اسے عنایہ کو سکول لینے جانا تھا ۔اسلیے وہ نیچے آیا۔ناعمہ اسے آتا دیکھ کر فوراً سے چپ ہوگئی۔ماہم آنکھوں میں بےاعتباری لیے ارسلان کو دیکھ رہی تھی۔
" میری بہن آئمہ کی منگنی ہے تو میں آپ لوگوں کو دعوت دینے آئی تھی۔آپ دونوں نے ضرور آنا ہے۔" ناعمہ نے کہا۔
"سچ میں ۔کس کے ساتھ ہورہی ہے ۔" ماہم اپنی پریشانی بھول کر پرجوش ہوئی۔
" بتاتی ہوں ۔اور آپ اپنی امی کا نمبر بھی دے دیں ۔انہیں بھی انوائیٹ کرنا ہے۔" ناعمہ ماہم کو نظرانداز کرتی ارسلان سے بولی۔
" آپ نے ہمیں بتا دیا کافی ہے۔میں انہیں انفارم کر دوں گا۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" وہ دراصل اماں کی بیگم سراج سے بڑی دوستی ہے تو وہ خود انہیں انوائیٹ کرنا چاہ رہی تھیں ۔"ناعمہ نے فوراً سے بات بنائی۔
یہ بات ارسلان کے لیے نئی تھی ۔خیر اس نے ناعمہ کو نمبر نوٹ کروا دیا۔
" ہمارے تو حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں ۔پر اب کیا کریں آئمہ کے سسرال والوں کی خواہش ہے کہ یہ فنکشن لازمی کریں ۔اگر فنکشن میں آپ کو کچھ پسند نہ آئے تو پیشگی معذرت قبول کر لیجیے ۔" ناعمہ نے لہجے کو سنجیدہ بنایا۔
" ارے ایسے تو مت کہو ۔" ماہم جھٹ سے بولی۔
ارسلان نے نفی میں گردن ہلائی۔اسے ناعمہ کی بات کے پیچھے چھپا مقصد سمجھ آگیا تھا۔پر وہ کیوں ان لوگوں کی مدد کرتا۔
" سچ میں کاش کوئی ہماری مالی مدد کرتا۔"ناعمہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولی۔
" ارسلان اسے کچھ پیسے دے دیں ۔آخر کو میری بہن کی منگنی ہے۔" ماہم نے کہا۔وہ سدا کی رحم دل پچھلی تمام باتوں کو بھلائے اسے اپنے خاندان والوں کی مدد کرنا تھی۔
" کتنی مدد کروں ۔" وہ جیسے زبردستی مسکرایا تھا۔ماہم کی بات اسے ماننی ہی تھی۔
" صرف پچاس ہزار دے دیں ۔باقی ہم کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔" ناعمہ جلدی سے بولی۔
اتنی رقم کا سن کر ماہم کی آنکھیں کھل گئی۔اس نے فوراً سے ارسلان کی طرف دیکھا۔اسے لگا ارسلان منع کردیں گے۔
ارسلان نے کچھ بھی کہے بغیر پچاس ہزار کا چیک کاٹا اور ناعمہ کی طرف بڑھایا ۔
" آپ کیش کروا دیتے۔" ناعمہ چیک تھامتے ہوئے بولی۔
" مجھے عنایہ کو لینے جانا ہے۔آپ خود کروا لیں ۔" وہ سنجیدہ لہجے میں کہتا لاؤنج سے باہر نکل گیا۔
" میری بات پہ غور ضرور کرنا ۔یہ سب چار دن کی چاندنی ہے پھر وہ تمہیں ہمارے پاس چھوڑ جائے گا۔"جاتے جاتے بھی ناعمہ آگ لگانا نہیں بھولی۔
ماہم ایک پھر پریشان ہوچکی تھی۔
جب ارسلان عنایہ کو لے کر آیا تو ماہم اسے خاصی سنجیدہ لگی۔وہ سمجھا اپنے گھر والوں کے حالات کی وجہ سے چپ چپ ہے۔
" زری میری بات سنو۔"وہ اپنی گھبراہٹ پہ قابو پا کر بولیں ۔
" میں آپ کو یہاں اپنا مسئلہ حل کروانے کے لائی تھی اور آپ.... آخر میں زری کی آواز رندھ گئی۔اسے ماں سے یہ امید نہیں تھی۔
" بس کرو یہ ڈرامے۔اس گھر میں تو مجھے پل بھر کا سکون میسر نہیں ۔اتنا ہی تمہیں مسئلہ ہے تو یہاں سے ہمیشہ کے لیے دفع جاؤ۔"احسن نے ناگوار تاثرات لیے بیچ میں مداخلت کی۔
"نہیں احسن میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں ۔میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔" زری نے فوراً سے کہا۔
" تو پھر دو منٹ سکون کا سانس لینے دو۔ابھی گھر میں پوری طرح داخل نہیں ہوتا اور چخ چخ شروع ہوجاتی ہے۔"وہ تیز لہجے کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
زری نے شکوہ کناں نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔
