وہ غصے سے کھولتا کمرے سے باہر نکلا اور باہر بیٹھی عنایہ کی طرف بڑھا ۔لیکن عنایہ وہاں موجود نہیں تھی۔ملازم نے بتایا کہ بیگم سراج اسے اندر لے گئی ہیں ۔اس وقت وہ مما سے سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اسلیے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
مٹھیاں بھینچے وہ ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔وہ ہمیشہ سوچتا تھا کہ زری کے بعد اس کے دل میں کسی بھی عورت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی لیکن ماہم نے شروع سے ہی اسے اپنی گفتگو سے چونکا دیا تھا۔وہ عنایہ کے حوالے سے اس پر اعتبار نہیں کر رہا تھا لیکن ماہم نے اس کا اعتبار جیتا تھا۔پھر جب شادی ہوئی تو وہ چاہ کر بھی اس سے روڈ نہیں ہوسکا کیونکہ وہ اسکی بیٹی کے ساتھ مخلص تھی۔
شادی کے بعد ماہم کی معصومیت نے اسے اپنی طرف مائل کیا تھا۔وہ جو سوچتا تھا کہ دل کی زمین ہمیشہ بنجر رہی گی ماہم کی آمد نے اسے پھر سے سرسبز بنا دیا تھا۔
اسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب اسے ماہم سے محبت ہوئی ۔اب جب کہ وہ ماہم کو اپنے جذبات بتانے والا تھا ماہم کی اصلیت اس پہ کھل گئی۔اسے بہت دکھ ہوا تھا اس کی زندگی میں آنے والی دونوں عورتوں نے اسے سکھ نہیں دیا تھا۔
اس نے سوچا کہ ماہم سے دوٹوک بات کرنی چاہیے۔
اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا ۔اس نے خوفزدہ نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا۔اسے لگا کہ ابھی ارسلان واپس آئیں گے اور اسے ماریں گے۔
وہ تو عنایہ سے بہت محبت کرتی تھی پھر عنایہ نے جھوٹ کیوں بولا اور ارسلان نے اس پر اعتبار کیوں نہیں کیا۔ایسا کیوں ہوتا تھا وہ جس کے ساتھ مخلص ہوتی وہ یا تو اسے چھوڑ دیتا یا پھر دھتکار دیتا۔
روتے روتے اس نے اوپر دیکھا تو دروازے کے پاس حیران و پریشان عنایہ کھڑی تھی۔
" آپ رو کیوں رہیں ہیں؟" عنایہ اس کے پاس آتے ہوئے حیرت سے بولی۔
" عنایہ میں نے آج تک آپ کو ڈانٹا بھی نہیں پھر آپ نے جھوٹ کیوں بولا." وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
" آپ رو کیوں رہیں ہیں؟"عنایہ نے اس کے پاس آتے ہوئے اپنا سوال دہرایا ۔
" تمہارے ڈیڈ نے مجھے ڈانٹا ہے۔عنایہ میں تو آپ سے بہت پیار کرتی ہوں لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ مجھ سے نفرت کرتی ہیں ۔"وہ افسردہ لہجے میں بولی۔
" سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ پاپا آپ کو ڈانٹیں گے۔مجھے یہ سب کرنے کو دادو نے کہا تھا۔" عنایہ شرمندگی سے نظریں جھکا کر بولی۔
" کیا ۔"حیرت سے اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں ۔
" انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں پاپا سے یہ کہوں کہ مجھے ماہم نے مارا ہے تو وہ مجھے نیا ٹیب لے کر دیں گی۔ڈیڈ مجھے لے کر نہیں دے رہے تھے تو اس لیے میں نے جھوٹ بول دیا لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ ڈیڈ آپ کو ڈانٹیں گے۔آئی ایم سوری۔" عنایہ رونی صورت بنا کر بولی۔اسے بہت دکھ ہوا تھا۔
" کوئی بات نہیں۔ "وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی۔
" میں ابھی پاپا کو ساری بات بتاتی ہوں ۔پھر وہ آپ سے سوری کریں گے۔"عنایہ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
