شاہ اپنے روم میں واپس آیا گڑیا جو کہ شاہ کہ روم۔ میں اس کا فون اور کار کی چابی رکھ چوکی تھی۔ شاہ نے ٹیبل پر۔ موبائل اور چابی کو دیکھا اور فون کو صحیح سلامت دیکھ کر شاہ کی جان میں جان آئ شاہ کو اپنے دوست سے ملنے جانا تھا اس لیے جلدی سے گھر سے نکالا اس کو گھر سے جاتے دیکھ کر ایمان اور گڑیا نے قہقہا لگایا شاہ اب مزہ آے گا ایمان نے کہا
شاہ جو کہ گھر سے ٹھیوری دود پر تھا کہ اچانک اس کی کار سے دھوا نکالا شاہ پریشان ہو کر کار سے باہر ایا یار اس کو کیا ھوا ابھی تو ٹھیک تھی شاہ نے سوچا اس نے اپنا فون نکال اور کال کر کے کسی کو مدر کے لیے بولانا چاہا لیکن فون میں مسلہ ھو رہا
شاہ کو ایک منٹ لگا سمجھے میں
ایمان شاہ نے غضہ میں ایمان کو پکارا
اب رات کے 10بجے والے۔ تھے لیکن شاہ ابھی تک گھر نہیں ایا تھا
ایمان ایمان گڑیا جو اس وقت کمرے میں آئ کیا ھے ایمان نے کہا ایمان میری جان بھائ ابھی تک نہیں ائے مجھے تو ٹیشن ہو رہی ہے گڑیا نے کہا ایمان اس کی۔ بات سن کر پریشان ہوئ کچھ نہیں ھوتا اجاے گے شاہ
اتنے میں شاہ ایمان کہ روم۔ میں ایا جو ابھی گھر ایا تھا تم دونوں نے اچھا نہیں کیا شاہ نے کہا
اوووو تو آپ تو بہت اچھا کرتے ھوں نہ میرے ساتھ اب پتا چلا کہ ایمان کو تنگ کرنے کا نتجہ کیا ھوتا ھے ایمان۔ نے ایک ادا سے کہا
شاہ کو لگا تھا کہ دونوں اس سے سوری کرئے گئ لیکن اب ایمان کی بات پر غضہ ارہا تھا
گڑیا شاہ کو غضہ میں دیکھ کر بولی بھائ سوری آئید سے نہیں کرتے گڑیا اپنا فون دو لیکن بھائ گڑیا شاہ نے اس کی بات کاٹی جی بھائ گڑیا نے اپنا فون شاہ کو دیا گڑیا اپنے روم میں جاو جی گڑیا اپنے روم میں اکر اب ایمان کے لیے دعا کرنے لگی کیونکہ اس کو شاہ کہ غضہ کا پتا تھا
گڑیا کے روم میں سے جانے کہ بعد شاہ نے ایمان کے روم کا درواذ بند کیا
ایمان کو اس کی حرکت پر اب پریشانی ہو رہی تھی یا اللہ آج بچا لو ایمان نے سوچا
چندا کیا کہا رہی تھی تم شاہ نے کہا
وہ وہ وہ
کیا وہ وہ لاگئ ہے
شاہ سوری۔ میں۔ نے بس مزاق کیا تھا ایمان نے کہا
ٹھیک ھے اپنا موبائل دو شاہ نے کہا اس کی بات سن کر ایمان اب پریشان ہوگئ اور شاہ کے پاس آئ شاہ پلز فون نہیں اور جو سزا دے گئے مجھے قبول ھے۔
ایمان نے کہا شاہ نے ایمان کا فون لیا اور اپنے روم میں ایا ایمان کو اب فکر تھی اگر عمر بھائ کی کال آئ تو وہ اس کہ بعد کیا ہو گا اور اگر عمر کو میری نکاح کا پتا چلا تو نہیں نہیں ایسا نہیں ھو سکتا
ایمان اب رونے لگئ اور بھاگ کر شاہ کہ روم کی طرح آئ درواذ پر نوک کیا شاہ شاہ شاہ ایمان نے کہا