" کیسے تمہیں ذلیل کرتا ہے اور تم پھر بھی جوگن بنی بیٹھی ہو ۔" وہ اسے گھور کر بولیں ۔
" میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ احسن کو سمجھائیں لیکن آپ اسے مجھے طلاق دینے کا کہہ رہی تھیں ۔" زری نے کہا۔
" پہلے پوری بات تو سن لو۔میں یہ سب اسے تمہاری قدر دلانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ورنہ میں تمہاری ماں ہوں ۔میں کیوں نہیں چاہوں گی کہ تمہارا گھر بسے۔" انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
" پلیز آپ اسے سمجھائیں نا ۔میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔"زری نے منت کی۔اسے ماں کی بات پہ یقین آگیا تھا۔
بیگم سراج نے اثبات میں سر ہلایا۔وہ جلد سے جلد یہ معاملہ نبپٹانا چاہتی تھیں لیکن یہ معاملہ تو لٹک رہا تھا۔
" آج چپ کیوں ہو ۔"وہ عنایہ کو سُلا کر ابھی فارغ ہی ہوئی تھی جب ارسلان نے اس سے پوچھا۔
" نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔" وہ زبردستی مسکرائی تھی۔
" تم جانتی ہو نا تمہارا چہرہ میرے لیے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ۔" اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
" کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔" وہ صبح سے ذہن میں کلبلاتے سوال کو زبان پہ لائی۔
" ٹیرس پہ آؤ۔" وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولا۔عنایہ سو رہی تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ڈسٹرب ہو۔
وہ سر ہلاتی اس کے پیچھے چل دی۔
" تمہیں کس نے کہا کہ میں تم سے محبت نہیں رکھتی۔" وہ ریلنگ پہ بازو رکھتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
" انسان اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھولتا۔"اس نے ناعمہ کی کہی بات دہرائی۔
" اور یہ بات آپ کو کس نے بتائی ۔" اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" مجھے خود پتا ہے۔اب میں کوئی بچی تھوڑی ہی ہوں ۔"وہ خفگی سے بولی۔
" تم بچی نہیں ہو لیکن بچوں جیسی حرکتیں ضرور کرجاتی ہو۔کوئی تمہیں کچھ بھی کہہ دے گا تو تم میری محبت پہ شک کرنا شروع کر دوں گی۔" وہ اسے کندھوں سے تھام کر بولا۔
" آپ نے جواب نہیں دیا۔" اس کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
" ماہم ارسلان میں آپ سے آپ کی سوچ سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں ۔جہاں تک بات پہلی محبت کی ہے تو میں آج تک جان ہی نہیں پایا کہ وہ محبت تھی یا کچھ اور۔ہاں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ تم سے میں نے سچے دل سے پیار کیا ہے۔تم میری بہت اہم ہو اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے دل میں میرے حوالے سے کبھی خدشات نہ آئیں ۔"وہ جذبات سے پُر لہجے میں بول رہا تھا۔
ماہم کو اپنے اندر ایک سکون سا اترتا محسوس ہوا۔
"اور اپنی بہن سے دور رہا کرو۔میں تو حیران ہوں وہ تمہیں بھڑکا گئی اور تم نے اسے مجھ سے ہی پیسے دلوا دیئے۔"وہ خفگی سے بولا۔
" آپ کو کیسے پتا کہ مجھے یہ سب ناعمہ نے کہا۔" حیرت سے اس کی آواز پھٹی۔
" کیونکہ میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں ۔" وہ اس کی ناک دبا کر بولا۔
" آپ تو میری ناک توڑ کر دم لیں گے۔"وہ ناک پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔
" اور تم جو دوسروں کے کہنے پہ میرا دل توڑ دیتی ہو وہ۔"اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