" نہیں انہیں نہیں بتانا۔بس اس بات کو بھول جاؤ۔ "وہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔وہ دوبارہ بیگم سراج سے مار نہیں کھانا چاہتی تھی۔
دروازے کے پاس کھڑا ارسلان شرمندگی سے پلٹ گیا۔
بیگم سراج خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھی۔انہیں ملازمہ نے بتایا تھا کہ ارسلان بہت غصے میں اپنے کمرے سے نکلا تھا اور ماہم زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی۔
بس کچھ دیر کی بات تھی پھر ارسلان ماہم کو پکڑ کر گھر سے باہر نکالتا۔
زری کے فون کے بعد انہیں احساس ہوا کہ انہیں ارسلان کی شادی کرنی ہی نہیں چاہیے تھے۔احسن اب بات بات پہ زری کو ارسلان کے طعنے دیتا تھا۔ مہینے سے زیادہ یہ شادی چلنے والی نہیں تھی اور اگر وہ یہ سب نہ کرتیں تو مہینے بعد ارسلان زری کا نام بھی بھول چکا ہوتا۔
وہ اپنی اس حرکت پہ خود کو شاباش دے رہیں تھیں کہ ارسلان کمرے میں داخل ہوا۔وہ ایک دم سے سنجیدہ ہوئیں یقیناً وہ ماہم کو گھر سے نکالنے کی بات کرنے والا تھا۔
" میں نے آپ کو ہمیشہ سگی ماں کا درجہ دیا لیکن میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ وقت آنے پہ خود کو میری سوتیلی ماں ثابت کردیں گی۔" وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
" کیا ہوا ہے۔" وہ بوکھلائیں۔
" آپ نے عنایہ سے کیوں کہا کہ وہ مجھ سے جھوٹ بولے کہ ماہم نے اسے مارا ہے۔"اس نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔
" میں نے عنایہ سے کچھ نہیں کہا۔تمہیں یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"وہ اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاتے ہوئے سنجیدگی سے بولیں ۔
" آپ نے عنایہ کو ٹیب کا لالچ دے کر جھوٹ بلوایا ہے اور مجھے حیرت ہے آپ اس سب سے مکر رہی ہیں ۔"اسے بیگم سراج کے جھوٹ بولنے پہ افسوس ہوا۔
" میں نے اسے ٹیب ضرور لے کر دیا ہے لیکن اس سے ایسا کچھ نہیں کہا۔یہ یقیناً تمہیں اس لڑکی نے کہا ہوگا وہ تو چاہتی ہی یہی ہے کہ ہم ماں بیٹا ایک دوسرے سے بدگمان ہوجائیں۔" انہوں نے کہا۔
" مما یہ سب عنایہ نے ماہم کو بتایا ہے اور میں نے اتفاق سے سن لیا۔آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں یا تو آپ ایک روایتی ساس بن رہیں ہیں یا پھر یہ سب زری کا مشورہ ہے۔"وہ افسوس سے سر ہلا کر بولا۔
" تم مجھے اپنی ماں کو جھوٹا کہہ رہے ہو۔ میں نے تم میں اور زری میں کبھی فرق نہیں کیا اور تم اس پاگل لڑکی کے لیے ماں سے سوال و جواب کر رہے ہو۔ "وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
" وہ پاگل نہیں ہے۔وہ ارسلان سراج کی بیوی ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دوں گا کہ وہ میرے اور میری بیوی کے درمیان آئے ۔جو آپ نے آج کیا ہے امید ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔"وہ سنجیدہ لہجے میں بولتا وہاں سے چلا گیا۔
بیگم سراج ششدر رہ گئیں ۔
عنایہ کے جانے کے بعد اس نے بازو سے کپڑا ہٹایا۔سفید بازوں پہ انگلیوں کا نشان تھا۔بازو نیچے کرتے ہوئے اس نے اوپر دیکھا تو پاس کھڑے ارسلان کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔وہ ڈرتے ہوئے پیچھے ہوئی تو ایک دم سے پاؤں کارپٹ سے پیر رپٹا۔اس سے پہلے وہ گرتی ارسلان اسے تھام چکا تھا۔
