اس کی زندگی بچپن سے لے کر اب تک عجیب نہیں بلکہ تکلیف دہ رہی تھی۔وہ جس گھر میں بچپن سے اب تک رہتی آئی ہے اس گھر کے کسی فرد نے اسے اس گھر کا فرد تو کیا انسان کا درجہ تک نہ دیا تھا۔وہ اس گھر کی بیٹی تھی چاہے سوتیلی ہی سہی پر بیٹی تو تھی۔پر سوتیلی ماں سے لے کر بہن بھائیوں تک نے اسے اتنے سال گزرنے کے بعد گھر کے فرد کے طور قبول نہیں کیا تھا۔کیا کیا نا جتن کیے تھے اس نے کہ گھر والے اسے فرد نہیں کم از کم انسان ہی سمجھ لیں ۔لیکن وہ ہمیشہ کی طرح ناکام رہی تھی۔گھر کے افراد کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اس نے لوگوں کے گھروں میں کام کیا تھا۔کتنی ذلالت جھیلی تھی اور آج تک جھیل رہی تھی پر پھر بھی کسی کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں تھی۔
وہ ماہم شبیر تھی۔اس کے ابا شبیر احمد نے اس کی ماں سے پسند کی دوسری شادی کی تھی ۔اس کی سوتیلی ماں رفعت نے بہت شور مچایا لیکن ابا نے ان کی ایک نہ سنی۔پہلی بیوی سے ابا کا ایک بیٹا فہد، بیٹی ناعمہ اور آئمہ تھیں ۔تینوں کے تینوں نالائق اور ہڈحرام۔نہ رفعت بیگم نے شبیر احمد کو سکون کا سانس لینے دیا نہ ان کی اولاد نے۔
اور شاید ابا کے نصیب میں سکون تھا بھی نہیں۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد اس کی اماں اس کی پیدائش پہ چل بسیں ۔یوں وہ رفعت بیگم کے زیر سایہ پلنے لگی۔جنہوں نے پرورش کم کی اور طعنے زیادہ دیئے۔
وہ تو ابا کو بھی برملا کہتی کہ "ان کی دوسری بیوی کو مجھ مظلوم کی آہ لگ گئی۔"
" نی ماہم اندر بیٹھی کون سا پاکستان بنا رہی ہے۔"رفعت بیگم کی پاٹ دار آواز پہ وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی۔
" جی اماں۔"وہ بوتل کی جن کہ طرح حاضر ہوئی تھی۔
" کمبخت ماری کام پہ نہیں جانا کیا۔"وہ اسے کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے بولیں ۔
" اماں بس جارہی تھی۔" ماہم شرمندگی سے بولی۔ایک تو اس کے اندر ہر وقت سوچوں کا جہاں آباد رہتا تھا۔
" میری بات سن تیری کسی غلطی کی وجہ سے تجھے کام سے نکال دیا گیا تو میں نے تیری چوٹی کاٹ دینی ہے۔"وہ سخت لہجے میں بولیں ۔
" نہیں نہیں اماں میرے بال مت کاٹنا۔میں بڑی بری لگو گی۔"ماہم ایک دم سے ان کے پیروں کے پاس بیٹھ کر منت کرنے لگی۔
" ویسے تو تُو بڑی حور پری ہے۔"وہ اسے ایک لات رسید کرتے ہوئے بولیں ۔وہ پیچھے جا گری۔
" اماں ایسا مت کرنا۔" اٹھتے ہوئے اس نے دوبارہ سے منت کی۔
" نی پراں مر۔جا کام پر۔"وہ اسے اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں ۔
" آپ میرے بال نہیں کاٹیں گی نا۔" اس نے تصدیق چاہی۔
