اس رات اس اندھیرے, خاموشی اور نیند میں ڈوبی حویلی میں دو نفوس جاگتے رہے۔۔۔
ایک معصوم, نازک سی لڑکی, ۔۔۔۔ جس پر پہلی بار محبت نامی بلا کا ادراک ہوا تھا۔۔۔ اس نے وہ رات اپنے دروازے کی دہلیز میں ساکت بیٹھے گزار دی۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسرا وہ۔۔ رشتوں سے محروم, ایک بھیڑ میں ہوتے ہوۓ بھی تنہا شخص, جس نے پہلی بار کسی کو اپنے لیے روتے دیکھا تھا۔۔۔۔ اس نے وہ رات اپنے کمرے میں بیڈ سے ٹیک لگاۓ ہاتھوں میں ٹوٹی چوڑیوں کی چبھن محسوس کرتے, ۔۔۔ کرب میں گزاری تھی۔۔۔۔
پتہ نہیں کیوں۔۔۔ لیکن وہ دکھ دے رہے تھے۔۔۔۔ تکلیف دے رہے تھے۔۔۔۔ خود کو بھی ۔۔۔ اوراس پیاری لڑکی کو بھی۔۔۔
اور پھر کئ دن گزر گئے۔۔۔ امیر حماد اس کے سامنے نہیں گئے۔۔۔
وہ روز شام کو ان کا انتظار کرتی ۔۔ ان کے لیے چاۓ بناتی۔۔۔۔ ان کے لیے کھانا گرم کرتی۔۔۔۔
چاۓ ٹھنڈی ہو جاتی۔۔۔ اور کڑوی۔۔۔
کھانا کتنے گھنٹے پڑا رہتا۔۔۔ لیکن۔۔۔ وہ نہ آتے۔۔
بیرونی برآمدے کے زینوں پر ایک مجسمہ اکیلا رہ گیا تھا۔۔۔ ایک لڑکی کا چاندی کا مجسمہ۔۔۔ جو سر اٹھاۓ۔۔۔ ایک زینہ اوپر اس خالی جگہ کو دیکھتی رہتی جہاں سے شہزادہ کہیں غائب ہو گیا تھا۔۔۔
"وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔
بتانا کیوں بھول جاتے ہیں۔۔۔۔ ؟
میں ان کو دیکھ کے جیتی ہوں۔۔۔۔
وہ خود کو کیوں چھپاتے ہیں۔۔۔ ؟"
امیر حماد راتوں کو بھی نہ آتے۔۔۔ وہ تھک کر سو جاتی۔۔۔ وہ رات کے پچھلے پہروں میں چپکے سے آ جاتے۔۔۔ اور صبح میں اسے خبر ہوۓ بنا چلے جاتے۔۔۔
کہ وہ بچنا چاہ رہے تھے۔۔۔ ان آنکھوں سے۔۔۔ جن میں جگنو چمکتے تھے۔۔۔ ان آنکھوں سے۔۔ جن میں ان کے لیے۔۔ انتظار اور عادت کے علاوہ بھی کچھ تھا۔۔۔ کچھ بہت خاص۔۔۔۔
آنکھیں ۔۔۔۔
اس لڑکی کی ۔۔۔۔۔
جو ان سے محبت کرتی تھی ۔۔۔۔۔
_____
_____
اور پھر بہت دنوں بعد ۔۔۔ وہ شام کو گھر آ گئے۔۔۔
گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئ۔۔۔ وہ باہر نکلے۔۔۔ اور نظریں۔۔۔ غیر ارادی طور پر دائیں جانب, دور برآمدوں کی جانب اٹھیں۔ ۔۔
اور وہیں ساکت ہو گئیں۔۔ دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔۔۔ وہ اتنے دنوں بعد بھی۔۔۔ وہیں کھڑی تھی ۔۔۔ گم سم سی۔۔ سفید لمبا سا لباس, سفید دوپٹے اور بکھرے بالوں میں نظر آ تا مرجھایا سا چہرہ۔۔۔ وہ معصوم لڑکی۔۔۔۔۔ وہ کتنی پاگل۔۔۔ وہ کتنی پیاری۔۔۔
مہر نے ان کی جانب دیکھا اور خالی آنکھوں میں بے شمار روشنیاں سی بھر گئیں۔۔۔ وہ ایکدم بے ساختگی سے مسکرائ۔۔۔
اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر امیر حماد کی آنکھیں چندھیا سی گئیں۔۔۔۔
