"خدا کا واسطہ ہے باباجان ، میرے آگے ہاتھ جوڑ کر مجھے گناہ گار نہ کریں ۔۔۔ بیٹیوں کے آگے باپ ہاتھ جوڑا نہیں کرتے ۔۔۔
انشاء نے تڑپ کر کہا ۔۔۔
"تو انشاء میری بات مان جاؤ ، کل نکاح کے لیۓ راضی ہوجاؤ ۔۔۔
انشاء نے انکے جڑے ہاتھوں کو کھولا اور ان پر اپنا سر رکھا اور کہا ۔۔۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں باباجان ، جیسا اپ چاہیں گے ، ویسا ہی ہوگا ۔۔۔
اس کی سسکیوں نے ان کو بہت تڑپایا ۔۔۔
"انشاء وعدہ کرو اب روو گی نہیں ، تمہاری انکھوں میں ایک بھی آنسو مجھ سے برداش نہیں ہوتا ۔۔ انہوں نے التجا کی۔۔۔
"بس بابا جان اج کی رات مجھے رونے دیں ، مجھے میرے ایمان کے لیۓ رونے دیں ، بس اج کی ایک رات ۔۔۔ اس سے اگے کے لفظ نہ وہ کہے سکی نہ وہ سننے کی ہمت ان میں تھی ۔۔
وہ اپنے انسو پونچھ کر جانے لگے اسی وقت انشاء کے لفظوں نے ان کے قدم روکے ۔۔۔
"پلیز بابا جان ایک التجا ہے اپ سے ۔۔۔
"ہاں کہو ۔۔۔
"آج کی رات مجھے تنہائی میسر کردیں ، اج کی رات مجھے میرے ایمان کی سب یادوں کو اپنے اندر بسانا ہے اور ان کو اپنے دل کے قبرستان میں دفن کرنا ہے تاکہ ان کی راکھ میری انے والی زندگی میں نہ رہے ۔۔۔
انشاء کے لفظوں نے نا صرف باباجان کو تکلیف دی پر باہر کھڑے عیان کے دل کو بھی تکلیف دی ۔۔۔
"تم دروازہ لوک کرکے ارام کرو ، میں باہر حویلی والوں کو سنبھال لوں گا ۔۔۔
باباجان اتنا کہے کر کمرے سے باہر چلے گۓ اور عیاں جلدی سے وہاں سے ہٹ گیا ۔۔۔
اج حیدرشاہ کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا نہ کوئی تسلی نہ کوئی تلقین انشاء کے لیۓ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کوئی بھی لفظ انشاء کے درد کا مداوا نہیں کرسکتا ۔۔۔
کبھی کبھی کچھ کہنا اور سننا رائیگان جاتا ہے اس لیۓ حیدرشاہ نے کچھ نہ کہا انشاء سے ، کہتے بھی تو کیا کہتے اس کی محبت اس کا شوہر اس کے نام کا بھی احساس اس سے چھین جو رہے تھے ۔۔۔ایمان کیا تھا اور وہ کیا تھی ایمان کے لیۓ کسی سے کچھ چھپا تو نہ تھا ۔۔۔
اج انشاء کو سب اس کے دشمن لگ رہے تھے اور ظالم بھی لگ رہے تھے پر اسے احساس نہ تھا اس کے لیۓ وہ کیا کررہے ہیں ۔۔
@@@@@@@
اگلی صبح گھر میں گہماگہمی کا عالم تھا ۔۔۔ حویلی والے سب تھے اس کے علاوہ عمر اور وحید صاحب کی فیملی اور کچھ پڑوسی گھر کے افراد کیونکہ اج عیان اور انشاء کا نکاح تھا ۔۔۔
بی جان کا دیا لباس ہی انشاء کو پہننا تھا اور اس کے علاوہ کچھ زیورات مسز وحید لائیں تھیں حیدر شاہ کے کہنے پر ۔۔ مغرب کے بعد نکاح کی رسم تھی ۔۔
"ماما دیکھا پاپا کو میرا احساس نہیں جو عیان کے لیۓ اس گنوار کو بیوی بنانے کا مشورہ دیا ۔۔۔ دیکھا انکل حیدر خود کتنے فخریہ لہجے میں اپ کو بتارہے تھے ۔ چینا نے دکھ سے کہا ۔۔۔ جب سے اس نے عیان کی شادی کا سنا تھا کل رات سے رورہی تھی ۔۔۔ اج بھی بڑی مشکل سے اسے سمجھا کر لائیں تھیں کیونکہ گہرے تعلقات تھے دونوں گھروں میں اس لیۓ کوئی بدمزگی نہ ہو اس لیۓ مسز وحید اسے سمجھا بجھا کر لائیں تھیں ۔۔۔
