ماہم نے میکے جا کر تم سے بات کی تھی" ۔ارسلان نے عنایہ سے پوچھا۔
" نہیں ۔اور وہ تو مجھے مل کے بھی نہیں گئی۔ وہ مجھ سے کیوں ناراض ہیں "۔عنایہ سخت پریشان تھی۔
" وہ تم سے نہیں بلکہ مجھ سے ناراض ہیں ۔"وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا۔ ماہم کا رویہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
" ہم جا کر انہیں منا کر لاتے ہیں۔"عنایہ نے کہا۔
"میں بھی یہ ہی سوچ رہا ہوں۔ابھی چلتے ہیں۔"ارسلان نے کہا۔پھر وہ آفس کے ڈریس میں ہی عنایہ کے ساتھ نکل گیا۔
جب وہ وہاں پہنچا تو بیگم سراج اسے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔
جبکہ ناعمہ کا دل خوش گمان ہوا کہ شاید ارسلان اپنے رویے کی معافی مانگنے آیا ہے۔
" ماہم کو بُلا دیں۔"وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" کیا مطلب؟ماہم تمہارے گھر ہے اسے ہم کیسے بُلا سکتے ہیں۔"رفعت بیگم نے کہا۔
" ماہم ،ماہم۔"وہ صحن میں کھڑے ہو کر آوازیں دینے لگا۔
" ماہم یہاں نہیں ہے۔وہ تو منگنی کے بعد نہیں آئی۔"ناعمہ نے کہا۔
لیکن ارسلان اس کی بات نظرانداز کرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔اسے ماہم سے اتنی شدید ناراضگی کی امید نہیں تھی۔اس نے پورا گھر چھان مارا لیکن ماہم نہیں ملی۔
"وہ کہاں ہے۔" اس نے صحن میں آ کر پوچھا۔
"بتایا تو ہے وہ یہاں نہیں آئی ۔کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی ۔"رفعت بیگم نے اطمینان سے بولیں۔عنایہ ان دونوں کو ساری بات بتا چکی تھی۔
" شٹ اپ۔جسٹ شٹ اپ۔"وہ دہاڑا۔
" اگر میری بیوی کے بارے میں کوئی بکواس کی تو میں یہ بھول جاؤں گا کہ آپ مجھ سے بڑی ہیں۔"وہ انگی اٹھا کر وارن کرتے ہوئے بولا۔غصے سے اس کے ماتھے کی رگیں تن چکی تھیں۔
رفعت بیگم اور ناعمہ ڈر گئی ۔
وہ عنایہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا۔اس نے سوچا کہ ماہم خالہ رشیدہ کے گھر چلی گئی ہوگی۔
راستے میں ایک آدمی سے اس نے خالہ رشیدہ کا پتا پوچھا۔
" میری تو اس سے منگنی والے دن ہی ملاقات ہوئی تھی۔سب خیر تو ہے۔"خالہ رشیدہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
" ہماری کل رات لڑائی ہوئی تھی۔اگلی صبح وہ میکے جانے کا کہہ کر گھر سے چلی گئی۔وہ وہاں بھی نہیں ہے اور یہاں بھی۔پھر وہ کدھر چلی گئی۔"وہ سر کو تھامتے ہوئے کرسی پہ بیٹھا۔اس کا دماغ گھوم رہا تھا۔
عنایہ بھی پریشان ہوچکی تھی۔پتا نہیں ماہم مما کدھر چلی گئی تھیں ۔
" یہ تو بہت پریشانی کی بات ہے۔" خالہ رشیدہ بھی پریشان ہوئیں۔
" آپ اس کے کسی اور رشتہ دار کو جانتی ہیں۔"وہ سر اٹھا کر بولا۔
" ایک دفعہ اس نے اپنی ماں کی خالہ کا ذکر کیا تھا۔لیکن مجھے نہیں معلوم کے وہ کدھر رہتیں ہیں۔"خالہ شکورن نے بتایا۔
" یہ پتا ہے کہ کس شہر میں رہتی ہیں۔"وہ سیدھا ہو کر بیٹھا۔امید کی ایک کرن نظر آئی تھی۔
"کراچی میں ہی رہتی ہیں۔"انہوں نے کہا۔
واپسی پہ وہ جس طرح گھر پہنچا وہ ہی جانتا تھا۔ایسے لگتا تھا اس کا دماغ پھٹ جائے گا۔عنایہ ساتھ نہ ہوتی تو شاید وہ اپنا ایکسیڈنٹ کر چکا ہوتا۔
" ماہم ملی۔" بیگم سراج نے لاؤنج میں داخل ہوتے ارسلان سے پوچھا۔
وہ نفی میں سر ہلائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
" کیا ہوا ہے؟ ارسلان کی بیوی واپس نہیں آئی۔" زری نے لاونج میں آ کر ماں سے پوچھا۔
