فارم ہاؤس کے لان میں بابا سائیں ، سیاست سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اور دوسرے آس پاس کے گاؤں کے وڈیرے اور سر پنچ، جو بابا سائیں کے اچھے دوست بھی تھے جمع تھے۔۔۔
کھانا کھایا جا چکا تھا اور سبز چائے کا دور چل رہا تھا۔۔۔۔
محفل اپنے اختتام کے قریب تھی۔۔۔ امیر حماد جلتی آنکھوں سے بابا سائیں کے پاس گئے ۔۔۔
انہیں سلام کیا۔۔۔ انہوں نے اسے اشارے سے ویٹ کرنے کا کہا۔۔۔ وہ بڑے سے لان کے ایک خاموش کونے میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔۔۔ بے چینی اور گھبراہٹ حد سے سوا تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ بھیڑ کم ہونے لگی۔۔۔ لوگ اجازت لے کر رخصت ہونے لگے۔۔۔۔ امیر حماد کا دل چاہا جلدی سے یہاں سے سب کو غائب کر دیں۔۔۔ کیونکہ کوئی منتظر تھا ان کا حویلی میں۔۔۔۔
"وہ میرا انتظار کر رہی ہو گی۔۔۔ وہ جو میری ہے۔۔۔ میری اپنی۔۔۔" انہوں نے دکھتے سر اور آنکھوں سے سوچا۔۔۔ بہت دیر گزر گئی۔۔۔ ایک ایک پل کاٹنا محال ہو رہا تھا۔۔۔
بابا سائیں وہاں سے اٹھ کر اندر فارم ہاؤس کے ایک بڑے سے پر تعیش بیڈروم میں چلے گئے۔۔۔ کئ لمحوں بعد ملازم کو پیغام دیا انہیں بلانے کا۔۔۔۔ امیر حماد نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔۔۔
"آ جاؤ۔۔۔" وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔ بابا سائیں آنکھیں موندے لیٹے تھے۔ "بابا سائیں" انہوں نے احترام سے پکارا۔۔ "بیٹھ جاؤ۔۔۔" بنا آنکھیں کھولے حکم صادر کیا گیا۔۔امیر حماد بیڈ پر بیٹھ گئے اور ان کی ٹانگیں دبانے لگے۔۔۔ ایسا وہ اکثر کیا کرتے۔۔۔ محبت سے ، احترام سے۔۔۔
"امیر حماد۔۔۔ میرے بیٹے۔۔۔ میری طاقت۔۔۔ میری ہمت۔۔۔" انہوں نے آنکھیں کھول کر محبت سے مسکرا کر انہیں پکارا۔۔۔ "
"حکم کیجئے بابا سائیں۔۔۔" وہ بے حد خاموش، خالی، بے تاثر نظروں سے بابا سائیں کو دیکھتے رہے۔۔۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی۔۔۔
"ہم نے ایک فیصلہ لیا ہے۔۔۔ اور یہ فیصلہ خرم کی مرضی، اس کی خواہش پر لیا گیا ہے۔۔۔۔"وہ بولے۔۔۔ " خرم نے کل ہی اپنی خواہش کا اظہار کیاکہ وہ نو شین بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔ ہمیں اس کا فیصلہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔۔۔بلآخر وہ ایک ذمہ دارانہ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔۔۔"
وہ خوش تھے۔۔۔ بہت خوش۔۔۔ امیر حماد خاموشی سے انہیں سنتے رہے۔۔۔
"ہم نے تمہیں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنے کی لۓ طلب کیا ہے۔۔۔" انہوں نے نظریں امیر حماد پر مرکوز کیں۔۔۔
