اواٸل دسمبر کی خنک رات تھی۔۔۔۔۔!
اس جاڑے میں ہر چیز اپنے اپنے خول میں سمٹی ہوٸی تھی ،لیکن اس تاریک و ویران سرد رات میں وہ بے یارو مدد گار ،کندھے پر جھولتی شال کو بمشکل سنبھالتی ننگے سر اور ننگے پاٶں اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔ اس کو خود بھی نہیں پتا تھا وہ کس سمت میں بھاگ رہی تھی سخت سردی کی وجہ سے اس کی ٹانگیں شل ہوگٸی اور اک دو بار تو ٹھوکر لگنے سے وہ منہ کے بل گرتے گرتے بچی تھی،لیکن پھر خود ہی سنبھل گٸی، وہ بھاگتے بھاگتےبہت دور نکل آٸی تھی اس بات کا اندازہ اسے خود بھی ہوچکا تھا،پیاس کی شدت سے اس کا گلا خشک ہوگیا اور وہ نڈھال ہوگٸی تھی اس نے آس پاس نظر دوڈارٸی لیکن کہیں بھی قریب سے پانی کی کوٸی امید اس کو نظر نہ آٸی اور اب پانی کے بغیر اُسے چلنا دشوار لگ رہا تھا اس کی ٹانگوں سے جان نکل رہی تھی۔ پھر بھی وہ سب سے انجان اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔تبھی تو وہ اتنی دور آگٸی تھی صرف اس خدشے سے کہ کہیں وہ لوگ اس کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے نہ آ رہے ہوں ۔ انہی کے ڈر سے تو وہ گھر سے اتنی دور کہاں سے کہاں نکل آٸی تھی۔اس نے ڈر و خوف سے اس ویران جگہ کو دیکھا، لیکن اس کو کوٸی جاۓ پناہ نہیں مل رہی تھی۔کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا،چلتے چلتے وہ پھر سے آبادی کی طرف مڑی، لیکن تب تک اسکے حواس ڈوب چکے تھے۔اتنی شدید سردی اس کی ہڈیوں میں اتر رہی تھی، آنسو اس کی آنکھوں کے بند توڑ کر گالوں کو بھگو رہے تھے۔بھاگتے بھاگتے اک دم سے اس کے سر میں درد کی لہر اٹھی اس نے سر کو تھام لیا،اس کو سامنے سے آتی گاڑی کی ہیڈ لاٸٹس تو نظر آر ہی تھی لیکن اس کو یہ نہیں پتا تھا کہ وہ خود کس طرف جارہی ہے۔۔۔۔۔؟
گاڑی بہت تیز رفتاری سے آرہی تھی،اچانک ہی سامنے آ جانے والی لڑکی کو دیکھ کر زین نے بمشکل بریک لگاۓ تھے لیکن تب تک وہ لڑکی گاڑی سے ٹکرا چکی تھی۔ ٹکر اتنی زور دار تھی کہ وہ سنبھل ہی نہ سکی اور منہ کے بل سڑک پر گری،اس کا سر سڑک پر بہت زور سے ٹکرایا تھا ، درد کی اک شدید سی لہر اس کے پورے جسم میں سرایت کر گٸی ، اس نے درد کو دبانے کی اک ناکام سی کوشش کی، لیکن بے سود۔۔
گاڑی کے ٹاٸیر بہت زور سے چرچراۓ تھے۔۔۔
”کیا ہوا ۔۔۔؟“ وہ چونک کر سیدھا ہوا۔
”افففف ۔۔۔پتا نہیں۔۔ اب یہ سامنے کون آگٸی۔۔؟“ زین کو کوفت ہوٸی ، جبکہ دارین اس کی بات سن کر فوراً ڈور کھول کر باہر نکل آیا تھا۔اس نے لاٸٹس کی روشنی میں لڑکی کو منہ کے بل گرے دیکھا تھا، اس کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا،دارین نے اپنا اک گھٹنہ زمین پر رکھ کر اس لڑکی کو سیدھا کیا اور اس کی نبض چیک کی اور پھر زین کی طرف دیکھا۔
”گاڑی کا بیک ڈور کھولو جلدی۔۔۔“ اس نے زین کو اشارہ کیا۔۔وہ ایکدم سے بدک گیا تھا۔
”کیا مطلب بھاٸی۔۔۔۔۔؟“ زین چونکا۔
”مطلب گاڑی دروازہ کھولو یہ لڑکی زندہ ہے، اس کو ہاسپٹل لے کر جانا ہوگا،معمولی سی چوٹ ہے، پریشانی والی کوٸی بات نہیں ہے۔“ دارین اس کی سانسیں وغیرہ اچھی طرح سے چیک کر چکا تھا،اس لیے اسے اطمینان ہوگیا۔