بیگم سراج نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔وہ خاموشی سے عنایہ کی بات سننے لگی۔جو ساری تفصیل بتا رہی تھی۔
"وہ کہاں چلی گئی ہے؟" زری بھی پریشان ہوئی۔
" پتا نہیں۔میری مما کب واپس آئیں گی۔میں ان کے بغیر کیسے رہوں گی۔"عنایہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
" تمہاری مما یہ ہیں اور وہ تو سٹیپ مدر تھی اسلیے اسے تو جانا ہی تھا۔" وہ عنایہ کے رونے پہ ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے بولیں ۔
" نہیں میری مما تو ماہم ہی ہے۔" عنایہ نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
" صحیح کہہ رہی ہے اس کی ماں ماہم ہی ہے۔میں نے تو صرف پیدا کیا تھا۔"زری تلخ لہجے میں بولی۔ عنایہ کی بات سن کر اس کی رنگت زرد ہوچکی تھی۔
" اچھا بس کردو۔تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا یہ ہی کافی ہے۔اب سب کچھ چھوڑ کر نئے سرے سے زندگی شروع کرو۔" بیگم سراج نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
" عنایہ آپ پریشان نہ ہو۔آپ کے پاپا ماہم کو ڈھونڈ لائیں گے۔آپ بس اللہ سے دعا کرو۔" زری عنایہ کے سر پہ پیار کرتے ہوئے بولی۔
عنایہ نے جواباً اثبات میں سر ہلایا۔اس کی دوست آگئی تو وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنے روم میں چلی گئی۔
" تمہاری طبیعت اب کیسی ہے۔" بیگم سراج نے پوچھا۔کل سے زری کو بخار تھا۔
" پچھلے پندرہ دن سے میری یہ ہی حالت ہے کبھی الٹی، کبھی سر درد تو کبھی بخار۔پر احسن نے میری بالکل پروا نہیں کی۔" زری صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی۔
" تم نے ڈاکٹر کو چیک کروایا۔"وہ پریشان ہوتے ہوئے بولیں ۔ اپنی سازشوں میں انہوں نے زری کی خراب طبیعت پہ اتنا دھیان نہیں دیا تھا۔اور اب اس کی باتیں سن کر ان کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی۔
" نہیں ۔"
" چلو پھر ابھی کے ابھی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔" وہ اسے صوفے سے اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں ۔وہ دل میں دعا کر رہی تھیں کہ جیسا وہ سوچ رہیں ہیں ویسا نہ ہو۔
" میرا دل نہیں کررہا۔مما احسن نے ابھی تک نہ ہی میری کال اٹھائی اور نہ کوئی میسج کیا ہے۔وہ اتنا بےحس کیسے ہوسکتا ہے۔"وہ منہ ہاتھوں میں چھپائے رو دی۔
" اسلیے میں کہہ رہی ہوں اس کو دفع کرو۔اب تو ماہم بھی چلی گئی ہے ۔ارسلان اور تمہارے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔"وہ اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے نرمی سے بولیں ۔
" خدا کا خوف کریں مما۔آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔بجائے اس کے کہ آپ میرے اور ارسلان کے مسئلے حل کریں ۔آپ ہمیں ایسے مشورے دے رہی ہیں ۔"زری ان کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے ناگواری سے بولی۔
" تو پھر بتاؤ۔اس اب کا کیا حل ہے۔وہ تو تمہیں منہ نہیں لگا رہا اور وہ پاگل ارسلان کو چھوڑ گئی۔تم مانو یا نہ مانو تم دونوں ایک دوسرے کے لیے ہو۔"وہ سنجیدہ لہجے میں بولیں ۔اور وہاں سے چلیں گئی۔
زری نے نفی میں سر ہلا کر اپنی ماں کو جاتے دیکھا ۔
اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کنپٹی کو دبایا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔وہ پچھلے تین دن سے نہ صرف خود ماہم کو ڈھونڈ رہا تھا بلکہ اس نے بہت سے لوگوں کو بھی ماہم کے پیچھے لگایا تھا۔پر ابھی تک اس کی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔پتا نہیں وہ پاگل لڑکی کہاں چھپ گئی تھی۔
