شام کو ناٸمہ آپی اور اسرار بھاٸی آگٸے تھے ۔۔۔۔!
لیکن وہ طبیعت خراب کا بہانہ بنا کر کمرے سے نہیں نکلی ، مغرب کی آذان ہونے لگ گٸی تھی اس نے وضو کر کے نماز پڑھی اور بڑی منہک ہو کر رو رو کر دعا مانگ رہی تھی، جب دروازے پر ہلکی سی دستک ہوٸی وہ یک دم سے ڈر گٸی ۔۔۔۔
”کک کون۔۔۔؟“خوف سے اس کی آواز لڑ کھڑا گٸی تھی اس کو اسرار بھاٸی کی بے باک اور گندی حرس بھری نظروں سے خوف آتا تھا ،وہ جب بھی آتے تھے ان کی گندھی نظریں بیا کا ہی طواف کرتی تھیں، اس لیے تو جب وہ لوگ آتے تھے، وہ اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلی تھی،
”بیا آپی۔۔!کیا ہوا ۔۔؟“ باہر سے راٸمہ کی پریشان سی آواز آٸی۔۔ اس نے جلدی سے دعا مانگ کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور چہرے سے آنسو صاف کر کے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔
”آپ کچھ پریشان سی ہیں۔۔؟“ راٸمہ نے اس کی روٸی ہوٸی آنکھیں دیکھ کر سوال کیا،
"نن نہیں تو ، تمہیں کوٸی وہم ہوا ہے۔۔۔۔“وہ جلدی سے ہلکا سا مسکرا کر بولی۔
” آپ کو ناٸمہ آپی اور امی بلا رہی ہیں۔۔وہ بہت غصہ ہیں آپ پر ۔۔“ اس نے عابدہ مامی کا پیغام اس کو دیا۔
”مم میں ابھی آتی ہوں۔۔۔۔“وہ لڑکھڑاتی آواز میں آہستہ سے بولی۔۔
”جلدی آٸیں آپی۔۔۔۔۔۔۔“ وہ کہہ کر فوراً چلی گٸی۔ راٸمہ کے جانے کے بعد اس نے شال اچھی اپنے گرد لپیٹی اور کمرے سے باہر نکل آٸی،اس کا رخ مامی کے کمرے کی طرف تھا، وہ خود کو ان دونوں کی ڈانٹ کھانے کے لیے تیار کر کے جا رہی تھی۔۔
”السلام علیکم۔۔۔!۔۔۔۔“ اس نے کمرے میں قدم رکھتے ہی سب کو مشترکہ سلام کیا ، سامنے ہی صوفے پر اسرار بھاٸی بیٹھے تھے اس کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں شیطانگی چمکنے لگی تھی۔وہ گہری نظروں سے دیکھتا اس کی طرف متوجہ ہوۓ ۔۔
”آٸیے آٸیے سالی صاحبہ۔۔۔ آپ تو ہمیں دیکھ کر کمرے میں ہی چھپ گٸیں۔۔ ہم آپ کو کھا تھوڑی جاٸیں گے، کچھ دیر ہمارے پاس بھی بیٹھیں۔۔ “ ان کی باتیں سن کر راٸمہ اور ناٸمہ نے بھی بیا کی طرف دیکھا ، وہ گھبراٸی ہوٸی تھی اور بار بار شال کو اپنے گرد سیٹ کر رہی تھی، راٸمہ جلدی سے اس کی مدد کو بولی۔۔
”ایسی بات نہیں ہے اسرار بھاٸی ، ان کی طبیعت نہیں ٹھیک اس لیے وہ اپنے کمرے میں تھیں۔۔۔“
”ارے کیا ہوا سالی صاحبہ ۔۔۔۔؟“ ان کے لہجے میں بیا کے لیے فکر دیکھ کر ناٸمہ نے پہلو بدلہ اور کھا جانے والی نظروں سے اُسے گھورا ، عابدہ مامی بھی یہ سب دیکھ غصے سے بیا کی طرف پلٹیں۔