" اگر تو اسی طرح کھڑی رہی تو ابھی کے ابھی تیری چوٹی کاٹ دوں گی۔" انہوں نے دھمکی دی۔وہ فوراً سے سر پہ پیر رکھ کر بھاگی۔
" واہ شبیر احمد ایسی پاگل اولاد پیدا کرنے کے لیے تم نے دوسری شادی کی تھی۔" وہ تصور میں شبیر احمد سے مخاطب ہوئیں ۔
جب تک ابا زندہ تھے وہ سکول جاتی رہی۔گو کہ وہ بھی کوئی ذہین فطین نہیں تھی۔لیکن پاس ہوجاتی تھی۔اور ابا اس بات پہ خوش کہ ان کی چاروں اولادوں میں کوئی تو پاس ہوتی ہے۔وہ میٹرک میں تھی جب ابا کا انتقال ہوگیا۔اس کی منتیں ترلے کرنے کے باوجود رفعت بیگم نے اسے سکول سے ہٹا لیا تھا اور کسی کے گھر کام پہ لگا دیا تھا۔پچھلے پانچ سالوں سے وہ لوگوں کے گھر کام کر رہی تھی۔وہ پہلے دو گھروں میں کام کرتی تھی اور ساتھ میں گھر کا کام بھی ۔پھر جب تین مہینے پہلے اس نے بیگم سراج کے گھر کام شروع کیا تو انہوں نے اسے زیادہ تنخواہ دے کر پورے دن کے لیے اپنے کام گھر پہ رکھ دیا۔
وہ لکڑی کا خوبصورت بڑا گیٹ عبور کر کے اندر داخل ہوئی تو بیگم سراج کی چھ سالہ پوتی عنایہ اسے سامنے لان میں خرگوشوں کے پیچھے بھاگتی نظر آئی۔
" کیا ہورہا ہے۔" وہ مسکراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔اسے بچے بہت پسند تھے اور یہ تو بہت ہی پیاری تھی۔گھنگھریالے براؤن بال، سفید رنگت اور گرے آنکھیں ۔ہوبہو چھوٹے صاحب کی طرح ۔
" تم کتنی دیر سے آئی ہو۔میں کب سے تمہارا انتظار کررہی تھی۔" عنایہ پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بولی۔
" کیا کروں گھر میں کام تھا۔آپ آج سکول نہیں گئی ۔" وہ مسکرا کر بولی۔
" پاپا نے بولا ہے اب اس سکول میں نہیں پڑھنا۔" عنایہ منہ پھلا کر بولی۔
" کیوں؟" اس کے منہ سے بےساختہ نکلا پھر اسے یاد آیا وہ تو ملازمہ ہے۔اور اگر اس "کیوں" کا بیگم سراج یا چھوٹے صاحب کو پتا چل گیا تھا اس کی خیر نہیں تھی۔
" کل ٹیچر نے مجھے ڈانٹا تھا اور میں نے پاپا کو بتا دیا۔"عنایہ کا منہ پھولا ہوا تھا۔لگتا تھا اسے باپ کا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔
" اوہ اچھا۔آپ کے لیے کچھ لاؤں ۔" اس نے اندر جانے سے پہلے پوچھا۔ویسے تو وہ ایک اور ملازمہ کے ساتھ مل کر گھر کی صفائی کرتی تھی۔لیکن عنایا کے آئے دن سکول بدلنے کے چکر میں زیادہ تر گھر ہونے کی وجہ سے بیگم سراج نے اس پر عنایہ کی ہر طرح کی ذمہ داری ڈال دی تھی۔
" ابھی پاپا کے ساتھ بریک فاسٹ کیا ہے۔تم جلدی سے کام کرو پھر میرے ساتھ کھیلنا۔" عنایہ نے کہا۔
" جی اچھا۔" وہ سر ہلا کر بولی اور اندر کی طرف بڑھ گئی۔
ابھی وہ لاؤنج کے دروازے پہ پہنچی ہی تھی کہ سامنے سے آتے چھوٹے صاحب ارسلان کو دیکھ کر گھبرا کر پیچھے ہوئی۔اس نے ارسلان کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ بہت گرم مزاج کا ہے۔پر ابھی تک اسے اس سے بےعزت ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔
"السلام علیکم صاحب ۔" وہ سائیڈ پہ کھڑے ہو کر بولی۔
" وعلیکم السلام ۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولتا ایک نظر اس گہری نیلی آنکھوں والی لڑکی پہ ڈالتا اپنی بیٹی کی طرف بڑھا۔
ابھی وہ لاؤنج سے اندر داخل ہی ہوئی تھی کہ اسے ارسلان کی پکار سنائی دی۔وہ ایک دم گھبرا گئی کہیں عنایہ نے تو کچھ نہیں کہہ دیا۔
" جج جی۔" وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔
" عنایہ کہہ رہی ہے کہ اسے ساتھ والوں کے بچوں سے کھیلنے ان کے گھر جانا ہے۔تم اس کے ساتھ جانا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی رہنا ۔یہ نہ ہو کہ یہ اندر کہیں کھیلتی رہے اور تم باہر بیٹھی رہو ۔" وہ سخت لہجے میں تاکید کرتے ہوئے بولا۔
" جی صاحب ۔" اس نے اثبات میں سر ہلایا۔اور سوچا کہ پہلے تو عنایہ اس کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی اور سب پڑوس میں ۔
اسلان نے اسے آنکھوں سے جانے کا اشارہ کیا۔پھر اسے سمجھ نہیں آیا۔
" پاپا میں سکول کب جاؤں گی۔" عنایہ نے پوچھا۔
" جاؤ بھی اب۔" ارسلان نے ماہم کو جما دیکھ کر جھنجھلا کہا۔
وہ شرمندہ شرمندہ سی وہاں سے ہٹ گئی۔پتا نہیں جب تک کوئی منہ سے اسے کوئی حکم نہیں دیتا تھا وہ اس حکم پہ عمل کرنے پہ تامل رہتی تھی۔سکول میں بھی جب تک کوئی اسے اچھے سے سمجھا نہ دیتا وہ کنفیوز ہی رہتی۔
" میں اچھا سا سکول دیکھ رہا ہوں ۔پھر بتانا ہوں۔" وہ عنایہ کے سر پہ پیار کرتے ہوئے بولا۔اور پورچ میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھا۔
عنایہ منہ بناتی اندر چلی گئی۔نئے سکول میں اسے نئے سرے سے دوستیں بنانا پڑیں گی۔
شام کا ملجا اندھیرا پھیل چکا تھا جب اس نے اپنی گلی میں قدم رکھا۔رکشے والا اسے پچھلے گلی میں ہی اتار دیتا تھا۔رفعت بیگم کبھی بھی اسے رکشے میں آنے جانے نہ دیتیں ۔اگر انہیں یہ خوف نہ ہوتا کہ پچھلی نوکری میں سے اسے لیٹ آنے کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔
" آ گئی مہارانی صاحبہ۔" صحن میں پڑے تخت پہ بیٹھی ناعمہ اسے دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولی۔
" آج کیا بنانا ہے۔" وہ چادر اتارتے ہوئے آہستگی سے بولی۔سر درد سے پھٹ رہا تھا پر اسے آرام کرنے کی فرصت نہ تھی۔
" کریلے آلو ۔" ناعمہ موبائل اٹھاتے ہوئے بولی۔
" ایک تو یہ کریلے اتنے کڑوے کیوں ہوتے ہیں ۔" اس نے کریلے چھلیتے ہوئے سوچا۔
" بالکل امی کی طرح یا پھر چھوٹے صاحب کی طرح۔" اگلی سوچ ذہن میں آئی تھی۔