ایک آنسو آنکھوں سے بہتا ہوا کنپٹی میں جذب ہوگیا تھا۔اسے ماہم کے ساتھ یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ جس طرح کی تھی اسے اس طرح سے ہی ہینڈل کرنا چاہیے تھا۔
یہ سوچ کر ہی اس کی سانس رکنے لگتی اگر وہ ساری زندگی نہ ملی تو کیا ہوگا۔ان تین دنوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں تھا جب اس نے ماہم کو یاد نہ کیا۔وہ ہر لمحے اس کی بخیریت واپسی کی دعا کرتا تھا۔
کھٹکا ہوا تو اس نے سر اٹھایا سامنے عنایہ کھڑی تھی۔اسے عنایہ کو دیکھ خود پہ غصہ آیا اگر وہ ماہم کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتا تو عنایہ ماں سے محروم نہ رہتی۔
"آئی ایم سوری پرنسس ۔مجھے آپ کی مما کو نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا۔میری وجہ سے وہ آپ سے بھی دور چلی گئی۔" وہ شرمندہ لہجے میں بولا۔
" مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔" عنایہ جھجھکتے ہوئے بولی۔
" کیا ماہم نے تم سے رابطہ کیا۔" وہ سیدھا ہوا۔
" جس دن وہ گئی تھیں اس سے ایک رات پہلے دادو ان کے پاس آئی تھیں اور دادو کے جانے کے بعد وہ بہت رو رہی تھیں ۔"عنایہ نے کہا۔
" مما نے اسے کیا کہا تھا؟ "وہ بمشکل بولا۔
" یہ مجھے نہیں پتا ۔جب میری آنکھ کھلی تو دادو کمرے سے باہر جارہی تھیں اور مما رو رہی تھیں ۔"عنایہ نے بتایا۔
" تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔"وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامتے ہوئے بولا۔
" مجھے یاد نہیں رہا۔" عنایہ شرمندگی سے بولی ۔
" تم بیٹھو میں آتا ہوں ۔"اس نے کہا۔غصے سے اس کا چہرہ لال ہورہا تھا۔اس کا دل کر رہا تھا سب کچھ تہس نہس کر دے۔اسے مما سے اس حرکت کی قطعاً امید نہیں تھی۔
"کیا ہوا تمہیں خوشی نہیں ہوئی۔"ڈاکٹر ارم نے زری کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر پوچھا۔وہ زری کی دوست بھی تھی۔
" اس وقت میرے احساس منجمد ہیں ۔میں نہ کسی خوشی کو محسوس کرسکتی ہوں نہ کسی غم کو۔" وہ آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیتے ہوئے بولی۔
" تم اپنے شوہر کو یہ خوش خبری سناؤ۔باپ بننے کی خبر سن کر وہ سب کچھ بھول کر تمہاری طرف لوٹ آئے گا۔" ارم یقین سے بولی۔
" یہ ہی تو مسئلہ ہے۔ اگر وہ یہ سن کر بھی مجھ سے راضی نہ ہوا تو کیا ہوگا۔"زری نے پریشان نہ ہونے کی وجہ بتائی ۔
" ایسا نہیں ہوگا ۔یہ خبر سن کر تو ہر انسان ہی پگھل جاتا ہے۔"
" میری بھی تو اولاد تھی۔میں تو اس کے لیے نہیں پگلی تھی ۔مجھے لگتا ہے یہ مکافات عمل ہے۔"وہ نم لہجے میں بولی۔
" بہرحال کوشش تو کرو۔باقی نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔" ارم نے کہا۔
" آپ مجھے ایک ہی دفعہ بتا دیں آخر آپ چاہتی ہیں ۔"وہ غصے سے چلایا۔
" کیا ہوا ہے۔"بیگم سراج پریشان ہوئیں۔
" آپ نے ماہم سے کیا کہا تھا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔"وہ اونچی آواز میں دہاڑا ۔
بیگک سراج ششدر رہ گئی۔
" مجھے بتائیں میرا یا ماہم کا کیا قصور ہے جو آپ ہمیں سکون کا سانس نہیں لینے دیتیں ۔میں پچھلے تین دن سے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہوں اور مجھے یہ خبر نہیں تھی کہ اس سب کے پیچھے میری ماں کا ہاتھ ہے۔"اس بار اس کے لہجے میں نمی تھی۔
" تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"وہ بمشکل بولیں ۔
" مما بس کردیں۔کتنا جھوٹ بولیں گی۔پلیز مجھے بتا دیں کہ وہ کہاں ہے۔وہ آپ کو نہیں پسند تو میں اسے الگ گھر میں رکھ لوں گا۔پر پلیز میرے ساتھ ایسا نہ کریں ۔میں اس کے بغیر مر جاؤں گا۔" وہ رو پڑا تھا۔
" ارسلان بچے وہ کہیں سے بھی تمہارے قابل نہیں ہے۔تم اور زری ایک دوسرے کے لیے بنے ہو۔"وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں ۔
یہ ہی وہ وقت تھا جب زری نے ان کے کمرے میں قدم رکھا۔وہ ساری بات سن چکی تھی۔
" مما آپ نے یہ سب کیوں کیا۔"زری کے چہرے پہ بےیقینی تھی۔وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بیگم سراج اس حد تک جاسکتی ہیں ۔
" میری بات سنو۔میں نے جو بھی کیا تم لوگوں کی بھلائی کے لیے کیا۔نہ تم احسن کے ساتھ خوش نہیں ہو اور نہ ہی ماہم ارسلان کے قابل ہے۔تم دونوں صرف ایک دوسرے کے ساتھ ہی خوش رہ سکتے ہو۔اس لیے سب کچھ بھلا کر ایک ہونے میں ہی تم دونوں کی بھلائی ہے۔" انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہا۔
" خالہ منصورہ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں ماہم کو چھوڑ دوں گا۔وہ میری زندگی ہے۔اور آپ سے کس نے کہا کہ وہ میرے قابل نہیں ۔ارسلان سراج کے قابل صرف ماہم شبیر ہی ہے ۔"وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا۔آج اس نے پہلی دفعہ بیگم سراج کو مما کہنے کے بجائے خالہ کہا تھا اور ان کا نام کیا تھا۔
بیگم سراج اپنے لیے خالہ کا لفظ سن کر ششدر رہ گئی ۔جبکہ زری ماں کے خیالات سن کر سکتے میں آگئی۔
" اور تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔دنیا میں تم وہ واحد ہستی ہو جس سے میں نے بےتحاشہ نفرت کی ہے۔میرا بس چلے تو ماضی کے ان تلخ سالوں کو اپنی زندگی کی کتاب سے مٹا دوں۔زری اگر تم سونے کی بھی بن کر آ جاؤ تو تب بھی میرے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔"وہ زری کی طرف اشارہ کر کے غصے سے بولا۔
" میرا خدا گواہ ہے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔جس طرح تمہیں ماہم سے پیار ہے اسی طرح مجھے بھی احسن سے پیار ہے۔مما آپ نے ایسا کیوں کیا۔بجائے اس کے آپ میرا گھر بسانے کی کوشش کرتیں آپ میرا گھر خراب کر رہی ہیں ۔اور اس سب میں اس معصوم کا کیا قصور۔" بولتے بولتے زری کی آواز بھرا گئی۔
" تم لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے... بیگم سراج نے کچھ کہنا چاہا۔
" بس کر دیں۔ خدا کا واسطہ ہے چپ ہوجائیں ۔میں نے ہمیشہ آپ کو اپنی ماں کا درجہ دیا لیکن آج آپ نے میرا مان توڑ دیا۔پلیز مجھے بتا دیں ماہم کہاں ہے۔" اس نے ہاتھ جوڑ کر منت کی تھی۔
ارسلان کا یہ انداز دیکھ کر بیگم سراج کا دل کٹا۔وہ تو اپنی طرف سے ان دونوں کی بہتری چاہ رہیں تھی لیکن اس سب میں وہ دونوں کے ساتھ زیادتی کر گئی۔
" پلیز اس کو ماہم کا پتا بتادیں۔"زری نے بھی منت کی۔
" اس نے یہ کہا تھا کہ وہ اپنی ماں کی خالہ کے گھر جائے گی۔ڈرائیور نے اسے بس سٹاپ پہ اتار دیا تھا۔آگے میں نہیں جانتی کہ وہ کدھر ہے۔"انہوں نے سر جھکائے کہا۔
ارسلان کچھ بھی کہے بغیر باہر نکل گیا۔