خوف سے اس نے آنکھیں بند کرلیں اسے لگا ابھی اسے ایک تھپڑ پڑے گا۔
ارسلان اس کی یہ حالت دیکھ کر سخت شرمندہ ہوا ۔
" آئی ایم سوری۔" وہ اسے چھوڑتے ہوئے بولا۔
ماہم نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور حیرت سے اسے دیکھا۔
" میں نے سچ میں عنایہ کو کچھ نہیں کہا ۔میں تو اس سے بہت محبت کرتی ہوں ۔میں اسے ڈانٹے کا سوچ بھی نہیں سکتی تو مارنا تو دور کی بات ہے۔" وہ بولتے بولتے رو پڑی۔
" جانتا ہوں ۔اس لیے تو معافی مانگ رہا ہوں پلیز مجھے معاف کردو ۔میں نے غلط فہمی کی بنا پر تمہارے ساتھ اتنا برا برتاؤ کیا۔"وہ شرمندگی سے نیچے دیکھتے ہوئے بولا۔
" آپ سچ کہہ رہے ہیں ۔"وہ حیران ہوئی۔ارسلان کو حقیقت کیسے پتا چلی۔
" پلیز مجھے معاف کردو۔" وہ اس کے حیران ہونے پہ مزید شرمندہ ہوا۔
" کوئی بات نہیں ۔"وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔اسے ارسلان کی بات پہ یقین آگیا تھا۔
" تم نے سچ میں مجھے معاف کردیا۔" وہ سر اوپر اٹھاتے ہوئے حیرت سے بولا۔
" جی۔کوئی بات نہیں کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے۔مجھ سے تو آج سے پہلے کبھی کسی نے معافی نہیں مانگی۔" وہ سادگی سے مسکرا کر بولی ۔
" تم کتنی اچھی ہو نا۔میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔"اس نے اس کا ہاتھ تھام کر یقین دلایا۔
وہ جواباً مسکرائی۔
" تمہارے بازو درد کر رہے ہوں گے۔"وہ دوبارہ سے شرمندہ ہوا۔
" نہیں ٹھیک ہیں ۔"وہ ہلکا سا مسکرائی۔درد تو ہورہا تھا پر وہ اس سے زیادہ درد برداشت کرنے کی عادی تھی۔
" تم بیٹھو میں تمہارے لیے پینا ڈول اور دودھ لے کر آتا ہوں ۔" وہ اسے بیڈ پہ بیٹھاتے ہوئے بولا اور باہر نکل گیا۔
ماہم کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی تھی۔ارسلان کو اس کی کتنی پروا تھی ۔اسے یاد آیا کہ بیگم سراج نے اسے ارسلان سے دور رہنے کا کہا تھا ۔یہ سوچ کر اس کی مسکراہٹ تھم گئی۔
ارسلان گولی لے آیا تو وہ گولی اور دودھ لے کر ارسلان کی ہدایت پر سوگئی۔
بیگم سراج کا غصے کے مارے برا حال تھا اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے ارسلان نے ان سے بحث کی تھی۔اگر یہ ہی حالات رہے تو ارسلان زری کو تو بھولے گا ہی ساتھ ان سے بھی بدگمان رہے گا۔
ان کا دل کر رہا تھا کہ ماہم کو غائب کردیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ زری جلدی سے واپس آجائے ۔ارسلان ایک دفعہ زری کو دیکھ لیتا تو سب کچھ بھول جاتا۔
اس کی آنکھ کھلی تو صبح کے بجنے والے تھے۔کل کا سارا دن ٹینشن والا ہی تھا اس لیے شاید وہ اتنی دیر سوتی رہے۔اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کے ساتھ عنایہ اور ارسلان بھی موجود تھے۔وہ شرمندگی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔عنایہ کے اوپر چادر درست کر کے اس نے ایک نظر سوئے ہوئے ارسلان پہ ڈالی۔اسے سخت بھوک لگی تھی۔دبے پاؤں وہ کمرے سے باہر نکلی۔فجر ہونے والی تھی اس نے سوچا پہلے کچھ کھا لے۔
کچن میں آ کر اس نے فریج سے سیب نکالے ۔اس سے پہلے وہ کھاتی ارسلان کچن میں داخل ہوا۔
" تم سو رہی تو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔مجھے تمہیں کھانا کھانے کے لیے اٹھانا چاہیے تھا۔" وہ اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