شاہ جو اپنے روم میں اکر اپنا غضہ کم کرنے کی کوشسش کر رہا تھا ایمان کی آواز سن کر غضہ سے کہا چندا مجھے بات نہیں کرنی جاو یہاں سے اور درواذ نہیں کھولا
ایمان شاہ کی آواز سن کر پھر بولی شاہ درواذ کھولے شاہ شاہ شاہ ایمان نے کہا اور نیچھے زمین پر بیٹھ کر رونے لگئ
شاہ جو لیپ ٹپ پر کام کر رہا تھا ٹائم دیکھا تو ۱ بجا ھوا تھا چاے بنا لو شاہ نے سوچا اور روم کا درواذ کھولا ایمان کو دیکھا کر حیران ہوا اس کو لگا تھا کہ ایمان اپنے روم میں چلی گئ ہوگئ چندا ایمان جو اب بھی رونے میں مصروف تھی شاہ کی آواز پر سر اٹھا کر شاہ کو دیکھا شاہ جلدی اس کے پاس ایا اس کو اٹھایا اور روم میں لا کر اس کو پانئ دیا
چندا میری جان آپ اپنے روم میں نہیں گئ تھی کیوں
ایمان جو ڈدر سے بری طرح کاپب رہی تھی
شاہ میرے موبائل واپس کر دے آپ جو کہو گئے میں وعدہ کرتی ہو وہ۔ کر ہو گئ ایمان نے کہا اور شاہ کے قدموں میں بیٹھ گئ شاہ نے جلدی سے ایمان کو اپنے گلے سے لاگئے بس چپ چندا رونا نہیں آپ کو اپنا فون چاہیے نہ میں دیتا ہو شاہ نے ایمان کو فون دیے
ایمان فون لے کر اپنے روم میں بھاگ گئ
شاہ اب پریشان ہوا آخر ایسا بھی کیا ھے فون میں جو ایمان اس طرح کر رہی ہے شاہ نے سوچا اور گڑیا کہ روم میں ایا گڑیا اٹھاو
گڑیا سو رہی تھی بھائ کیا ہو سب ٹھیک ھے ھاں یار ایمان کے پاس جاو اس کو تمہاری ضرورت ھے
کیا مطلب بھائ
شاہ نے اس کو ساری بات بتائ گڑیا اس کے فون میں ایسا کیا ھے
بھائ مجھے نہیں پتا
اچھا جاو اس کے پاس چندا کو نید کی دوا دینا اس کے پاس سونا اچھا جی بھائ۔
ایمان اپنے روم میں آئ ایک نظرعلی کی فوٹو کو دیکھا اور رونے لگئ کیوں علی میرے ساتھ ہی کیوں اللہ کیوں اب وہ۔ اللہ سے بات کرنے لگئ اس وقت گڑیا روم میں آئ ایمان کیا ھوا سوئ نہیں ابھی تک ایمان گڑیا کو دیکھ کر اپنے آئسوص صاف کیا بس نید نہیں آرہی گڑیا نے اس کی حالت کو دیکھا
ایمان کیوں پریشان ہوتی ہو ایمان اس کی بات پر چپ ہو گئ
اس کو چپ دیکھ کر گڑیا نے کہا اچھا یہ لو گڑیا نے دوا اور پانئ دیے اوکے اب او میں اپنی جان کو سولاتی ہوں
شاہ کچھ دیر بعد ایمان کے روم میں ایا اس کو سوتے ہوے دیکھ کر کچھ سکون ھوا چندا میں اس وقت کا انتظارا کر رہا ہو جب تم اپنی ہر پریشانی شیئر کرو گئ شاہ نے کہا اور اس کے ماتھے پر لب رکھ دیے اور اپنے کمرے میں ایا شاہ کے جانے کہ بعد ایمان نے آنکھیں کھولی شاہ اس کا نام لیا اور رونے لگئ۔
شاہ صبح تیار ہو کر نیچے ایا دادو کو اسلام کیا اور ناشتہ کرنے لگا آسیہ بیٹا دادو نے آسیہ بیگم کو آواز دی جو کچن میں تھی جی امی وہ دونوں اب تک نیچے نہیں آئ دادو نے ایمان اور گڑیا کا پوچھا
