17سال کا تھا اور ایمان 12 سال کی تھی ایک دن ایمان کو ایک لڑکے نے سکول میں تنگ کیا تو ایمان عمر کے پاس آئ عمر بھائ اس نے مجھے تنگ کیا ایمان نے کہا عمر نے لڑکے کو بہت مارا اس لڑکے کے والدین نے شکایت کی تو مسٹر ملک نے عمر کو بہت مارا یہ سب فردس بیگم نے دیکھا اور عمر کو باہر پڑھنے کے لیے بیجھنا چاہتی تھی دادو مجھے نہیں جانا عمر نے کہا میری جان کیوں نہیں جانا دادو نے پوچھا میں ایمان کے بغیر کیسے رہوں گا دادو
اگر میرے بیٹا جائے گا بہت محنت کرگا تو میں ایمان کی شادی تم سے کرو گئی فردس بیگم نے کہا عمر ان کی بات پر مسکرایا شکریہ دادو میں جاوں گا
اللہ میرے بیٹا کے دل میں عمر کے لیے محبت ڈال دیے فردس بیگم نے دعا کی۔