" کوئی بات نہیں ۔مجھے ابھی ہی بھوک لگی ہے ۔اور سوری میں رات کو بیڈ پہ ہی سوگئی۔" وہ شرمندگی سے بولی۔
" تمہاری جگہ وہ ہی ہے تم شرمندہ نہ ہو۔"وہ ٹیبل پہ دھرے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
" وہ تو آپ کا بیڈ ہے ۔میری تو نیچے جگہ ہے۔" وہ جواباً بولی۔
" تم میری بیوی ہو اور میری ہر چیز پہ تمہارا حق ہے۔"وہ مسکرا کر بولا۔
" سچ میں ۔" وہ خوش ہوئی۔
" بالکل۔تم ناشتہ بنوا لیتی۔سیب سے تمہارا پیٹ بھر جائے گا۔" اس نے پوچھا ۔
"ناشتہ آپ لوگوں کے ساتھ ہی کروں گی۔ابھی تھوڑی سے بھوک لگی تھی تو سوچا سیب کھا لوں پھر نماز پڑھنی ہے۔"وہ پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
ارسلان نے سیب کی ایک قاش اٹھائی۔
وہ خاموشی سے کھانے لگی۔اسے ڈر تھا کہ اگر بیگم سراج نے اسے ارسلان سے بات کرتے دیکھ لیا تو وہ پھر سے اسے ماریں گی۔
" تم کیا ابھی تک ناراض ہو۔"وہ اسے چپ دیکھ کر بولا۔
" نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ۔" وہ زبردستی مسکرائی تھی۔
" تو پھر خاموش کیوں ہو۔" اس نے وجہ پوچھی۔
" خاموش تو نہیں ہوں۔" وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
" کیا پھر سے مما نے کچھ کہا ہے۔" وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
" نن نہیں تو۔" وہ فوراً سے بولی۔
ارسلان نے اس کی گھبراہٹ سے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بات ہے تاہم وہ خاموش رہا ۔اسے دوبارہ سے مما سے بات کرنی تھی۔
" تم اپنے میکے تو نہیں جاتی لیکن کبھی اپنے والدین کی قبر پہ بھی نہیں گئی۔کیا ان سے ناراض ہو۔" وہ گفتگو کرنے کے غرض سے بولا۔
" ان سے کیوں ناراض ہونا ہے امی تو میری پیدائش پہ چل بسیں اور ابا جب تک زندہ رہے مجھے لاڈ پیار سے رکھا۔یہاں آ کر میں کیسے قبرستان جاتی ۔عنایہ کا خیال جو رکھنا تھا ۔ اور ویسے بھی ابا کے انتقال کے بعد میں ایک بار ہی قبرستان گئی ہوں۔ " ماں باپ کو یاد کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
" کیوں؟ "اس نے حیرت سے پوچھا ۔
" اماں نہیں لے کر جاتی تھیں ۔جب ابا کو دفنایا گیا تھا تب بھی خالہ شکورن مجھے لے کر گئ تھیں ۔"
" میں اور تم کل قبرستان چلیں گے۔"اس نے کہا۔
" سچ میں ۔"وہ ہمیشہ کی طرح بےیقین ہوئی۔
" تم مجھ پر بالکل بھی اعتبار نہیں کرتی۔"وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔
" ایسی تو کوئی بات نہیں ۔"وہ جھٹ سے بولی۔
" اچھا تو پھر آئندہ ایسے نہ کہنا۔"وہ جواباً بولا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔فجر کی اذان ہوئی تو وہ مسجد چلا گیا۔وہ بھی نماز پڑھنے کمرے میں آگئی۔
" اماں میں بتا رہی ہوں مجھے اس سے شادی نہیں کرنی ۔اگر تمہیں یہ رشتہ اتنا ہی پسند آیا ہے تو آئمہ کی کرا دو"۔ناعمہ حتمی لہجے میں بولی۔اس کے لیے رشتہ آیا تھا پر اسے تو ارسلان چاہیے تھا۔
" نہ تیری لیے شہزادہ آئے گا۔" وہ اسے گھورتے ہوئے بولیں ۔
" آ بھی سکتا ہے۔"ناعمہ ارسلان کو سوچ کر مسکرائی۔
" کیا مطلب۔"وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
" افف ہو میں ارسلان کی بات کر رہی ہوں ۔مجھے اس سے شادی کرنی ہے۔" وہ جھلا کر بولیں ۔