دادو وہ ایمان کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اور گڑیا رات کو اس کے پاس تھی دونوں کو سونے دے اور آج دونوں نے یونی نہیں جانا ہے شاہ نے جواب دیا
کیا ھوا ایمان کو دادو نے پوچھا
دادو پریشان نہیں ہو بس ڈدر گئی تھی
امی اب ایمان کی رخصتی کر دینی چاہے اب اگر ایمان ڈدر جائے تو یہ اپنی بیوی کو خود سنبھالے آسیہ بیگم نے شرارت سے کہا شاہ اس بات پر مسکرایا
ماما یار آج سے جب بھی وہ ڈدر گئ میں اس کے روم میں جاوں گا شاہ نے بھی شرارت سے کہا اور جب تک ایمان کی پڑھای پوری نہیں ہو گئ اس وقت رخصتی نہیں ھوگئ شاہ نے کہا
اس کی بات سن کر دادو مسکرائ ٹھیک ھے بیٹا جیسا تم چاہو شاہ کی ماما نے کہا
دو دن گزرا گئے ایمان اب نارمل ھو گئ تھی لیکن اس کی اور شاہ کی بات نہیں ہوی تھی
رات کا وقت تھا ایمان اپنے کمرے میں۔ تھی ایمان کچھ سوچ کر کچن میں ائ چاے بنیی شاہ کے روم طرف آئ درواذ پر نوک کیا
شاہ جو کام میں مصروف تھا اس وقت کون ہو سکتا ھے شاہ نے سوچا اجا وے شاہ نے کہا ایمان کمرے میں آئ شاہ اس کو دیکھ کر حیران ہوا
چندا کیا ھوا سب ٹھیک ھے نا شاہ نے پوچھا
جی میں آپ کے لیے چاے لے کر آئ ہوں اچھا رکھا دو
شاہ مجھے بات کرنی ہے ھاں بولو شاہ نے ایمان کو اپنے پاس بیڈ پر بیٹھیا
کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی شاہ اس کو دیکھتا رہا اور ایمان کی نظریں زمیں پر تھی
شاہ سوری کس لیے
شاہ جو میں نے آپ کے ساتھ کیا تھا اس دن اس لیے
شاہ اس کی بات پر مسکرایا چندا تمہیں اپنی غلطی کا احساس ھے تو میں نے معاف کیا
شاہ شکریہ آپ یہ سوچتے ہوگے کہ موبائل میں ایسا کیا ھے جو میں نے ایسا کیا شاہ میرے ماضی کی کچھ چیزیں ایسی ہے جو میں آپ کو بتانا چاھتی ہو لیکن مجھے میں ہمت نہیں ہے لیکن میں وعدہ کرتی ہو ایک دن آپ کو بتاو گئ ایمان نے کہا اور رونے لگئ
شاہ نے اس کو اپنا ساتھ لگایا چندا میری جان میں انتظارا کر وے گا کہ کب میری چندا اپنے شاہ پر یقین کرے گئ اور اپنی پریشانی شئیر کرے گئ اچھا یار بس چپ اب نہیں رونا
شاہ نے نرمی سے خود سے الگ کیا اور ماتھے پر پیار کیا اب جاو اپنے روم میں اس سے پہلے میں کچھ شرارت کررو شاہ کی بات سن کر ایمان نے شاہ کو گھورا ایسا کچھ نہیں کرے گئے آپ ایمان نے کہا اور اپنے روم میں چلی گئ ایمان روم میں اکر مسکرائ اور سونی کی کوششس کرنے لگئ
صبح ایمان نیچے ای سب کو اسلام کیا ہم سب شادی پر جارہے ایمان گڑیا نے کہا اچھا کہاں وہ اسلام آباد جانا ہے میری خالہ کی بیٹی کی شادی ہے گڑیا نے کہا
اسلام آباد کا نام سن کر ایمان خوف ذرد ہوئ یہ بات شاہ نے نوٹ کی نانو مجھے نہیں جانا ایمان نے کہا لیکن ایمان انتا وقت ہو گئے ہے تم اسلام آباد نہیں گئ اس بہانے اپنے گھر بھی ہو آنا نانو میں کہا