مسز وحید کا دل چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے اپنی بیٹی کی ایسی بیوقوفی پر ۔۔۔
"اپنی بکواس بند کرو کل سے تمہارا ماتم سن کر مجھے یقین نہیں آرہا کہ میری بیٹی آکسفورڈ یونی سے پڑھی ہوئی ہے ۔۔۔ تمہارے بابا نے جو سہی سمجھا وہ کیا اور مجھے اپنے شوہر کا ہر بات میں ساتھ دینا ہے سمجھی ۔۔۔ وہ غصے سے کہے کر چلیں گئیں ۔۔۔ وہ اب بھی اکیلی سائیڈ میں کھڑی تھی ۔۔۔
چینا نے منہ بسورا اسی وقت اس کی بہن مینا نے اس کا کاندھا تھپتھپایا اور کہا ۔۔۔
"ویسے بھی آپی ۔۔۔ عیان بھائی نے اپ کو کوئی امید نہیں دی جو اتنا رونا دھونا مچایا ہوا ہے اپ نے ۔۔۔ اپ کی اطلاع کے لیۓ بتادوں عیان بھائی کی شادی کا سوگ ایک اپ نہیں، شہر کی کئیں اور خوبصورت لڑکیاں منا رہیں ہیں اور اس یوسف ثانی کو پتا ہی نہیں لڑکیوں نے اپنا کیا حال بنایا ہوا اس خبر پر ۔۔۔
چینا اور مینا ان کے نک نیمز تھے اصل نام نتاشہ اور مناہل تھے ۔۔۔
" تم افسوس کر رہی ہوں یا میرے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہو ، صرف اتنا بتادو ۔۔ چینا نے ہوچھا ۔۔۔
" یہ باتیں چھوڑیں فی الحال انشاء بھابھی کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔ مینا نے بات کو بدل کر اپنی بڑی بہن کا خیال دوسری طرف کروایا ۔۔۔
"بھابھی ہوگی تمہاری ، میری نہیں ۔۔۔ چینا نے چڑ کر کہا ۔۔۔
@@@@@@
اندر تو قیامت برپا تھی پر بظاہر پرسکون کھڑی انشاء نے خود کو حالات پر چھوڑ دیا ۔۔۔ اس وقت وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہ تھی ۔۔۔
نازیہ نے بی جان کا دیا جوڑا سامنے رکھا جو کافی ہیوی تھا جو انشاء جیسی نازک لڑکی کے لیۓ پہننا مشکل تھا بہت بھاری ورک تھا چولی اور شرارے پر اور دوپٹا تو بہت ہی زیادہ بھاری تھا ۔۔۔
"اتنا بھاری جوڑا نازیہ بھابھی مجھ سے نہیں پہنا جاۓ گا ۔۔۔ انشاء نے فکرمندی سے کہا اور واقعی ایک شہری لڑکی کے لیۓ پہننا مشکل ہی تھا ایسا لباس ۔۔۔
"انشاء جی یہ اپ کی دوسری شادی ہے تو کیا پر عیان کی تو پہلی ہے اپ کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیۓ ۔۔۔ چینا نے جان بوجھ کر اس کا دل جلانے کے لیۓ ایسی بات کہی تھی ۔۔۔اپنی اگ کو بجھانے کے لیۓ کسی اور جلانا چینا کی فطرت تھی ۔۔۔
"چینا تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔ مسز وحید نے غصے سے گھورتے ہوۓ اپنی بیٹی سے کہا ۔۔ اب ان کو صحیح معنوں میں افسوس ہو رہا تھا کہ وہ چینا کو کیوں لے کر آئیں یہاں ۔
نازیہ الگ شرمندہ ہورہی تھی اور انشاء کی انکھیں پانیوں سے بھر گئیں ۔۔۔
" انشاء بیٹا مجھے معاف کر دو میری بیٹی بیوقوف ہے اور تھوڑی منھ پھٹ ۔۔۔