" سوری آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔شاید لوگ ٹھیک ہی مجھے بیوقوف کہتے ہیں ۔"وہ اپنی غلطی پہ نادم ہوئی۔
" خبردار جو آئندہ اپنے لیے یہ لفظ استعمال کیا۔تم بہت سمجھدار ہو لیکن تمہیں اس کا اندازہ نہیں ۔اب تمہارے بہنوں اور بھائی میں سے کسی نے میٹرک تک نہیں کیا تو پھر میں یہ کہوں کہ وہ کم عقل ہیں کیونکہ وہ اپنی پڑھائی مکمل نہیں کرپائے۔" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔
" ابا بھی یہ ہی کہتے تھے ۔"وہ جواباً مسکرا کر بولی۔
" جو لوگ ہمارے ساتھ مخلص ہوتے ہیں ۔ہمیں ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ کچھ غلط نہیں کرسکتے۔"اس نے تاکید کی۔
" آپ تو اتنے چالاک ہیں مجھے بھی تھوڑی سی چالاکی سیکھا دیں ۔"اس نے کہا۔
" فلحال تو میں جو سکھا رہا ہوں وہ سیکھ لو۔" وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔
" کیا سیکھا رہے ہیں ۔"وہ آسمان پہ چمکتے چاند کو دیکھ کر بولی۔
" مجھ سے محبت۔"وہ لو دیتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
" ایک تو مجھے ایسا نہ دیکھا کریں ۔اتنی شرم آتی ہے۔"وہ دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر بولی۔
" میری بیوی میری مرضی۔" وہ قہقہہ لگا کر بولا۔
" احسن میں یہ نہیں کہتی کہ تم اپنے والدین سے نہ ملو لیکن میرے ساتھ تو یہ سلوک نہ کرو۔"وہ بکھرے حلیے میں احسن کے سامنے موجود تھی۔دو دن سے پتا نہیں کیوں احسن اس سے ناراض تھا۔
" تمہیں یہ خوش فہمی کیوں ہے کہ میں تمہارے کہنے پہ اپنے والدین سے ملنا چھوڑ دوں گا۔"وہ استہزایہ انداز میں بولا۔دو دن پہلے اس کی پھر سے بیگم سراج سے بحث ہوئی تھی۔اس وجہ سے اس کا موڈ سخت آف تھا۔یہ شادی تو جیسے عذاب بن گئی تھی۔شادی کے بعد اسے ایک لمحہ سکون کا میسر نہیں آیا تھا۔
" تمہارے دل میں اب بالکل بھی میری محبت نہیں ہے۔"زری نے شکوہ کیا۔
" تم سے شادی کر لی پھر بھی تمہیں یہ ہی شکایت رہی۔" وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
" ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی میں محبت بھی ہو۔مجھے لگتا ہے ہماری شادی میں محبت ختم ہوچکی ہے۔" وہ دل کی بات زبان پہ لائی۔
" یہ اور شادیوں میں ہوسکتا ہے پر یہاں معاملہ مختلف تھا ۔ میں نے تم جیسی سے شادی محبت ہونے کی وجہ سے ہی کی تھی۔" وہ جھلا کر بولا۔
" مجھ جیسی سے تمہارا مطلب۔"وہ ٹھٹک کر بولی۔
" کچھ نہیں باہر جاؤ۔"وہ اسے کمرے سے باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
" مجھے وضاحت چاہیے۔میں جاننا چاہتی ہوں تمہارے والدین نے آخر میرے خلاف تمہارے ذہن میں کیا گند بھرا ہے۔"وہ تیز لہجے میں بولی ۔
" اپنی حد میں رہا کرو۔میرے والدین کو کسی بھی چیز میں انوالو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور سننا چاہتی ہو تو سنو ۔تم جیسی عورت جو شوہر کے ہوتے دوسرے مرد سے چکر چلائے ۔وہ کبھی قابل اعتبار نہیں ہوسکتی لیکن اس سب کے باوجود میں نے تم سے شادی کی اور تم.... غصے سے بولتے ہوئے اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
یہ طعنہ زری کو تیر کی طرح چھبا تھا۔اسے لگ رہا تھا وہ مر رہی ہے۔جس شخص کے لیے اس نے اتنے محبت کرنے والے شوہر اور بیٹی تک کو چھوڑ دیا آج وہ ہی اسے بدکرار کہہ رہا تھا۔
" میں اگر بری ہوں تو تم کونسا اچھے ہو۔" وہ اس کا گریبان پکڑتے ہوئے چلائی۔
" تم سے بہرحال لاکھ گنا اچھا ہوں۔" وہ اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے بولا اور اگلے ہی لمحے وہ زری کو کمرے سے باہر دھکیل چکا تھا۔