"بابا سائیں۔۔۔ " کئ لمحوں کی خاموشی کے بعد امیر حماد گویا ہوئے۔۔۔ "آپ کا ہر حکم ، ہر فیصلہ سر آنکھوں پر رہا۔۔۔ کبھی کسی حکم سے اختلاف نہ ہوا۔۔۔"
ان کے لہجے میں احترام تھا۔۔
۔ "لیکن بابا سائیں۔۔۔ اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔۔۔ " وہ سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔۔۔ بابا سائیں چونکے۔۔۔ "بولو۔۔"
"بابا سائیں جس لڑکی سے آپ خرم احسان کی
شادی طے کر رہے ہیں وہ نو شین فیضان علی شاہ نہیں ہے۔۔۔"
انہوں نے سید احسان علی شاہ کو کسی خواب سے حقیقت کی دنیا میں لا پٹخا تھا۔۔۔ سید احسان علی شاہ کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہوئ اور چہرے پر سختی ابھری۔۔۔
"وہ نو شین نہیں ہے بابا سائیں۔۔۔ اور نو شین اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔ کیا آپ نے فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو سامنے رکھ کر سوچا۔۔۔؟؟؟"
سید احسان علی شاہ کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے اور نو شین کی موت یاد دلانے پر آنکھوں میں ایکدم تکلیف کے آثار ابھرے۔۔۔
"یہ بات یاد دلا کر تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟"
وہ لب بھینچتے ہوئے بولے۔۔۔
"میں کچھ ثابت نہی کرنا چاہ رہا بابا سائیں۔۔۔بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔۔۔"
"جس دن وہ لڑکی ہماری دنیا میں آئی تھی اس دن وہ ہمارے لیے نو شین بن گئ۔۔۔ وہ ہی نو شین ہے اب ۔۔۔ اس کی اصلیت کے بارے میں اب زندگی بھر کوئ بات نہیں ہو گی۔۔۔"ان کا لہجہ اٹل تھا۔۔۔
"بابا سائیں۔۔۔ یہ تو خود کو اور سب کو دھوکہ دینے والی بات ہوئی۔۔۔"
امیر حماد نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔ "امیر حماد ۔۔۔ بھول جاؤ اس بات کو کہ وہ نو شین نہیں ہے۔۔۔"
"بابا سائیں۔۔۔ سید زادوں کی شادی کسی غیر زات میں نہیں ہو سکتی۔۔۔ آپ کے خاندان کا یہ اصول تو یاد رکھیں۔۔۔"
امیر حماد کی دنیا تہس نہس ہونے جا رہی تھی۔۔۔ وہ کیسے کریں۔۔۔ کیا کریں۔۔۔ کہ یہ سب رک جائے۔۔۔
"امیر حماد۔۔۔" ان کی آواز کچھ بلند ہوئ۔۔۔
"وہ۔لڑکی نو شین فیضان علی شاہ ہے اور نو شین۔۔۔۔ ہمارے خاندان۔۔۔ ہماری ذات کی ہے۔۔۔یہی سچ ہے۔۔۔ اس کو اپنے دماغ کی پر توں میں محفوظ کر لو۔۔۔"
ان کی آواز میں گرج تھی، تحکم تھا۔۔۔امیر حماد ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ہاتھ باندھے، خاموش لیکن اندر سے طوفانوں کی زد میں۔۔۔ دل لرز رہا تھا، تڑپ رہا تھا۔۔۔
"امید ہے ہماری بات سمجھ گئے ہو گے تم۔۔۔اور تم اس بات کو جانتے ہو کہ ہمارا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔۔۔"