”لیکن بھاٸی۔۔۔ ! آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ لڑکی کون ہے۔۔؟ اس وقت اس حال میں یہاں کیسے ہے ؟ سب یہ سوال کریں گے ہم سے،اور پھر سارا الزام ہمارے سر ہوگا ،اور نہ کوٸی ڈاکٹر پوچھ گچھ کے بغیر ٹریٹمنٹ کرے گا۔ ہم پھنس جاٸیں گے۔“ زین نے اس کو باز رکھنے کی اک کوشش کی،لیکن دارین بھی عجیب مزاج کا شخص تھا جس بات کی ٹھان لیتا وہ کر کے ہی رہتا اور جس بات پر دھیان نہ دیتا تو اس کو پھر اگنور ہی کیے رکھتا تھا۔۔
”ڈونٹ وری یار۔۔! میرا اک دوست ڈاکٹر ہے اسکی طرف لے کر چلتے ہیں۔۔۔“ وہ جو ٹھان چکا تھا اس نے کرنا ہی تھا اس نے خود اٹھ کر ڈور کھولا اور اس لڑکی کو بیک سیٹ پر ڈال دیا، پھر اس کی شال بھی اٹھا کر پچھلی سیٹ پر پھینکی، پہلے گاڑی زین ڈراٸیو کر رہا تھا، لیکن اب وہ خود ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا ۔وہ دونوں اس وقت بزنس ڈنر سے واپس جارہے تھے، جب راستے میں یہ حادثہ ہوگیا، وہ بڑی ریش ڈراٸیونگ کر کے زید کے کلینک پر پہنچا تھا۔۔۔
اور لڑکی کو اٹھا کر اندر لے آیا تھا۔۔۔!
کلینک بہت چھوٹا اور مختصر تھا ، اک کمرہ ڈاکٹر کے لیے اور تین کمرے مریضوں کے لیے مخصوص تھے وہ کلینک چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا کیونکہ ڈاکٹر کی رہاٸش اس کے اوپر والے پورشن میں تھی،دارین جیسے ہی اس لڑکی کو اندر لایا ناچاہتے ہوۓ بھی اسکی نظر لڑکی کے سراپے پر گٸی وہ مبہوت ہو گیا وہ بلا کی خوبصورت تھی لیکن اس وقت اس کی حالت ابتر ہو رہی تھی نہ اس کے سر پر چادر تھی اور نہ پاٶں میں چپل۔۔اس نے پہلے پچھلی سیٹ پر پڑی اس کی شال اٹھا کر اس کو ڈھانپا بےشک وہ اس کو جانتا نہیں تھا اور نہ ہی اس کو عورت ذات پر اعتبار تھا، لیکن اس لڑکی کو دیکھ کر خود بخود ہی اس کی نظروں میں احترام در آیا تھا اور اب اس کی عزت کرنا اس پر فرض تھا ، ڈاکٹر زید نے اس کا تسلی سے چیک اپ کیا اس کے سر پر بینڈیج کی اور اسکو انجیکشن اور ڈرپ تجویز کی تھی، خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کو کافی کمزوری ہوگٸی تھی جس کے لیے ڈرپ ضروری تھی، اس کے بغیر کوٸی چارہ نہ تھا۔۔۔
”کتنی دیر لگے گی زید۔۔۔؟“ دارین نے ڈرپ کا ٹاٸم ختم ہونے کا پوچھا۔۔
”تقریباً دو اڑھاٸی گھنٹے لگ جاٸیں گے۔۔۔“ ڈاکٹر نے ڈرپ کی طرف دیکھ کر بتایا،اب رات کے ساڑھے بارہ ہو رہے تھے یعنی اگر وہ انتظار کرتے تو تین ساڑھے تین بج جانے تھے زین کو کوفت و پریشانی ہوٸی ۔۔
”زین تم گھر جاٶ۔۔۔“ اس نے کچھ سوچ کر کہا،
”گھر۔۔۔۔؟“ زین کو حیرت ہوٸی ۔
”مطلب آپ اِدھر رکیں گے بھاٸی۔۔؟“
”ہاں! میں اس لڑکی کو اپنی ذمہ داری پر یہاں لایا ہوں اب ایسے اکیلے نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔
”تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔! میں بھی ادھر ہی رک جاتا ہوں آپ کے ساتھ ہی۔۔“ وہ بولا ، اس کو دارین پر حیرت ہو رہی تھی۔۔
”دیکھو زین۔۔۔! رات بہت ہو گٸی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تم یہاں رکو ، اس لیے چلو میں تمہیں گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔۔۔۔“ دارین نے بہت پیار سے اس کو سمجھایا اور وہ اس کی بات سمجھ بھی گیا تھا۔۔
”اور آپ کے بارے میں کیا کہوں۔۔؟“ اس نے اگلا سوال کیا۔۔
”کہہ دینا پارٹی سے میں اکیلا ہی واپس آیا ہوں۔۔۔۔“ وہ اس کو لے کر کلینک سے باہر آیا اور پھر اس کو گھر کے باہر چھوڑ کر واپس کلینک پر آ گیا جہاں وہ لڑکی ہوش خرد سے بیگانہ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔!
