مہر از حد پریشان تھی۔۔۔۔
سارا دن اس نے بے چینی میں کاٹا۔۔۔ ڈھیروں وہموں کا شکار۔۔۔ سہمی سی۔۔۔۔
اور دن ڈھلنے کے قریب تھا جب اماں سائیں نے اسے طلب کیا۔۔۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم ان کے پاس حاضر ہوئ۔۔۔ ۔۔۔
تسبیح کا ورد کرتے ہوۓ۔۔ سفید بڑی سی چادر میں پر نور چہرے کے ساتھ انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔۔
اس کے پاس بیٹھنے پر آگے جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔
اور کئ لمحے محبت سے اسے دیکھتی رہیں۔۔۔۔
"خوش رہو ہمیشہ۔۔۔ '" وہ بولیں۔۔۔
"خوشیاں سمیٹو۔۔۔ خوشیاں بکھیرو۔۔۔ اس خاندان میں ایک بابرکت اضافہ بنو۔۔۔ سید احسان علی شاہ کی نسلوں کی امین۔۔۔۔ "
مہر ٹھٹھکی۔۔۔
"شاہ سائیں کی جانب سے فیصلہ سنایا گیا ہے۔۔۔ تمہاری اور خرم کی شادی کی تیاریوں کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔ "
انہوں نے خوشی سے مسکراتے ہوۓ مہر سلیمان کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔۔
وہ ساکت سی بیٹھی انہیں ٹکر ٹکر دیکھے گئ۔۔۔
جیسےان کے کہے گئے الفاظ دماغ سمجھ نا پا رہا ہو۔۔۔ یا شاید سمجھنا نہ چاہ رہا ہو۔۔۔
اماں سائیں بہت دیر تک اس سے باتیں کرتی رہیں۔۔۔
مہر نہ کچھ سن پائ نہ سمجھ پآئ ۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے اٹھ آئ۔۔۔
اماں سائیں کے کمرے سے باہر نکلتے ہوۓ۔۔۔ مختلف راہداریوں سے ہو کر,, زینے طے کرتے ہوۓ۔۔۔ اوپری منزلوں کی طرف آتے ہوۓ۔۔۔ وہ غائب دماغی سے چلتی جا رہی تھی۔۔۔ سانس سینے میں اٹکنے لگا۔۔۔ اس نے چھت کی جانب دھندلائ آنکھوں سے دیکھا اور گہرے گہرے سانس لیے۔۔۔ لیکن دم گھٹتا چلا جا رہا تھا۔۔۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا۔۔۔ بند کیا۔۔۔ بیڈ پر بیٹھی۔۔۔ اور دونوں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر سہمی سہمی نظروں سے ارد گرد دیکھا۔۔۔۔۔
ہر چیز سے خوف آرہا تھا۔۔۔
وہ خود کو اس نیم اندھیرے کمرے میں بالکل تنہا محسوس کر رہی تھی۔۔۔
رات ہو گئ۔۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔ وہ بیٹھی رہی۔۔ وہ ہوش کی دنیا میں نہیں تھی۔۔ اس کا ذہن کہیں خلا میں معلق ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔ وہ ساکت آنکھوں سے خلا میں دیکھتی رہی۔۔۔
اگلے دن خرم احسان کی تینوں بہنیں اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔
وہ بے سدھ لیٹی تھی۔۔۔
وہ مسکراتے ہوۓ اس کے پاس بیٹھیں۔۔ اس کے گلے سے لگیں۔۔۔ بہت سی باتیں کیں۔
لیکن وہ خاموش رہی۔۔ بالکل خاموش۔۔۔
اور پھر سارا دن اس کے آس پاس رونق سی لگی رہی۔۔۔ شادی کی تیاریاں ہوتی رہیں۔۔۔ زیورات کے ڈبے کھولے گئے۔۔۔ اس کے ساتھ لگا کر دیکھے گیۓ۔۔۔ اعلی ملبوسات پھیلاۓ گئے۔۔۔ وہ خالی نظروں سے سب دیکھتی رہی ۔۔۔
