دارین جو لاٶنج میں داخل ہوتے ہی رمل کی آخری بات سن چکا تھا اس نے غصے سے پوچھا اور چلتا ہوا لاٶنج میں آگے آ گیا۔۔ اسے دیکھتے ہی رمل کے چہرے کا رنگ بدلہ لیکن پھر جلد ہی اس نے خود کو سنبھال لیا۔
”کچھ نہیں داریں جی۔۔۔! چھوڑیں آپ ۔۔“ اس نے دارین کو بازو سے پکڑ کر رمل کی طرف بڑھنے سے روکا۔
”میں نے کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں کہ بیا سے دور رہا کرو تمہیں سناٸی نہیں دیتا۔۔“ وہ اُس سے بازو چھڑوا کر عین اِس کے مقابل آیا ۔۔
”مجھے کوٸی شوق نہیں آپ کی سو کالڈ بیوی کے منہ لگنے کا۔اس کو کہیں اپنی حد میں رہے۔۔۔“وہ تیکھے لہجے میں بولتی دو قدم پیچھے ہوٸی۔۔
”ہممم ویسے وہ تو اپنی حد میں ہی ہیں۔۔۔! پر لگتا ہے تم لوگ بھول چکے ہو حد' لگتا ہے یاد کروانی پڑے گی“ وہ بغیر کسی لحاظ کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرد مہری سے بولا ' تو وہ گڑبڑا گٸی اور دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔
”ہ ہم بھی اپنی حد میں ہیں۔۔“
”لگتا تو نہیں ۔۔۔“ وہ استہزیہ انداز میں مسکراتا ہوا بیا کی طرف مڑا ، جو اپنے سامنے کھڑے دارین کو بہت محبت سے دیکھ رہی تھی۔۔
”ارے آپ کو کیا ہوا۔۔؟“
”کک کچھ نہیں۔۔“ وہ گھبراہٹ چھپا کر تیزی سے بولی۔
”چلیں پھر۔۔۔۔“اس نے بیا کی طرف ہاتھ بڑھایا ”جی۔۔“ جسے اس نے مضبوطی سے تھام لیا۔
وہ علی سے مل کر آ رہا تھا۔۔اور اس نے جو کچھ بتایا تھا وہ سن کر تو اس کا دماغ ہی گھوم گیا تھا۔۔ غصے سے اس کا خون کھول رہا تھا۔اس نے بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کر کے خود کچھ بھی الٹا سیدھا کرنے سے روکا تھا۔اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ابھی گھر جا کر ان دونوں ماں بیٹی کو بازو سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دے۔لیکن پھر وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ اب وہ دونوں کا سچ انہی کے منہ سے اگلواۓ گا وہ بھی شاہانہ بیگم کے سامنے۔کیونکہ اس کے بتانے پر شاید شاہانہ بیگم اس کی بات پر یقین نہ کرتیں ' کیونکہ ان کو بہت یقین تھا بہن اور لاڈلی بھانجی پر۔۔
”اور تم لوگ باز آجاٶ اپنی حرکتوں سے۔نہیں تو بہت برا ہوگا حشر ہو گا تم لوگوں کا۔۔“ وہ اس کی طرف مڑ کر غصے سے اس کو وارن کرتا بیا کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔ جبکہ رمل اس کی بات سن کر پیچ و تاب کھا کر رہ گٸی، ان دونوں کی بڑھتی ہوٸی نزدیکیاں اسے جلن و حسد میں مبتلا کر رہی تھیں۔۔ بیا نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ لاٶنج کے بیچ و بیچ کھڑی کھا جانے والی نظروں سے اُسے گھور رہی تھی۔اس نے جلدی سے رخ موڑ کر دارین کے ہاتھ پر اپنی گرفت اور مضبوط کر لی۔۔دارین نے اس کی حرکت پر مسکرا کر اس کی طرف د یکھا وہ سر جھکا گٸی۔۔
....***....
”کیا ہوا ماما۔۔۔؟کس کا فون ہے۔۔۔“ رمل نے رومانہ بیگم کو فون پر کسی سے الجھتے دیکھ کر تشویش سے پوچھا۔وہ ابھی ابھی تیار ہو کر ان کے کمرے میں آٸی تھی۔آج صبح سے ہی وہ تینوں گھر پر تھیں۔۔لیکن اب شاید انہوں نے کسی پارٹی میں جانا تھا۔ اس لئے وہ تیار ہو کر آئی تھی ۔۔
”انہی لوگوں کا فون تھا۔اور کس کا ہونا ۔“ کال بند کر کے وہ اس کی طرف مڑیں۔۔
”واٹ کیا کہہ رہے تھے وہ ۔۔۔؟“ یکدم اس کے چہرے کا رنگ بھی بدلا ۔۔
”کہنا کیا دھمکیاں لگا رہے تھے کہ اگر دو دن کے اندر اندر ہم نے ان کے پیسے نہ دیٸے تو وہ سیلون اور بوتیک سیل کر دیں گے۔۔۔“ انہوں نے تشویش سے کہا۔۔
”اوہ نو ماما!اب کیا ہو گا۔؟“اپنا ذاتی بوتیک اور سیلون بنانا اس کا بچپن کا خواب تھا جو کہ بہت مشکل سے پورا ہوا تھا اور اب وہ اسے ایسے ختم ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
”کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا رمل۔۔! نہیں تو سب کچھ ختم ہو جاۓ گا اور ہم سڑک پر آ جاٸیں گے۔۔“ وہ پریشانی سے ادھر اُدھر ٹہلتے ہوۓ بولیں۔”اک تو یہ کم بخت شاہانہ بھی میری بات نہیں سن رہی ، مجھے ہی ایٹی ٹیوڈ دکھا رہی ہے ، نظر انداز کر رہی ہے۔۔“ اب وہ غصے میں اپنی پرانی ٹون میں واپس آ کر شاہانہ بیگم کو کوسنے لگیں۔