" دماغ ٹھیک ہے نا تیرا ۔"انہوں نے اسے ایک دھموکا جڑا۔
" بالکل ٹھیک ہے۔بس اب دیکھتی جائیں کیسے میں ماہم کو راستے سے ہٹاتی ہو ۔اور ارسلان کو اپنا بناتی ہوں ۔" اس نے کہا۔
" پہلی بات تو ہے کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ بیگم سراج جیسی شاطر عورت کبھی تمہیں ارسلان سے شادی نہیں کرنے دے گی۔" انہوں نے یقین سے کہا۔
" میری بات سنیں اگر میری شادی ارسلان سے ہوتی ہے تو آپ لوگ پیسوں میں کھیلیں گے اور جہاں تک بات بیگم سراج کی ہے تو اگر ارسلان مان جاتا ہے تو بیگم سراج کیا کرسکتی ہیں ۔"وہ اطمینان سے بولی۔
ناعمہ کی بات رفعت بیگم کے دل کو لگی تھی۔ان کی بیٹی بڑی ہی ذہین تھی۔
بیگم سراج دوبارہ سے موقع دیکھ کر ماہم کے کمرے میں موجود تھیں۔ارسلان عنایہ کے ساتھ باہر گیا تھا ۔ماہم کو اس کی اوقات یاد دلانے کا بہت اچھا موقع تھا۔
ماہم بیگم سراج کو دوبارہ سے سامنے دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔وہ تو ارسلان سے بات بھی نہیں کر رہی تھی پھر بیگم سراج کیوں آگئی۔
" میں نے تم سے کیا کہا تھا اپنی اوقات میں رہنا لیکن تم میری بات بھول گئی۔" انہوں نے آتے ساتھ ہی اسے تھپڑ مارا تھا۔
" میں تو ان سے بات بھی نہیں کر رہی پھر آپ ایسے کیوں کہہ رہیں ہیں ۔" وہ گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ بولی۔تھپڑ بہت زور کا لگا تھا۔
" اپنی اس معصومیت کا جادو کسی اور پر چلانا ۔تم نے ارسلان سے کہا کہ میں نے عنایہ کو جھوٹ بولنے کا کہا تھا۔" وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
" میں نے ان سے نہیں کہا ۔میں تو خود حیران تھی کہ ان کو کس نے بتایا۔" وہ روتے ہوئے بولی۔
" زیادہ ڈرامے لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔تم یہاں پہ عنایہ کے لیے ہو تو عنایہ پر ہی دھیان دو ۔کسی اور پر دھیان دینے کی کوشش بھی کی تو تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔" وہ انگلی اٹھا کر اسے دھمکاتے ہوئے بولیں ۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا۔
بیگم سراج جیسے ہی مڑی دروازے کے پاس ششدر کھڑے ارسلان کو دیکھ کر اپنی جگہ پہ جم گئیں ۔
ماہم بھی پریشان ہوگئی اب پتا نہیں کیا ہونے والا تھا۔
" آج آپ مجھے بتا دیں کہ آپ کیا چاہتی ہیں ۔" وہ ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
" ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تمہیں نظر آرہا ہے۔" وہ ہموار لہجے میں بولیں ۔
" میں نے سب کچھ سنا ہے مما ۔آپ اس معصوم کے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں ۔" اس نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا اور ایک نظر ماہم پر ڈالی جس کے چہرے پہ تھپڑ کا نشان تھا۔اسے دکھ ہوا۔
" یہ معصومیت کا ڈھونگ رچاتی ہے ۔ابھی تمہیں اندازہ نہیں ہے لیکن کل کو جب یہ تمہیں عنایہ سے دور کر دے گی تب تمہیں پتا چلے گا۔"وہ ماہم کو دیکھتے ہوئے تیز لہجے میں بولیں ۔
ماہم نے سوچا اسے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔اس سے پہلے وہ باہر نکلتی ارسلان اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک چکا تھا۔اس نے حیرت سے ارسلان کی طرف دیکھا۔