وہ بالکل اجنبی بن چکے تھے۔۔۔ امیر حماد نے سرخ ہوتی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔۔۔
سید احسان علی شاہ ان کی آنکھوں کو دیکھ کر ٹھٹھکے۔۔۔ امیر حماد کے چہرے پر پھیلی عجیب سی تکلیف کو دیکھا۔۔۔ ایسے جیسے وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر رہے ہوں۔۔۔
"بہتر بابا سائیں۔۔۔"
انہوں نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں۔۔۔ تکلیف ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔۔۔ سید احسان علی شاہ نے ان کی ٹوٹتی ہوئ سی،لرزتی ہوئ سی آواز سنی۔۔۔ ان کی سرخ آنکھیں،۔ضبط سے بھینچے جبڑے، ماتھے پر ابھرتی رگ۔۔۔
سامنے کھڑا امیر حماد ایک عجیب داستان سنا رہا تھا۔۔۔ وہ لمحوں میں ان کے اندر تک کو پڑھ گئے۔۔۔ اور ان کا خون کھول اٹھا۔۔۔
" تم جا سکتے ہو۔۔۔"
سخت لہجے میں کہہ کر نظریں موڑ لیں۔۔۔ امیر حماد تیزی سے باہر نکل آۓ۔۔۔ سانس لینا مشکل۔ہو رہا تھا۔۔۔ انہوں نے باہر لان میں آ کر گہرے لمبے سانس لۓ۔۔۔ اور بے دم ہو کر پاس پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔۔۔ سر پھٹ رہا تھا۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے سر کے بال جکڑے۔۔۔ آنکھوں میں اس معصوم سی، پریوں جیسی لڑکی کا چہرہ گھوم گیا۔۔۔ جو ان کے لئے روتی تھی۔۔۔ جو ان کی راہ دیکھا کرتی تھی۔۔۔
"مہر۔۔۔" وہ بڑبڑائے ۔۔۔
"مہر۔۔۔" ان کی آواز ذرا اونچی ہوئ۔۔۔
"مہر۔۔۔" بار بار اس کا نام بے خودی سے پکارتے چلے گئے،
وہ جل رہے تھے، تڑپ رہے تھے۔۔۔
"مہر۔۔ امیر حماد کی ہے۔۔۔ وہ۔کیسے کسی اور کی ہو سکتی ہے۔۔۔"
وہ بکھر رہے تھے۔۔۔ سر ہاتھوں میں گراۓ۔۔۔ شکستہ سے۔۔۔ اور اس دن وقت نے اس سنگ دل، سنجیدہ، مضبوط سے شخص کو ماتم کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔ وقت نے ایک مضبوط شخص کو ایک نازک لڑکی کے لئے۔۔۔ ٹوٹ کر بکھرتے دیکھا۔۔۔ وہ کیا تھے اور اب کیا ہو گۓ تھے۔۔۔ محبت نامی بلا سامنے کھڑی ان پر قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔ آخر محبت نے ان کو توڑ دیا۔۔۔
بہت دیر بعد وہ خود کو سنبھالتے ہوئے اٹھے۔۔۔ دکھتی آنکھوں کو ہاتھ کی پوروں سے دبایا۔۔۔ چہرے پر ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کیا اور گہرا سانس بھرا۔۔۔
فارم ہاؤس کے گیٹ کے پاس کھڑے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا حکم دیا۔۔۔
واپسی کا راستہ طے کرتے ہوئے ان کی زات میں عجیب ٹھہراؤ سا تھا۔۔۔ ان کو ٹوٹنا نہیں تھا۔۔۔انہیں بالکل نہیں ٹوٹنا۔۔۔