”واٹ۔۔؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ماما۔۔؟“ اس نے ماں کا ایسا رویہ دیکھ کر تعجب سے کہا۔
”سہی تو کہہ رہی ہوں۔۔۔؟“ رومانہ بیگم نے غصے سے تیوری چڑھا کر کہا۔
”اک طرف تو آپ شانہ مام سے اتنی محبت جتاتی ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ رویہ۔۔۔ایسے کیوں ماما ایم شاکڈ۔۔۔؟“ اس نے الجھ کر سوال کیا۔
”وقت آنے پر سب کچھ بتادوں گی تمہیں بھی۔۔، لیکن ابھی نہیں۔۔“وہ تیکھے لہجے میں بولیں اور اک بار پھر پریشانی سے ادھر اُدھر ٹہلنے لگیں۔۔
رومانہ بیگم نے اپنے کسی جاننے والے سے بہت بڑی رقم ادھار لے کر گورنمنٹ کو ٹیکس ادا کیا تھا۔لیکن ان کو اتنی بڑی رقم واپس نہیں کر سکی تھیں۔۔۔وہ لوگ اپنی رقم لینے کے لیے بار بار انہیں کالز کرتے تھے ، ان کے گھر آتے۔لیکن ہر بار ہی وہ کوٸی نہ کوٸی بہانہ کر کے انہیں ٹال دیتیں،لیکن جب انہوں نے روز روز ان کے دروازے پر آنا شروع کر دیا تو رومانہ بیگم ڈر گٸیں اور کراچی چھوڑ کر شاہانہ بیگم کے پاس آگٸیں،اور یہاں آ کر وہ یہ بھول ہی گٸی تھیں کہ انہوں نے کسی کا قرض بھی واپس کرنا تھا۔ لیکن آج ان لوگوں کی پھر سے کال آ گٸی تھی اور اب وہ لوگ دھمکیوں پر اتر آۓ تھے کہ” اگر دو دن میں انہوں نے ساری رقم نہ لوٹاٸی تو وہ لوگ ان کی بوتیک اور سیلون نیلام کر دیں گے“ شاہانہ بیگم ہر ماہ بہت بڑی رقم انہیں بوتیک اور سیلون کےلیے دیتی تھیں۔وہ دونوں اس کو بھی اپنی عیاشیوں میں اڑا جاتیں اور پھر سے اس کے پاس دوڑی آتیں اب بھی وہ دونوں اس کے پاس پیسے لینے کے لیے ہی آٸی تھیں ، جبکہ وہ ان کو پہلے ہی ایک ماہ میں ستر اسی لاکھ دے چکی تھیں۔۔
”نو نیور ماما۔۔۔! آپ ابھی اور اسی وقت بتاٸیں مجھے۔ایسی کون سی بات ہے جو آپ آج تک نہیں بتا پاٸیں۔۔“ اس نے پوچھنے کے لیے اصرار کیا۔
”تو پھر سنو۔۔۔! میں شاہانہ سے نفرت کرتی ہوں، شدید ترین نفرت۔۔۔۔“ انہوں نے نفرت بھرے لہجے میں بڑی حقارت سے کہا۔رمل کو ماں کی بات سن کر سہی معنوں بہت بڑا شاک لگا تھا۔
”واٹ؟یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟آپ تو شانہ مام سے بہت پیاری کرتی ہیں۔ان کا خیال کرتی ہیں ۔۔پھر یہ نفرت کہاں سے آگٸی بیچ میں۔“
”وہ سب جھوٹ ہے دکھاوا ہے۔۔۔۔“ وہ زور سے چیخی کر بولیں ۔
”لیکن کیوں ماما ؟ کوٸی تو وجہ ہوگی۔“ وہ ان کی باتوں سے بہت پریشان ہو چکی تھی۔۔
”ہاں بہت بڑی وجہ ہے،میں اس کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔اس نے مجھ سے میری خوشیاں، میرا پیار ، میرا سب کچھ چھین لیا۔۔۔۔“آج انہوں نے رمل کے سامنے اپنا راز فاش کر ہی دیا تھا۔
”پیار۔؟ خوشیاں؟ میں سمجھی نہیں؟ آپ مجھے صاف صاف بتاٸیں پلیز۔۔۔۔۔“ وہ ماں کی سسپنس بھری باتیں سن کر چڑ کر بولی۔
”میں ، شاہانہ اور حیدر علی تینوں کلاس فیلو تھے۔۔ یہ دونوں بہت امیر تھے۔۔میں تھی تو شاہانہ کی کزن،لیکن شروع سے ہی اس کے گھر رہ کر اس کے ٹکڑوں پر پلی تھی۔ہر چیز اس کی استعمال کرتی تھی۔لیکن یہ مجھے شروع سے ہی اچھی نہیں لگتی تھی۔مجھے اس سے جلن اور حسد محسوس ہوتا تھا، کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ پیاری تھی اور امیر بھی' پھر بھی میری مجبوری تھی اس کے ساتھ رہنا، اس کے علاوہ میرے پاس اور کوٸی ٹھیکانہ نہیں تھا۔پھر یونی میں مجھے حیدر علی سے محبت ہوگٸی،وہ ہمارا کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ انکل (شاہانہ کے پاپا) کے بیسٹ فرینڈ اور بزنس پارٹنر کا اکلوتا بیٹا بھی تھا،میں نے اس بارے میں شاہانہ کو بتا دیا اور یہی میری بے وقوفی تھی۔ان کی شروع سے ہی آپس میں نہیں بنتی تھی۔اسی وجہ سے شاہانہ نے مجھے بھی روک دیا کہ میں حیدر کو اپنی فیلنگز کے بارے میں نہ بتاٶں ، میں بھی اس کی باتوں میں آگٸی۔لیکن پھر جب ان دونوں کے گھر والوں نے ان کا رشتہ طے کیا تو شاہانہ نے سب کچھ جاننے اور میرے روکنے کے باوجود بھی حیدر سے شادی کے لیے ہاں کر دی۔۔۔۔ میں نے بہت روکا شاہانہ کو ' لیکن اس نے باپ کی ضد مان لی اور بیاہ کر ” شاہ ولا“ چلی گٸی، اس دن مجھے اس سے شدید نفرت ہوگٸی اور میں اس سے ہر تعلق ختم کر کے کراچی چلی گٸی، وہاں جا کر میں نے تیرے پاپا سے شادی کر لی۔شاہانہ کو شادی کے بعد جب پتا چلا کہ میں اس سے ناراض ہو کر سب کچھ چھوڑ کر چلی گٸی ہوں۔ تو وہ مجھے منانے میرے پیچھے کراچی آ گٸی۔میں بڑی مشکل سے مانی اور ساتھ ہی میں نے اس سے بدلہ لینے کا پلان بھی تیار کر لیا ۔۔۔ تمہارا باپ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا لیکن مجھ سے اس نے گھر والوں کے خلاف جا کر شادی کی تھی تو اسکے باپ نے اس کو جاٸیداد سے عاق کر دیا اور وہ پوری طرح سے کنگال ہوگیا تھا میرے اس سے جھگڑے شروع ہوگٸے اور پھر میں نے خود ہی اس سے طلاق لے لی، لیکن میں نے شانہ کو یہی بتایا کہ اکرم بہت برا تھا مجھ پر ظلم و ستم کرتا تھا، اس نے میری بات پر یقین کر لیا،مجھے اس بات کا بھی پتا تھا کہ شاہانہ اور حیدر کی شادی کے بعد بھی نہیں بنتی تھی ، میں نے اسی بات کا فاٸدہ اٹھایا اور پلان کے مطابق اس کو حیدر کے خلاف کرنا شروع کر دیا اور وہ اتنی بےوقوف تھی میری کی ہوٸی ہر ہر بات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتی گٸی اس کا اپنا بیٹا دارین حیدر بہت زیادہ خوبوصرت تھا ' لیکن میں نے اس کو شوہر سے تو دور کیا ہی کیا اس کے بیٹے سے بھی دور کر دیا۔اور پلان کے مطابق اس کو تمہارا دیوانہ بنا دیا اور پھر جو جو میں کہتی گٸی وہ کرتی گٸی،اس نے مجھ سے میرا پیار چھینا تھا، میں نے اس سے اس کا بیٹا اور شوہر سب کچھ دور کردیا۔اب ان تینوں میں اتنی دوریاں ہیں جن کو وہ چاہ کر بھی ختم نہیں کر سکتے اور دیکھو ہمارا کام بھی ہو رہا ہے۔ہم بھی عیش کر رہی ہیں ، ورنہ تیرے باپ کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی ہمیں دینے کے لے۔اور ہم کب کے مر کھپ گٸے ہوتے۔۔۔۔“ رومانہ بیگم نے آہستہ آہستہ اپنے ماضی سے پردہ اٹھایا ، جبکہ وہ سب کچھ سن کر ششدر رہ گٸی ' اس کی ماں نے اتنی بڑی پلاننگ کی تھی، جس کی اس کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہوٸی تھی۔۔
”لیکن ماما۔۔! شانہ مام تو آپ کو اپنی سگی بہنوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہیں۔۔۔“ اس نے خود کو سنبھالتے ہوۓ دھیرے سے کہا۔
”ہنہہ کرتی ہے تو کرتی رہے مجھے کیا۔۔! مجھے تو اس سے نفرت تھی ' نفرت ہے اور نفرت ہی رہے گی۔۔۔۔“وہ حقارت سے بولیں ۔جبکہ دروازے کے باہر کھڑی شاہانہ بیگم جو نک سک تیار ان دونوں کو بلانے آٸی تھیں، ان کی باتیں سن کر ششدر رہ گٸیں' ان کی حالت کاٹوں تو بدن میں لہو ہی نہ ہو والی ہو گٸی تھی، چہرہ دھواں دھواں اور قدم من من بھاری ہوگٸے تھے،وہ تو ہلنے سے بھی قاصر تھیں، کوٸی اتنا زیادہ بھی گر سکتا تھا ۔اس بات کا اندازہ انہیں آج ہو رہا تھا۔ان کے ساتھ کھڑی بیا کی بھی یہی حالت تھی۔۔ وہ کب وہاں آٸی تھی انہیں اس بات کا پتا بھی نہیں لگا تھا۔
”افففف ماما اتنی نفرت۔۔۔۔مجھے یقین نہیں ہوتا۔۔۔“ وہ تحیر بھری نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوۓ بولی۔
”نہیں ہوتا یقین تو بھی کر لو ، کیونکہ یہی سچ ہے۔۔“ رومانہ بیگم بے تاثر لہجے میں بولیں اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
”اففففففف میرے اللہ۔۔۔۔!اتنا بڑا دھوکا۔۔۔۔۔“ شاہانہ بیگم نے اپنے لڑکھڑاتے قدموں کو بمشکل سنبھال کر دیوار کا سہارا لیا تھا۔ان کو ایسے لڑکھڑاتے دیکھ کر بیا نے سرعت سے آگے بڑھ کر ان کو کندھوں سے پکڑ کر سہارا دیا۔۔ ”پلیز سنبھالیں خود کو۔۔۔۔؟“
”لیکن ماما میں دارین سے سچ میں بہت پیار کرتی ہوں “ اس نے ماں کا ہاتھ اپنے کندھوں سے جھٹک کر تیکھے لہجے میں کہا۔
”لیکن وہ نہیں کرتا یو نو۔۔۔! تم بھی چھوڑ پیار ویار کو کیا رکھا ہے اس میں، ہمارے لیے ہمارا کام زیادہ ضروری ہے،جس کے لیے ہم چار ماہ سے یہاں آۓ ہوۓ ہیں۔“ وہ اس کو سمجھاتے ہوۓ بولیں۔۔
”کیا کام ماما۔؟“ اس نے بھنویں سکیڑ کر تعجب سے پوچھا۔۔وہ نہیں جانتی کہ کیا کرنا تھا اب آگے۔
”یہی کہ تم نے کسی نہ کسی طریقے شاہانہ سے پچاس لاکھ کا چیک لینا ہے ، یہ سب تم کیسے کرو گی یہ تو تم بھی اچھی طرح سے جانتی ہو۔۔۔۔“ اس نے شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