" مجھے عنایہ کے حوالے سے اس پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ ہے۔آپ مجھے اپنے رویے کی وجہ بتائیں ۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" تم مجھے اپنی ماں کو غلط کہہ رہے ہو۔میں نے تمہیں سگی ماں سے بڑھ کر پیار دیا اور تم اس پاگل لڑکی کے لیے مجھ پہ شک کر رہے ہو۔" انہوں نے اس بار آنسوؤں کا سہارا لیا۔
ماہم سر جھکائے کھڑی تھی ۔اس سب میں وہ خود کو ہی قصور وار سمجھ رہی تھی۔
" میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ اس کو کچھ نہیں کہیں گی ۔پھر اس کو مارنے اور دھمکانے کی کیا وجہ ہے ۔مجھے اس بات کا جواب چاہیے۔"اس نے دوبارہ سے پوچھا۔
" مجھے لگا کہ یہ تمہارے قریب ہو کر تمہیں عنایہ سے دور نہ کردے۔اس لیے میں نے سوچا کہ اس کو سمجھاؤں ۔" انہوں نے فوراً سے بہانہ گڑا۔وہ تو بری پھنسی تھیں ۔
" اور سمجھانے کے لیے تھپڑ مارنے کی کیا تُک بنتی ہے۔اگر تھپڑ مار کر کسی کو سمجھانا تھا تو یہ تھپڑ آپ کو زری کے منہ پہ مارنا چاہیے تھا۔آپ نے بہت غلط کیا ہے۔آپ اس سے سوری بولیں ۔"وہ قطعیت سے بولا۔
بیگم سراج کی آنکھیں حیرت سے پھٹی۔
" کوئی بات نہیں رہنے دیں ۔"ماہم گھبرا کر بولی۔
ارسلان اسے نظرانداز کرتا بیگم سراج کو دیکھ رہا تھا۔
بیگم سراج کچھ بھی کہے بغیر تیز تیز قدم بڑھاتیں وہاں سے چلی گئیں ۔ابھی ان کے اتنے برے دن نہیں آئے تھے وہ اس پاگل لڑکی سے معافی مانگیں۔
" درد ہورہا ہے۔" وہ اس کے سرخ ہوتے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
نم آنکھوں کے ساتھ اس نے نفی میں گردن ہلائی۔
" مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مما یہ سب کیوں کر رہی ہیں ۔زری اپنے گھر میں خوش ہے پھر وہ مجھے خوش کیوں نہیں رہنے دے رہیں ۔" وہ فکرمندی سے بولا۔
" آپ کو انہیں مجھ سے معافی مانگنے کا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ان کو کتنا برا لگ رہا ہوگا۔" اسے افسوس ہوا۔
"انہوں نے تمہارے ساتھ کتنی زیادتی کی اور پھر بھی تم یہ کہہ رہی ہو۔"وہ اس کی اعلیٰ ظرفی پہ حیران ہوا۔
" کوئی بات نہیں وہ بڑی ہیں ۔" وہ مسکرا کر بولی۔
" لیکن میں تمہارے جتنا اعلیٰ ظرف نہیں ہوں۔ انہیں اگر معافی نہیں تو کم از کم اپنے رویے پہ شرمندہ تو ہونا چاہیے ۔"وہ افسوس سے سر ہلا کر بولا۔
" اس بات کو رہنے دیں ۔اب آپ ان سے کچھ مت کہیے گا۔" وہ جواباً بولی۔
" اور تم پہ تو مجھے سب سے زیادہ غصہ ہے۔" وہ کچھ یاد آنے پہ بولا۔
" کیوں ۔"وہ خوفزدہ ہوئی۔
" کوئی تمہیں کچھ بھی کہے گا تو تم مجھ سے بات کرنا چھوڑ دو گی۔" وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
وہ شرمندگی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔
" میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔میں تمہارا شوہر ہوں اور اگر تم نے کسی کے کہنے پہ یا دھمکانے پہ کچھ ایسا ویسا کیا تو میں نے تمہیں ایک لگانی ہے۔کوئی کچھ بھی کہے تم نے مجھے بتانا ہے۔"وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" ٹھیک ہے۔" وہ سر ہلا کر بولی۔
" اور اس پہ عمل بھی کرنا ہے ورنہ پھر میں ناراض ہو جاؤں گا اور جب میں ناراض ہوتا ہوں تو بڑا سخت ناراض ہوتا ہوں اور مشکل سے مانتا ہوں ۔"اس نے جیسے وارن کیا تھا۔
" اب میں ایسا ہی کروں گی۔عنایہ کدھر ہے۔" وہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی جیسے عنایہ ادھر ہی موجود تھی۔