کیونکہ کوئی ان کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ وہ معصوم لڑکی کتنی سہمی ہو گی۔۔۔ کتنی بے قراری سے ان کا انتظار کر رہی ہو گی، نہیں۔۔۔ ان کو اپنی مہر کے لیے خود کو سنبھالنا ہو گا۔۔۔ خود کو بکھڑنے سے بچانا ہو گا۔۔۔
باہر اب اندھیرا تھا۔۔۔ گھپ اندھیرا۔۔۔
گاڑی حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئ تو ان کی نظروں نے دیکھا۔۔۔
وہ کھڑی تھی سامنے ۔۔۔ شل سی۔۔۔ تھکی سی، ڈری سہمی سی۔۔۔
امیر حماد گاڑی کا دروازہ بند کر کے اس کی طرف بڑھے۔۔۔ وہ دو گھنٹے بعد واپس آئے تھے۔۔۔ اور وہ جانتے تھے۔۔۔ اگر وہ آدھی رات کے بعد بھی واپس آتے تو اس لڑکی کو وہیں پاتے۔۔۔ سلو موشن میں وہ اس کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔۔۔ حویلی خاموش، نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔ ان کے کندھوں سے چادر ڈھلک کر ایک کندھے پر ذرا سی اٹکی رہ گئی۔۔۔ لیکن وہ یک ٹک مہر سلیمان کے چہرے کو دیکھتے دیکھتے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔
دودھیا معصوم سا چہرہ۔۔۔ پریشان سی شہد رنگ آنکھیں۔۔۔ جن میں تفکر کی گہری لکیریں۔۔۔ وہ بے اختیار ان کی طرف بڑھی۔۔۔۔ سیاہ لٹیں، دودھ سے چہرے پر اڑتی ہوئیں۔۔۔
امیر حماد کو اپنی آنکھوں میں چبھن سی محسوس ہوئی۔۔۔ لیکن انہوں نے خود کو ٹوٹنے نہ دیا۔۔۔
وہ ان سے ایک قدم کے فاصلے پر رکی۔۔۔ "آپ نے بہت دیر کر دی۔۔۔ " وہ بھرائی آواز میں بولی۔۔۔ "کیا ہوا ۔۔۔؟؟؟ کچھ برا تو نہیں ہوا۔۔۔؟؟؟" وہ رو دینے کو تھی۔۔۔
"کچھ برا نہیں ہوا مہر ۔۔۔" وہ مسکرائے۔۔۔ اور وہ جانتے تھے کہ وہ کس دقت سے مسکرائے تھے۔۔۔
"سب ٹھیک ہے۔۔۔بالکل ٹھیک ۔۔۔" انہوں نے نرمی سے مہر کے چہرے کو چھو کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔۔۔ پرسکون ہوئ۔۔۔
"میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ " وہ ان کے پیچھے سے زمین کو چھوتا ان کی چادر کا پلو اٹھا کر ان کے کندھے پر رکھتے ہوئے بولی۔۔۔
"لیکن سب ٹھیک ہے۔۔۔" وہ مسکرائی۔۔۔ امیر حماد کے رگ و پے میں سکون سا اترتا چلا گیا۔۔۔ انہیں مہر سلیمان سے سکون ملتا تھا۔۔۔ مہر سلیمان ان کی زندگی کا سکون تھی۔۔۔
"چاۓ بنا لاؤں۔۔۔؟؟؟" وہ سوالیہ نظروں سے پوچھتی ان کے سامنے آئی۔۔۔ "نہیں آج دل نہیں ہے چاۓ کو۔۔۔" وہ اس کے چہرے کو نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے بولے۔۔۔
"میں کچھ دیر سونا چاہتا تھا۔۔۔بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ " وہ زینوں میں سے سب سے اوپر والے زینے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔۔۔ "آپ کی طبیعت نہیں ٹھیک معلوم ہوتی۔۔۔" وہ فکر مند سی ان کے قدموں کے پاس بیٹھی۔۔۔ ان کی طرف مڑ کر سر اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔
"ہاں۔۔۔ طبیعت نہیں ٹھیک شاید۔۔۔ " وہ کھوۓ سے بولے۔۔مہرخاموش سی انہیں دیکھتی رہی۔۔۔ بنا پلک جھپکے کتنے ہی لمحے گزر گئے۔۔۔ وہ مہر کو دیکھتے رہے۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔ دل میں اب سکون سا تھا۔۔۔ وہ کچھ دیر کے لئے ہر چیز بھلا دینا چاہتے تھے۔۔۔ اور انہوں نے واقعی ہی بھلا دیا۔۔۔ ہر خوف، ہر ڈر۔۔۔ مستقبل کی فکر۔۔۔وہ بس حال میں رہنا چاہتے تھے۔۔۔
یہ جو لمحے ان کے پاس تھے۔۔ ان کی دسترس میں ۔۔۔ ان میں۔۔ مہر کو دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔
وہ خاموش اسے دیکھتے رہے۔۔۔
اود مہر نے ان کو دیکھنے دیا۔۔۔
کئ پل گزر گیۓ۔۔۔۔
"آپ ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔۔۔ آرام کریں۔۔"
وہ آہستگی سے بولی۔۔۔
"میں جاؤں ؟ ۔۔۔ آپ سو جائیں۔۔۔ " مہر نے سوالیہ نظروں سے امیر حماد کو دیکھا۔۔۔۔
"نہیں۔۔ یہیں رہو۔۔۔ " مہر نے خاموشی سے سر ہلایا اور رخ سامنے کی طرف کر کے۔۔۔ دور آسمان پر دھند میں چھپے چاند کو دیکھنے لگی۔۔۔ یک ٹک۔۔۔
اور امیر حماد۔۔۔
ان کی نظریں ابھی بھی اس پر تھیں۔۔۔
اس لڑکی پر۔۔ جو ان کی تھی۔۔۔ ان کی اپنی۔۔۔
دل خالی سا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔
____
____
اگلے دن۔۔۔ بابا سائیں حویلی آۓ۔۔۔ بہت دن بعد ہر طرف افرا تفری سی پھیل گئ۔۔۔ بابا سائیں کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول کرتے ہوۓ۔۔ امیر حماد خاموش سے رہے۔۔۔ بابا سائیں کی طرف دیکھنے سے بھی گریز کیا۔۔۔ ۔۔۔ بابا سائیں نے بھی ان سے کوئ بات نہ کی تھی۔۔۔۔
خرم بابا سائیں کے کسی کام سے شہر سے باہر تھا۔۔۔
کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلے گیۓ۔۔۔۔امیر حماد ان کے پیچھے گئے۔۔۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔
ان کی اجازت کے بعد ان کے کمرے میں داخل ہوۓ۔۔۔۔ وہ سامنے میز پر کچھ کاغذات پھیلاۓ دیکھ رہے تھے۔۔۔
سید احسان علی شاہ نے انہیں ایک نظر دیکھا۔۔۔ امیر حماد کا حلیہ بتا رہا تھا کہ ان کی کل کی رات کس کرب میں گزری تھی۔۔۔ انہوں نے اس پر سے نظر ہٹا لی۔۔۔
وہ بہت کچھ سمجھ رہے تھے۔۔۔۔
وہ بہت کچھ سمجھ چکے تھے۔۔۔۔
"بابا سائیں۔۔۔ " امیر حماد نے انہیں پکارا۔۔۔
"بابا سائیں آپ سے ایک بار پھر گستاخی اور نافرمانی کے لیے معافی چاہوں گا۔۔۔
لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ خرم احسان کی زندگی کا فیصلہ کرنے سےپہلے۔۔۔ تمام پہلوؤں پر ایک بار پھر سے سوچیں بابا سائیں۔۔۔ "