"کوئی بات نہیں آنٹی ۔۔۔ انشاء نے ضبط سے کہا ۔۔۔
"یہ تو ہونا ہی تھا اب تو مجھے عادت ڈال لینی چاہیۓ ایسی باتوں کی ، کیونکہ ابھی تو ایسے کئی مراحل آئیں گے زندگی میں جہان مجھے ضبط سے کام لینا پڑے گا ، باباجان یہ کیسی آزمائش میں مجھے ڈال دیا ہے اپ نے۔۔۔
اس نے کرب سے سوچا ۔۔۔
"انشاء چینج کرلو تو تمہیں ریڈی کردوں ۔۔۔ نازیہ بھابھی نے کہا ۔۔۔
وہ کپڑے بدل کر اگئی ریڈ میروں اور گولڈن کانبینیشن میں وہ غضب لگ رہی تھی بغیر تیاری کے ۔۔ نازیہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔
دودھ جیسی رنگت اس پر سنہری بال اور ویسی انکھیں اس پر گلابی ہونٹ جسے وہ بار بار دانتوں سے کاٹ رہی تھی ضبط سے ۔۔۔ ایسا حسن سوگواریت لیۓ قیامت خیز لگ رہا تھا ۔۔ نازیہ اس کے حسن میں کھوگئی" میں کھوگئی ہوں ، عیان بھائی کا کیا حال ہوگا یہ حسن دیکھ کر ۔۔۔ نازیہ نے سوچا اور کہا تو بس اتنا ۔۔۔
" ماشاء اللہ ۔۔۔ بغیر میک اپ کے ہی قیامت ڈھا رہی ہو تم ۔۔۔ وہ کہے بنا رہ نہ سکیں ۔۔۔ جس پر انشاء نے نظر جھکالی ۔
اور نازیہ اسے مینا کی مدد سے تیار کرنے لگی ۔۔۔
@@@@@@
پہلے انشاء سے پوچھا گیا کہ اسے یہ نکاح قبول ہے اس نے اپنا سانس ہی روک لیا چند لمحوں کے لیۓ ۔۔۔
"دیکھ لو اب میرا نام مکمل لگ رہا ہے انشاء ایمان ، سب سے خوبصورت احساس ہے یہ میری زندگی کا ، حسین لمحہ ہے میری زندگی کا ہے ، اج میں خود کو مکمل محسوس کررہی ہوں ۔۔۔ نکاح والی رات اس نےیہ بات ایمان سے کہی تھی ۔۔۔ اج وہی حق اس سے چھیننے والا تھا ۔۔۔
کئی لمحے ساکت رہی وہ ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی انکھیں پتھرا ہی گئی ہوں ۔ گھٹن سی ہونے لگی ہو جیسے۔۔ حیدر شاہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔
" انشاء بیٹی بولو ۔۔۔
وہ ہوش کی دنیا میں لوٹ آئی ان کے نرم گرم احساس پر اور وہ کانپتی اواز میں بولی ۔۔۔ "قبول ہے ۔۔ تم کو پکارنے سے انکار ۔۔۔پھر پوچھا ۔اس نے کہا۔ "قبول ہے ۔۔تم پر اپنا حق جتانے سے انکار ۔۔۔۔ پھر پوچھا ۔۔ " قبول ہے ۔۔اج کے بعد تمہارا نام خود کے ساتھ جوڑنے سے انکار ۔ اس نے کہا ۔۔۔
ہر ایک قبول کے ساتھ ہر تعلق اس کا ٹوٹتا ہی گیا ایمان سے ۔۔۔۔
ایسا لگا صدیوں کی مسافت طے کی ہو اس نے چند لفظ ادا کرنے میں ۔۔۔۔
"سب ختم ہوگیا ایمان ، تمہیں پکارنے کے ، تمہارے نام کے ساتھ پہچانے جانے سے سارے حق مجھ سے چھین لیۓ گۓ ہیں ۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے سانس لینے کی وجہ ہی چھین لی ہو جیسے ۔۔۔
نکاح کے وقت عیان کے پاس بیٹھا عمر بھی ایک لفظ کہنے کی خود میں ہمت نہیں محسوس کررہا تھا ۔۔۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ کس تکلیف میں ہے ۔۔۔ عجیب سرد مہری اس کے چہرے پر تھی ۔۔ قبول ہے تیں دفعہ کس دل سے اس نے کہا بس وہی جانتا تھا ۔۔۔ جبڑے بھینچے وہ اب سب سے مبارکباد وصول کررہا تھا ۔۔۔