" وہ اپنے روم میں ہے۔چلو وہیں چلتے ہیں ۔"وہ اس کا ہاتھ پکڑے کمرے سے نکلا۔
" احسن میں تمہارے اس روز روز کے طعنوں سے تنگ آچکی ہوں ۔آج تم مجھے بتا ہی دو کہ آخر تم چاہتے کیا ہو۔" احسن جیسے ہی آفس سے واپس آیا زری ہمیشہ کی طرح شروع ہوگئی ۔
" میں بھی تم سے یہ ہی پوچھنا چاہتا ہوں آخر تم کیا چاہتی ہو۔جب سے شادی کی ہے سکون کا ایک لمحہ نصیب نہیں ہوا۔"وہ ہاتھ میں پکڑا بیگ غصے سے بیڈ پہ پھنکتے ہوئے بولا۔
" میں نے تمہیں سکون کا لمحہ نہیں دیا یا تم نے میرا سکون برباد کردیا ہے۔شادی سے پہلے تم نے مجھے سبز باغ دکھائے اور شادی کے بعد ایسے ہوگئے جیسے میں نے تم سے زبردستی شادی کی تھی۔"وہ تیز لہجے میں بولی ۔
" غلطی کی جو تم سے شادی کرلی اور آج تک بھگت رہا ہوں ۔" وہ بھی تیز لہجے میں بولا۔
" تم مجھ سے شادی کو غلطی کہہ رہے ہو۔"وہ ششدر رہ گئی۔
" میری زندگی کے سب سے بڑی غلطی ۔میں تمہیں پھول سمجھ کر تمہاری طرف بڑھا تھا لیکن تم تو کوئلہ نکلی۔" وہ غصے سے بولا۔
" اور تم ایک دھوکے باز مرد نکلے۔شادی سے پہلے کیا کیا سنہری خواب دیکھائے تھے اور شادی کے بعد مکر گئے۔میں ہی پاگل تھی تو تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔"وہ بھڑک کر بولی۔
" تو میں نے تمہاری منتیں نہیں کی تھی کہ سب کچھ چھوڑ دو۔تمہاری وجہ سے میں اپنے والدین سے دور ہوں لیکن تم جیسی ناشکری عورت کو میری قدر ہی نہیں ۔"وہ اشعال بھرے لہجے میں بولا۔
" اچھا تب تو مر رہے تھے کہ زری تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا ۔تمہارے کہنے پہ یہ کروں گا وہ کروں گا۔اور جب میں مل گئی تو سب کچھ بھول گئے۔"وہ اس کی نقل اتارتے ہوئے بولی۔
" تم جیسی بددماغ لڑکی کو پتا نہیں ارسلان نے کیسے برداشت کرلیا ۔ایسی عورت تو ایک دن بھی برداشت نہ ہو۔"زری کی نقل اتارنے پہ وہ مزید بھڑکا۔
" کیا کہا تم نے ۔میں بددماغ ہوں تو تمہارے اندر تو دماغ نام کی چیز ہی موجود نہیں ہے۔"وہ غضب ناک ہوئی۔
" دفع ہو جاؤ یہاں سے۔اس سے پہلے میں کچھ الٹا سیدھا بول دوں۔"وہ اسے بازو سے پکڑ کر کمرے سے باہر نکالتے ہوئے بولا۔
" تم مجھے طلاق کی دھمکی دے رہے ہو۔" اسے جھٹکا لگا۔
" اگر تمہاری بکواس اس طرح جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں ۔اب گلے میں ڈھول ڈالا ہے تو بجانا تو پڑے گا۔"اس نے کہا اور زور سے دروازہ بند کردیا۔
زری ششدر رہ گئی۔
بیگم سراج کنپٹی کو تھامے بستر پہ بیٹھی تھیں ۔ان کے آگے کچھ نہ بولنے والا ارسلان انہیں اس ہونق لڑکی سے معافی مانگنے کا کہہ رہا تھا۔یہ سب تو زری کی موجودگی میں بھی نہیں ہوا تھا۔
پہلے وہ زری کی وجہ سے ماہم پر سختی کر رہیں تھیں لیکن اب بھلے ارسلان زری کو نہ اپناتا انہیں ماہم کو گھر سے نکوانا تھا۔
وہ سوچوں میں گم تھیں کہ ان کا فون بجا۔انہوں نے دیکھا تو زری کی کال تھی۔انہیں تشویش ہوئی۔زری اس وقت فون نہیں کرتی تھی۔
انہوں نے جیسے ہی فون اٹھایا دوسری طرف زری کی سسکیاں گونج رہیں تھیں ۔
" کیا ہوا ہے۔" وہ پریشان ہوگئیں ۔
" مما آپ پلیز میرے پاس آجائیں سب کچھ غلط ہورہا ہے۔" وہ روتے ہوئے بولی۔
" پر ہوا کیا ہے۔"
" احسن نے مجھے طلاق کی دھمکی دی ہے۔"
" اچھی بات ہے خس کم جہاں پاک۔طلاق لو اور واپس آجاؤ۔ارسلان آج بھی.....