”ہمممممم۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔“ وہ بھی مسکرا دی۔۔
”گڈ ۔۔۔! ویسے کافی تیز ہو تم بھی۔۔۔“ رومانہ بیگم نے آنکھ مار کر مسکراتے ہوۓ کہا۔۔
” آخر بیٹی کس کی ہوں۔۔۔۔“ اس نے بھی سر جھٹک کر اک ادا سے کہا اور پھر دونوں ہی زوردار قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں۔ اس بات سے بے خبر کہ باہر کھڑی بیا اور شاہانہ بیگم ان کی ساری باتیں سن چکی تھیں۔ بیا تو ششدر سی کھڑی تھی، وہ تو یہی سمجھتی تھی کہ صرف غریب لوگ ہی پیسوں کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن یہاں تو سارا کا سارا جہاں ہی فریب، مکاری اور دھوکا دہی پر لگا ہوا تھا۔
”آپ چلیں یہاں سے پلیز۔۔۔۔۔۔۔“ اس نے شاہانہ بیگم کو بمشکل سہارا دے کر ان کے کمرے میں لے جانا چاہا۔
”چھوڑو مجھے بیا۔“ انہوں نے اک جھٹکے سے اپنے ہاتھ چھڑواۓ اور خود کو سنبھال کر اشتعال سے دروازہ دھکیل کر اندر بڑھ گٸیں۔۔
”واہ ۔۔! واہ۔۔۔ ! کیا خوب ایکٹنگ کرتی ہو تم رومانہ ، تمہیں تو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملنا چاہٸیے، میں تو تمہاری ایکٹنگ کی فین ہو گٸی رومانہ۔سچی۔۔۔“ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے زور سے تالی بجا کر طنزیہ لہجے میں ان کو داد دیتے ہوۓ کہا اور رمل کے عین مقابل جا کر رک گٸیں۔اُن دونوں کا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا اور وہ دونوں منہ کھولے ہونقوں کی طرح شاہانہ بیگم کو تکے جا رہی تھیں۔۔۔۔ پھر رمل کو پہلے ہوش آیا۔۔
”ارے شش شانہ مام آ۔۔۔۔۔۔۔“ رمل نے اگے بڑھ کر خوشامدی لہجے میں کچھ بولنا چاہا۔۔
”چٹاخ۔۔۔۔۔۔“ شاہانہ بیگم کا بھاری ہاتھ اٹھا اور اس کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ گیا، وہ جو اس کے لیے تیار نہیں تھی لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوگٸی اور اپنے گال پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی نظروں سے انہیں دیکھے گٸی، یہی حال بیا اور رومانہ کا بھی تھا، رومانہ جیسی شاطر عورت کو بھی گڑبڑ کا احساس ہو چکا تھا۔۔۔ وہ بھی خود کو سنبھال کر شیریں لہجا اپناتے ہوۓ ان کی طرف بڑھیں۔”کیا ہوا شانہ میری جان۔۔۔؟ اتنے غصے میں کیوں ہو۔؟“
”جسٹ شٹ اپ رومانہ وہیں رک جاٶ۔۔! اور خبردار جو تمہاری گندی زبان پر میرا نام بھی آیا۔۔ورنہ تمہارا بھی وہی حشر کروں گی جو تمہاری بیٹی کا کیا ہے۔۔“ انہوں نے شعلہ جوار نظروں سے اسے گھورتے ہوۓ کہااور ہاتھ کے اشارے سے اُس کو اپنے پاس آنے سے بھی روکا۔
”یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی“ وہ چہرے پر معصومیت لیے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ کر بولیں۔
”اففففف اتنی بھولی نہیں ہو تم ، جو تمہیں میری بات سمجھ ہی نہیں آ رہی ۔۔ میں تمہاری ساری بکواس سن چکی ہوں'تم لوگ اتنے گھٹیا اور گرے ہوۓ ہو یہ مجھے آج پتا لگا ہے۔ رومانہ تم تو میری آسیتن کا وہ سانپ ہو جس کو میں نے ساری زندگی دودھ پلایا، لیکن تو پھر بھی مجھے ڈسنے سے باز نہیں آٸی۔۔“ وہ انتہاٸی غصے سے جو منہ میں آ رہا تھا بولے جار رہی تھیں۔رمل اور رومانہ کے تو ہوش ہی اڑ گٸے۔۔۔۔۔۔ان کا اک رنگ آ رہا تھا اک جا رہا تھا۔۔
”شانہ مام پلیز آپ پہلے ریلیکس ہوجاٸیں پھر بات کرتے ہیں، شاید آپ کو کوٸی غلط فہمی ہوٸی ہے۔۔۔۔۔۔۔“ رمل اپنا درد بھول کر اک بار پھر سے ان کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔
”بکواس بند کرو۔۔۔۔ مجھے کوٸی غلط فہمی نہیں ہوٸی رمل۔۔ اور رومانہ تم کیا نفرت کرو گی مجھ سے،میں تو تمہیں اپنی نفرت کے قابل بھی نہ سمجھوں، ابھی تک تم نے میرا پیار دیکھا ہے نفرت نہیں۔“ وہ اس کو جواب دے کر اک جھٹکے سے رومانہ بیگم کی طرف مڑیں اور اس کا سر تاپا جاٸزہ لینے کے بعد حقارت سے بولیں۔ جبکہ وہ تو گنگ کھڑی شاہانہ کا یہ نیا روپ دیکھ رہی تھی۔۔