نہیں نانو میرے دل نہیں ہے جانے کو ایمان نے کہا ٹھیک ھے دادو میں اور ایمان گھر پر ہو گئے شاہ نے کہا شاہ نے بھی نہیں جانا تھا آفس میں کچھ کام کی وجہ سے ٹھیک ھے بیٹا آسیہ بیگم نے کہا
ایمان چلو اس نے تو یونی نہیں جانا شادی کی وجہ سے تم کو میں چھور دیتا ہو جی اچھا ایمان نے سب کو اللہ حافظ کیا اور باہر آئ
شاہ نے ایمان کو یونی کہ چھورا چندا بات سنو شاہ نے کہا ایمان جو کار سے باہر جانے لگئ تھی جی چندا ۲ گھنٹوں بعد میں لینے اوے گا پھر مال چلے گئے ٹھیک ھے شاہ نے کہا لیکن شاہ نے اس کی بات کاٹی یار ایک بار میں ھی بات مان لیا کرو جی اچھا ایمان نے کہا
ایمان یونی آئ آج گڑیا کے بغیر دل نہیں لگ رہا تھا حمزہ اس کے پاس ایا ایمان گڑیا نہیں آئ آج حمزہ نے پوچھا گڑیا نے اب سے یونی نہیں آنا ایمان نے حمزہ کو نتگ کرنے کے لیے کہا کیوں نہیں آنا
اس کی شادی ہونے والی ہے ایمان نے کہا کیا حمزہ کو لگا اس نے کچھ غلظ سنا ہے ھاں ایمان نے اس کو یقین کرونا چاہا یہ سن کر وہ پریشان ہو اس کو پریشان دیکھ کر ایمان مسکرائ حمزہ تم گڑیا کو پسند کرتے ہو
نہیں ایمان میں اس سے محبت کرتا ہوں
تو گڑیا کو بتایا نہیں
ابھی نہیں تم گڑیا کو بتاو اس سے پہلے کے گڑیا کی شادی ہوجاے
لیکن ایمان اب کیا فائدہ
تم گڑیا کو بتاو بکی میں دیکھ لو گئ لیکن گڑیا یونی کب ائے گئ تین دن بعد اجاے گئ
ٹھیک ھے ایمان میں گڑیا کو بتاوں گا کہ میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں حمزہ نے کہا اور کلاس میں چلاگے
ایمان نے قہقہا لگایا پاگل انسان ہے لیکن گڑیا کے لیے اچھا ھے انتے میں شاہ کی کال آئ ایمان یونی سے باہر آئ۔
ایمان یونی سے باہر آئ تو شاہ اس کا انتظارا کر رہا تھا ایمان مسکرا کر اس کے پاس آئ اور کار میں بیٹھی چندا کیا بات ہے شاہ نے ایمان کو مسکراتے ہو دیکھ کر کہا ایمان جو حمزہ کو پاگل بننے کی وجہ سے مسکرا رہی تھی شاہ کی بات پر قہقہا لگایا
شاہ ایک کام کیا ہے میں نے کچھ دن تک پتہ چل جائے گا
اللہ خیر اب کیا کیا ہے ایمان
Wait and watch
ایمان نے کہا اور پھر سے قہقہ لگایا شاہ ھم کہاں جارہے ہیں شاپنگ پر لیکن گڑیا۔ کے بغیر ھاں لیکن شاہ آپ گھر چلو گڑیا کو ساتھ لے کر شاپنگ پر۔ جائے گئے
نہیں بس ہم دونوں جارہے ہیں شاہ گڑیا ناراض ہو گئ ایمان نے کہا چندا بس اب اس بارے میں بات نہیں کرے گئے شاہ نے اس کو چپ کروائے
ایمان نے اب شاہ کو گھورا