”یہاں کھڑی منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ جاٶ کچن کو دیکھو“ وہ خود بھی وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی ، ان کا حکم ملتے ہی وہاں سے سر پٹ بھاگی ، جبکہ اسرار کی ہوس بھری نظروں نے دور تک اس کا تعقب کیاتھا ، یہ بات راٸمہ سے چھپی نہیں رہ سکی تھی ،وہ بھی وہاں سے اٹھ کر بیا کے پیچھے چلی گٸی۔۔۔
صفدر علی اور ذکیہ دو ہی بہن بھاٸی تھے۔۔۔۔ذکیہ کی شادی احمد علی سے اور صفدر کی شادی عابدہ سے ہوٸی تھی، ذکیہ کی ایک بیٹی تھی انابیہ، جبکہ صفدر علی کی دو بیٹیاں تھیں بڑی ناٸمہ اور چھوٹی راٸمہ۔۔۔ناٸمہ کی دو سال پہلے شادی کر دی تھی،وہ انابیہ سے بڑی تھی ،بلکل اپنی ماں کا پر تو تھی، جبکہ راٸمہ بیا سے چار سال چھوٹی تھی وہ یونی میں پڑھتی تھی، اس کا ایم اے ایجوکیشن کا لاسٹ سمیسٹر تھا،وہ بہت بہت پیاری اور سلجھی ہوٸی تھی،بلکل انابیہ کی کاپی لگتی تھی، چار سال پہلے انابیہ کے والد کی اک روڈ ایکسیڈنٹ میں موت ہوگٸی اور وہ ان دونوں ماں بیٹی کو روتے چھوڑ کر اس دنیا فانی سے چل بسے۔ تب انابیہ ایف اے کے پیپر دے رہی تھی۔شوہر کے انتقال کے صدمے سے ذکیہ بیمار رہنے لگ گٸی تھی۔بہن کا دکھ اور بیماری دیکھ کر صفدر علی نہ چاہتے ہوئے بھی اُن دونوں کو اپنے گھر لے آۓ۔وہ اک پراٸیویٹ امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے ، کام کی وجہ سے کبھی کسی شہر تو کبھی کسی ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا ، گھر ان کا اپنا تھا ، تنخواہ بھی اچھی خاصی تھی لیکن مہنگاٸی کے اس دور میں تنخواہ جتنی بھی ہو پھر بھی کم تھی، لیکن ان کا گزر بسر اچھا ہی ہو رہا تھا،ان کی بیوی عابدہ بہت تیز ترار خاتون تھیں، وہ ان دونوں ماں بیٹی کے آنے پر خوش نہیں تھیں ، پہلے پہل تو اس نے بہت ناک بھوں چڑھاۓ،ان کو طعنے دیٸے، باتیں سناٸیں۔لیکن پھر جب اس کو مفت کی دو نوکرانیاں ملیں تو وہ بھی خاموش ہوگٸیں ، لیکن اپنی تیز زبان کے جوہر دکھانے سے باز نہیں آٸی تھیں ۔وہ ماں بیٹی سارا دن گھر کے کام کرتیں۔لیکن پھر بھی ان کو ڈھیروں باتیں اور طعنے سننے کو ملتے تھے ، چھے ماہ پہلے ذکیہ کا بھی انتقال ہوگیا تھا تھا اور وہ مکمل طور پر یتیم ہوگٸی، اس کو ماں کا جو سہارا تھا وہ بھی ختم ہوگیا اور وہ پوری کی پوی عابدہ کی زہریلی باتوں کے رحم و کرم پر آگٸی تھی۔اب سارے گھر کا کام، ہانڈی روٹی ، برتن ، صفاٸیاں اس اکیلی کے ذمے تھیں، پہلے تو ذکیہ بی اس کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتی تھی،لیکن اب تو چھے ماہ ہو گٸے تھے۔وہ بیچاری بھی اس ظالم سماج اور بے رحم دنیا سے رخصت ہوگٸی تھی۔۔۔۔۔!