کوئی اور بھی تھی جو عیان کو ہی بس دیکھے جارہی تھی اور اپنے جذبات کو دبانے کی کوشش کررہی تھی وہ چینا تھی ۔۔۔ جسے پہلی نظر میں اس شہزادے سے محبت ہوگئی تھی ۔۔۔ اس وقت بھی عیان سفید کلر کے کڑتے میں نظر لگنے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا چینا کو ، اسے کتنا یقین تھا اس کے پاپا منالیں گے حیدر انکل کو ، پر اب اس کا انتظار اور امید نہ رہی تھی اسے ۔۔۔پھر بھی کچھ وقت لگنا تھا اس دل کو سنبھالنے میں ، آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگیں تھیں اس کی ۔۔۔
@@@@@@
ؒبڑی بی نے دونوں کو ساتھ بٹھاکر ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔۔ حیدر شاہ دونوں کے تاثرات بغور دیکھ رہے تھے ۔۔ دل میں عجیب سا درد محسوس ہوا ان کو ۔۔۔ جانے گھر کو کیسی نظر لگ گئی تھی خوشیان سب سے روٹھ گئیں ہیں۔۔۔ کتنے سخت تاثرات تھے عیان کے ۔۔۔ کب بی جان اور صلاح الدیں دعائیں دے کر اٹھے تھے ان دونوں کے پاس سے عیان نے محسوس نہیں کیا ۔۔۔
نا چاہتے ہوۓ بھی کافی رش ہوگیا تھا جبکہ عیان چاہتا تھا کم سے کم لوگ ہوں ۔۔۔ پر عیان کوئی عام انسان نہیں شہر کا جانا مانا بزنس مین تھا تو کافی لوگ بغیر دعوت کے مبارکباد دینے اگۓ تھے ۔۔۔ کچھ تو ان کے اپنے جاننے والے تھے کھانے کا اچھا خاصا انتظام کرنا پڑا جسے خوش اسلوبی سے اس کے دوستوں نے سنبھالا ۔۔۔۔ دوستوں کو بلایا بھی عمر نے تھا ورنہ عیان سخت خلاف تھا کسی کو بلانے پر عمر نے اتنا کہے کر چپ کروادیا ۔۔" شادی کررہے ہو کوئی چوری نہیں جو اتنا چھپانے کی فکر ہے ۔۔۔ سب کی دعوت اڑائی ہے تو سامنے دینی بھی پڑتی ہے ۔۔۔
"حالات سامنے ہیں تمہارے اور بات ایسے کررہے ہو جیسے میں بینڈ باجے برات کے ساتھ شادی کررہا ہوں ۔۔۔
عیان نے چڑ کر کہا ۔۔۔
"شادی جیسے بھی ہو شادی شادی ہوتی ہے سمجھے عیان صاحب سو زیادہ ایٹیٹیود دکھانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔
عمر بھی تھک گیا تھا صبح سے اس کا روڈ رویہ دیکھ کر اسلیۓ غصہ کرنا ضروری لگا اسے ۔۔۔
"اب چپ کرکے بیٹھو دلہے زیادہ بولتے اچھے نہیں لگتے ۔۔عمر کو کچھ نہ سوجھا یہ کہے کر جان چھڑائی اس سے ۔۔۔
"جہان تک مجھے یاد ہے یہ کہاوت دلہن کے لیۓ کہی جاتی ہے ۔۔۔ عیان نے کچھ سوچ کر کہا تھا ۔۔
"اچھا مجھے سہی سے یاد نہیں پڑتا ۔۔۔ عمر نے انکھیں اوپر نیچے گھماکر کہا ۔۔۔ ان کی اس بحث کے بعد جاکر عیان کا موڈ کچھ بہتر ہوا ورنہ عمر کو لگا اس کو نارمل کرنا مشکل ہے پر زیادہ چھیڑ چھاڑ سے اوائیڈ کیا اس نے ۔۔۔
تقریبً سب مہمان کھانا کھا کر جاچکے تھے اب گنے چنے لوگ ہی رہے تھے ۔۔۔
"اب ہمیں چلنا چاہیۓ ۔۔۔ بڑی بی نے کہا حیدر شاہ سے ۔۔۔
"آپ لوگ ٹھر جاتے ایک رات اور ۔۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