سید احسان علی شاہ چہرے پر سختی سی لیے۔۔ سامنے موجود کاغذات پر نظر دوڑاتے رہے۔۔۔
"بابا سائیں۔۔۔ " وہ دو قدم ان کے قریب ہوۓ۔۔۔۔ بابا سائیں نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔
"بابا سائیں۔۔ اگر کبھی خرم کو اصلیت پتہ چل گئ۔۔۔ آپ اسے ٹوٹنے سے کیسے بچا پائیں گے۔۔۔ بابا سائیں۔۔۔۔ یہ دھوکا ہے۔۔ خرم کے ساتھ ۔۔ اس لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔ "
وہ ظاہر نہیں کر رہے تھے۔۔ لیکن اندر سے تڑپ رہے
تھے۔۔۔
سید احسان علی شاہ۔۔۔ چند لمحوں تک خاموش رہے۔۔۔
پھر اٹھ کر ان کے سامنے آۓ۔۔۔۔ امیر حماد کے بالکل سامنے۔۔۔ بالکل پاس۔۔۔ ان کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
کاٹ دار نظروں سے انہیں دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔
"امیر حماد۔۔۔ کیا تم نہیں جانتے کہ سید احسان علی شاہ کے فیصلے اٹل ہوا کرتے ہیں۔۔۔ "
انہوں نے چبا چبا کے لفظ ادا کیے۔۔۔۔امیر حماد ایکدم خاموش سے ہو گیۓ۔۔۔
"مجھے تمہاری آنکھوں میں بغاوت کیوں نظر آ رہی ہے امیر حماد ۔۔۔ ؟"
ان کی غضب ناک آواز ابھری۔۔۔
امیر حماد نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔۔۔
"وہ لڑکی۔۔ خرم کی منگ ہے۔۔۔ خرم کی ہونے والی بیوی۔۔۔ خرم کی زندگی۔۔۔ "
وہ سرد لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔ انہوں نے کبھی اس لہجے میں امیر حماد سے بات نہ کی تھی۔۔۔
"بابا سائیں۔۔۔ "
"امیر حماد۔۔۔۔ " انہوں نے تیز لہجے میں امیر حماد کی بات کاٹی۔۔۔
"خرم کی زندگی جڑی ہے اس لڑکی سے۔۔ میرے وارث۔۔ میرے اکلوتے بیٹے کی زندگی ہے وہ۔۔۔
وہ زندہ ہے تو اس لڑکی کی وجہ سے۔۔۔ " وہ بولے
"اور نوشین۔۔۔ زندہ ہے۔۔۔ وہ زندہ ہے۔۔۔ " انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔۔۔
امیر حماد۔۔۔ یک ٹک انہیں دیکھے گۓ۔۔۔
"اور تمہیں بس فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا۔۔۔ فیصلہ کرنے کا حق نہیں
دیا گیا تھا۔۔۔ یاد کرو کئ سال پہلے کی اپنی وہ زندگی۔۔ اپنی وہ حیثیت۔۔۔ "
وہ بہت بے رحمی سے بول رہے تھے۔۔۔
امیر حماد نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔۔۔ اور شکستگی سے دو قدم پیچھے ہٹے۔۔ ان سے دور۔۔۔
کبھی زندگی میں ان کو ان کی حیثیت یاد نہیں کروائ گئ تھی۔۔۔ تو آج کیوں۔۔۔ ؟؟؟
"تمہارا فرض ہے۔۔ ہمارا ہر ایک حکم ماننا۔۔۔ " وہ بولتے جا رہے تھے۔۔ اور امیر حماد۔۔ بلندیوں سے پستیوں میں گرتے چلے جا رہے تھے۔۔۔
وہ تو ان کے بابا تھے۔۔۔ ان کے پیارے بابا سائیں۔۔۔ یہ انہوں نے کیا کہہ دیا تھا۔۔ ایک پل میں اجنبیت کی اتنی بڑی دیوار کیوں کھڑی کر دی تھی خود کے اور امیر حماد کے درمیان۔۔۔ ۔۔۔