" توبہ توبہ اگر امی یا چھوٹے صاحب کو پتا چل گیا کہ میں ان کو کریلوں سے ملا رہی ہوں تو انہوں نے میرا بھرتا بنا دینا ہے۔"اس نے فوراً سے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا۔
"جلدی جلدی ہاتھ چلاؤں کھانے کو دیر ہوئی تو فہد بھائی بہت ناراض ہوں گے۔" اس نے سپیڈ تیز کی۔تینوں بہن بھائی اس سے بڑے تھے۔
" بیگم سراج تنخواہ کب دیں گی۔" وہ ایک کھانا لگا کر ابھی فارغ ہوئی تھی جب فہد نے پوچھا۔
" پتا نہیں ۔" اس نے کہا۔
" کیا مطلب پتا نہیں ۔کیا تم تنخواہ نہیں لیتی۔" فہد اسے گھور کر بولا۔
" تنخواہ تو امی لیتی ہیں ۔" ماہم نے سچ بولا۔
" اور تمہاری تنخواہ کتنی ہے۔"فہد نے اگلا سوال داغا۔
" یہ تو امی کو پتا ہوگا۔" وہ سادگی سے بولی ۔
" بڑی تیز ہے میری ماں۔" فہد رفعت بیگم کو چٹائی پہ بیٹھتا دیکھ کر بڑبڑایا۔
اس نے فہد کو حیرت سے دیکھا جو اپنی ماں کے بارے میں کیا کچھ کہتا رہتا تھا۔
" ہاتھ ذرا جلدی چلایا کر ۔روٹی کھاتے کھاتے دس بج جاتے ہیں۔ "وہ ایک پلیٹ میں تھوڑا سا سالن اور روٹی اس کی طرف بڑھا کر بولیں ۔وہ ایک طرف ان کے ساتھ ہی چٹائی میں بیٹھی تھی۔وہ سوچتی تھی کہ اتنے بھی برے نہیں اسے ساتھ بٹھا کر کھلا تو لیتے ہیں ۔
" ویسے تم تو ادھر روز نئی نئی ڈشیں کھاتی ہوگی۔" آئمہ نے کہا۔
" وہاں پہ دن کے وقت دو ڈشیں بنتی ہیں ۔پھر بیگم صاحبہ ہمیں بھی دیتی ہیں ۔" اس نے خوشی خوشی بتایا۔
" گوشت بھی بنتا ہوگا۔"ناعمہ جلی۔
" ہاں گوشت تو روز کسی نہ کسی چیز میں ہوتا ہے۔" اس نے پرجوش ہو کر بتایا۔ گھر کے افراد اسے کام کے علاوہ کم کم ہی مخاطب کرتے تھے۔اور جب کرتے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ ہوتی ۔
" تو کمبخت ماری ہمارے لیے بھی لے آیا کر۔" رفعت بیگم اسے گھور کر بولیں ۔وہ پاس بیٹھی ہوتی تو ایک آدھ لگا ہی دیتیں ۔
" میں کیسے لا سکتی ہوں۔وہ تو ان کا گھر ہے۔" وہ حیرت سے بولی ۔
" مانگ کر۔ان سے کہنا کہ جو سالن بچ جائے تجھے دے دیا کریں ۔" رفعت بیگم نے کہا۔
" میں ان سے سالن مانگو۔"وہ گہری نیلی آنکھوں کو پورا کھول کر بولی۔
" نہ تُو اوپر سے گری ہے جو مانگتے ہوئے تجھے شرم آئے گی۔" رفعت بیگم نے اسے لتاڑا۔
" اماں مجھے پیسے دے ۔مجھ سے نہیں کھائے جاتے یہ کڑوے کریلے۔"کب سے خاموش بیٹھا فہد بولا۔
" سچ اماں کڑاہی منگواتے ہیں ۔روز سبزی دال کھا کھا کر دل اوب گیا ہے۔" ناعمہ نے فوراً سے کہا۔
" تمہارے باپ ورثے میں اس نمونے کو چھوڑ کر گیا ہے کوئی جائیداد نہیں جو میں تم سب کی خواہشیں پوری کرتی پھروں ۔" رفعت بیگم تیز لہجے میں بولیں ۔
ماہم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