شاہ نے ایمان کو اپنی پسند سے شاپنگ کروائی شاہ اب بس اب میں اپنی پسند سے شاپنگ کر وے گئی آخر ایمان تنگ اکر بولی شاہ جو اس کی کوئی بات نہیں سن رہا تھا شاہ نے ایمان کو گھورا کیوں میرے ساتھ آئ ہو میری پسند کی شاپنگ کر وے گئ زبردستی ھے کیا ایمان نے غصہ سے کہا ھاں شاہ نے جواب دیا
شاہ ایسا ہی تھا وہ جب بھی گڑیا کے ساتھ آتا تھا اس کو اپنی پسند سے چیزیں لے کر دیتا تھا
ایمان نے ٹائم دیکھا تو ۵ بجے گئے تھے شاہ بس اب میں تھک گئ ھوں گھر چلے ایمان نے کہا ٹھیک ھے لیکن پہلے کچھ کھالیتے ہیں مجھے بھوک نہیں ہے ایمان نے کہا چندا تمہیں بھوک کب لگاتی ہے جب بھی دیکھوں کہتی ہو مجھے بھوک نہیں ہے شاہ نے سوال کیا بھوک تو میری ۲ سال پہلے ہی مار چکی ایمان نے سوچا ایمان کو خاموشی دیکھا کر شاہ پھر بولا چندا چلو پہلے کچھ کھالیتے ہیں ایمان نے بس سر ھاں میں ہلایا
ایمان اور شاہ ابھی راہستہ میں تھے کہ شاہ کے فون پر گڑیا کی کال آئ بھائ ایمان ابھی تک گھر نہیں آئ گڑیا نے پریشان ہو کر کہا گڑیا ایمان میرے ساتھ ہے شاہ نے جواب دیا بھائ آپ کے ساتھ گڑیا اب حیران ہوئی ھاں ھم گھر ارہے ہیں بعد میں بات ہوتی ہے جی بھائ گڑیا نے کہا اور فون بند کیا
گڑیا تھی شاہ آپ نے اچھا نہیں کیا اب گڑیا ناراض ہو گئ مجھے سے ایمان اب رونے والی تھی کیونکہ ایسا پہلی بارے۔ ہو تھا اس نے گڑیا کہ بغیر شاپنگ کی تھی شاہ اس کی بات سن کر مسکرایا چندا مجھے لگاتا ھے کہ تم دونوں پاگل ہو ایمان نے اس کو گھورا اور آپ ایک کے شوہر اور دوسرئ کے بھائ ہو ایمان نے کہا تمہارا مطلب میں پاگل ہو شاہ نے پوچھا ایمان نے ہسی دابتے ہوے کہا میں نے تو جواب دیے ہے آپ کی بات کا
ایمان اب گھر پر تھی کہاں تھی ایمان تم گڑیا نے پوچھا ایمان نے ساری بتائی کیا تم میرے بغیر شاپنگ کی گڑیا کو صدمہ ہوا تھا گڑیا میں نے چندا سے کہا تھا کہ گڑیا کو بھی لے کر چلتے ہیں لیکن اس نے کہا مجھے اپنے شوہر کے ساتھ اکیلے شاپنگ کرنی ہے شاہ نے ایمان کو تنگ کرنے کے۔ لیے کہا ایمان منہ کھولے کر اس کی بات سن کررہی تھی گڑیا میری جان جانتی ہوں یہ جھوٹ بول رہے ہیں ایمان نے کہا گڑیا چپ ہو کر اپنے کمرے میں گئی
شاہ یہ کیا۔ کیا آپ نے گڑیا میری دوست کو ناراض کر دیا ایمان اب رونے والی تھی شاہ اس کی بات پر مسکرایا چندا تم ملنا لو گئ شاہ نے کہا کیسے یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے آپ کا کوئی دوست ہوتا میں ایسا کرتی تو آپ کو پتہ چلتا دوست ناراض ہو جائے تو کیسا محصوص ہوتا ہے ایمان نے غصہ سے کہا
ہاں چندا مجھے پتا ہے میرے دوست ناراض نہیں ہے لیکن اس دنیا میں بھی نہیں ہے شاہ نے کہا اور اپنے روم میں چلاگئے
شاہ کو علی کی یاد آئ تھی ایمان۔ کو اب احساس ہو اس نے کیا کہا ہے شاہ کی بات پر ایمان کے دل میں کچھ ہوا ایمان پاگل ہے تو پہلے گڑیا اب شاہ کو ہڑٹ کیا ہے ایمان نے خود کو کہا