انہوں نے لب بھنچ لیے۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرا بھی نہ سکے۔۔۔۔
لیکن مہر۔۔۔ اسے پرواہ ہی کب تھی۔۔۔ اس نے تو جیسے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا۔۔۔ اور ان کو دیکھ کر ہی بے اختیار خوش ہوۓ جا رہی تھی۔۔۔ جیسے دونوں جہانوں کی خوشیاں اسے مل گئ ہوں۔۔۔۔
وہ چاۓ کا کپ بنا کر ان کے لیے لے گئ۔۔۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔۔۔ مہر نے کپ ان کی طرف بڑھایا۔۔۔ انہوں نے مہر کے چہرے کی معصوم سی مسکراہٹ کو ایک نظر دیکھا اور بنا کوئ بات کیے کپ پکڑ کر دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔۔
مہر نے کھانا گرم کر کے کچن ٹیبل پر لگایا اور باہر ستون کے پاس آ کھڑی ہوئ۔۔۔۔
لیکن آج۔۔۔
وہ کھانا کھا کر باہر نہیں آۓ۔۔۔۔وہ وہاں کھڑی رہی۔۔۔ اکیلی۔۔۔۔
سردی تھی۔۔ دھند تھی۔۔۔ اور سامنے خوفناک۔۔ بلند اور سیاہ کسی آسیب جیسے درخت تھے۔۔۔ آسمان سیاہ تھا۔۔۔ کوئ روشنی نہیں تھی۔۔۔ لیکن اسے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
اسے ان سب سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
اسے ڈر لگ رہا تھا تو بس اس چیز سے کہ اگر امیر حماد آج بھی نہ آۓ تو۔۔۔۔۔ وہ خود کو ٹوٹنے سے کیسے بچا پاۓ گی۔۔۔ ؟
اور وہ۔۔ نہیں آۓ۔۔۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔ سردی بڑھتی گئ۔۔۔ اندھیرا اور دھند بھی۔۔۔ اس کا خوف اور وحشت بھی۔۔۔ لیکن۔۔ وہ نہیں آۓ۔۔۔۔
====
رات کا جانے کون سا پہر تھا۔۔۔ کسی عجیب سے احساس سے امیر حماد کے آنکھ کھلی۔۔۔۔ وہ گرم۔۔۔ اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں۔۔۔ اپنے بستر میں تھے۔۔۔ لیکن یہ بے چینی کیوں۔۔۔
وہ چادر کندھوں پر اوڑھتے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آۓ۔۔۔ یخ ہوا ان کے وجود سے ٹکرائ۔۔۔۔
وہ ایک لمحے کو رکے۔۔۔۔
نیچے آۓ ۔۔۔ اور باہر نکلے۔۔۔ قدم بے اختیار باہر کے برآمدوں کی جانب اٹھے۔۔۔ اور اچانک۔۔۔۔
وہ مجسمہ بن گئے۔۔۔ ان کے قدم برف بن گئے۔۔۔
وہ سامنے تھی۔۔۔ نیچے اترتے زینوں میں سے ایک پر بیٹھی۔۔۔ سر جھکاۓ۔۔۔ بکھرے بالوں کے ساتھ۔۔۔
وہ خود بھی بکھر رہی تھی شاید۔۔۔۔ وہ خود کو تکلیف دے رہی تھی اس برفیلے موسم میں بیٹھی۔۔۔
امیر حماد تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔۔۔ لمحوں میں زینے اتر کر۔۔۔ اس کے سامنے۔۔ اس کے قدموں کی جانب پنجوں کے بل بیٹھے۔۔۔۔
"مہر۔۔۔۔ " بے چینی سے اسے پکارا۔۔۔ اس نے آہستگی سے سر اٹھایا۔۔۔۔
آنسوؤں سے تر چہرہ۔۔۔ سرخ آنکھیں۔۔۔ جن میں بے شمار شکایتیں تھیں۔۔۔ ٹوٹتی ہوئ امیدوں کا کرب تھا۔۔۔ امیر حماد کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔
وہ آنسو بھری آنکھوں سے خاموش سی نظروں سے ان کو دیکھے گئ۔۔۔۔۔
"مہر۔۔۔۔ !!" دل دکھ رہا تھا اس لڑکی کی اس حالت کو دیکھ کر۔۔۔ "مہر۔۔۔ ! یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔ ایسے۔۔۔ اس وقت۔۔۔ "
"میں تو روز بیٹھتی ہوں یہاں۔۔۔ روز۔۔ کئ گھنٹے۔۔۔ " وہ عجیب دکھ سے بولی۔۔۔
وہ خاموش ہو گیۓ۔۔۔ ان سے کچھ بولا نہ گیا۔۔۔۔ کئ لمحے خاموش سے گزر گیۓ ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر کے گرتے گئے۔۔۔
امیر حماد نے اس کے نیلے پڑتے ہونٹوں اور سردی سے کپکپاتے وجود کو دیکھا۔۔۔
"میں روز چائے بھی بناتی تھی۔۔۔ وہ ٹھنڈی ہو جاتی۔۔۔ کڑوی۔۔۔ میں پھر سے بناتی۔۔۔۔ "
اب وہ اپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔ لب کاٹتے ہوۓ بول رہی تھی۔۔۔
ارد گرد ٹھنڈی ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔۔۔۔
اس کے سیاہ بکھرے بال, چہرے کو چھوتے۔۔۔ چھپا لیتے۔۔۔ اور امیر حماد اس کا چہرہ دیکھنے کو بے چین ہو جاتے۔۔۔
"اور کھانا۔۔۔۔ " اس کی آواز رندھ سی گئ۔۔۔۔
"روز لگاتی ٹیبل پر۔۔۔ پھر ویسے ہی اٹھا لیتی۔۔۔۔ "
کانپتی ہوئ آواز۔۔۔ امیر حماد کا دل دکھ سے بھرتا چلا گیا۔۔۔۔۔
"عادتیں کب ختم ہو تی ہیں۔۔۔ " اس نے شکایت بھری نظروں سے ان کو دیکھا۔۔۔
"انتظار بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔ " وہ سسکتی رہی۔۔۔۔
"مہر۔۔۔۔ !" انہوں نے اسے پکارا۔۔۔ مہر نے سر اٹھا کر ان کے طرف دیکھا۔۔۔
"مہر۔۔۔ تمہارے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔۔۔ " وہ پہلی بار مہر کو دیکھ کر۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کر رہے تھے۔۔۔ مہر کے آنسو ایکدم تھم سے گئے۔۔۔۔
"نہیں رو مہر۔۔۔ تمہیں روتے دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ "
انہوں نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے مہر کے آنسوؤں سے تر چہرے کو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔۔۔
مہر کی سانس رک سی گئ۔۔۔ وہ دم سادھے ان کے ہاتھوں کو دیکھے گئ۔۔۔۔ انہوں نے مہر کو چھوا تھا ۔۔۔۔۔
اس شہزادے نے پہلی بار برف کا مجسمہ بنی اس لڑکی۔۔۔ نازک لڑکی کو چھوا تھا ۔۔۔۔ اور وہ زندہ ہو گئ تھی۔۔۔۔
آج وہ شہزادہ اس سے ایک زینہ اوپر نہیں۔۔۔۔ اس کے قدموں کے قریب بیٹھا تھا۔۔۔ اس کے سامنے۔۔۔ اسے دیکھتے ہوۓ۔۔۔ اس لڑکی کے اڑتے بالوں کبھی چھپتے کبھی نظر آتے چہرے کو دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔۔
"تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ انتظار بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔۔ " انہوں نے اس کے یخ ہوتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما۔۔۔ چلتی ہوئ ہوا ایکدم تھمی تھی۔۔۔ اور مہر کے دل کی دھڑکن بالکل مدھم ہو گئ۔۔۔۔ انہوں نے مہر سلیمان کے ہاتھ تھامے تھے۔۔۔۔