" ان سب کو چھوڑ ۔نکال ہزار کا نوٹ۔"فہد کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
" ایک ٹیڈی بھی نہیں ہے میرے پاس۔"رفعت بیگم نے صاف انکار کیا۔
" خدا کا خوف کر اماں ۔اس کی ساری کمائی بھی تیرے پاس ہی جاتی ہے اور دکانوں کے کرایے پہ بھی توں سانپ بن کر بیٹھی ہے۔قبر میں لے کر جانا ہے سب۔" فہد تیز لہجے میں بولا۔
" کچھ شرم کر، کچھ حیا کر۔ماں ہوں میں تیری۔یہ جو پائی پائی جوڑ رہی ہوں تم لوگوں کے مستقبل کے لیے ہی جوڑ رہی ہوں ۔"رفعت بیگم نے اسے شرم دلانی چاہی۔
" میرے لیے تُو کچھ نہیں جوڑ رہی۔ان دو بھینسوں کے جہیز کے لیے جوڑ رہی ہے۔یقین کر ان پھوہڑ لڑکیوں کے رشتے نہیں آنے۔"وہ ناعمہ اور آئمہ کی طرف اشارہ کر کے بولا۔جو اچھی خاصی موٹی تھیں ۔
" اماں۔"دونوں نے احتجاج بلند کیا۔
ماہم جلدی جلدی نوالے ڈال رہی تھی کیونکہ اسے پتا تھا فہد کا غصہ بھی اس پہ نکلنے والا ہے ۔پھر کوئی پتا نہیں اسے کھانا ملتا ہے یا نہیں ۔
آخر دس منٹ کی مزید بحث و تکرار کے بعد رفعت بیگم نے فہد کو پانچ سو کا نوٹ پکڑا دیا۔جس پہ دونوں لڑکیوں نے خاصا شور مچایا۔پر انہیں پھر بھی کریلے آلو ہی کھانے پڑے۔دونوں یہ سوچ سوچ کر جل رہیں تھیں کہ ماہم تو روز گوشت کھاتی ہے۔
جبکہ ماہم سوچ رہی تھی کہ شکر ہے ابا ترکے میں شہر کے اچھے علاقے میں دو دکانیں چھوڑ گئے تھے ۔جن سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔ورنہ اسے تو رفعت بیگم پورا دن پوری رات کام پہ لگوا دیتیں ۔
لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا کرنے والی ہے۔
" پھر کیا سوچا ہے تم نے۔" بیگم سراج نے رات کے کھانے پہ ارسلان سے پوچھا۔
" کس بارے میں ۔" اس نے کہا۔خود کھانے کے ساتھ ساتھ عنایہ کے منہ پہ بھی نوالے ڈال رہا تھا۔
" اچھی بھلی بچی خود کھانا کھاتی تھی ۔تم نے اس کی عادت بگاڑ دی۔" وہ چڑ کر بولیں ۔
" اپنی ماں کے چھوڑ جانے کے بعد یہ بہت حساس ہوگئی ہے۔اس لیے میں اس کے اتنے لاڈ اٹھاتا ہوں ۔"اس بے وضاحت کی۔
" اس کے سکول کا کیا ہوگا۔؟ تین مہینوں میں تم چھ سکول بدل چکے ہو۔" وہ اصل بات کی طرف آئیں ۔
" اس میں میری تو کوئی غلطی نہیں ہے۔سکول والے میری بیٹی کو کیوں ڈانٹتے ہیں ۔" اس نے کہا۔
" اب سکول والے ڈانٹیں بھی نہیں ۔"
"نہیں ۔"
" اوہ میرے خدایا۔پتا نہیں زری کے جانے کے بعد تمہیں کیا ہوگیا ہے۔تم اس سے غافل ہی اچھے تھے۔کم از کم یہ سکون سے پڑھ تو لیتی تھی۔"وہ سر تھام کر بولیں ۔
" آپ مجھے ماضی یاد دلا کر شرمندہ مت کریں ۔پتا نہیں میں کیسا باپ تھا جو اپنی بیٹی سے غافل رہا ۔"وہ عنایہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