کسی مجسمے کی طرح۔۔۔
اس کا دماغ اس حقیقت کو قبول نہ کر پا رہا تھا۔۔۔
وہ بیٹھی رہی۔۔ بے سدھ۔۔۔
اور جب اس کا ذہن بیدار ہونے لگا تو وہ اندر تک لرز اٹھی۔۔۔
"نہیں۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ "
وہ چلائ۔۔۔ " یہ نہیں ہو گا۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ "
وہ بڑبڑاتی جا رہی تھی۔۔۔ سر کے بال جکڑے, بے تحاشا تڑپتے ہوۓ۔۔۔ سسکتے ہوۓ۔۔۔
جانے کتنی رات گزری تھی۔۔۔
دور سے کہیں کسی گاڑی کے حویلی میں آنے کی آواز آئ۔۔۔ اور وہ روتی ہوئ۔۔ ایکدم ٹھٹھک کر رکی۔۔۔
"امیر حماد۔۔۔ " وہ بڑبڑائ۔۔۔
بیڈ سے اتری۔۔ اور ننگے پاؤں دروازے کی طرف لپکی۔۔۔
باہر برفیلے فرش پر ننگے پاؤں بھاگتے ہوۓ۔۔۔ اس کا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
سفید لمبا سا دوپٹا۔۔ سر سے ڈھلک کر فرش پر پھسلتا چلا گیا۔۔۔
مختلف راہداریوں سے ہو کر وہ ان کے کمرے کے سامنے پہنچی۔۔۔
بنا دستک دیۓ۔۔۔ بنا کھٹکھاۓ۔۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا۔۔۔
اور پہلی بار ان کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔
ایسے کہ سر پر دوپٹا نہ تھا۔۔ پیروں میں جوتا نہ تھا۔۔۔
جیسے وہ سب کچھ لٹا کر آئ تھی۔۔ یا سب لٹانے جا رہی تھی۔۔
کھڑکی سے باہر دیکھتے امیر حماد چونک کر مڑے۔۔۔۔ اور۔۔۔
دیکھتے رہ گیۓ۔۔۔
سفید, ملگجا سا۔۔۔ کھلا لمبا۔۔ شکنوں بھرا لباس۔۔۔
زمین پر پھسلتا دوپٹا۔۔۔ کھلے بکھرے بال۔۔۔
سرخ۔۔۔ بے حد سرخ آنکھیں۔۔۔ اور مرجھایا سا۔۔۔ ڈرا سہما سا چہرہ۔۔۔
بکھری ہوئ سی مہر سلیمان۔۔۔ امیر حماد کا دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔ ۔
وہ نازک لڑکی اس کرب سے گزر رہی تھی جس سے وہ دو راتیں پہلے گزر چکے تھے۔۔۔۔
۔۔
"امیر حماد۔۔۔ " وہ تیزی سے ان کے پاس آئ۔۔۔ ان کے سامنے۔۔ بالکل سامنے۔۔۔
" حویلی میں عجیب باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔ وہ سب۔۔۔ وہ سب بہت عجیب باتیں کر رہے ہیں۔۔۔ "
وہ کانپ رہی تھی ۔۔ لرز رہی تھی۔۔۔
"میری شادی خرم احسان سے طے کر دی بابا سائیں نے۔۔۔ " اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔
"آپ کو نہیں بتایا کسی نے۔۔۔ ہے نا۔۔۔ ؟ آپ یہ سب روک دیں۔۔۔ " وہ بولی۔۔۔
"مم۔۔ میں۔۔ یہ شادی بالکل نہیں کروں گی۔۔ "۔
وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئ بولی۔۔۔
وہ خاموش رہے۔۔ بالکل خاموش۔۔۔
"آپ کچھ بول نہیں رہے۔۔۔ "
وہ سہمی سی ان کو دیکھ کر بولی ۔۔۔۔
"امیر حماد۔۔۔ "
اس نے پکارا۔۔۔
"میں جانتا ہوں۔۔۔ سب۔۔ اس فیصلے کے بارے میں۔۔۔ "
"آپ جانتے تھے۔۔۔ ؟" وہ بے یقینی سے ان کو دیکھتے ہوۓ بولی۔۔۔
"آپ نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ ؟ بابا سائیں کو نہیں روکا۔۔۔ ؟"
مہر کا دل ڈوبنے لگا۔۔
"کیوں روکنا چاہئے تھا۔۔۔ ؟"