شہزادے نے ہاتھ تھامے تھے۔۔۔ اس کے۔۔۔ اس پیاری لڑکی کے۔۔۔
"اور آج کے بعد تمہیں کبھی میرا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔۔ مجھے تم پاس پاؤ گی۔۔۔ جب جب تم چاہو۔۔۔۔۔ "
"جب جب میں چاہوں۔۔۔۔ ؟"
مہر نے خواب کی سی کیفیت میں بے یقینی سے پوچھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔ جب جب تم چاہو۔۔۔۔۔۔ " وہ ہولے سے مسکراۓ تھے۔۔۔
انہوں نے اس کو ٹوٹنے سے پہلے۔۔ بکھرنے سے پہلے آ کر جوڑ دیا تھا۔۔۔۔ مکمل کر دیا تھا۔۔۔
"اب کبھی رونا نہیں مہر۔۔۔"
"کبھی نہیں روؤں گی۔۔۔۔ "
مہر نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔۔۔ جو ابھی بھی امیر حماد کے ہاتھوں میں۔۔۔ ان کی نرم اور محفوظ سی گرفت میں تھے۔۔۔۔
"خود کو کوئ تکلیف بھی نہیں آنے دینا۔۔۔۔ " وہ بولے۔۔۔ "تم آج سے صرف میری ہوئ۔۔۔ " انہوں نے یہ بس سوچا۔۔۔
"نہیں آنے دوں گی۔۔ " مہر بولی۔۔۔ " میں آپ کی ہوئ۔۔۔ " مہر نے بھی سوچوں میں ان کو مخاطب کیا۔۔۔۔
کوئ اظہار نہ ہوا تھا۔۔۔ کسی نے ایکدوسرے سے کچھ نہیں کہا تھا۔۔۔۔ اور دونوں ہی سمجھ گئے تھے۔۔۔ ایکدوسرے کے دل کی بات۔ بن کہے۔۔۔۔ کہ وہ اب ایکدوسرے کیلیۓ کیا ہیں۔۔۔ کیا بن چکے ہیں۔۔۔
اظہار کی۔۔۔ الفاظ کی ضرورت ہی نہ تھی۔۔۔
اندھیرا اور گہرا ہوتا گیا۔۔۔ سردی اور بڑھتی گئ۔۔۔
سرسراتی ہوا, بلند درخت اور بڑھتا وقت۔۔۔ سب تھم کر ان کو دیکھتے رہے۔۔۔۔
جگہ بھی وہی تھی۔۔۔ کردار بھی وہی تھے۔۔۔
لیکن کچھ تو بدلا تھا۔۔۔
ہاں کچھ تو بدلا تھا۔۔۔ ارد گرد ہوا میں۔۔۔۔ فضا, میں۔۔۔ کچھ نیا, کچھ منفرد, کچھ عجیب سا تھا۔۔۔۔۔ جو اس دنیا کا نہیں تھا۔۔۔۔
"کوئ عشق تھا کیا۔۔۔۔ ؟"
______
______
اور پھر انہوں نے اسے کبھی انتظار نہ کروایا۔۔۔ اب وہ دو کپ چاۓ بناتی تھی۔۔۔ جسے وہ سخت سردی اور دھند میں باتیں کرتے ہوۓ کبھی بیرونی برآمدے میں, کبھی باہر لان میں اور کبھی حویلی کی وسیع چھت پر پیتے ۔۔۔۔
وہ بہت سا وقت اس کے ساتھ ہوتے۔۔۔ وہ اسے گاؤں اور آس پاس کے مختلف علاقے دکھانے لے جاتے۔۔۔ وہ بہت خوش تھی ان کے ساتھ۔۔
۔
اور امیر حماد۔۔۔
ان کی زندگی میں ایک سکون سا بھرتا چلا گیا۔۔۔
اگر کوئ ان سے پوچھتا کہ مہر سلیمان سے ان کو کیا ملا۔۔ تو وہ کہتے۔۔۔ سکون۔۔۔۔
وہ چھوٹی لڑکی ان کی زندگی کا سکون بن گئ تھی۔۔۔
====
وہ دونوں امرود کے گھنے سے ,جھکی شاخوں اور پھل سے لدے ہوۓ پودوں سے بھرے باغ میں چلتے جا رہے تھے۔۔۔۔