"نہیں بیٹا ، وہان جانا ضروری ہے ، بہت کام چھوڑ کر آۓ ہیں بس اچانک جو یہ پروگرام بنا ۔۔۔ بی جان نے کہا ۔۔۔
"چلیں جیسے اپ کو ٹھیک لگے ۔۔اگر ٹھرتے تو مجھے اچھا لگتا ۔۔۔
"ہممم سہی کہے رہے ہو ، اپنا گھر ہے اتے جاتے رہیں گے ۔۔۔ بی جان نے ان کے محبت بھرے انداز پر جواب میں کہا ۔۔۔
"بلکل اپ کا اپنا گھر ہے جب چاہۓ ائیں ۔۔
"اللہ دونوں گھروں کی محبت سلامت رکھے آمین ۔۔۔ بی جان نے دل سے دعا دی ۔۔
آمین ۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔۔
" یار کہا سنا معاف کرنا حج پر جارہا ہوں کسی کا دل دکھا کر نہیں جانا چاہتا ۔۔۔ حیدرشاہ نے گلے لگتے ہوۓ اپنے دوست صلاح الدین سے کہا ۔۔
ان کے اس انداز پر روٹھے سے صلاح الدین صاحب ایک دم مسکراۓ اور کس کے گلے لگایا دوست کو ۔۔۔
"یار مجھے معاف کرنا میں بہت کچھ غلط کہے گیا پر تیرا فیصلا درست ہے ، اللہ دونوں بچوں کی جوڑی سلامت رکھے ۔۔۔ آمین ۔۔۔
صلاح الدین کا موڈ بحال ہوتا دیکھ کر حیدر صاحب بہت خوش ہوئے اور خوشی سے کہا" آمین ۔۔۔
یوں حویلی والے رخصت ہوۓ ۔۔۔
@@@@@
حویلی والوں کو روانہ کرکے اب صرف عمر اور مسٹر وحید کی فیملی رہ گئی تھی ۔۔۔
مسز وحید نے چینا کو پہلے ہی گھر بھیج دیا کیونکہ ان کو لگا اب دوبارہ وہ کوئی بدمزگی نہ کرلے انشاء سے ۔۔۔
کھانا سب کھا چکے تھے سواۓ انشاء کے کیونکہ اس نے صرف چند لقمے ہی لیۓ تھے نازیہ بھابھی کے کہنے پر ۔۔۔
مجھے لگتا ہے بھائی صاحب انشاء کو عیان کے کمرے میں بٹھا کر ہمیں چلنا چاہیے ۔۔۔ مسز وحید نے کہا اس بات کی تاعید نازیہ بھابھی نے بھی کی ۔۔۔
ہان کیوں نہیں ۔۔۔ حیدر شاہ نے کہا ۔۔۔ اور ایک نظر عیان پر ڈالی جس نے ہونٹ بھینچ لیۓ تھے ضبط سے ۔۔۔ عمر اس کے ضبط کی انتہا دیکھ رہا تھا ماتھے پر شکن اور انکھیں سرخ ہونے لگیں واقعے یہ لمحہ کتنا اذیتناک تھا ایک بھائی کے لیۓ ۔۔۔ عمر اس کی کیفیت اچھی طرح سمجھ رہا تھا اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے ریلکس کیا ۔۔۔ جبکہ غصے سے اس نے ہاتھ جھٹکا عمر کا ۔۔۔ شاید اس کا دل ابھی رخصتی کے لیۓ تیار نہ تھا پر حیدرشاہ کی وجہ سے خاموش رہا ۔۔۔
"چلو لڑکیوں انشاء کو اس کے کمرے میں چھوڑنا ہے ۔۔۔ انہوں نے نازیہ اور مینا سے کہا ۔۔
انشاء کے سر پر ہاتھ رکھ کر حیدر شاہ اور وحید صاحب نے دعائیں دیں ۔۔۔
نازیہ اور مینا نے ایک ایک طرف سے اس کا بھاری لہنگا سنبھالا اور سیڑھیان چڑھنے لگیں ۔۔۔ زینب بی اور مسز وحید ان کے ساتھ تھیں ۔۔۔
اسے عیان کے کمرے میں روایتی انداز میں بٹھایا اور اسے ڈھیر ساری دعائیں دیں زینب بی اور مسز وحید نے ۔۔۔
مسز وحید نے اس کی پیشانی چوم کر اسے اللہ حافظ کہا ۔۔۔
مینا اور نازیہ اس سے ملیں اور کھانے کا پوچھا یا کچھ اور چاہیۓ پوچھا ۔۔۔ اس نے نفی میں سرہلایا ۔۔۔
یوں سب اسے اکیلا چھوڑ کر روانہ ہوۓ ۔۔۔
@@@@@@@