زری روتے ہوئے گیسٹ روم کی طرف بڑھی جہاں بیگم سراج ٹھہری تھیں ۔
" عنایہ آج سے آپ خود کھانا کھائے گی۔"اس نے ماہم کے ہاتھ سے کھانا کھاتی عنایہ کو کہا۔
" مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔" ماہم جھٹ سے بولی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ عنایہ اس کے بارے میں کچھ غلط سوچے۔
" میں جانتا ہوں لیکن اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ میں نے اس کی عادات خراب کر دیں ہیں۔آئندہ سے یہ خود کھانا کھائے گی۔کل کو یہ کسی فنکشن میں جاتی ہے تو پھر یہ کیا کرے گی۔لوگ تو یہ ہی کہیں گے کہ والدین نے کچھ نہیں سکھایا۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" ٹھیک ہے۔"ماہم اور عنایہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
" اس ویک اینڈ پہ کہاں جائیں گے۔"ارسلان نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔
" ہم پارک میں جائیں گے۔میری دوست بھی جاتی ہے تو اکھٹے جائیں گے۔"عنایہ نے پوچھا۔
" چلو ٹھیک ہے۔" ارسلان مسکرا کر بولا۔
" وہ آئمہ کی اتوار کو منگنی تھی ۔تو پھر ہم لوگ نہیں جائیں گے۔"وہ جھجھک کر بولی۔
" تم جانا چاہتی ہو۔" اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔وہ حیران تھا وہ لوگ ماہم کے ساتھ اتنا برا کرتے ہیں اور پھر بھی ماہم وہاں جانا چاہتی تھی۔
" ہاں۔شادی کے بعد میں محلے میں گئی ہی نہیں ۔اس دن بھی قبرستان سے واپس آگئے تھے لیکن اگر آپ نہیں جانا چاہتے تو ٹھیک ہے۔" وہ نیچے دیکھ کر بولی ۔پہلی بار اس نے ارسلان کے مقابل اپنی بات کہی تھی۔اسے عجیب سا محسوس ہورہا تھا اگر ارسلان برا منا گئے تو۔
" تم جانا چاہتی ہو تو ضرور جائیں گے۔اور اگر تمہیں کوئی بھی بات کہنی ہو یا کسی معاملے میں اپنی رائے دینی ہو تو بلا جھجھک دے سکتی ہو۔ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں تمہارا شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بھی ہوں۔" وہ نرم لہجے میں بولا۔
" ٹھیک ہے۔" وہ خوش ہو کر بولی۔
" ہم بھی جائیں گے ۔"عنایہ نے کہا۔
" کمال ہے تمہیں تو وہ لوگ اچھے نہیں لگتے تھے۔"ارسلان حیرت سے بولا۔ایک دفعہ عنایہ نے اسکے سامنے ماہم کے خاندان والوں کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
" ناعمہ آنٹی اچھی ہیں ۔اس دن انہوں نے مجھے چاکلیٹ بھی دی تھی۔" عنایہ نے پرجوش ہو کر بتایا ۔
" اس ناعمہ سے تو پلیز خود بھی دور رہا کرو اور عنایہ کو بھی دور رکھا کرو۔" اس نے ماہم سے کہا۔
" ٹھیک ہے۔" اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
" منگنی کے لیے تم لوگوں کی شاپنگ رات کو کرنے چلیں گے۔"اس نے کہا۔
" آپ نے اس دن اتنے سارے کپڑے دلائے تھے ۔اُن میں سے بہت سے ابھی پہنے ہی نہیں ہیں۔ان میں سے کوئی پہن لوں گی۔"ماہم نے کہا۔
" تمہاری مما کتنی کنجوس ہیں نا۔"وہ دیکھ ماہم کو رہا تھا اور کہہ عنایہ سے رہا تھا۔
" کنجوس نہیں سادی ہیں ۔"عنایہ بڑی عورتوں والے انداز میں بولی۔
ماہم اور ارسلان کا بےساختہ قہقہہ گھونجا تھا۔
" کنجوس کی بات نہیں ۔ابا کہتے ہیں فضول خرچی نہیں کرتے۔اور میں نے تو ساری زندگی اتنے کپڑے نہیں لیے جتنے اس دن آپ نے مجھے دلا دیئے۔یہ کپڑے تو میری ساری زندگی کے لیے کافی ہیں ۔" وہ اپنے مخصوص سادہ انداز بولی۔
اس کے حالات جان کر ارسلان کا دل کٹا۔
" میں تمہاری زندگی میں موجود ہر خلا کو پُر کر دوں گا۔پیچھے جو ہوا اسے اپنے ذہن سے نکال دو۔بس سنہرے مستقبل کے بارے میں سوچو۔"وہ محبت بھرے لہجے میں بولا۔