”نکل جاٶ تم دونوں میرے گھر سے! میرے گھر میں اب تم جیسے گھٹیا اور دھوکے باز لوگوں کے لیے کوٸی جگہ نہیں۔۔۔“ انہوں اک نفرت بھری نظر دونوں پر ڈال کر گھر سے نکلنے کا حکم جاری کیا۔انہوں نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ان کا گیم الٹ گا تھا اور اب سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔۔
”لل لیکن شاہانہ ہم ۔۔۔۔۔۔“ رومانہ بیگم نے روتے ہوۓ اک آخری کوشش کرنی چاہی شاہانہ بیگم سے بات کرنے کی ۔۔
”بسسس رومانہ بہت سن لی میں نے تمہاری۔۔۔۔اب اور نہیں۔۔“ وہ غصے سے کہتیں تیزی سے پیچھے مڑیں ، بیا جو ان کے عین پیچھے کھڑی باتیں سن رہ تھی۔ وہ جلدی سے ساٸیڈ پر ہو گٸی۔انہوں نے اک گہری نظر اس پر ڈالی۔وہ ڈر کر خود میں سمٹ گٸی۔۔
”رجو ۔۔۔۔!۔۔۔۔“
”شنو ۔۔۔۔!۔۔۔سکینہ بی۔۔۔! ۔۔۔؟“
”کہاں ہو سب کی سب ۔۔۔؟“ وہ ان کے کمرے سے نکل کر غصے سے اونچی آواز میں رجو ، شنو اور سکینہ بی کو پکارتی لاٶنج میں آگٸیں،وہ تینوں بھی ان کی غصے بھری آواز سن کر دوڑی آٸیں۔
”جج جی بڑی بیگم صاحبہ۔۔خیر تو ہے ۔۔؟“رومانہ اور رمل بھی حواس باختہ سی ان کے پیچھے بھاگتی ہوٸی آٸیں ، وہ کسی نہ کسی طرح سے شاہانہ بیگم کو ایسا کرنے سے روکنا چاہتی تھیں۔۔
”بلواٸیں گارڈز کو اور نکالیں ان دونوں کو یہاں سے۔اب میں ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔“ انہوں نے اک نیا حکم جاری کیا اور خونخوار نظروں سے دونوں کو گھورا ، شرم کے مارے ان کی نظریں زمین میں گڑھ گٸی تھیں، جن ملازموں کی وہ سب کے سامنے بےعزتی کرتی تھیں، آج اُنہی کے سامنے وہ دونوں بے عزت ہو رہی تھیں۔۔یہ ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔۔
”لل لیکن ماما آپ اک بار ان کی بات تو سن لیں۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔۔کچھ کہنا چاہتی ہیں آپ سے“ کب سے خاموش کھڑی بیا نے بولنے کی ہمت کی، سکینہ بی نے بھی کچھ کہنا چاہا۔۔
”تم چپ رہو بیا تم نہیں جانتی ان کو ، جو اتنے عرصے میں نہیں بدل سکیں ' وہ اک پل میں کیسے بدل جاٸیں گی، اور سکینہ بی میں نے جو کہا ہے آپ وہ کریں۔۔۔۔“ انہوں نے تھوڑا نرم لہجے میں کہا، اتنی غصے میں بھی انہوں نے بیا سے نرمی سے بات کی تھی وہ تو حیرت سے گنگ رہ گٸی، اس نے آج دوسری بار شاہانہ بیگم کو اتنے غصے میں دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ ان کے غصے سے خاٸف تھی۔۔۔
”یہ سارا تماشہ جلدی ختم کرو ، دارین ،زین اور حیدر صاحب آنے والے ہوں گے۔۔رات تک یہ لوگ مجھے یہاں نظر نہ آٸیں۔۔“ انہوں نے اک اچٹتی نگاہ ان پر ڈال کر سکینہ بی سے دوبارہ کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گٸیں۔۔۔ غصے سے ان کے دماغ کی رگیں پھٹنے والی ہو گٸی تھیں،انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا وقت بھی آۓ گا۔اور وہ جان سے پیاری دوست کو شام کے وقت گھر سے نکالیں گی۔۔
”شاہانہ میری بات تو سنو۔۔۔“رومانہ بیگم ان کی پیچھے جانے لگیں۔۔
”یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے آپ لوگوں نے۔جب وہ آپ کی شکل ہی نہیں دیکھنا چاہتیں تو پھر کیوں جا رہی ہیں آپ ان کے پیچھے،پلیز ابھی چلی جاٸیں یہاں سے۔“ بیا نے آہستہ سے کہا، اس کی بات پر رمل کے تو تلوٶں سے لگی اور سر پر بجھی وہ تن فن کرتی اس کے سر پر پہنچ گٸی۔
”تم اپنی بکواس بند کرو سمجھی۔۔۔“
”چیچیچیچی رسی جل گٸی پر بل نہیں گٸے، سچ کہہ رہی تھیں ماما تم لوگ کبھی نہیں سدھر سکتیں۔۔“ بیا نے ان کی حالت پر افسوس کرتے ہو ۓ کہا۔رومانہ بیگم تو نوکروں کے سامنے اتنی تذلیل اور بےعزتی کے بعد اب با قاعدہ رونے لگ گٸی تھیں۔
”اب رو کیوں رہی ہیں ماما۔۔۔! یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ اب بھگتیں۔۔۔۔اور کریں پلاننگ سب کچھ ختم ہو گیا اب۔سڑکوں پر آگٸے ہیں ہم۔ کچھ نہیں بچا ہمارے پاس اب ۔“ رمل شعلہ بار نظروں سے ماں کو گھورتی اول فول بکتی وہاں سے چلی گٸی۔ اس نے تاسف سے رومانہ بیگم کی ایسی اجڑی ہوٸی حالت دیکھی تو اس کے بھی آنسو نکل آۓ۔۔۔وہ اپنے آنسو صاف کرتی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گٸی۔۔۔ سہی معنوں میں اسے بہت زیادہ دکھ ہو رہا تھا۔۔۔!