وہ بے تاثر اور اجنبی سی نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولے۔۔۔
"مم۔۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی۔۔۔ "
مہر کی سانس رکنے لگی۔۔ وہ خوف سے انہیں دیکھے گئ۔۔۔
"مہر۔۔ تمہیں اس فیصلے کیلیۓ تیار رہنا چاہیے تھا۔۔۔ تم تو جانتی تھی کہ تمہیں اس حویلی میں خرم احسان کے لیے لایا گیا تھا۔۔۔ پھر اتنی بے یقینی کیوں ہو رہی ہے۔۔۔ ؟"
انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
مہر ایکدم پیچھے ہٹی اور بے یقینی سے انہیں دیکھا۔۔۔
یہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ یہ سب وہ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔۔
اس نے غور سے امیر حماد کو دیکھا۔۔
اسے ان کے چہرے پر اپنے لیے کوئ شناسائ نظر نہ آئ۔۔۔ وہ آنکھوں میں اجنبیت اور لاتعلقی لیے کھڑے تھے۔۔۔
سرد سا چہرہ۔۔ وہ اس امیر حماد سے قطعی مختلف تھے جنہیں وہ جانتی تھی۔۔۔ ان کو تو وہ جانتی تک نہ تھی۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مہر کے ساتھ گزارے گئے ایک ایک پل کو۔ ۔ اور ہر ان کہے وعدے کو بھلا چکے تھے۔۔۔
مہر کی آنکھیں ان کے اس روپ کو پہچان نہ پا رہی تھیں۔۔۔
"ایسا نہیں کہیں۔۔۔ " وہ دھندلائ آنکھوں سے ان کے پاس آئ۔۔۔
"ایسا نہیں کہیں۔۔۔ میں۔۔ میں نہیں ہوں خرم احسان کی منگ۔۔ میں نہیں ہوں نوشین فیضان علی شاہ۔۔۔ سب۔۔ سب غلط سمجھ رہے ہیں۔۔۔ مجھے اس سے شادی نہیں کرنی۔۔۔ "
وہ تڑپتی ہوئ بول رہی تھی۔۔۔ انہوں نے نظریں پھیر لیں۔۔۔ اور سنجیدہ سے کھڑے رہے۔۔ خاموش۔۔۔۔
"آپ چپ کیوں ہیں۔۔۔ " وہ ان کا بازو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر دبا دبا سا چلائ۔۔۔
"ایسا نہیں کریں میرے ساتھ۔۔۔ سب غلط ہو رہا ہے۔۔۔ سب غلط۔۔۔ "
وہ تڑپ رہی تھی۔۔۔
" پلیز ایسا نہیں ہونے دیں۔۔۔ پلیز۔۔۔"
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ اس کے آنسو بھی امیر حماد کو پگھلا نہ سکیں۔۔۔
"خدا کے لیےایسے اجنبی مت بنیں۔۔۔ یہ سب روک دیں۔۔۔ " وہ منتیں کر رہی تھی۔۔ رو رہی تھی۔ ۔۔ تڑپ رہی تھی۔۔۔
انہوں نے نرمی سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے اور بازو سے ہٹاۓ۔۔۔۔
مہر ایکدم خاموش ہوئ۔۔۔
انہوں نے مہر کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں۔۔۔
مہر کے دل میں امید سی جاگی۔۔۔
اس نے امیر حماد کی آنکھوں میں شناسائ , نرمی کی جھلک ڈھونڈے کی کوشش کی۔۔۔
لیکن وہ ویسی ہی تھیں۔۔۔ بے تاثر۔۔۔
انہوں نے مہر کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
"جاؤ نوشین فیضان علی شاہ۔۔۔ تمہیں خرم احسان علی شاہ کے سنگ زندگی کی تمام خوشیاں نصیب ہوں۔۔۔ "
مہر کا دل جیسے رک سا گیا۔۔۔
انہوں نے اس کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔۔۔