ماہم نے نم آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا ہمسفر اسے اتنا پیار اور مان دے گا۔ہر گزرتا دن اس کا دامن خوشیوں سے بھر رہا تھا۔اسے پہلی بار اپنی خوش قسمتی پہ یقین آیا تھا۔
" تمہیں میرا نمبر کس نے دیا ہے۔" بیگم سراج رفعت بیگم کی فون پہ آواز سن کر حیران رہ گئ ۔
" میری بیٹی کی منگنی ہے۔" رفعت بیگم فوراً اصل بات پہ آئیں۔
" تو میں کیا کروں؟" وہ ماتھے پہ بل ڈال کر بولیں ۔
" تم نے کہا تھا کہ میری بیٹیوں کی شادی کے اخراجات اٹھاؤں گی۔اب اس کی منگنی ہے تو پیسے بھیجو ۔" رفعت بیگم نے کہا۔
" میرے پاس حرام کا پیسا ہے جو تم پہ لٹاؤں۔"وہ سخت لہجے میں بولیں ۔
" تم نے وعدہ کیا تھا اب تم اس سے مکر رہی ہو۔" رفعت بیگم تیز لہجے میں بولیں ۔
" دماغ مت خراب کرو میرا۔"وہ غصے سے بولیں ۔
" اگر تم نے پیسے نہ بجھوائے تو میں ارسلان کو بتا دوں گی ۔کہ تم نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا ۔اور سوچوں کہ ارسلان تمہارے بارے میں کیا سوچے گا ۔"رفعت بیگم نے دھمکی دی۔
" تم انتہا کی گھٹیا عورت ہو۔واپس آکر تمہیں پوچھتی ہوں ۔اپنا اکاؤنٹ نمبر بھیجو۔" وہ اشتعال کنٹرول کرتے ہوئے بولیں ۔اس رفعت سے تو واپس جا کر نمٹے گی۔
" اکاؤنٹ نمبر بھیج رہی ہوں ۔ایک لاکھ بھیج دینا۔"رفعت بیگم نے کہا۔
بیگم سراج نے بڑبڑاتے ہوئے فون بند کیا۔پیسے رفعت بیگم کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا کر وہ ابھی فارغ ہی ہوئیں تھی کہ زری روتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔
" کیا ہوا ہے۔" وہ گھبرا کر بولیں ۔
" احسن نے مجھے بدکرداری کا طعنہ دیا ہے۔"زری پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
" وہ انتہا کا گھٹیا انسان ہے۔میں تو تمہیں ہمیشہ سمجھاتی تھی لیکن تم تو اس کے عشق میں پاگل تھی۔" انہوں نے زری کو ڈانٹا ۔
" اب کیا ہوگا؟"
" لعنت بھیجو اس پہ اور میرے ساتھ واپس چلو۔ارسلان آج بھی تمہارا منتظر ہے۔"انہوں نے ہمیشہ کی کہی بات دوہرائی ۔
" یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔"وہ رونا بھول چکی تھی۔
" تمہیں کب عقل آئے گی۔جب وہ تمہیں خود طلاق دے کر گھر سے نکالے گا۔"وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
" آپ اس سے بات کریں ۔" زری نے منت کی۔
" اچھا میری بات سنو۔تم فلحال میرے ساتھ پاکستان چلو۔ابھی احسن غصے میں ہے یہ نہ ہو وہ کچھ کہہ دے۔جب تم اس سے دور جاؤں گی تو تمہیں اس کی قدر آئے گی۔"انہوں نے کہا۔ان کا ذہن تیزی سے آنے بانے بن رہا تھا۔
" میں اگر ایسے چلی گئی تو وہ غلط ہی سمجھے گا۔" زری نفی میں سر ہلا کر بولی۔
" تم میری بات پہ ٹھنڈے دل سے غور کرو۔پھر اس کے بعد فیصلہ کرنا۔"انہوں نے کہا۔
" تم جارہی ہو میں تو سخت بور ہو جاؤں گا۔" وہ چھوٹے سے بیگ میں منگنی پہ پہننے والے کپڑے رکھ رہی تھی جب ارسلان نے کہا۔
" لو بھلا میں تو کچھ گھٹنوں کے لیے جارہی ہو۔آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں ۔" وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔
" آئندہ یہ بات مت کرنا۔اللہ نہ کرے کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور جاؤ۔" وہ اس کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" میں نے ویسے ہی کہا تھا۔"اس کی سنجیدگی دیکھ کر وہ سٹپٹائی۔