**...**...**
وہ لڑکی فجر کے وقت ہوش میں آٸی تھی اور خود کو انجان جگہ پر اور پاس ہی چٸیر پر دارین کو بیٹھے دیکھ کر متوحش سی ہوگٸی،
”ریلیکس۔۔۔! ۔۔۔ریلیکس۔۔۔کچھ نہیں ہوا آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اور آپ یہاں بلکل محفوظ ہیں کوٸی نقصان نہیں پہنچا سکتا آپ کو۔۔۔“ دارین نے اپنے تٸیں اس کو مطمٸین کیا۔۔
”آپ کون ہیں۔۔۔۔؟“ وہ مشکوک اور سہمی ہوٸی نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔
”میں وہ ہی ہوں جس کی گاڑی سے رات کو آپ ٹکراٸی تھیں۔۔۔“ دارین نے سنجیدگی سے اس کو یاد دلایا۔
”گاڑی سے۔۔؟“ اس نے حیرت سے دہرایا۔اس کو اپنے ذہن پر زیادہ زور ڈالنا پڑا تھا،اور کل دوپہر سے لے کر رات تک کا سارا واقعہ اس کے ذہن میں روشن ہوگیا اور اس کے چہرے کا رنگ خوف و ہراس اور وحشت سے فق ہوگیا،دارین اس لڑکی کے چہرے تاثرات اور اتار چھڑہاٶ کو نوٹ کر رہا تھا،وہ عجیب وحشت اور خوف کا شکار تھی، گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ اس کے ہر انداز سے عیاں ہو رہی تھی، لیکن دارین کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے؟
”مطلب رات بھی گزر گٸی۔۔؟“ وہ آہستہ سے بولی۔۔
”جی ہاں اور رات یہاں کلینک پر گزری ہے آپ پریشان
نہ ہوں ۔۔۔“ دارین نے اس کو تسلی دی۔ تب تک ڈاکٹر زید بھی آگیا وہ فجر کی نماز پڑھ کر آیا تھا ، اس نے لڑکی کا تفصیلی چیک اپ کیا اور پھر اس کو ڈسچارج کر دیا۔۔
”اب آپ ان کو لے کر جاسکتے ہیں۔۔“ ڈاکٹر کی اجازت پر دارین چونک گیا۔۔
”لے کر جاسکتے ہیں مگر کہاں۔۔۔۔؟" وہ سوچ کر رہ گیا ، صبح پانچ بجے کا وقت اور اس نازک وقت میں وہ اس کو کہا لے کر جاتا۔۔۔۔۔۔؟“ ڈاکٹر زید کہہ کر چلے گٸے تھے، مگر وہ وہیں کا وہیں بیٹھا رہ گیا۔۔
”یہ میڈیسن ہیں دو دن تک استعمال کرنی ہیں ۔۔“ نرس آکر دواٸیاں تھماگٸی تھی۔۔اب تو وہاں بیٹھنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔دارین کھڑا ہوگیا۔
”آٸیے میرے ساتھ۔۔“ اس نے لڑکی کو اشارہ کیا۔
”کک کہاں۔۔۔؟“ وہ گھبراٸی۔وہ اب چاہ کر بھی کسی پر اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔
"میرے ساتھ۔۔۔"
" آپ کہاں لے کر جائیں گے مجھے۔۔؟"
”یہ تو ابھی مجھے بھی نہیں پتا۔۔۔“ اس نے لاعلمی سے کندھے اچکاۓ۔
”مم میں نہیں جاٶں گی۔۔۔۔۔“
”اگر نہیں جاٸیں گی تو لوگ شک کریں گے ، ڈاکٹر اور نرسیں مشکوک ہو جاٸیں گی۔۔“دارین نے اُسے حقیقت سے آگاہ کیا۔ اس نے دارین کی طرف دیکھا وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا،وہ تو پہلے ہی گھر سے بھاگی ہوٸی تھی،اب اگر وہ یہاں سے نہ جاتی تو اور مشکوک ہوجاتی اور پھر یہ لوگ اس کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے، سو ناچاہتے ہوۓ بھی وہ اس کے ساتھ اٹھ کر باہر آگٸی تھی، دارین نے اس کے لیے فرنٹ ڈور کھول دیا تھا، وہ نقاہت سے لڑکھڑاتی ہوٸی بمشکل قریب آٸی اور پھر گاڑی میں بیٹھ گٸی۔دارین نے دروازہ بند کیا اور دوسری طرف سے آکر ڈراٸیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔
”آپ کا نام۔۔۔۔؟“گاڑی کو روڈ پر ڈالتے ہوۓ اس نے لڑکی سے نام پوچھا۔
”انابیہ احمد۔۔۔“
”تو مس انابیہ احمد کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ کہاں جانا پسند کریں گی؟ آپ کا گھر ؟ یا کوٸی اتا پتا ۔۔۔؟“ وہ گاڑی کی سپیڈ سلو رکھے ہوۓ تھا،اس کے سوال پر یکدم وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر تڑپ تڑپ کر رو دی۔۔
”میں نے آپ سے آپ کے گھر کا پتا پوچھا ہے ، آنسوٶں کا نہیں۔۔“اب دارین کو کوفت ہوٸی ۔
”میرا کوٸی گھر نہیں۔میرے ماں باپ مر چکے ہیں۔میں لاوارث ہوں۔۔“ اس نے ایسے ہی روتے ہوۓ بتایا۔اس کی ہچکیاں بندھ گٸی ،دارین کے ماتھے پر سلوٹیں پڑ گٸیں۔
”تو پھر کہاں جاٸیں گی آپ۔۔۔؟“
”کہیں بھی چلی جاٶں گی،آپ بس مجھے یہی اتار دیں۔قبرستان جانے سے تو مجھے کوٸی نہیں روک سکتا نہ۔۔۔؟“ وہ اپنے آنسو رگڑ کر پونچتے ہوۓ بولی۔۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ کا کوٸی نہ کوٸی گھر تو ہوگا ہی؟اتنے دنوں سے آپ کہاں رہ رہی تھیں ۔۔؟“ وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا۔۔
”میں جس گھر میں اتنے دنوں سے رہتی تھی۔۔اس گھر میں اب میری عزت اور جان دونوں غیر محفوظ تھیں ، اس لیے میں نے وہ گھر چھوڑ دیا ۔۔۔۔“ اس نے خود پر ضبط کرتے ہوۓ جواب دیا۔
”چھوڑ دیا مطلب۔۔۔۔۔۔؟ آپ کی بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی ، آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟رات کو جس حال میں آپ گاڑی سے ٹکراٸی تھیں اس کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آپ نے سوچ سمجھ کر گھر چھوڑا ہے، بلکہ آپ کے حلیے سے ایسے لگ رہا تھا کہ آپ ایمرجنسی میں گھر سےبھاگی ہیں۔نہ تو آپ کے سر پر چادر تھی اور نہ ہی پاٶں میں جوتے۔۔۔“ اس نے انابیہ کے پاٶں کی طرف دیکھ کر کہا،جو ابھی بھی جوتوں سے عاری تھے، انابیہ نے جلدی سے اپنے پاٶں پیچھے کھینچ لیے ، لیکن ایسا کر کے وہ حقیقت نہیں چھپا سکتی تھی۔
”ہاں واقعی میں گھر سے بھاگی ہوٸی ہوں ،لیکن ایسے نہیں بھاگی جیسے آپ سمجھ رہے ہیں، میں اپنی جان اور عزت بچانے کے لیے گھر سے بھاگی ہوں اگر میں نہ بھاگتی تو میرے بہنوئی نے میری عزت خراب کر کے مجھے جیتے جی مار دینا تھا۔۔۔“ اس نے سب کہہ دیا تھا۔وہ کب تک جھوٹ بولتی رہتی وہ بھی اس شخص سے جو اس کی ہیلپ کر رہا تھا،
”اوہ گاڈ ۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔ تو پھر اب آپ کہاں جاٸیں گی۔۔۔؟“
”آپ کے ساتھ ' آپ کے گھر۔۔۔۔۔“
”واٹ۔۔۔۔؟ میرے گھر۔۔۔۔“ دارین کا پاٶں یکدم بریک پر جا پڑا تھا۔وہ حیرت زدہ سا اس کی شکل دیکھ رہا تھا، یقیناً یہ نیکی اس کے گلے پڑنے والی تھی۔پھر انابیہ نے رفتہ رفتہ اسے پوری بات بتانی شروع کر دی۔۔۔۔۔۔!