وہ تکلیف کی شدت اور خوف کے غلبے سے کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔
سامنے کھڑے امیر حماد۔۔۔ سفید کلف لگے شلوار قمیص میں ملبوس۔۔۔ کندھے پر چادر ڈالے۔۔۔ کسی سخت دل وڈیرے کی طرح لگ رہے تھے۔۔۔
مہر کو ان میں سید احسان علی شاہ کی جھلک نظر آئ۔۔۔
وہ مہر کےامیر حماد نہیں تھے۔۔۔
اس نے کرب سے آنکھیں میچیں۔۔۔ آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔۔۔
وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔۔ چیخ کر چلا کر
لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ کیونکہ۔۔ سامنے کھڑے شخص کو وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔
وہ الٹے قدموں واپس پلٹ کر ان کے کمرے سے نکلتی چلی گئ۔۔۔
______
______
وہ بہت سے دنوں تک اپنے کمرے میں روتی رہی تھی۔۔۔ تڑپتی رہی تھی۔۔۔
اور پھر وہ پتھر سی ہو گئ۔۔۔
وہ کس کے لیے روۓ۔۔۔؟
جنہوں نے کبھی کوئ اظہار تک نہ کیا تھا۔۔۔
جنہوں نے کبھی اس کی مٹھیوں میں کسی خواب کا جگنو تک نہ تھمایا تھا۔۔۔
ساری غلطی اس کی خود کی تھی۔۔۔ تو اب کیوں رو رہی تھی وہ۔۔۔
کسی نے نہیں آنا تھا اب۔۔۔
کسی شہزادے نے نہیں آنا تھا اب اسکے لیے۔۔۔
اور پھر وہ خرم احسان کی مہندی کی دلہن بنائ گئ۔۔۔
اور سب ختم ہو گیا۔۔۔
___
___
وہ پھر آۓ تھے۔۔۔ اسے دعا دینے۔۔۔ جب وہ سر پر خرم احسان کے نام کی سرخ چنر اوڑھے۔۔۔ سر تا پا سجی دلہن بنی تھی۔۔۔۔
مہر کی نظریں ان کے قدموں کے ساتھ زنجیر ہوئ تھیں۔۔۔
لیکن وہ ویسی ہی اجنبیت اوڑھے آۓ تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے دیکھا ہو گا اس شہزادے نے اپنی مہر سلیمان کو کسی اور کا ہوتے اس دن۔۔۔۔ ؟
_____
_____
وہ ساکت سی بیٹھی نکاح خواں کے آنے کاانتظار کر رہی تھی۔۔۔
اس نے اپنے مہندی سے سجے ہاتھوں کو دیکھا۔۔۔
ذہن خالی سا ہو رہا تھا۔۔۔
کمرہ خالی تھا ۔۔
اچانک جھٹکے سے دروازہ کھلا۔۔۔
مہر نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔
سامنے خرم احسان کھڑا تھا۔۔۔
وہ کئ لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔۔
مہر کو اس کی آنکھوں میں سرخی اور وحشت نظر آئ۔۔۔
مہر کو وہ جنونی سا لگا۔۔۔
عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھتا ہوا۔۔۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئ۔۔۔
خرم احسان لڑکھڑاتے قدموں سے اس کی جانب بڑھا۔۔۔ اس کے بے حد قریب آیا۔۔۔
مہر کو اس سے خوف محسوس ہوا۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔ ؟ "
خرم نے اس کا چہرہ انگلیوں سے دبوچا۔۔۔
مہر سہم سی گئ۔۔۔۔
وہ تکلیف کی شدت سے کانپ اٹھی۔۔۔
خرم نے اس کے بازؤں کو زور سے دبوچا اور جھٹکا دیا۔۔۔
"میں پوچھ رہا ہوں کون ہو تم۔۔۔ "وہ چلایا ۔۔۔
"لیو۔۔۔ لیو می۔۔۔" وہ سسکی۔۔۔پھڑپھڑا کر خود کو اس کی گرفت سے نکالنا چاہا۔۔۔