" ویسے بھی نہیں کہنا۔تم نہیں جانتی ہو کہ تم میرے لیے کیا ہو۔میں اپنے ہر دن کا آغاز اور اختتام تمہیں تمہیں دیکھ کر کرنا چاہتا ہوں ۔"وہ جذبات سے پُر لہجے میں بولا۔
ماہم کا دل تیز تیز دھڑکا ۔شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔
ارسلان نےدلچسپی سے اس کے چہرے پہ بکھرے قوس و قزح کے رنگوں کو دیکھا۔یہ نظارہ اس کا پسندیدہ تھا۔
" ویسے تم بھی کبھی محبت کے دو بول بول دیا کرو۔"وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔
" بولا تھا نا۔"
" کب؟"
" جس دن آپ نے مجھے یہ انگھوٹی پہنائی تھی۔" وہ ہاتھ میں پہنی انگھوٹی اسے دکھا کر یاد کروانے لگی۔
" مہربانی جو اس دن تم نے مجھ پہ یہ احسانِ عظیم کر دیا۔"وہ منہ بنا کر بولا۔
" اب روز روز تو کہنا اچھا نہیں لگتا نا۔" اس نے مزید کہا۔
" مطلب تمہیں میرا روز روز اظہار محبت کرنا پسند نہیں ۔"اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
" مجھے کرنا پسند نہیں لیکن آپ کا کہنا اچھا لگتا ہے۔"اس نے شرماتے ہوئے وضاحت دی۔
" کس قدر چالاک ہو تم۔" وہ ہنس کر بولا۔
" آپ کی صحبت کا اثر ہے۔"وہ شرارتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولی۔
" تم پر میری صحبت کے اور کون سے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ذرا ان پر تو روشنی ڈالو ۔"اس نے دلچسپی سے پوچھا۔
" مجھے یاد آیا میں نے تو ابھی جانا ہے۔آپ لوگ تو شام میں آئیں گے۔"وہ سر پہ ہاتھ مار کر بولی۔
" چلو جلدی سے تیاری کر لو۔میں پھر تمہیں چھوڑ آتا ہوں ۔" وہ مسکرا کر بولا۔
" کیا سوچا ہے تم نے۔"وہ گم صم بیٹھی زری کے پاس آتے ہوئے بولیں ۔
" کل سے فون کر رہی ہوں پر وہ اٹھا ہی نہیں رہا۔میں سوچ رہی ہوں خود ہی سسرال چلی جاؤں ۔وہاں پہ شاید وہ میری بات سن لے۔" زری نے کہا۔
" تمہارا دماغ ٹھیک ہے وہ پہلے ہی اس کو بھڑکاتے ہیں اور تم وہاں گئی تو انہوں نے اسے اور ہی آگ لگانی ہے۔" انہوں نے اسے روکا۔
" تو پھر اب کیا ہوگا۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرا رشتہ اس نہج پہ پہنچ جائے گا ۔وہ شادی سے پہلے میرے پیچھے پاگل تھا اور شادی کے بعد اس نے مجھے پاگل کر دیا۔"وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامتے ہوئے بولی۔
" زری جو میں نے کہا ہے اس پر عمل کرو۔اسی میں ہی تمہارا فائدہ ہے۔"وہ نرم لہجے میں بولیں۔ انہیں کسی طرح زری کو پاکستان لے کر جانا تھا۔
" وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔"زری نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
" یہاں رہی تو طلاق دے دے گا۔آگے تمہاری مرضی ۔" انہوں نے کہا۔
" اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔میں جانے کے لیے تیار ہوں ۔"وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی۔فلحال اس کا دور جانا ہی بہتر تھا ۔
" آگئی مہارانی صاحبہ۔" ابھی وہ گیٹ سے اندر داخل ہی ہوئی تھی کہ اس کے کانوں میں ناعمہ کی آواز پڑی۔
وہ سر جھکائے تخت پہ بیٹھی رفعت بیگم کے پاس آگئی۔
" شرم کر اتنی دیر سے آئی ہے۔" انہوں نے ماہم کے کندھے پہ زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
"وہ ارسلان مصروف تھے۔"اس نے کندھا سہلاتے ہوئے کہا۔
" دیکھ رہی ہو اماں کیسے ہواؤں میں اڑ رہی ہے۔بس چار دن کی چاندنی ہے۔" ناعمہ کھول کر بولی۔
"ارسلان کہہ رہے تھے وہ مجھ سے سچا پیار کرتے ہیں ۔وہ مجھے کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے۔"اس نے خوش ہو کر بتایا۔
" اوئی ماں تم نے ارسلان کو میرا نام بتا دیا۔" ناعمہ کا رنگ بدلا۔