" زری پلیز مجھے معاف کردو۔میں نے تمہارے ساتھ بھی بہت زیادتی کی ہے۔" وہ زری کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولیں ۔
" پلیز ایسا مت کریں ۔میرے ساتھ جو ہوا اسکی ذمہ دار میں خود ہوں ۔آپ بس ارسلان کے لیے دعا کریں ۔" وہ ان کے ہاتھ کھولتے ہوئے بولی۔
بیگم سراج ایک دم سے رونا شروع ہوگئیں ۔انہیں آج اپنے غلط رویے کا احساس ہوا تھا۔وہ دعا کر رہی تھیں کہ ماہم جلد سے جلد مل جائے۔
" مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ میرے راستے کا کانٹا خود ہی نکل گیا ۔" پچھلے تین دن سے ناعمہ کے زبان پہ یہ ہی بات تھی۔
" بس کر دے۔یہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں ۔" رفعت بیگم بیزاری سے بولیں ۔
" میری خوشی میں کبھی خوش نہ ہونا۔" ناعمہ خفگی سے بولی۔
" زری واپس آگئی ہے۔"انہوں نے کہا۔
" کیا۔"ناعمہ کا منہ کھل گیا۔
" میرے تو سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں ۔وہ کمبخت ماری چلی گئی ۔اب پیسے کہاں سے آئیں گے۔تیری اور آئمہ کی شادی کرنی ہے ۔اب کیا ہوگا۔"وہ پریشان لہجے میں بولیں ۔
" ہائے اماں اب کیا ہوگا۔وہ تو اس سے شادی کر لے گا۔پھر میرا کیا ہوگا؟" ناعمہ روتے ہوئے بولی۔
" بس کر نی دفع کر اسے۔یہاں مجھے خرچے کا سوچ کر پریشانی ہورہی ہے۔اور تجھے عشق معشوقی کی پڑی ہے۔مجھے ماہم کہ شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔اچھی بھلی ہر مہینے تنخواہ آتی تھی۔"وہ دونوں ہاتھ ملتے ہوئے بولیں ۔
ناعمہ غصے سے پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔
" مجھے معاف کردو۔میں نے تمہارے ساتھ بہت ذیادتی کی ہے ۔" وہ روتے ہوئے ارسلان سے بولیں ۔
" آپ دعا کریں وہ مل جائے ۔بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں چاہتا۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" تم مجھے معاف کردو۔جب وہ مل جائے گی تو میں اس سے بھی معافی مانگ لوں گی۔میں نے ہمیشہ تمہیں سگی اولاد سمجھا۔تمہاری یہ بےرخی میرا دل چیر رہی ہے۔" وہ گلوگلیر لہجے میں بولیں ۔
" دل تو میرا چیرا جا چکا ہے۔میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔ بس جس دن وہ مل جائے گی میں آپ کو معاف کر دوں گا۔آپ دعا کریں وہ جلد ہی خیر خیریت سے مجھے مل جائے۔اس کے اندر دوسرے لوگوں جیسی چالاکی نہیں ہے اور یہ ہی بات مجھے سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے۔" وہ رنجیدہ ہوا۔
" میں دعا کروں گی اور اسے ڈھونڈنے کی کوشش بھی کروں گی۔بس تم میرے ساتھ پہلے کی طرح رہنا۔"وہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے دکھی لہجے میں بولیں ۔انہوں نے اپنی اولاد کے ساتھ کتنا غلط کیا تھا لیکن شکر ہے انہیں جلد ہی احساس ہوگیا ہے۔بس وہ معصوم سی لڑکی مل جاتی تو ان کا بیٹا خوش ہوجاتا۔
احسن سر تھامے بیٹھا تھا ابھی زری کی کال آئی تھی جس نے اسے باپ بننے کی خوشخبری سنائی تھی۔وہ تو اس رشتے کے حوالے سے فیصلہ کرچکا تھا پر اب معاملہ اس کی اولاد کا تھا۔
اس نے صرف زری کو قصوروار ٹھہرایا حالانکہ قصوروار تو وہ بھی تھا ۔اس نے دوست کی بیوی پہ نظر رکھی ۔اس کے ساتھ افیئر چلایا۔
جب شادی ہوئی تھی تو شروع کے ایک مہینہ وہ بہت خوش رہے تھے۔اس کے والدین اس شادی کے خلاف تھے اور نہ ہی زری سسرال رہنا چاہتی تھی تو وہ الگ ہی رہے۔