کیوں۔۔۔ ؟
کیونکہ انہوں نے امیر حماد کی آنکھوں میں وہ احساس دیکھ لیا تھا جسے محبت کہتے ہیں۔۔۔ جو دنیا کا سب سے زیادہ باغی جذبہ تھا۔۔۔
اور سید احسان علی شاہ۔۔۔ اپنے سامنے سر اٹھانے والے ہر باغی کا سر کچلنا اچھے سے جانتے تھے۔۔۔
اور یہ تو پھر ان کے بیٹے کی خوشیوں اور زندگی کا سوال تھا۔۔۔
امیر حماد لمحوں میں زمین بوس ہوۓ۔۔۔ ان کے مان کا محل دھڑام سے گر کر ٹوٹ گیا۔۔
تو یہ سب واقعی ان کے اپنے نہیں تھے۔۔۔ ان کا کوئ اپنا نہ تھا۔۔۔۔ وہ اکیلے تھے اس دنیا میں۔۔۔
اور مقرقض تھے۔۔ سید احسان علی شاہ کے۔۔۔
وہ شل سے چند قدم اور پیچھے ہٹ گئے۔۔۔ کندھے اور نظریں جھکاۓ۔۔۔ ۔۔
ان کو ان کا مقام یاد دلا دیا گیا تھا آج۔۔۔
سید احسان علی شاہ آگے بڑھے اور امیر حماد کے دونوں کندھوں کو سختی سے پکڑا۔۔۔
" یہ جو باغی جذبہ سر اٹھا رہا ہے تمہارے اندر۔۔۔ یہ جو کچھ نیا جنم لے رہا ہے تم میں۔۔۔ اسے ختم کرو۔۔۔ آج اور ابھی۔۔۔ "
انہوں نے حکمیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
امیر حماد نے نظریں اٹھا کر بھی انہیں نہ دیکھا۔۔۔ وہ زمین کو دیکھتے رہے۔۔
لب بھنچے۔۔۔
سید احسان علی شاہ نے انہیں گلے لگایا۔۔ اور کندھا تھپتھپایا۔۔
"امید ہے تم سمجھ گئے ہو گے میرے بیٹے۔۔۔ میری طاقت۔۔ میری ہمت۔۔۔ "
انہوں نے کان کے قریب پر اسرار سے لہجے میں سرگوشی کی۔۔۔ اور پھر خود سے الگ کر دیا۔۔۔
تو یہ الفاظ سچ تھے یا یہ لہجے سچ تھے۔۔۔ امیر حماد نے سوچا۔۔۔
"سمجھ گیا بابا سائیں۔۔۔ "
سید احسان علی شاہ نے رخ موڑ لیا۔۔۔
گویا۔۔ اب وہ جا سکتا ہے یہاں سے۔۔۔
امیر حماد شکستہ قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔
آج وہ بہت بری طرح ٹوٹے تھے۔۔۔ آج ان کی عزت نفس۔۔ ان کی انا مجروح کی گئ تھی ۔۔۔
آج ان کا اعتبار اور مان ٹوٹ گۓ تھے۔۔۔ انہوں نے خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا۔۔ وہ رات کو بھی باہر نہ آۓ۔۔۔
مہر ان کا انتظار کرتی رہی۔۔۔ دو بار ان کے دروازے پر بھی دستک دی۔۔۔ پھر یہ سوچ کر اپنے کمرے میں آ گئ۔۔۔ کہ امیر حماد کی طبیعت خراب تھی۔۔ آرام کر رہے ہوں گے۔۔۔
ساری رات وہ ٹوٹتے رہے۔۔ بکھرتے رہے۔۔۔ خود کو جوڑتے۔ پھر سے توڑتے رہے۔۔ ۔
اور بس صرف ایک رات۔۔ ایک رات کافی تھی۔۔۔ تمام دکھوں کا ماتم کرنے کے لیے۔۔۔ اس سے زیادہ نہیں۔۔۔
اگلے دن وہ بہت صبح۔۔۔ حویلی سے نکل آۓ۔۔ وہاں سے دور۔۔ ۔۔۔سنسان سا علاقہ۔۔۔ خاموشی اور سکوت۔۔۔ بڑھتی ہوئ دھند۔۔۔
انہوں نے کچی سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔۔۔۔