" میں نے آپ کا نام نہیں لیا۔"وہ نفی میں سر ہلا کر خوفزدہ لہجے میں جھوٹ بول گئی۔
" ویسے ناعمہ سچ ہی کہہ رہی ہے۔تم دیکھنا بیگم سراج زری کو لے کر ہی آئیں گی۔پر تم یہاں آجاؤ گی۔" رفعت بیگم نے بھی اسے خوفزدہ کرنا چاہا۔
" ارسلان کہہ رہے تھے..... اس نے کہنا چاہا۔
" اچھا اب چپ ہوجا۔دکھا شاپر میں کیا ہے۔"ناعمہ نے اس کے ہاتھ سے شاپر چھینتے ہوئے کہا۔اسے بار بار ماہم کے منہ سے ارسلان کا اظہار محبت نہیں سننا تھا۔
" آئمہ کے لیے کچھ نہیں لائی۔"رفعت بیگم اسے گھور کر بولیں ۔
" وہ ارسلان لائیں گے۔" وہ مسکرا کر بولی۔
" تم تو صرف کپڑے لائی ہو۔جیولری نہیں ہے تمہارے پاس۔" ناعمہ نے پوچھا۔
" نہیں وہ بھی..... اس نے بولنا چاہا۔
" یہ انگھوٹی تو چیک کرا۔"ناعمہ اس کی بات کاٹ کر بولی اور ساتھ ہی کھینچ کر اس کی انگلی سے انگھوٹی نکال لی۔
" یہ سونے کی ہے اور اس پہ ہیرے لگے ہیں ۔"رفعت بیگم حیرت سے بولیں ۔
" نہیں یہ چاندنی کی ہے اور یہ اس کے اوپر نگ ہیں۔" ماہم نے اپنی طرف سے ان کی غلط فہمی دور کی۔واقعی ہی اسے نہیں پتا تھا کہ گولڈ وائٹ بھی ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ انگھوٹی پہ ہیرے لگے ہیں ۔
" اس پاگل کو کون اتنی مہنگی انگھوٹی لے کر دیتا ہے۔" ناعمہ نے منہ بنا کر اسے انگھوٹی واپس کی۔اس نے سوچا تھا اسے پوری ہوئی تو وہ لے لے گی۔
" جاؤ ملازمہ کے ساتھ مل کر صفائی کرواؤ۔" رفعت بیگم نے کہا۔
ماہم اثبات میں سر ہلاتی سٹور روم کی طرف بڑھ گئی۔وہاں پہ اس کا ایک ہی پرانا جوڑا پڑا تھا۔اس نے وہ پہنا اور کام میں لگ گئی۔تھوڑا سا کام کر کے ہی وہ تھک گئی کیونکہ اب اسے کام کرنے کی عادت نہیں رہی تھی۔جیسے تیسے کر کے اس نے کام نبٹا لیا. شام کو رفعت بیگم کی بہن بھی آگئی تو تب جا کر لگا کہ گھر میں کوئی فنکشن ہے۔
کام نبٹا کر وہ رفعت بیگم کے پاس آئی۔
" میں بھی اب تیار ہوجاؤں۔تمام لڑکیاں تیار ہورہی ہیں ۔" اس نے پوچھا۔
" تم نے کس خوشی میں تیار ہونا ہے۔" رفعت بیگم نے جواب دینے کے بجائے الٹا اس سے سوال پوچھا۔
" وہ منگنی جو ہے۔" وہ انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بولی۔
" سب لوگ منگنی پہ چلیں جائیں گے تو گھر خالی ہوجائے گا۔اسلیے تم گھر پہ رہو گی۔"رفعت بیگم نے کہا۔
ماہم نے حیرت اور صدمے سے انہیں دیکھا۔کچھ بھی کہے بغیر وہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔اس کی آنکھیں پانی سے لبریز تھیں ۔
زری کو کبھی ارسلان سے محبت نہیں تھی۔وہ اسے اچھا لگتا تھا ۔مما کی خواہش یہ تھی کہ اس کی شادی ارسلان سے ہو۔اسے بھی تب کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ارسلان اس کے پیچھے پاگل تھا اسے اور کیا چاہیے تھا۔
اس نے بھی مما کے کہنے پہ ہمیشہ ارسلان کو یہ ہی ظاہر کروایا کہ وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔دروان تعلیم ان کی شادی ہوگئی۔ارسلان نے حقیقتاً اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا تھا۔
پھر عنایہ اس کے ناچاہنے کے باوجود اس دنیا میں آگئی۔اسے عنایہ سے کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی تھی اور نہ ہی مما اور ارسلان نے کبھی عنایہ کے حوالے سے اسے فورس کیا تھا۔
ارسلان صحیح معنوں میں اس کا دیوانہ تھا۔شروع میں یہ چیز اسے بہت اچھی لگتی تھی لیکن پھر وہ بور ہوگئی۔اسے تو غصے والے اور اپنی کرنے والے مرد پسند تھے لیکن ارسلان تو بالکل بھی ویسا نہیں تھا ۔وہ دن کو رات کہتی تو ارسلان بھی رات ہی کہتا۔