" آپ کیسی ماں ہیں بجائے اس کے بیٹی کا گھر بچانے کی کوشش کریں اسے طلاق لینے کا کہہ رہی ہیں ۔" وہ ان کی بات کاٹ کر چلائی۔
" میں تو تمہاری بھلائی کے لیے کہہ رہی ہوں ۔تم سے صرف ارسلان ہی سچی محبت کرتا ہے۔" وہ نرم لہجے میں بولیں ۔
" لیکن مجھے تو احسن سے محبت ہے ۔اور میں یہ ہی چاہتی ہوں کہ وہ میرے ساتھ رہے۔"اس نے کہا۔
" اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی تمہیں احسن سے محبت ہے۔" وہ حیرت سے بولیں ۔
" جیسے ارسلان کو ابھی تک مجھ سے محبت ہے ویسے ہی مجھے بھی احسن سے محبت ہے۔آپ بس میری پاس آجائیں اور احسن کو سمجھائیں ۔اسے اس کے والدین بھڑکاتے ہیں تب ہی وہ ایسا ہوگیا ہے۔" وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
" ٹھیک ہے میں آتی ہوں ۔"انہوں نے کہا اور فون بند کردیا ۔
وہ جا ضرور رہیں تھی لیکن احسن کو سمجھانے نہیں بلکہ زری کو طلاق دلوانے۔
وہ عنایہ کو سُلا کر ابھی فارغ ہی ہوئی تھی کہ ارسلان نے خاموشی سے اسے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔وہ حیرت سے اس کے پیچھے چل دی۔
ارسلان نے رانی کو عنایہ کے پاس رکنے کا کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چھت کی طرف بڑھ گیا۔وہ حیران و پریشان ہوتی اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی۔
چھت پہ آ کر حیرت سے اس کی نیلی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں ۔
پورے چھت کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔نیچے فرش پہ گلاب کی پتیاں بچھی تھیں ۔اور چھت کے دروازے سے لے کر درمیان میں پڑی میز تک کینڈلز کے ذریعے راستہ بنایا گیا تھا۔میز کو بھی کینڈلز سے ہی سجایا گیا تھا۔اور مختلف قسم کے کھانے پڑے تھے۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ رہا تھا ۔وہ بے یقینی سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی ۔کیا یہ سجاوٹ اس کے لیے تھی۔ارسلان نے اس اپنے سامنے کھڑا کر کے اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھا۔
" یہ سب کیا ہے۔" وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
" کچھ دیر پہلے ہی میں نے یہ پلان بنایا تھا۔اس لیے اتنا کچھ نہیں کرسکا۔" اسے جیسے افسوس ہوا۔
" ابھی بھی آپ نے کچھ نہیں کیا۔" وہ حیران ہوئی۔
" اس سے زیادہ کرنا چاہتا تھا ۔کیا تمہیں یہ سب اچھا لگا۔" وہ اس کے حسین چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے بولا۔
" بہت اچھا لگا۔مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ آپ نے یہ سب میرے لیے کیا۔"وہ پرجوش ہوئی۔
" پھر تم بے یقین ہوئی ہو ۔"وہ اسے گھور کر بولا۔
" نہیں میں تو مذاق کر رہی تھی۔"وہ سٹپٹا کر بولی۔
ارسلان کے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ ٹھہری ۔
" کھانا کھائیں ۔" وہ میز پہ ایک نظر ڈال کر بولی۔جہاں چکن کی مختلف ڈشیں موجود تھیں۔
" پہلے وہ اہم کام تو کر لیں جس کے لیے یہاں آئیں ہیں ۔" وہ جیب سے کچھ نکالتے ہوئے بولا۔
" کونسا کام۔" وہ حیرت سے بولی۔
" آئی لو یو۔" وہ اسے ڈائمنڈ رنگ پہناتے ہوئے بولا۔
ماہم نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔وہ تو ارسلان کے اچھے رویے پہ ہی راضی تھی لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا وہ اتنی خوش نصیب ہے کہ جس سے وہ محبت کرتی ہے وہ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔
" ان سمندر جیسی آنکھوں میں بے یقینی کیوں ۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔
" مجھے سمجھ نہیں آرہی یہ خواب ہے یا حقیقت ۔" وہ نم آنکھوں سے مسکرا کر بولی۔
" یہ حقیقت ہے ماہم ارسلان۔" وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔
ماہم شرما گئی۔اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ہتھیلیاں پسینے سے نم ہوچکی تھیں ۔
" اب مجھے بھی جواباً اظہار محبت سننے کو ملے گا یا اس کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔" وہ مسکرا کر بولا۔
" آپ کو پتا تھا کہ میں بھی آپ سے پیار کرتی ہوں۔"وہ سر اوپر اٹھا کر تحیر بھرے لہجے میں بولی۔
ارسلان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔
" مجھے بھی آپ بہت اچھے لگتے ہیں ۔"وہ شرماتے ہوئے بولی۔
" صرف اچھا۔"اس نے ابرو اٹھا کر مصنوعی خفگی سے پوچھا۔
" نہیں محبت بھی ہے۔"وہ جھٹ سے بولی۔
ارسلان جواباً ہنس پڑا۔وہ مزید شرما گئی۔
بیگم سراج جو ملازمہ کے بتانے پہ چھت پہ ارسلان کو اپنی فلائیٹ کا بتانے آئی تھیں سامنے کا منظر دیکھ کر ان کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔یہ لڑکی تو بڑی فاسٹ نکلی۔مہینے بھر میں ہی ارسلان کو اپنے قابو میں کرچکی تھی۔اب تو زری کو ضرور واپس آنا تھا۔