**...**...**
ڈاٸیننگ ہال میں اس وقت مکمل خاموشی تھی ، بس چھری اور کانٹے کی آوازیں آ رہی تھیں ، حالانکہ اس وقت وہاں تین لوگ موجود تھے ، لیکن تینوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش تھے، چوبیس گھنٹوں میں یہی اک وقت تھا جب اس عظیم و شان عمارت جس کے ماتھے پر ” شاہ ولا “ لکھا تھا، کے مکینوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا تھا،لیکن اس وقت میں بھی وہ صرف اور صرف ضروری باتیں ہی کرتے تھے ، دارین کو یہ ” شاہ ولا “ کم اور ضروت ولا زیادہ لگتا تھا، کبھی کبھی اس کا دل کرتا کہ وہ اس کا نام بھی ضرورت ولا ہی رکھ دے، لیکن پھر اس گھر کے مکینوں پر رشک کون کرتا جو کہ دولت ، شہرت اور عزت کے لیے جانے جاتے تھے، لیکن پیار اور جذبات کے معاملے وہ کسی کھنکتے ہوۓ برتن کی طرح خالی تھے،
دراصل اس محل میں رہنے والے لوگوں کے رشتے کی بنیاد بھی ضرورت پر رکھی گٸی تھی، حیدر علی شاہ اور شاہانہ کی شادی ان کے والدین نے اپنے بزنس کی ساکھ کو مضبوط رکھنے کے لیے کی تھی،یہ جانے بغیر کے ان دونوں کے خیالات اور مزاجوں میں زمین و آسمان کر فرق تھا اور وہ دونوں ہی غصیل ، خود سر اور ضدی تھے، وہ دونوں ہی پچاس پچاس پرسنٹ کے مالک تھے اگر حیدر علی طلاق دیتے تو وہ اس سے محروم ہوجاتے اور اگر شاہانہ خود طلاق مانگتی تو وہ بھی اس دولت سے محروم ہوجاتی ، اس لیے وہ اس رشتے کو ناچاہتے ہوۓ بھی نبھانے پر مجبور تھے، یہ ان کے والدین کی چلاکی تھی یا ان دونوں کی بدنصیبی لیکن پھر بھی وہ دونوں ساتھ رہنے پر مجبور تھے ، اور اس طرح جو گھر وجود میں آیا وہ پیار و جذبات سے خالی اور بکھرا ہوا تھا۔دارین کی پیداٸش نے بھی ان پر کچھ اثر نہیں کیا،اس کا سارا بچپن ہی ماں باپ کی محبت پانے کو ترستے ہوۓ گزرا۔۔۔۔لیکن صرف بچپن ۔۔۔بعد میں دارین حیدر بھی ماں باپ کے رنگ میں رنگ گیا، وہ بھی بےحس اور کھٹور بن گیا تھا،اب اس کے لیے بھی دولت ،شہرت روپیہ پیسہ ہر چیز سے بڑھ کر تھا،لیکن پھر بھی بہت سی جگہوں پر اسکی انسانیت جاگ ہی جاتی تھی اور اس کے اندر بھی زندہ انسانوں والے احساسات و جذبات آہی جاتے تھے، اس نے اپنے باپ کے ساتھ بزنس کرنے کی بجاۓ الگ سے اپنا بزنس سٹارٹ کیا تھا اور دن رات کی محنت و لگن سے وہ اک کامیاب بزنس مین بننے میں کامیاب ہوگیا تھا ،اس کی شاندار شخصیت اور غیر معمولی صلاحیتوں نے اس کو بہت سے نوجوانوں کا آٸیڈل اور بہت سے دلوں کی ڈھرکن بنا دیا تھا،