" اچھی بات ہے کہ تمہیں عنایہ کا خیال ہے۔پر اس کے مستقبل کا تو سوچو۔اس کا پورا سال ضائع ہوجائے گا۔"انہوں نے سمجھانا چاہا۔
" میرا دوست مزمل سکول کھول رہا ہے۔عنایا ادھر ہی پڑے گی۔"اس نے بتایا۔
" اور اس کا سال جو ضائع ہوگا اس کا کیا؟" انہوں نے پوچھا۔
" میں نے ٹیوٹر کا بندوبست کرلیا ہے۔مزمل کے سکول والے اس کا ٹیسٹ لے کر اسے اگلی کلاس میں بیٹھا دیں گے۔" وہ سارا پلان بنائے بیٹھا تھا۔
بیگم سراج نے افسوس سے ارسلان کو دیکھا۔جو بیوی کے جانے کے بعد عجیب ہوگیا تھا ۔
کبھی کبھی وہ سوچتی تھی کہ کاش وہ اماں یا پھر ابا کے ساتھ ہی مر گئی ہوتی تو اسے ہر جگہ ذلت نہ سہنی پڑتی۔صبح صبح اماں نے ایک معمولی سی بات پہ اسے زوردار تھپڑ دے مارا تھا۔پھر گلی میں بنی دکان کا مالک ظفر جو اسے ایسی نظروں سے دیکھتا تھا کہ اسے خوف محسوس ہوتا تھا پر وہ یہ بات کسی کو بتا نہیں سکتی تھی۔
رکشا بنگلے کے پاس رکا تو وہ خیالات سے جاگی۔گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے ایک نظر سامنے بنی اس پرشکوہ عمارت پہ ڈالی۔وہ ہمیشہ سوچتی تھی اس گھر کے مکین کتنے خوش قسمت ہیں جو اتنے بڑے گھر میں رہتے ہیں ۔اس کا دل چاہتا کہ اس کا بھی ایسے بڑا سا گھر ہو۔لیکن وہ تو غریب تھی ۔بھلا وہ کیسے اتنا بڑا گھر بنا سکتی تھی۔
" آج تم نے میرے لیے سپیگٹی بنانی ہے۔" عنایہ کی آواز نے اسے خیالات سے نکالا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
اپنا کام نپٹانے کے بعد اس نے سپیگٹی بنائی اور عنایہ کے کمرے میں آ گئی۔
" تم اتنے مزے کا کھانا بناتی ہو۔رات میں بھی ادھر ہی رہ جایا کرو۔مجھے ہمارے کک کا کھانا بالکل اچھا نہیں لگتا۔"عنایہ مزے سے سپیگٹی کھاتے ہوئے بولی۔
" نہیں رات میں تو نہیں رک سکتی۔کام ہوتا ہے۔" وہ مسکرا کر بولی۔عنایہ کے اثرار پہ وہ اس کے ساتھ صوفے پہ ہی بیٹھتی تھی۔
" افف تمہارے کتنے کام ہوتے ہیں ۔جو بھی بات کہو تو کہتی ہو کام ہوتے ہیں ۔"عنایہ جھنجھلا کر بولی ۔
" سچ میں کام ہوتے ہیں۔گھر کا سارا کام کرنا ہوتا ہے اور رات میں کھانا بھی بنانا ہوتا ہے۔" اس نے یقین دلانا چاہا۔
" پاپا کہہ رہے تھے کہ آئندہ مجھے ٹیوٹر پڑھانے آئے گا۔میں تو گھر رہ رہ کر بور ہوگئ ہوں ۔" عنایہ نے منہ بنایا۔
" آپ کیوں بور ہوتی ہیں ۔آپ کے پاس تو سب کچھ ہے۔"وہ حیرت سے بولی۔
" مطلب۔" بچی کو بات سمجھ نہ آئی تھی۔
" مطلب یہ کہ..... وہ سمجھانے کے لیے الفاظ ڈھونڈنے لگی۔
" عنایہ میں.... تب ہی ارسلان اندر داخل ہوا۔
ماہم گھبرا کر صوفے سے اٹھی ۔ایک دم اس کا پاؤں رپٹا نتیجتاً وہ دھڑام سے نیچے جا گری۔
عنایہ ہنسنا شروع ہوگئی۔ارسلان نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