وہ مہر سے دو قدم آگے تھے۔۔۔ اور وہ پیچھے پیچھے بڑی سی کالی چادر میں خود کو لپیٹے, ہاتھوں سے مختلف شاخوں کو چھوتی ہوئ چلتی جا رہی تھی۔۔۔۔
وہ اسے تفصیل سے بتا رہے تھے کہ کون کون سے باغات اور زمینیں بابا سائیں کی ملکیت تھیں۔۔۔۔ مہر سلیمان نے جھکی ہوئ شاخ سے ایک پتا توڑا۔۔۔ وہ اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ جب امیر حماد نے اس کی اس حرکت کو دیکھا۔۔۔ اور نظر اس کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئ اس کی خالی کلائیوں پر پڑی۔۔۔۔ وہ ٹھٹھک کر رکے۔۔۔
کئ دن پرانا منظر پوری جزئیات سمیت آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔ ؟" وہ حیرانگی سے انہیں دیکھتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔
"چوڑیاں۔۔۔ اچھی لگتی ہیں۔۔۔۔ ہاتھوں میں " وہ سنجیدہ سے اس کے خالی ہاتھوں کی جانب اشارہ کرکے بولے۔۔۔۔
"وہ تو ٹوٹ گئیں۔۔۔۔ " مہر بے ساختہ مسکرائ۔۔۔
وہ بنا کچھ کہے آگے بڑھ گئے۔۔۔۔مہر بھی ان کے ہمراہ چلنے لگی۔۔۔
ارد گرد چلتی ٹھنڈی ہوا۔۔۔۔ روشن دن۔۔۔ خوبصورت لہلہاتے پودے۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔
ایک ان کا منظر, ہر منظر پر حاوی تھا۔۔۔ مکمل سا۔۔۔ جادوئ سا۔۔۔۔
_____
_____
اس شام جب وہ سونے کے لیے لیٹی ۔۔۔۔ بند ہوتی آنکھوں ,کچی سی نیند اور غنودگی میں ڈوبے ذہن کے ساتھ اس نے دروازے کے باہر ایک نا معلوم سی آہٹ سنی۔۔۔
ذہن ایک جھٹکے سے بیدار ہوا۔۔۔
وہ کمبل پھینک کر بیڈ سے اتری, دروازہ کھولا۔۔۔
باہر کوئ نہیں تھا۔۔۔
لیکن۔۔۔
وہ یہاں آۓ تھے۔۔۔ ان کی خوشبو پھیلی تھی یہاں۔۔۔
مہر مسکرائ۔۔۔
دروازے تک آتے ہیں۔۔
بنا دستک دیے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔
اس کی نظر نیچے پڑی۔۔۔ سفید کاغذ میں لپٹی چند کالی کانچ کی چوڑیاں۔۔۔۔
مہر نے بے یقینی سے دیکھا اور وہیں نیچے بیٹھ گئ۔۔۔ گھٹنوں کے بل۔۔۔ اور خوشی سے بے قابو ہوتے ہوۓ وہ چوڑیاں اٹھائیں۔۔۔۔
آنکھیں بند کر کے۔۔ بے تحاشا مسکراتے ہوۓ۔۔ جیسے یقین کرنا چاہا۔۔۔ یہ حقیقت ہے۔۔ کوئ خواب نہیں۔۔۔۔
❤
اور جب وہ دروازہ بند کر کے اندر چلی گئ۔۔۔ تو باہر اندھیرے میں ڈوبی خاموش راہداری میں۔۔۔ مہر سلیمان کے بند دروازے کے قریب دھواں سا ابھرا۔۔۔۔ پھر اس دھویں میں وہ دونوں ابھرے۔۔۔ وہ کندھوں پر چادر اوڑھے ایک شہزادہ۔۔۔ اور سفید لباس میں ملبوس ایک لڑکی۔۔۔
دونوں نیچے بیٹھے تھے۔۔۔ ایک دوسرے کے آمنے سامنے۔۔
شہزادے نے اپنے ہاتھوں سے اس پریوں جیسی لڑکی کو چوڑیاں پہنائیں۔۔۔۔
دونوں کے چہروں پر بے انتہا خوبصورت مسکراہٹ تھی۔۔۔۔ شہزادہ ہاتھ تھامے اس لڑکی کی کلائیوں اور ان میں موجود چوڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ انگلیوں کی پوروں سے چھو رہا تھا۔۔۔۔ اور وہ لڑکی بنا پلک جھپکے شہزادے کے وجیہہ چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