....***....
رات کو وہ کافی لیٹ گھر آیا تھا۔۔۔۔!
اور ہمیشہ کی طرح سیدھا کمرے میں ہی آیا ' اور پھر جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا ٹھٹک کر رک گیا، کیونکہ اندر گھپ اندھیرا تھا۔اس نے تیزی سے سوٸچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لاٸیٹس روشن کیں ، پلک جھپکتے ہی پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا۔وہ آگے بڑھا، لیکن بیا کو بیڈ پر چاروں شانے چت بازو پھیلا کر لیٹے چھت کو گھورتے دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا وہ سرعت سے چند قدموں کا فاصلہ طے کر کے اس کے سر پر پہنچ گیا۔
”کیاہوا ایسے کیوں لیٹی ہیں آپ۔۔۔۔۔؟“ لیکن جواب ندار۔۔۔
وہ اس کو ایسی کنڈیشن میں دیکھ کر کافی پریشان ہوگیا تھا۔لیکن اس کے وجود میں کوٸی جنبش نہ ہوٸی۔ وہ فکرمندی سے اس پر جھکا اور اس کے چہرے کو تھپتھپا کر پوچھنے لگا۔۔
”طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔؟“ اس نے تھوڑا سا سر گھما کر دارین کی طرف دیکھا۔اس کو اپنے لیے فکرمند دیکھ کر بیا کی آنکھوں میں نمی آگٸی، لیکن بولی پھر بھی کچھ نہیں۔شاید اس میں بولنے کی سکت ہی نہیں تھی۔
”کیا ہوا ؟ رو کیوں رہی ہیں آپ ؟ کچھ بتاٸیں تو سہی پلیز۔۔۔“ اس نے بیا کے بالوں میں آہستہ سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ ملاٸمت سے پوچھا۔
”دکھ ہو رہا ہے مجھے۔۔۔“ وہ دھیرے سے بولی۔
”کس بات کا دکھ۔۔۔؟“ وہ زیادہ پریشان ہوا۔۔
” یہ دیکھ کر کہ کوٸی اتنا دھوکے باز کیسے ہو سکتا ہے۔۔“
”کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔۔؟ کس دھوکے کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔؟ صاف صاف بتاٸیں۔۔ “ وہ اس کی باتوں سے الجھ گیا تھا۔
”دھوکے کا انجام یہی ہوتا ہے دارین جی، جو ان لوگوں کا ہوا۔۔۔۔“ وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی۔۔۔
”کن کا انجام ؟ گھر میں کچھ ہوا کیا۔؟“
”جی۔۔!۔۔۔“ اس نے مختصر جواب دیا اور اٹھ کر بیٹھ گٸی۔
”رمل نے پھر سے کچھ کہا؟ پہلیاں نہ بجھواٸیں مجھے ٹینشن ہو رہی ہے۔“وہ اس کو اپنی ساتھ لگاۓ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔۔
”نہیں وہ دونوں تو چلی گٸیں۔۔“اس نے کچھ توقف کے بعد کہا۔دارین کو تعجب ہوا۔۔شام کو جو کچھ بھی ہوا تھا ، اس کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ اچھی خاصی ڈپریسڈ ہوچکی تھی۔۔۔۔۔لیکن پھر وہ نارمل لہجے میں بولا۔” تو اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے، یہ تو اچھی بات ہے کہ انہیں چار ماہ بعد جانے کا خیال تو آیا۔۔۔“
”پریشانی والی بات ہے دارین جی۔۔! کیونکہ وہ دونوں خود نہیں گٸیں ، بلکہ ماما نے انہیں خود گھر سے نکالا ہے۔۔“ وہ دکھ سے بولتی سیدھی ہو کر بیٹھ گٸی۔
”واٹ؟ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“اب کے اسے بھی شدید قسم کا جھٹکا لگا تھا۔۔
”انہوں نے ماما کو دھوکا دیا ہے دارین جی۔۔۔“ پھر اس نے آہستہ آہستہ ساری بات تفصیل سے اس کو گوش گزار کر دی۔۔
”اوہ۔۔! مطلب مسسز شاہ کو بھی ان کی اصلیت کا پتا لگ ہی گیا۔۔“ ساری باتیں سننے کے بعد اس نے نارمل لہجے میں بس اتنا ہی کہا، اس کو نارمل دیکھ کر بیا کو حیرت ہوٸی۔۔
”آپ اتنے نارمل کیسے رہ لیتے ہیں دارین جی۔۔؟ میں نے آپ کو اتنی بڑی بات بتاٸی ہے اور آپ کو ذرا سی بھی حیرت نہیں ہوٸی۔۔۔کیوں۔۔؟“
” کیونکہ مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ وہ دونوں کوٸی نہ کوٸی گیم ضرور کھیل رہی ہیں اور یہ بات میں نے آپ کو بھی بتاٸی تھی۔دیکھیں ویسے ہی ہوا۔اس لیے تو مجھے حیرت نہیں ہوٸی، میں نے بہت دفعہ مسسز شاہ کو بھی وارن کیا تھا لیکن ان کی آنکھوں پر تو بہن اور بھانجی کی محبت کی پٹی بندھی ہوٸی تھی۔۔۔۔انہیں کچھ نظر ہی نہیں آیا، ایسے تو پھر ہونا ہی تھا۔۔۔۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔
”اوہ مطلب آپ کا شک سہی نکلا۔۔۔“
”ہممممممم ۔۔۔! مجھے علی نے ان کی اصلیت کل ہی بتا دی تھی ۔۔“
” لیکن دارین جی سارا قصور ان کا بھی نہیں، کہیں نہ کہیں تو غلطی آپ لوگوں سے بھی ہوٸی ہے۔ انہیں تو بس موقعے کی تلاش تھی جو ان کو بڑی آسانی سے مل گیا۔۔“ وہ آہستہ سے گویا ہوٸی۔
”شاید ایسا ہی ہے۔۔۔! کیونکہ مسسز شاہ نے کبھی پاپا پر یقین ہی نہیں کیا تھا ، ان دونوں کی ساری زندگی لڑاٸی جھگڑوں اور اک دورسرے کو نیچا دیکھانے میں گزر گٸی ، جبکہ میری زندگی وہ سب کچھ سنتے اور برداشت کرتے۔۔۔آپ نے ٹھیک کہا تھا اگر میں چاہتا تو ان دونوں کے درمیان جنم لینے والی دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتا تھا ، لیکن میں نے بھی ایسا نہیں کیا اور ان دونوں کو ہی ان کے حال پر چھوڑ دیا، اور دیکھو آج ہم لوگوں کے بیچ ہزاروں میل کے فاصلے ہیں اور یہ سب ہماری ضدی طبیعت اور انا کی وجہ سے ہوا ہے۔۔“ وہ ملاٸمت سے بولتا جا رہا تھا۔
”دارین جی آپ لوگ سارے اختلافات اور رنجشیں بھلا کر ایک ہوجاٸیں اور بھول جاٸیں ان لمحوں کو جنہوں نے آپ کو اذیت دی تھی، آپ آگے بڑھ اپنے ماما ، پاپا کو سنبھال لیں،انہوں نے اپنی زندگی میں جو بھی کیا اس کا انہیں بھی پچھتاوا ضرور ہوگا اک دن۔۔ پلیز اک بار اپنی ضد چھوڑ کر ان کی طرف قدم بڑھاٸیں اور دیکھیں کتنی خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔۔۔۔“ اس نے دارین کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر رسانیت سے سمجھایا۔وہ بھی اس کی حالت سمجھ رہا تھا، کیونکہ شام کو جو بھی ہوا تھا اس کا اثر اس کے دل و دماغ پر ہوا تھا اور وہ تو پہلے ہی اپنوں سے دور تھی ، اس لیے اس کو زیادہ تکلیف ہو رہی تھی۔
”سب کچھ اک پل میں بھول پانا آسان نہیں ہوتا بیا۔۔۔“ وہ فقط اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا تھا، اس کے چہرے پر گزرے وقت کی داستان رقم تھی۔جس کو چاہ کر بھی وہ نہیں بھول سکتا تھا۔۔ کچھ دیر اک گہری خاموشی ان دونوں کے درمیان حاٸل رہی،جانتی تو وہ بھی تھی کہ اتنا سب کچھ اک پل میں بھولنا پانا آسان نہیں تھا، لیکن نامکمن بھی نہیں تھا۔
”لیکن دارین جی ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔“ اس نے پھر سے کہا۔
”میں ابھی فریش ہو کر آتا ہوں، پھر نیچے چلتے ہیں “ اس نے بات بدل کر کہا اور اٹھ کر کھڑا گیا۔۔۔۔۔!
”ویسے اس سارے ڈرامے کے بعد پاپا اور زین کا کیا ری ایکشن تھا۔۔۔؟“ واڈروب کی طرف بڑھتے ہوۓ اس نے اچانک رک کر پوچھا۔
”مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔ ! آپ خود ہی نیچے جا کر پاپا سے پوچھ لیجٸیے گا۔۔۔“ اس نے نروٹھے پن سے کہا اور بیڈ پر منہ دوسری طرف پھیر کر بیٹھ گٸی۔۔
”ارے اب آپ کو کس بات کا دکھ ستا رہا ہے، ان دونوں نے ماما کو دھوکا دیا اس بات کا یا انہوں نے ان کو گھر سے نکال دیا اس بات کا؟“ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوۓ پوچھا ، اتنے عرصے میں پہلی بار اس نے شاہانہ بیگم کو ماما کہا تھا۔بیا کو خوشگوار حیرت نے آگھیرا۔
”دونوں باتوں کا، نہ وہ دھوکا دیتیں اور نہ ہی ماما اتنا سخت قدم اٹھاتیں،وہ تو ان سے بہت پیار کرتی تھیں۔“ وہ اداس لہجے میں بولی ، شام سے ہی وہ اپنے کمرے میں بند تھی،جب وہ لوگ گھر سے گٸی تھیں ، تب بھی وہ نیچے نہیں گٸی تھی،اس نے کھڑکی سے ان کو جاتے دیکھا تھا۔۔
”لیکن میرے خیال میں جو بھی ہوا اچھا ہی ہوا،شاید اب ماما کو ریلاٸیز ہو جاۓ کہ ساری عمر انہوں نے جو کیا وہ غلط تھا ۔۔۔“
”جی انسان کو سنبھلنے کے لیے ذرا سی ٹھوکر ہی کافی ہوتی ہے۔۔“وہ ہولے سے بولی۔ دارین باتھ روم میں گھس گیا، لیکن وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔
”چلیں اب آپ بھی فریش ہو جاٸیں۔پتا نہیں کب سے رو رہی ہیں۔۔“کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آیا تو اس کو ایسے ہی گھٹنوں کے گرد بازو پھیلاۓ بیٹھے دیکھ کر بولا۔۔