"ت۔۔۔ تم۔۔۔ میری نو شین کی جگہ لینے جا رہی تھی۔۔۔؟؟"
وہ پاگل ہورہا تھا۔۔۔
"ن۔۔۔ نہیں" وہ ہکلائ تھی۔۔۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری نو شین کی جگہ لینے کی۔۔۔ اس کا نام لینے کی۔۔۔؟؟" وہ دھاڑا تھا۔۔۔
"اور یہ۔۔۔"اس کی نظر مہر کی چنر پر پڑی۔۔۔
"یہ چنر۔۔۔ کیسے اوڑھ لی تم نے۔۔۔ کس حق سے۔۔۔؟؟ کس سے پوچھ کر۔۔۔؟؟؟"
اس نے جھٹکے سے چنر اس کے سر سے کھینچی۔۔۔
اس کے بال کھنچے اور بکھرتے چلے گئے۔۔۔ وہ تکلیف کی شدت سے چلائی۔۔۔
"اس چنر پر صرف اور صرف میری نو شین کا حق ہے۔۔۔"
اس نے پوری شدت سے مہر کو دھکیلا۔۔۔
اور آندھی طوفان کی طرح کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن ۔۔۔۔ گاؤں کی گلیوں نے سید احسان علی شاہ کے وارث کو۔۔۔
ان کے اکلوتے بیٹے کو۔۔۔ اس رئیس زادے کو ننگے پاؤں، بکھرے حلیے میں، وحشیوں کی طرح روتے ہوئے گزرتے دیکھا۔۔۔
اس دن اس گاؤں کے قبرستان کی کچی قبروں میں سے ایک قبر کے پاس خرم احسان پھوٹ پھوٹ کر رو یا تھا۔۔۔
وہ نو شین فیضان علی شاہ کی قبر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تڑپ تڑپ کر رو رہا تھا۔۔۔
سید احسان علی شاہ پاگل باپ کی طرح بھاگے گئے تھے اپنے بیٹے کے پاس۔۔۔
وہ قبرستان کی حدود میں داخل ہوئے اور خرم احسان کی طرف بڑھے۔۔۔
"بابا سائیں۔۔۔" وہ وہیں سے چلایا تھا۔۔۔
"اگر آپ میرے پاس بھی آۓ تو میں خود کو ختم کر لوں گا۔۔
"مٹی مٹی ہوا ان کا بیٹا، سرخ آنکھوں ، بکھرے بالوں سے ان کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
"آپ نے میری لائف برباد کر دی بابا سائیں۔۔۔ میری لائف برباد کر دی۔۔۔"
سید احسان علی شاہ اونچے قد سے گرے تھے۔۔۔اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر۔۔۔ان کا غرور ٹوٹا۔۔۔ ان کی اکڑ ختم ہوئی۔۔۔
وہ شکستہ قدموں سے حویلی آۓ تھے۔۔۔
اور اس لڑکی کے کمرے کی جانب بڑھے جس کی زندگی انہوں نے برباد کی تھی۔۔۔
اور شاید اسی کی آہیں اور بد دعائیں انہیں لگ گئی تھیں۔۔۔
وہ مہر سلیمان کے کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔
اماں سائیں،ان کی بیٹیاں،گاؤں کی عورتیں ، بہت سی کنیزیں۔۔۔سب وہاں تھیں
ان کے آنے پر نظریں اور سر جھک گئے۔۔۔
انہوں نے دیکھا۔۔۔وہ سامنے زمین پر ساکت بیٹھی تھی۔۔۔ بکھرے بال، کھلا سر۔۔۔ خالی آنکھوں سے۔۔۔ انہیں دیکھتی ہوئ۔۔۔
وہ شکستگی سے چلتے ہوئے اس کے پاس گئے۔۔۔
مہر کی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر نفرت ابھری۔۔۔
بے تحاشہ نفرت۔۔۔
وہ بیڈ کا سہارا لے کر اٹھی ۔۔۔ ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔۔
ان کے سامنے سر اٹھاۓ، جن کے سامنے ایک زمانہ نظر جھکاتا تھا۔۔۔
ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملاۓ۔۔۔ نفرت بھری نگاہیں۔۔۔