کئ لمحے گزرے۔۔۔۔ ہوا کا جھونکا سا آیا اور وہ دونوں۔۔۔ دھواں سا بن کر ہوا میں کہیں گم ہو گیۓ۔۔۔۔
اور کون کہتا ہے۔۔۔۔۔
جو ہم چاہتے ہیں۔۔۔۔
وہ رونما نہیں ہو پاتا۔۔۔۔
ہاں, وہ سب ہوتا ہے۔۔۔۔
تخیل میں, خوابوں میں, خیالوں میں۔۔۔۔۔۔۔
_______
_______
ایسے جیسے وہ کسی خوبصورت سے خواب میں زندگی جی رہی تھی ۔۔ محبت اس کے ارد گرد منڈلاتی تھی۔۔۔ جھومتی تھی۔۔ گنگناتی تھی۔۔۔
مہر سلیمان اکثر کہیں گم سی۔۔ مسکراتی رہتی۔۔۔
==
اس دن وہ شام کو اسی ستون سے ٹیک لگاۓ کھڑی تھی۔۔۔ مسرور سی اپنی چوڑیوں سے کھیل رہی تھی۔۔۔۔
وہ چوڑیاں۔۔۔
اگلے دن امیر حماد نے اس کے ہاتھوں میں دیکھی تھیں۔۔۔ خاموش نظروں سے۔۔۔۔۔
لیکن ان کے بارے میں کوئ سوال نہ پوچھا تھا۔۔۔ کوئ بات نہ کی تھی۔۔۔
گیٹ کھلنےاور گاڑی رکنے کی آواز آئ۔۔۔ مہر نے چونک کر ادھر دیکھا۔۔۔
امیر حماد گاڑی سے اترے۔۔۔۔
اور آج پہلی بار انہوں نے مہر کو نہیں دیکھا۔۔۔۔
لمبے لمبے ڈگ بھرتے اندر چلے گیۓ۔۔۔۔ ان کا چہرہ زلزلوں کی ضد میں تھا۔۔۔ بے تحاشا ضبط نظر آ رہا تھا ان کے چہرے پر۔۔۔۔
مہر پریشان ہو گئ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آتے نظر آۓ۔۔۔وہ اسی تیزی سے گاڑی کی جانب بڑھے۔۔۔
مہر جلدی سے ان کی جانب بڑھی۔۔۔۔
"امیر حماد۔۔۔۔!! " اس نے پیچھے ان کو پکارا۔۔۔ انکے قدم زنجیر ہوۓ۔۔۔
وہ ان کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔۔۔۔
ان کا چہرہ۔۔۔۔ ایسے جیسے کچھ برا ہونے والا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا ہے۔۔۔۔ ؟" مہر کی سانس رکنے لگی۔۔۔
انہوں نے مہر کی خوف سے بھری آنکھوں کو دیکھا۔۔۔۔
"یہ میری ہے۔۔۔ اللہ۔۔ یہ تو میری۔۔۔ " انہوں نے کرب سے سوچا ۔۔۔۔
"کچھ نہیں ہوا مہر۔۔۔۔ " انہوں نے خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔۔۔ "پریشان نہیں ہو تم۔۔۔ "
"آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔ ؟" مہر کو لگا جیسے ابھی کچھ برا سنے گی اور اس کا دل رک جاۓ گا۔۔۔ اس کی آنکھیں لمحوں میں آنسوؤں سے بھری تھیں۔۔۔۔
"سب ٹھیک ہے مہر۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔۔ " وہ نرمی سے بولے۔۔۔
"سب ٹھیک رہے گا۔۔۔ تم بس رونا مت۔۔۔۔ " وہ بولے۔۔۔۔۔ مہر نے سر ہلایا۔۔۔۔
"میں جاؤں۔۔۔۔ ؟ جلدی آ جاؤں گا۔۔۔ اندھیرا گہرا ہونے سے پہلے۔۔۔۔۔۔ "
وہ اسے تسلی دے رہے تھے۔۔۔ جبکہ ان کا دل اندر سے بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔۔
"میں انتظار کروں گی۔۔۔۔ "