وہ شرمندہ ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
" مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تمہارے اس ہونق پن کے باوجود مما نے تمہیں کیسے عنایہ کی ذمہ داری دے دی۔" وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
" قسم لے لیں چھوٹے صاحب۔میں بےبی کا بہت اچھے سے خیال رکھتی ہوں ۔" پاؤں سے اٹھتی درد کی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
" اب مجھے کیا پتا میں کون سا پاس ہوتا ہوں ۔"وہ سنجیدہ ہوا ۔بیٹی کے معاملے میں وہ بہت حساس ہوگیا تھا۔
" صاحب جی آپ بےشک بڑی بیگم صاحبہ سے پوچھ لیں ۔"وہ رونے والی ہوگئی۔
" وہ کونسا چوبیس گھنٹے تمہارے ساتھ ہوتی ہیں ۔وہ مزید سنجیدہ ہوا.
" اچھا پھر بےبی سے پوچھ لیں ۔" اس نے اگلا مشورہ دیا۔
" اس بچی کو کیا پتا۔"اس نے یہ بات بھی رد کی۔
" پھر آپ بتائیں کے میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں ۔" آنسو بس نکلنے کو تیار تھے۔
" میں مما سے بات کرتا ہوں وہ عنایہ کے کیے کسی اور لڑکی کا بندوبست کریں ۔" اس نے اپنا فیصلہ سنایا۔
" صاحب جی مجھے نوکری سے نہ نکالیں ۔ورنہ اماں نے میری چوٹی کاٹ دینی ہے۔اور بنا چوٹی کی میں پر کٹی کبوتری لگو گی۔"آنسو بہنا شروع ہوگئے تھے۔
" واٹ۔" ارسلان نے حیرت سے اس نیلی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھا۔جس کی آنکھیں اس وقت سمندر جیسی لگ رہیں تھی۔
" جی میں جھوٹ نہیں بول رہی۔آپ کو لگتا ہے میں بےبی کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھتی ۔آپ بےشک خود کسی دن چھپ کر دیکھ لیں ۔پر مجھے نوکری سے نہیں نکالنا۔اماں نے سچ میں میرے بال کاٹ دینے ہیں ۔پچھلی دفعہ بھی جب انہوں نے کاٹے تھے تو بڑی مشکل سے بڑے ہوئے تھے۔" وہ سوں سوں کررے ہوئے بولی۔
ارسلان نے جانچتی نظروں سے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔جس کے چہرے پہ معصومیت اور لہجے میں سچائی تھی۔
" اوکے۔"اس نے کہا۔
" صاحب جی آپ مجھے نوکری سے تو نہیں نکالیں گے نا۔"اس نے تصدیق کرنی چاہی۔
" نہیں نکالوں گا لیکن میری نظر تم پر ہے۔جہاں کہیں مجھے تمہاری کوتاہی نظر آئی ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گا نکالنے میں ۔" اس نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
" صاحب جی آپ تو کریلے کی طرح نہیں بلکہ شہد کی طرح ہیں ۔"وہ آنسو صاف کرتی خوش ہو کر بولی۔
"واٹ۔" ارسلان کو اس کی مثال سمجھ نہیں آئی تھی۔
" کک کچھ نہیں ۔"وہ گھبرا کر بولی۔
ارسلان کے جانے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا۔آج تو اپنی زبان کی وجہ سے اس کی نوکری جاتے جاتے بچی تھی۔