اور خود سے ہی جنگ لڑنے لگے۔۔۔
"بس امیر حماد۔۔۔ بہت کمزور ہو لیا۔۔ اب مزید نہیں۔۔۔۔
وہی سنگدل, ظالم, بے حس اور سرد مہر امیر حماد بن جاؤ جس نے بابا سائیں کے کہنے پر بے شمار مظالم کیے۔۔۔ سازشیں رچیں۔۔ سیاسی شیطانی شطرنج کے کھیل کھیلے۔۔۔ وہ امیر حماد۔۔ جو کبھی نرم نہ پڑا تھا۔۔۔ اب کیوں ٹوٹ رہا ہے۔۔۔ ؟
صرف ایک لڑکی کی وجہ سے ؟؟
ایک لڑکی تمہاری کمزوری نہیں بن سکتی۔۔۔ تم مضبوط ہو۔۔۔ اور سخت دل۔۔۔ اور ظالم۔۔ "
وہ سرد۔۔ بے تاثر نظروں سے دور کہیں خلا میں دیکھ رہے تھے۔۔۔ جب ان کے پاس دھواں سا ابھرا۔۔۔۔ انہوں نے دیکھا۔۔ سامنے شلواد قمیض میں۔۔ کندھوں پر چادر اوڑھے,,
وہ ان کا ہمشکل۔۔۔ ان کی پرچھائ جیسا۔۔۔۔۔ایک امیر حماد کھڑا تھا۔۔۔۔
"تم نہیں بکھرو گے امیر حماد۔۔۔ کیونکہ تم سنگدل ہو۔۔۔ ظالم ہو۔۔۔۔ اور مضبوط بھی۔۔۔ لیکن کیا اس لڑکی کا سوچا تم نے۔۔۔ ؟ جو پہلے ہی اپنا سب کچھ گنوا چکی ہے۔۔۔ جس کا دل چڑیا کے دل سے بھی زیادہ نازک ہے۔۔۔ کیا وہ یہ سب سہہ پاۓ گی۔۔۔ ؟ "
وہ سراپا سوال بنا پوچھ رہا تھا۔۔۔
" میں نے اس لڑکی سے کبھی اظہار نہیں کیا۔۔۔ اس کو کبھی کوئ امید۔۔ کوئ وعدہ نہیں دیا۔۔۔ "
انہوں نے ایک بودا سا جواز پیش کیا ۔۔۔ سامنے کھڑا وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔
"کیا تمہیں لگتا ہے کہ محبت کو الفاظ کی, اظہار کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ؟ کیا تمہیں لگتا ہے وہ لڑکی تمہارے جذبات سے نا آشنا ہے۔۔۔۔ ؟"۔
"ایسا ہو سکتا ہے۔۔۔ " امیر حماد نے نظریں چرائ۔۔۔۔
"تق یاد کرو وہ رات۔۔۔ جس میں تم نے۔۔ اس لڑکی کی چوڑیاں توڑی تھیں۔۔۔۔ اس رات اس لڑکی کی آنکھوں میں ھو آنسو تھے۔۔
وہ کس وجہ سے تھے۔۔۔۔ " امیر حماد خاموش سے کھڑے رہے۔۔۔۔
"اور وہ برفیلی رات, جب وہ موت کی سی سردی میں ساری رات سسکتی تمہارا انتظار کرتی رہی۔۔ ۔۔۔۔ اس رات میں کیے گۓ وہ وعدے۔۔ ۔۔۔۔ "
" وہ وعدے۔۔۔ " امیر حماد نے اس کی بات کاٹی۔۔۔
"کچھ نہیں تھا ان وعدوں میں ۔۔۔ کچھ واضح نہیں تھا۔۔ عام سے الفاظ تھے۔۔۔ "
"نہیں۔۔ سب کچھ ہی تو تھا ان عام سے الفاظ میں۔۔۔ سب کچھ واضح تھا۔۔۔ ان الفاظ میں نہیں۔۔۔ اس لہجے میں۔۔۔ اس آواز میں۔۔۔ جب وہ ادا ہوۓ۔۔۔۔ ان آنکھوں کے جذبات میں سب واضح تھا۔۔ ""
"خاموش ہو جاؤ۔۔۔ " امیر حماد اونچی آواز میں بولے۔۔۔
"اس لڑکی کو مار دو گے تم۔۔۔۔ " وہ دھواں سا بن کر غائب ہو گیا۔۔۔
امیر حماد۔۔ گاڑی میں بیٹھے اور بے مقصد سے گھومتے رہے۔۔۔ چھپتے رہے۔۔ ۔ خود سے ہی۔۔۔ اپنے سوالات سے۔۔۔
اپنے اندر اٹھتے شور سے۔۔۔
بے پناہ شور۔۔۔
کان پھاڑ دینے والا شور ۔۔۔۔۔
________