" دیکھیں بابا سائیں آپ کے بیٹے نے کیا کیا۔۔۔ وہ میرے سر سے اپنے نام کا چنر تک کھینچ کر لے گیا۔۔۔ بولا، اس پر صرف اور صرف نو شین فیضان علی شاہ کا حق ہے۔۔۔
آپ نے کہا تھا نہ کہ اس حویلی میں میرے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی۔ اب آپ کا انصاف کیا کہتا ہے۔۔۔"
وہ سائیں شاہ کے سامنے کھلے سر ، بکھرے بال اور آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ پھٹ ہی تو پڑی تھی۔ وہاں سب ہی تھے۔۔۔ اماں سائیں، حویلی کی لڑکیاں ، سائیں شاہ۔۔۔ بہت سے لوگ۔۔۔۔۔
" گستاخی معاف کیجئے گا بابا سائیں، مگر آپ رئیس لوگ سمجھتے ہیں کہ طاقت اور دولت سے آپ کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔
آپ نے اسی طاقت کے بل بوتے پر مجھے تو خرید لیا ۔۔۔
مگر اب آپ کی طاقت کیا کرے گی؟ اب کیسے خوشیاں خریدیں گے اپنے بیٹے کیلئے؟ نہیں بابا سائیں خوشیاں خریدی نہیں جا سکتیں۔۔۔
اور اگر آپ اپنی خوشیوں کی بنیاد دوسروں کے آنسوؤں ، غموں اور مجبوریوں پر رکھیں گے تو یاد رکھئے گا۔۔۔ آپ بھی خوش نہیں رہ سکیں گے۔۔۔" وہ سسکتی ہوئ نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔۔
اردگرد لوگ حیرت سے، پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔ اماں سائیں، ان کی بیٹیاں آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
گاؤں میں طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔۔۔ سب حیرت میں گھرے تھے۔۔۔وہ بہت دیر تک سسکتی رہی ۔۔۔
وہیں گر سی گئی۔۔۔
سید احسان علی شاہ کے قدموں میں۔۔۔ روتی رہی۔۔۔ پورے کمرے میں اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔
**********
اور امیر حماد۔۔۔
انہیں جب علم ہوا۔۔۔ وہ بھاگے چلے آۓ ۔۔۔
اور وہ اپنے پیارے بابا سائیں کی بربادی پر خوش نہیں ہوۓ تھے۔۔۔
جانے کیوں۔۔۔
لیکن ان کے دل سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔۔۔
وہ جب حویلی آۓ ، بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔
وہ جلتے قدموں سے اس کمرے کے دروازے تک آۓ تھے۔۔
اور سامنے بابا سائیں کی حالت دیکھ کر، اپنی اماں سائیں اور بہنوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ ہی تو اٹھے تھے۔۔۔
انہوں نے کب چاہا تھا کہ ایسا ہو۔۔۔انہوں نے تو دل سے اس حویلی کی، سید احسان علی شاہ کی خوشیاں چاہی تھیں۔۔۔ انہوں نے تو کوئی بد دعا نہ دی تھی۔۔۔
وہ اندر آئے۔۔۔
ان کے کانوں نے سسکیاں سنیں۔۔۔
مہر کی۔۔۔ اپنی دل کی دھڑکن مہر کی۔۔۔ وہ بیٹھی تھی۔۔۔ بنا دوپٹے کے۔۔۔ بے یار و مددگار۔۔۔ ان کی مہر سلیمان کی یہ حالت۔۔۔
اتنی تذلیل۔۔۔انہوں نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں۔۔۔
وہ لڑکی رو رہی تھی جس کی آنکھوں میں وہ ایک آنسو نہیں د دیکھ سکتے تھے۔۔۔اور وہ اس حالت میں تھی۔۔۔