وہ بھی ان سب دلوں سے کھیلنا اپنا حق سمجھتا تھا، لیکن صرف وقتی طور پر ، مستقل بنیاد پر کسی کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا اس میں حوصلہ نہیں پڑتا تھا، کہ کہیں اس کی ٹوٹی بکھری شخصیت سے اک اور ٹوٹا بکھرا گھر جنم نہ لے۔ لیکن پھر بھی اسکے دل کے کسی کونے میں اک آسودہ سی خواہش جنم لیتی تھی کہ اسکا بھی اک خوبصورت سا گھر ہو،جہاں اس کا خیال رکھنے والی اور اس سے محبت کرنے والی بیوی ہو ، لیکن وہ بس ایسا سوچ کر ہی رہ جاتا تھا، اس کی اٹھاٸیسویں سالگرہ پر مسسز شاہ نے بھی اپنی تمام تر شخصی آزادی کو اک طرف رکھ کر اس کو شادی کے بارے میں کہا تھا تو اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ در آٸی تھی وہ بس سوچ کر رہ گیا کہ اس کو لفظ شادی سے متنفر کرنے والی اور عورت ذات سے بے اعتبار کرنے والی وہی تو تھیں جو کہ اس کی ماں ہونے کا درجہ رکھتی تھیں۔وہ اپنی اولاد کے سامنے ہی اپنی بربادیوں کی دہاٸیاں اور اپنے شریک سفر کی ذات کی دھجیاں نہیں بکھیرنا چاہتا تھا،جس طرح اس کے والدین کرتے تھے،
اک زین ہی تھا جو اس کو بہت اچھی طرح جانتا اور سمجھتا تھا ، وہ اک لاوارث تھا جس کو دارین نے اپنا بھاٸی بنایا ہوا تھا وہ اس سے پانچ سال چھوٹا تھا، لیکن ان دونوں میں بنتی بہت زیادہ تھی ، ان دونوں کی جان تھی اک دوسرے میں ، وہ بھی اسی ضرورت ولا میں رہتا تھا۔۔
ابھی بھی شاہانہ بیگم ، حیدر علی شاہ اور زین تینوں ڈاٸیننگ ہال میں بیٹھے تھے،لیکن دارین کا کچھ اتا پتا نہیں تھا، حیدر علی نے اک نظر ڈاٸیننگ ٹیبل کی خاموش فضا پر ڈالی اور لب بھینچ لیے، تب ہی ان کی نظر تیزی سے سیڑھیاں اترتے دارین پر پڑی ۔۔۔۔
”دارین ۔۔۔؟“
وہ جو نک سک سے تیار اک ہاتھ میں آفس بیگ تھامے، دوسرے ہاتھ سے سیل کان سے لگاۓ کسی سے بات کرتا بڑی عجلت میں سیڑھیاں اتر رہا تھا، اس کے کانوں سے حیدرعلی شاہ کی روعب دار آواز ٹکراٸی، تیزی سے اٹھتے اس کے قدم ٹھٹھک کر رک گٸے ' وہ کال ڈسکنکٹ کر کے ان کی طرف متوجہ ہوا۔۔
”جی پاپا۔ کچھ کام تھا آپ کو۔۔؟“
”نہیں ۔۔۔! اتنی جلدی میں کہاں جا رہے ہو۔۔؟“ انہوں نے خود ہی سوال کیا۔ دو تین دنوں سے ان کا دارین سے سامنا نہیں ہوا تھا،آج ہوا بھی تو وہ کافی عجلت میں تھا،
”آفس۔۔۔۔“ اس نے مختصر جواب دیا۔
”چلو ناشتہ کر لو ہمارے ساتھ ' پھر چلے جانا۔۔۔“ انہوں نے نرمی سے کہا۔
”ہمممم۔۔۔۔! اوکے۔۔۔۔“ اس نے بھی کسی قسم کی بحث کٸیے بغیر بیگ لاٶنج میں پڑے ٹیبل پر رکھا اور خود ڈاٸیننگ ٹیبل پر زین کے ساتھ والی چٸیر پر بیٹھ گیا۔
بھاٸی پھر آج کا کیا پلان ہے۔؟“
”فلحال تو کچھ نہیں تم یونی جاٶ۔۔۔ وہاں سے فری ہو کر آفس آ جانا۔جو بھی پلان ہوا وہاں ڈسکس کر لیں گے، ابھی میں بھی کافی جلدی میں ہوں۔۔۔۔۔“وہ جلدی جلدی ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ زین سے باتیں بھی کر رہا تھا، شاہانہ بیگم اور حیدر شاہ خاموشی سے ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”کیا چل رہا آج کل؟ بہت بزی ہو ؟ دو تین دن سے نظر ہی نہیں آۓ ۔۔۔؟“ حیدر شاہ نے مداخلت کر کے اس کی مصروفیت کا پوچھا،