جب والدین اس سے راضی ہوئے تو وہ وہاں جانے لگا۔اس کی امی ہمیشہ زری کی برائی کرتی تھیں ۔شروع شروع میں وہ منع کرتا تھا لیکن بعد میں اسے بھی زری میں نقص نظر آنے لگے۔وہ جو کبھی زری کی زندہ دلی کا دیوانہ تھا اب یہ سب اسے بچکانہ لگتا تھا۔آہستہ آہستہ وہ زری سے بیزار ہوگیا۔اوپر زری کی جرح کی عادت۔
انکا رشتہ دھوپ چھاؤں جیسا ہوچکا تھا۔زری کے اس طرح بتائے بغیر جانے پر اسے شدت سے اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔اسے اب زری سے جان چھڑانی تھی۔
لیکن اب جبکہ زری اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی تو وہ یہ سنگین قدم نہیں اٹھا سکتا ہے۔
وہ زری کو واپس بُلا رہا تھا لیکن اپنی شرائط پہ۔
" کچھ پتا چلا ماہم کا۔" زری نے لاؤنج میں بیٹھے ارسلان سے پوچھا ۔جس کی حالت اس وقت مجنوں والی تھی۔بڑھی ہوئی شیو، الجھے بال اور شکن ذدہ لباس۔ارسلان کی آنکھوں کی چمک مانند پڑ چکی تھی۔زری اسے اس حال میں دیکھ کر افسردہ ہوئی۔یہ وہ شخص تھا جس نے زندگی کے اتنے سال اس کے ناز نخرے اٹھائے تھے۔اور اسے بالکل بھی ارسلان کے ماہم کے لیے اسطرح پاگل ہونے پہ حیرت نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے۔
"نہیں ۔" وہ نفی میں سر ہلا کر ضبط کے ساتھ بولا۔ماہم کو وہ پچھلے ایک مہینے سے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا۔ اسے نہ کھانے کا ہوش تھا نہ دن رات کی خبر۔
" میری دعا ہے وہ جلد مل جائے۔" وہ افسردہ مسکراہٹ چہرے پہ لاتے ہوئے بولی۔
" تمہاری کب کی فلائیٹ ہے۔" اس نے پوچھا۔اب وہ زری سے کبھی کبھی بات کر لیتا تھا۔حالات بہت بدل چکے تھے۔کوئی بھی اپنے مقام پہ نہ رہا تھا۔
" رات کی۔ارسلان پلیز مجھے معاف کردو۔میں بہت گناہگار ہوں ۔تمہارے نکاح میں ہوتے ہوئے میں نے دوسرے مرد سے چکر چلایا۔میں کبھی کبھی سوچتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں ۔میں کتنی سنگدل تھی تمہیں تو چھوڑا ہی ساتھ میں اپنی بیٹی کو بھی کبھی ماں کی محبت نہ دی۔مجھ سے زیادہ برا شاید اس دنیا میں کوئی نہ ہو۔"اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
ارسلان جواباً خاموش رہا ۔اس وقت کسی کی معذرت اس کے لیے معنی نہ رکھتی تھی۔اسے بس ماہم چاہیے تھی۔
" مجھے پتا ہے یہ تمہارے لیے ناممکن ہے لیکن کوشش ضرور کرنا ۔تمہاری یہ معافی میری اس اور اُس زندگی کو آسان بنا سکتی ہے۔"وہ آس بھرے لہجے میں بولی۔
لیکن وہ خاموش رہا۔زری مایوس ہو کر واپس پلٹ گئی۔
دو سال بعد:
وہ باس کے آفس کی صفائی کر رہی تھی۔آج اس کا اس نوکری پہ پہلا دن تھا ۔اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ پہلے ہی دن وہ کسی غلطی کی مرتکب ہو۔
صفائی کر کے اس نے ایک نظر آفس پہ ڈالی۔پورا آفس چم چم کر رہا تھا۔
وہ اپنے مخصوص معصومانہ انداز میں مسکراتے ہوئے جیسے ہی پیچھے مڑی۔سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے لگا وہ سانس لینا بھول چکی ہے۔جس کو وہ دوسال پہلے چھوڑ آئی تھی وہ آج اس کے سامنے موجود تھا۔پر اسے اس شخص کی آنکھوں میں اجنیبت دیکھائی دی۔
" صفائی ہوگئی۔" وہ اپنے مخصوص گمبھیر انداز میں بولا۔
اس نے بمشکل سر ہلایا تھا۔اسے لگا وہ بولنا بھول چکی ہے۔
" آپ جاسکتی ہیں ۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
اور وہ وہاں سے ایسے بھاگی جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔
اس کی نوکری کا پہلا دن ہی آخری ثابت ہونے والا تھا۔