جیسے اس کے سر سے آسمان اور قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں مہر سلیمان کو ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ جیسے اس کے سر پر سے چھت چھین لی گئی ہو۔۔۔آج وہ ساری دنیا کے سامنے ننگے سر بیٹھی تھی۔۔۔وہ تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی کہ اللّہ۔۔۔ میرے ساتھ یہ کیوں ہوا۔۔۔ان رئیسوں نے۔۔۔
میری اتنی تذلیل کیوں کی۔۔۔اتنی تذلیل،اتنی اہانت۔۔
اسے ارد گرد لوگوں کی چہ مگوئیاں نظریں اندر تک اترتی محسوس ہو رہی تھیں۔
خرم احسان اسکے سر سے چنر کھینچ کر لے لیا گیا۔
تمام گاؤں میں خبر بجلی کی طرح پھیل چکی تھی۔
مہر نے جھکے سر سے سسکتے ہوئے دیکھا۔۔۔کوئ اسکے پاس بالکل پاس آکھڑا ہوا تھا۔
کالی پشاوری چپل میں موجود پاؤں۔۔۔
اسکے آنسو یک دم تھمے۔
اسے امیر حماد کی خوشبو بہت پاس محسوس ہوئی۔۔۔
کوئ جھک کر اسکے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔لیکن اس نے نظریں زمین میں گاڑے رکھیں
خاموشی چھا گئی تھی ہر طرف۔۔۔گہری خاموشی۔۔
مہر کے آنسو جم سےگئے۔
کسی نے اس کو کندھوں سے تھاما تھا۔۔۔مہر کی سانسیں تھمنے لگیں۔۔۔
اور کسی نے اسکو نرمی سے اٹھایا تھا۔۔۔اس نے نظریں آہستگی سے اٹھائیں۔۔۔
نظریں ان کے سینے سے ہوتی ہوئیں،انکے چہرے پر پڑیں۔۔۔
یہ امیر حماد تھے اس کے اپنے امیر حماد۔۔۔چہرے پر کرب لئے۔۔۔اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
❤❤
اور پھر وقت نے ہر چیز سے کہا۔۔۔تھم جا۔۔۔رک جا۔۔۔ساکت ہو جا۔۔۔
جیسے ساری کائنات نے دم سادھ لیا۔۔۔
اور پھر ساری دنیا نے دیکھا شہزادے نے اپنے کندھوں سے چادر اتاری اور سامنے کھڑی اس لڑکی۔۔۔اس پریوں جیسی معصوم لڑکی۔۔۔وہ جو اس کی مہر سلمان تھی۔۔۔اس لڑکی پر چادر اوڑھا دی۔۔۔
اس لڑکی کے کھلے سر اور نازک وجود پر اپنی چادر اوڑھا دی۔۔۔مہر سانس روکے ان کو ششدر سی دیکھے گئی۔۔۔
گاؤں کی عورتوں، ملازماؤں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔ اماں سائیں، ان کی بیٹیاں اور بابا سائیں دم سادھے، انہیں دیکھتے رہ گئے۔۔۔
"""شاہ سائیں کے بڑے بیٹے نے ، چھوٹے بیٹے کی ہونے والی بیوی کو چنر اوڑھا دی۔۔۔"""
کوئی دھماکہ ہوا تھا ہر طرف۔۔۔
اور وہ دونوں مجسمہ بنے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔
اردگرد سے سب دھواں بن کر غائب ہو نے لگا۔۔۔
وہ دونوں تھے بس۔۔۔
مہر سلیمان کا شہزادہ اس کے سامنے تھا اور وہ اس کی اوڑھائ گئی چنر میں سب سے چھپی ہوئی، محفوظ کھڑی تھی۔۔۔
بالکل محفوظ۔۔۔۔۔ 💖
💙
جب کڑی دھوپ میں دیواریں بھی جل اٹھتی ہیں۔۔۔
جب درختوں نے بھی ساۓ میں کم کر دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تپتی زندگانی کی دربدری میں اس مہربان نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر کھلا چھوڑ کر اپنا ___مجھے چادر دی تھی۔۔۔۔۔۔
💙
___________