جب وہ ارسلان کے دوست احسن سے ملی تو اسے احساس ہوا کہ احسن ہی اسکے آئیڈیل کے خاکے پہ پورا اترتا ہے۔دوسری طرف احسن کو بھی نٹ کھٹ سی زری اچھی لگی۔کچھ عرصہ افیئر چلانے کے بعد انہوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔
ارسلان عنایہ کو ہاتھ پکڑ کر گلی میں داخل ہوا۔ اس گلی میں سناٹا تھا ۔اسے حیرت ہوئی کیا منگنی ہوگئی تھی۔
" میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ ہم لیٹ ہوگئے ہیں." عنایہ روہانسی ہوئی۔
" ایک تو تمہاری مما موبائل بھی گھر چھوڑ کر گئی ہے۔" وہ جھلا کر بولا۔
گیٹ کے پاس آ کر اس نے گیٹ بجایا تو ماہم نے ہی گیٹ کھولا۔
" منگنی ختم ہوگئی یا شروع ہی نہیں ہوئی۔" وہ ماہم کو پرانے کپڑے ڈالے دیکھ کر بولا۔
" آپ نے پچھلی گلی میں ٹینٹ لگے دیکھیں ہوں گے۔منگنی وہاں ہورہی ہے۔"وہ عنایہ کے سر پہ پیار کرتے ہوئے بولی۔
" فنکشن شروع ہوگیا اور تم تیار ہی نہیں ہوئی۔میں تمہارا زیور لے آیا ہوں تم تیار ہوجاؤ ۔ساتھ ہی چلتے ہیں ۔" اس نے کہا۔
" آپ لوگ چلے جائیں ۔میں تو نہیں جاؤں گی۔" وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
" کیوں؟ "وہ حیرت سے بولا۔
" وہ اماں نے کہا ہے کہ میں گھر کی حفاظت کے لیے یہاں ہی رہوں ۔آپ لوگ چلے جائیں۔"اس نے سادگی سے کہا۔
" واٹ تمہارے گھر والوں کا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔" اس کا دماغ گھوما تھا۔
تب ہی ناعمہ اپنی خالہ ذاد کے ساتھ کسی کام سے گھر میں داخل ہوئی ۔ارسلان کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئی ۔
ارسلان بھی اسے دیکھ چکا تھا۔
" سمجھے کیا ہو تم لوگ خود کو۔میری بیوی تم لوگوں کی ملازمہ ہے جو تم لوگ اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو۔شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تم لوگوں کو ۔پیسے بھی اس سے لیے اور اب اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو۔" وہ دہاڑا۔
ماہم نے خوفزدہ نظروں نے ارسلان کو دیکھا۔جبکہ ناعمہ کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا۔
" آیندہ اگر تم لوگ ہمارے گھر آئے یا میری بیوی کو بلایا تو تم لوگوں کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔تم لوگ تو اس قابل ہی نہیں کہ تم لوگوں کی مدد کی جائے۔کل مجھے میرے پیسے واپس چاہیئے ۔" وہ غصے سے بولا۔ایسے لوگوں کے ساتھ یہ ہی کرنا چاہیے۔
ناعمہ کی خالہ ذاد نے مزے لے لے کر یہ سین دیکھا ۔ابھی تو اسے یہ خبر پورے خاندان میں نشر کرنی تھی۔
" چلو۔ "وہ ماہم کا ہاتھ پکڑ کر بولا ۔
وہ بہت غصے میں ڈرائیو کر رہا تھا۔ماہم نے ایک دو دفعہ اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن ارسلان نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ان دونوں کو گیٹ پہ اتار کر وہ کہیں چلا گیا۔
ماہم بجھے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔اس نے عنایہ کو کھانا کھلا کر سلا دیا۔خود اس کی بھوک اڑ چکی تھی۔ اسے سمجھ نہ آئی کہ ارسلان اس سے کیوں ناراض ہیں ۔
وہ جگ بھرنے نیچے آئی تھی تب ہی بیگم سراج اور زری لاؤنج میں داخل ہوئیں ۔
زری کو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہوا۔ ناعمہ کی بات سچ ثابت ہوچکی تھی۔ کیا یہ واقعی ہی اس کے اس گھر میں تھوڑے دن رہ گئے تھے؟
دوسری طرف زری اس کے حلیے کے باعث اسے ملازمہ سمجھ رہی تھی۔ بیگم سراج نے بھی تعارف کرانا ضروری نہیں سمجھا۔اور زری کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