وہ گاڑی میں بیٹھ گیۓ۔۔۔ اور وہ بے جان ہوتی ٹانگوں سے کھڑی ان کو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔
____
____
انہیں کچھ دیر پہلے گھر آتے ہوۓ راستے میں بابا سائیں کی کال آئ تھی۔۔۔۔
وہ اسے باہر فارم ہاؤس پر آنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔
"خیریت بابا سائیں۔۔۔۔ ؟" امیر حماد نے تشویش سے پوچھا۔۔۔ کیونکہ شام کو ان کے فارغ ہونے کے بعد۔۔ بابا سائیں انہیں کبھی کوئ کام نہ سونپتے۔۔۔ کبھی طلب نہ کرتے۔۔۔۔
"ہاں۔۔۔ خیریت ہے۔۔۔ خرم بیٹے کی شادی کے حوالے سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ کچھ اہم امور پر بات چیت کرنی ہے۔۔۔۔ "
"خرم کی شادی۔۔۔ ؟" وہ حیران ہوۓ تھے۔۔۔
"ہاں۔۔۔ خرم اور نوشین بیٹے کی شادی۔۔۔ "
وہ محبت سے بولے۔۔۔
اور امیر حماد۔۔۔
ان کو یہ سمجھنے میں چند لمحے لگ گئے۔۔۔ کہ جس نوشین کی وہ بات کر رہے تھے۔۔۔ وہ ان کی مہر سلیمان تھی۔۔۔
ساتوں آسمان دھڑام سے ان کے سر پر گرے تھے۔۔۔۔ ہاتھ بے جان سے ہو گیے۔۔۔۔ اور فون ہاتھ سے گر گیا۔۔۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ ؟"
وہ بے یقین تھے۔۔۔
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اب تک وہ ایک خواب میں تھے۔۔۔ اب آنکھ کھلنے پر حقیقت اپنے بھیانک ترین چہرے سمیت ان کے سامنے موجود تھی۔۔۔
اور حویلی پہنچ کر مہر کے خوف سے کانپتے وجود اور ڈر سے بھری آنکھوں کو دیکھ کر وہ شل سے ہو گیۓ۔۔۔۔
یہ کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔
اس لڑکی کی آنکھوں میں اتنے خواب بھر دیے تھے انہوں نے کہ اگر وہ ٹوٹ جاتے تو ان کی کرچیاں چنتے چنتے صدیاں گزار دیتی وہ لڑکی۔۔۔۔
یہ کیا ہو گیا تھا۔۔۔ یہ کیا ہونے جا رہا تھا۔۔۔۔
گاڑی فارم ہاؤس کی جانب بھاگتی چلی جا رہی تھی۔۔۔ منظر دھندلے سے ہو گیۓ تھے۔۔۔
تمام آوازیں خاموش۔۔۔۔
صرف ایک۔۔ دل کی مدھم سی۔۔ دھک دھک۔۔۔ دھک دھک سنائ دے رہی تھی۔۔۔۔۔
"وہ لڑکی میری ہے۔۔۔ صرف میری۔۔۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ وہ نوشین نہیں ہے۔۔۔۔ وہ خرم احسان کی نوشین نہیں ہے۔۔۔۔ وہ مہر سلیمان ہے۔۔۔ میری مہر سلیمان ,۔۔۔
امیر حماد کی مہر سلیمان۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ بے چینی سے۔۔۔ کرب سے۔۔۔ بڑبڑا رہے تھے۔۔۔
اور محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت قہقہے لگا رہی تھی۔۔۔۔ گھوم رہی تھی۔۔۔ جھوم رہی تھی۔۔۔ اپنی سفاکی پر۔۔۔۔ اپنے بچھاۓ گیے۔۔ ظالم کھیل پر۔۔۔۔
اس لڑکی پر جو سید احسان علی شاہ کی حویلی کے بیرونی برآمدوں میں سہمی سی کھڑی تھی۔۔۔۔
اس شخص پر جو اپنی مہر سلیمان کو کھو دینے کے خوف سے, بے چینی سے۔۔ کرب سے تڑپ رہا تھا۔۔۔۔۔
___________