آب صرف تین نفوس رہ گۓ تھے لاؤنج میں حیدرشاہ عیان اور عمر ۔۔۔۔
عمر نے بیوی بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیج دیا اور خود دوست کے ساتھ تھا ۔۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے خاموشی ہی خاموشی تھی سے حیدر شاہ اور عمر کی مبہم گفتگو نے کہیں بار توڑا اس خاموشی کو پر عمر کے سرد انداز پر دونوں نے اسے ایک دفعہ بھی مخاطب نہ کیا ۔۔۔۔
حیدرشاہ کی ہمت نہ تھی اب کچھ کہنے کی عیان کو کہ کہیں وہ پھٹ ہی نہ پڑے اور جس طرح اس نے اب تک خود کو ضبط کیا ہوا تھا ۔۔۔
" انکل آپ جاکر آرام کریں میں عیان کو کمرے میں چھوڑ کر چلتا ہوں پھر ۔۔۔ آخر کار عمر نے باپ بیٹے کے بیچ کی خاموش احتجاج کو توڑا اور ان سے گلے لگا ۔۔
"بہت شکریہ عمر بیٹے تم نے اپنوں سے بڑھ ساتھ دیا اس سب میں ، ہر موقع پر نا صرف تم نے اچھے دوست کا کردار نبھایا بلکہ مجھے بھی ایک بیٹے ہونے کا احساس دلایا ۔۔۔
اس کی پینٹھ تھپتھپاتے ہوۓ حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
" انکل پہلے بیٹا بول کر اپنا کہا اور پھر شکریہ ادا کرکے پرایا بھی کر دیا ۔۔۔ کمال کرتے ہیں اپ بھی ۔۔۔ عمر نے محبت سے بھرپور لہجے میں کہا ۔۔۔
"کیا کروں بوڑھا جو ہو گیا ہوں ۔۔ ایسی باتوں کا خیال ہی نہیں کر پاتا ۔۔۔
"ارے انکل اپ بلکل ینگ ہیں ابھی بھی کہیں تو اپ کے لیۓ ابھی کوئی آنٹی ڈھونڈ لاتا ہوں ۔۔۔
"چلو جاؤ اپنے گھر ۔۔۔انہوں نے جھینپ کر کہا ۔۔۔
"پہلے اپ جائیں کمرے میں ارام کریں ۔۔ پھر میں اس گھامڑ کو کمرے تک چھوڑ کر اندر بھیج کر پوری تسلی کروں گا یہ واپس نہ آۓ باہر ، پھر جاؤں گا اپنے گھر واپس۔۔۔
عمر نے ان کو تسلی دی جس پر عیان نے غصے سے گھور کر کہا ۔۔۔
"عمر تم سدھر جاؤ ۔۔۔ آخرکار عیان نے اپنی چپ توڑہی دی اور عمر نے کہا ۔۔۔
"بس انکل جائیں آرام کریں دوائی لینا مت بھولیۓ گا اور ریلکس ہوجائیں ۔۔۔ اور حیدر شاہ اپنے روم کی طرف بڑھ گۓ ۔۔۔
"اوکے بیٹا اللہ حافظ ، گھر پہنچ کر مجھے بتانا ۔۔۔ پلٹ کر انہوں نے کہا ۔۔۔
"جی انکل اللہ حافظ ۔۔۔ عمر نے کہا ۔۔۔
@@@@@
"اب جاؤ تم اپنے گھر ۔۔۔ عیان نے کہا چڑ کر ۔۔۔
" پہلے تمہیں کمرے میں تو چھوڑ کر آؤں پھر تسلی بھی تو۔۔۔۔
عیان نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔۔
" بکواس بند کرو عمر اب تم جاؤ ۔۔۔ تم جانتے ہو مجھے اپنے کمرے کے سوا کہیں نیند نہیں آتی اس لیے بے فکر ہو کر گھر جاؤ ۔۔۔
"ہاں پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ اوکے چلتا ہوں ، انشاء بھابھی کا خیال کرنا ۔۔۔ عمر نے اس کے گلے لگ کر کہا عیاں اسے گھورنا نہ بھولا ۔۔۔
"اب بھابھی کو بھابھی ہی بولوں گا۔۔۔۔ عمر نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوۓ کہا ۔۔
"میں نے تم سے کچھ کہا ۔۔۔ کل انے کی ضرورت نہیں تھوڑا نازیہ بھابھی کو ٹائم دینا اج پورا دن میرا سر بہت کھالیا تم نے ۔ عیان نے بھی بدلا لیتے ہوۓ کہا ۔۔۔