ایمان گڑیا کے روم میں آئ گڑیا۔ سوری شاہ جھوٹ بول رہے تھے یار یقین کرو اپنی دوست پر ایمان نے کہا کوئی بات نہیں ایمان بھائ تمہیں تنگ کر رہے مجھے پتا ہے میری دوست ایسی نہیں ہے گڑیا نے مسکرا کر کہا گڑیا تم بہت اچھی ہو اچھا اب مھکن نہیں لاگو گڑیا یار میں نے غلطی سے شاہ کو ہڑٹ کر دیے ہے اب ایمان نے گڑیا کو ساری بات بتائی ایمان یار یہ کیا کر دیے۔ تم نے گڑیا کو اب دکھ ہو رہا تھا
ایمان اپنے کمرے میں سونے کی کوشسش کررہی تھی لیکن شاہ کی بات سونے نہیں دے رہی تھی ایمان نے علی کی فوٹو کو دیکھا اور کہا علی یار غلطی سے ہو ہیں میں نے جانکر نہیں کیا اور لان میں آئ
شاہ اپنے روم میں تھا کچھ کام کر رہا۔ تھا ٹائم دیکھا کو 2 بجے تھے سونے لگا کہ ایمان کا خیال آیا چندا شاہ نے کہا اور مسکرایا شاہ ایمان کے روم کی طرف آیا روم میں کوئی نہیں تھا شاہ کو لگا کہ وہ گڑیا کے روم میں ہو گئ لیکن وہاں بھی نہیں تھی شاہ اب پریشان ہو گئے شاہ لان میں ایا تو ایمان وہاں تھی
شاہ ایمان کے پاس ایا چندا ایمان کچھ سوچ رہی تھی شاہ کی آواز پر شاہ کو دیکھا شاہ آپ سوئے نہیں ابھی تک ایمان نے پوچھا نہیں کچھ کام کر رہا تھا تم یہاں۔ کیا کر رہی ہو شاہ نے سوال کیا ایمان اب خاموش ہوئ شاہ اس کو روم میں لایا چندا نیدی نہیں آرہی کیا ڈدر لگ رہا ہے شاہ نے پوچھا ایمان نے نفی میں سر ہلایا چلو آج میں اپنی چندا کو سولاتا ہوں شاہ نے پیار سے کہا ایمان اس کی بات پر رونے لگئ شاہ میں نے جانکر نہیں کہا تھا سوری شاہ اس سے اگئے ایمان کچھ کہتی شاہ نے اس کی بولتی بند کی
ایمان کو لگا اب۔ اس کا سانس بند ہوجانا ہے لیکن شاہ اس پر ترس کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ کمرے میں خاموشی کچھ وقت تک تھی
شاہ نے نرمی سے خود سے الگ کیا ایمان آنکھیں بند کیے اپنی سانس کو بحال کر رہی تھی شاہ اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ایمان نے اب شاہ کو گھورا
چندا ایک تم روتی بہت ہو آج کہ بعد روئی تو اس طرح چپ کروئے گا شاہ نے کہا شاہ اس طرح کوئی کرتا ھے میرے سانس بند ہوجاتا ایمان نے غصہ سے کہا شاہ مسکرایا اچھا اب سو جاو اس سے پہلے میں کچھ اور کروئے
شاہ کی بات پر ایمان نے غصہ سے دیکھا شاہ آپ جاو میں سوتی ہو ایمان نے کہا اور لیٹ گئی اچھا ٹھیک ھے جلدی سونا تم سو گئ تو تمہارے شاہ کو بھی نیدی آے گئی شاہ نے کہا اور ایمان کہ ماتھے پر پیار کیا اور باہر گئے
شاہ کی بات پر ایمان مسکرائ وہ جانتی تھی جب وہ سو جاتی ہے شاہ۔ اس کو دیکھنا آتا ہے