”کام ، کام اینڈ کام۔۔۔! یو نو پاپا دارین حیدر کی لاٸف میں جسٹ کام ہی ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔“ اس نے ازلی سنجیدگی سے جواب دیا۔وہ آج کل اک اہم پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا اس لیے کچھ زیادہ ہی بزی تھا،
”اپنے پاپا کو بھی کچھ عقل دے دو تاکہ وہ بھی ادھر اُدھر منہ مارنے کی بجاۓ اپنے کام پر توجہ دیں۔۔۔“کب سے خاموش بیٹھی شاہانہ بیگم نے حیدر شاہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوۓ اس سے کہا،ان کی بات پر دارین اور زین نے تو نارمل انداز میں ان کی طرف دیکھا ،کیونکہ یہ ان کا روز ک معمول تھا ، جبکہ حیدرشاہ کا پارہ غصے سے چڑھ گیا،
”شٹ اپ ! اپنی بے ہودہ بکواس بند کرو۔۔۔“ وہ اک دم سے دھاڑے،
”یہ بکواس نہیں بلکہ سچ ہے۔۔۔! جو کچھ آپ کرتے پھر رہے ہیں وہ میں تو کیا پورا شہر بلکہ ملک جانتا ہے۔“وہ بھی ان کے انداز میں ہی غصے سے بولیں۔
”تو بھاڑ میں جاٸیں سب ! مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں۔۔“ انہوں نے شدید طیش میں آتے ہوۓ کہا، وہ دونوں اس وقت جوان اولاد کے سامنے بچوں کی طرح لڑ رہے تھے، ملازمین کی پرواہ کیٸے بغیر ۔۔یہ ان کا روز کا معمول تھا اب تو ان سب کو بھی اس سب کی عادت ہوگٸی تھی،
”ہاں سہی کہا بے شرموں کو کس بات کی پرواہ ہونی ، کچھ شرم و حیا کیا کریں ، جوان اواد ہے آپ کی۔۔۔“وہ اپنی نفاست اور سارا سلیقہ اک طرف رکھے بد زبان اور جاہل عورتوں کی طرح بولیں۔
”تم انتہاٸی جاہل ، بدتمیز اور زبان دراز عورت ہو ،اور تمہاری یہی عادتیں مجھے باہر جانے پر مجبور کرتی ہیں۔۔۔سمجھی تم۔۔" وہ بھی سب کچھ بلاۓ طاق رکھ کر چیخے، جبکہ دارین اور زین نارمل انداز میں ناشتہ کر رہے تھے،
”اور آپ بھی انتہاٸی ضدی ، خود سر اور آوارہ قسم کے انسان ہیں ، جو گھر چھوڑ کر باہر کے گند پر منہ مارتے ہیں۔۔“وہ بھی کہاں پیچھے ہٹنے والی تھیں، ان کو لڑتے دیکھ کر کوٸی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ اعلیٰ خاندان کے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔۔
”شٹ اپ ۔۔۔“ وہ دھاڑے ،
”اوکے پاپا۔۔۔۔! مجھے آفس سے لیٹ ہو رہا ہے،میں چلتا ہوں آپ چلیں گے یا نہیں۔۔۔۔۔؟“ دارین نارمل انداز میں نیپکن سے ہاتھ صاف کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
”زین تم چل رہے ہو میرے ساتھ یا بعد میں آٶ گے۔۔۔؟“ وہ زین کی طرف مڑا اور اس کے جواب دینے سے پہلے ہی لمبے لمبے ڈگ بھرتا لاٶنج میں پہنچ گیا تھا،
”ہم بھی تمہارے ساتھ ہی چلتے ہیں۔اس بے وقوف اور جاہل عورت کے ہوتے ہوۓ بھلا کوٸی سکون سے ناشتہ کر سکتا ہے؟اس جاہل عورت نے اپنی فضول بکواس سے صبح صبح ہی موڈ خراب کر دیا۔۔“ وہ بھی غصے سے بڑبڑاتے ہوۓ وہاں سے اٹھ گٸے ، ان کے پیچھے ہی زین بھی اٹھ گیا تھا،جبکہ ڈاٸیننگ ٹیبل پر اب شاہانہ بیگم اکیلی ہی پیچ و تاب کھا کر رہ گٸیں۔ پھر کچھ دیر چوہدری حیدر کو برا بھلا کہنے اور کوسنے دینے کے بعد وہ بھی وہاں سے اٹھ گٸیں۔۔۔۔!