"کہنے کو تو میرے پاس بھی بہت ساری باتیں ہیں مسٹر عیان پر چھوڑو پھر کبھی سہی ۔۔۔ عمر کہے کر اس سے ملا اور چلا گیا ۔۔۔
ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے جب وہ عمر کو باہر چھوڑ کر واپس ایا تھا لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا تھا ۔ لائیٹ چلی گئی ۔۔۔
ویسے تو کبھی ایسا ہوا نہیں آٹومیٹک جنریٹر آن ہوجاتا تھا ۔۔پر اج لگتا ہے کچھ مسئلا تھا جو گھر کی روشنی چلی گئی ۔۔۔ پورا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا ۔۔۔
" رحیم رحیم کیا ہوا ۔۔۔ عیان نے تیز لہجے میں پوچھا ۔
"سر دیکھ رہے ہیں جنریٹر کیوں نہیں کھلا ۔۔ رحیم کے بجاۓ حنیف نے کہا جو مکینک کا تھوڑا بہت کام جانتا تھا اور ڈرائیور تھا ان کا ۔۔۔
"ہممم جلدی دیکھو ۔۔۔
اسی لمحے اس کے سر میں جھماکے سے ایمان کی کہی بات آئی ۔۔۔
"بھائی انشاء کو ڈر لگتا ہے اندھیرے سے ، اپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔ پہلے اسے دیکھ لوں ۔۔۔ ایمان کی کہی بات اسے یاد آئی ۔
انشاء اس کے کمرے میں اکیلی تھی اور اوپر سے اندھیرا وہ موبائل کی روشنی میں سیڑھیوں کی طرف بھاگا ۔۔۔ وہ دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اوپر پہنچا ۔۔۔ جیسے ہی اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔۔
ایک وجود جھٹکے سے اس کے سینے لگا ۔۔۔ عیان کو زور کا جھٹکا لگا وہ سسکتی ہوئی اس کے سینے سے آلگی ۔۔ وہ تھوڑا اگے کو سرکا اسے الگ کرنا چاہا پر وہ اور زور سے اسے خود سے بھینچ لیا انشاء نے ۔ وہ رورہی تھی آنسو اس کا سینا بھگونے لگے ۔۔۔ وہ ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی ۔۔۔ موبائل کارپٹ پر گرا عیان کے ہاتھ سے ، اس لیۓ اس کی آواز ہی نہ پیدا ہوئی گرنے کی ۔۔۔
"ایمان کے بچے اچھا ہوا تم اگۓ ، میں ڈرگئی تھی تم جانتے ہو مجھے کتنا ڈر لگتا ہے اندھیرے سے ۔۔۔۔
انشاء کے لفظوں نے اسے جھنجھوڑ دیا ۔۔۔
وہ جو اس کے گرد اپنے بازو پھیلاتا اس کے لفظ سن کر اس نے اپنے ہاتھ گرے رہنے دیۓ ۔۔۔ وہ تو تڑپ رہی تھی پر عیان کے سینے میں درد اٹھا اپنے بھائی کے لیۓ ، جو اس لڑکی سے کتنی محبت کرتا تھا ۔۔۔ اج بھی انشاء اس کے محبت کے حصار سے نکلی ہی نہیں ۔۔۔ رو وہ رہی تھی پر انسو عیان کی انکھوں میں بھرنے لگے ۔۔۔
"ایمان تم ہو میں جانتی ہوں ، تمہاری خوشبو میں محسوس کرسکتی ہوں ۔۔۔
وہ بےوقوف جانتی ہی نہیں تھی دونوں بھائی ایک ہی قسم کی پرفیوم کا استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ وہ اس کے سینے سے اپنا چہرہ مسل رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے انسو اس کی ہی قمیص سے صاف کررہی تھی ۔۔۔
"ایمان تم کچھ کہتے کیوں نہیں ۔۔۔ وہ سسکی اور اس کے سینے سے سر اٹھایا ۔