”مجھے نہیں ہونا ۔۔ “ وہ تنک کر بولی۔
”کیوں اب کیا ہوا۔۔؟“
”پہلے بتاٸیں آپ لیٹ کیوں آۓ؟ پاپا اور زین بھیا تو کب کے آچکے ہیں۔“اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔آٸینے کے سامنے کھڑے ہو کر تولیے سے بال صاف کرتے دارین کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گٸی۔۔
”ہنس کیوں رہے ہیں آپ۔؟“ اس نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا۔
”وہ بس اک پرانی دوست مل گٸی تھی۔۔۔۔وہ زبردستی مجھے اپنے ساتھ لے گٸی اور میں اس کو انکار ہی نہیں کر سکا۔۔“ اس نے شرارتی نظروں سے بیا کے پھولے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر مسکراہٹ چھپا کر بےحد سنجیدگی سے کہا۔۔
”اوہ اچھا۔۔۔! تو یہ بات ہے۔۔ اس لیے میری یاد نہیں آٸی آپ کو۔۔“ وہ افسردگی سے بولی تو اس کا لہجہ نم آلود ہو تھا۔۔ اس نے پلک جھپک کر آنسوٶں کو اندر دھکیلا، لیکن پھر بھی پلکوں کے بند توڑ کر باہر نکل آۓ۔
”ارے ارے پلیز روٸیں نہیں۔۔۔! میں جسٹ مزاق کر رہا ہوں ،بس آج کچھ کام زیادہ تھا اس لیے لیٹ ہو گیا۔۔“ وہ تولیہ پھینک کر جلدی سے اس کے پاس آیا۔۔
”پکی بات ہے ناں“ اس نے سوں سوں کرتے ہوۓ تصدیق چاہی۔۔
”جی ہاں چلیں اب نیچے چلتے ہیں ، مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔“ اس نے بیا کو بازو سے پکڑ کر بیڈ سے اٹھایا ، وہ بھی مسکراتے ہوۓ اٹھ گٸی۔
”آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا ہوگا۔۔۔۔۔ہے ناں۔؟“ اب اس کا موڈ کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا۔۔
”آپ نے نہیں کھایا تو بھلا میں کیسے کھا سکتی تھی۔“ اس نے اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر کیچر لگایا اور چہرے کو صاف کر کے جوتا پہننے لگی۔
”آٸی نو آپ کو دوسروں کی بہت زیادہ پرواہ ہوتی ہے اپنی بلکل بھی نہیں۔۔۔۔“وہ مسکرا کر بولا،اور دروازے کی طرف بڑھا۔
”آپ کوٸی دوسرے نہیں ہیں دارین جی۔۔۔! میرے اپنے ہیں اور مجھے اپنوں کی بہت زیادہ پرواہ ہے۔۔“وہ بھی باتیں کرتی ہوٸی اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل گٸی۔۔۔۔
....***....
”بات سنو۔۔۔۔۔“
شاہانہ بیگم نے کچن سے نکلتی بیا کو دیکھ کر دھیرے سے پکارا۔۔وہ بھی ان کی آواز سن کر چپ چاپ ان کی طرف آ گٸی۔۔
”جی کوٸی کام تھا آپ کو۔۔؟“ اس نے آہستہ سے پوچھا، اور سر جھکا کر کھڑی ہوگٸی۔۔۔ کل شام کے بعد وہ اس کو اب نظر آٸی تھیں۔
”نہیں کام تو کوٸی نہیں۔۔۔! ایم سوری بیا میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا۔۔۔“ انہوں نے کچھ توقف کے بعد نرم لہجے میں کہا۔اس نے اک جھٹکے سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ان کی سرخ اور بوجھل آنکھیں رت جگے کی چغلی کھا رہی تھیں۔۔ٹوٹا لہجا اور بکھرا حلیہ بتا رہا تھا کہ وہ ابھی بھی کافی ڈسٹرب تھیں۔۔۔ان کی حالت دیکھ کر اسے افسوس ہوا۔
”آپ مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں، آپ دارین کی ماں ہیں اور میں ان سے جڑے ہر رشتے کی دل سے قدر کرتی ہوں۔چاہے پھر کوٸی مجھے اچھا سمجھے یا برا۔۔“اس نے دھیرے سے جواب دیا۔ اس کو وہ پل یاد آگٸے تھے جب اس نے اس گھر میں قدم رکھا تھا۔شاہانہ بیگم کے چہرے پر بھی اک سایہ آ کر گزر گیا انہیں بھی پتا تھا کہ تب کیا ہوا تھا۔۔
”اتنا پیار کرتی ہو دارین سے۔۔۔۔؟“ انہیں تعجب ہوا تھا ، لیکن اس بات کی خوشی بھی ہوٸی تھی کہ دارین کو بہت پیار کرنے والی بیوی ملی تھی۔۔
”جی لیکن پیار سے زیادہ میں ان پر اعتبار کرتی ہوں ، ان کی عزت کرتی ہوں۔کیونکہ اس دنیا میں خدا کے بعد ایک وہی تو میرا سہارا ہیں۔۔“ اس نے اپنی آنکھوں میں اترتی نمی کو پلک جھپک کر اندر دھکیلا اور دھیرے سے مسکرا دی۔۔
”پھر بھی مجھے معاف کر دو میں اپنے گزشتہ رویے پر بہت شرمندہ ہوں، میں نے لوگوں کو سمجھنے میں بہت غلطی کر دی“ شاہانہ بیگم نے اس سے اپنے گزشتہ رویے کی معزرت کی۔ انہیں بہت کچھ سمجھ آ چکا تھا۔