**...**...**
”صفدر صاحب۔۔! کیا ہوا ؟ آپ کافی پریشان سے لگ رہے ہیں۔خیر تو ہے ناں۔۔۔؟“صفدر علی اپنے کمرے میں بہت بےچینی سے ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔پریشانی ان کے چہرے پر واضح تھی، جو کہ عابدہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دیکھ لی تھی۔۔
”ہوں! ہاں ، وہ بات ہی کچھ ایسی ہے ۔۔“ وہ چونک کر ماتھے کو مسلتے ہوۓ بولے،
”اللہ خیر۔۔۔ ! ہوا کیا ہے کچھ بتاٸیں تو سہی ؟ پہلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں۔۔۔؟“ ان کا ہاتھ بھی پریشانی سے کلیجے پر جا پڑا تھا۔
”وہ دراصل بات یہ ہے کہ کمپنی والے مجھے کچھ مہینوں کے لیے دوسرے شہر بھیجنا چاہ رہے ہیں۔۔۔“ انہوں نے عابدہ کو اپنی پریشانی کی وجہ بتاٸی۔ جس کو سن کر وہ بھی تھوڑی سی پریشان ہوگٸی تھیں۔
”لیکن کیوں۔۔۔کس لیے ؟ کام تو یہاں بھی ہو رہا ہے۔۔۔“
”پتا نہیں مجھے۔۔۔“
”پھر آپ نے کیا کہا۔۔۔؟“ انہوں نے فکر سی ہوٸی۔
”کچھ نہیں جانا تو پڑے گا مجبوری ہے ' اور پرموشن کے چانسسز بھی کافی ہیں۔“ انہوں نے تفصیل سے بتایا تو ان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑ گٸی۔
”تو صفدر صاحب آپ بے فکر ہو کر جاٸیں۔۔گھر کی فکر نہ کریں میں ہوں ناں۔۔۔“
”ہمممممم۔۔۔۔! باقی باتیں کل کریں گے' ابھی مجھے نیند آٸی ہے۔۔“ انہوں نے آہستہ سے کہا اور پھر خاموشی سے بیڈ پر لیٹ کر دوسری طرف کروٹ بدل لی۔۔
”صفدر صاحب۔۔۔۔! بات سنیں۔۔“ کچھ یاد آنے پر عابدہ نے انہیں پکارا۔۔
”ہاں اب کیا ہوگیا۔۔؟“ انہوں نے بیزاری سے پوچھا۔ان کا موڈ کافی خراب تھا۔کیونکہ وہ گھر کو ایسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،
”وہ آج ناٸمہ آٸی تھی۔۔۔۔! اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی تو وہ بیا کو اپنے گھر لے کر جانا چاہتی ہے کچھ دنوں کے لیے۔۔۔۔۔“
”یہ کیا کہہ رہی ہو عابدہ؟ ایسے کیسے جوان لڑکی میں ان کے گھر بھیج دوں۔۔۔“ وہ ان کی بات سن کر کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھے۔
”ارے صفدر صاحب وہ غیروں کا گھر تھوڑی ہے ہماری بیٹی کا گھر ہے اور دوسال بعد وہ ماں بننے والی ہے اگر کام کرتے ہوۓ کوٸی اونچ نیچ ہو گٸی تو۔۔۔۔۔ “انہوں نے صفدر صاحب کو دھیمی آواز میں بڑے رسانیت سے سمجھایا ،وہ بھی اس کی باتیں سن کر سوچ میں پڑ گٸے۔
”کیا ہوا ؟ اب کس سوچ میں پڑ گٸے آپ ۔۔۔؟“
”کک کچھ نہیں۔۔۔۔! میں سوچ رہا ہوں بےشک وہ ہماری بیٹی کا گھر ہے،لیکن ایسے کسی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے ، زمانہ بہت خراب ہو چکا ہے۔۔۔آج کل تو کسی اپنے پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔۔“ ان کو اگلی فکر نے ستایا۔
”کچھ نہیں ہوگا آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔۔۔“ وہ ان کو منانے کی کوشش کرنے لگیں۔۔
”ہوں۔۔۔۔۔! لیکن ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، ہم کل بات کریں اس موضوع پر۔۔“ انہوں نے سنجیدگی سے کہا اور پھر سے لیٹ گٸے۔
”لیکن آپ میری پوری بات تو سنیں۔۔۔۔۔“ وہ صفدر علی کو سوتے دیکھ کر جھنجھلا کر بولیں۔ انہیں ناٸمہ کی بہت زیادہ فکر تھی اور وہ بیا کو وہاں بھیجنا چاہتی تھیں، ہر حال میں۔۔
”کہا نہ لاٸٹ بند کرو اور سو جاٶ،میرا دماغ خراب مت کرو ،پہلے ہی بہت رات ہو گٸی ہے، کل بات کریں گے۔۔“ صفدر صاحب غصے سے بولے اور کمبل منہ تک اوڑھ کر کروٹ بدل گٸے۔۔
”ہاں ہاں ! میری باتیں تو آپ کا دماغ خراب کرتی ہیں ۔“ وہ غصے سے بڑبڑاتی لاٸٹ آف کر کے ، بیڈ کی دوسری طرف لیٹ گٸی، لیکن انہیں اس بات کا یقین تھا کہ صفدر صاحب مان جاٸیں گے ۔۔۔۔۔۔!
**...**...**