**...**...**
ماضی۔۔۔!
مامی۔۔۔۔۔؟“
”ہوں بولو۔۔۔۔۔“وہ بڑے آرام سے بیڈ پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھیں۔جب بیا آہستہ آہستہ سے قدم اٹھاتی ان کے کمرے میں داخل ہوٸی۔۔۔راٸمہ یونی گٸی ہوٸی تھی۔
”وہ مم میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ، ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔دو تین دن سے اس کو بخار تھا لیکن وہ لاپرواہی سے پھرتی رہی تھی۔ آج تو اس میں بلکل ہی ہمت ختم ہوگٸی تھی اور کمزوری اور نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔۔اس لیے مجبوراً وہ عابدہ مامی کے پاس آگٸی۔
”تو چلی جاٶ میں نے کون سا روکا ہے۔۔۔“ انہوں نے لاپرواہی سے کندھے اچکا کر کہا ، اور پھر سے ناشتے میں مصروف ہوگٸی،
”وہ مم اکیلی۔۔؟“ اس نے روہانسی انداز میں کہا، وہ اب رو دینے کو تھی،
”تو پھر کس کے ساتھ جانا ہے۔۔؟“انہوں نے ناشتہ چھوڑ کر ابرو اچکا کر اس کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
”اگر آپ میرے ساتھ چلی جاتیں تت تو۔۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔
”نہ بی بی میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے، جو میں تمہارے ساتھ رکشوں کے دھکے کھاتی پھروں ۔۔۔“ انہوں نے رکھاٸی سے کہا اور پھر سے ناشتے میں مصروف ہوگٸیں۔ وہ خاموشی سے ان کی طرف دیکھ کر سر جھکا گٸی۔
”اب یہاں کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی۔۔جاٶ یہاں سے۔۔سارا موڈ خراب کر دیا۔۔“ وہ بڑبڑانے لگ گٸیں۔۔۔
”وہ مم مجھے کچھ پیسے چاہیے تھے دواٸی اور رکشے کے کرایہ کے لیے۔۔۔“عابدہ مامی سے پیسے مانگتے ہوۓ اس کو اتنی سردی میں بھی ماتھے پر شرمندگی سے پسینہ آ گیا تھا۔لیکن ان سے مانگنا بھی اسکی مجبوری تھی،کیونکہ اس کے پاس اور کوٸی راستہ بھی نہیں تھا۔
”صبح دیٸے تو تھے پیسے۔۔۔کہاں گٸے وہ۔۔۔؟“ وہ ماتھے پر بل ڈال کر کرختگی سے بولیں۔اس نے سر اٹھا کر عابدہ مامی کے بگڑے تیور دیکھے اور پھر جلدی سے سر جھکا کر آہستہ سے بولی۔
”وہ تو سودا سلف کے لیے تھے ، سب خرچ ہوگٸے۔کل ناٸمہ آپی نے جو آنا ہے۔۔۔“
”ہمممممم جب تجھے پتا ہے کہ سارے پیسے خرچ ہوگٸے ہیں۔پھر بھی منہ اٹھا کر مانگنے آگٸی ہو،تمہارے ماموں کی کوٸی فیکٹریاں نہیں چل رہیں اور نہ ہی ان کی حرام کی کماٸی ہے جو میں تم پر ایسے لٹاتی رہوں ، تم خود بھی کچھ شرم و حیا کر لیا کرو۔۔“ انہوں اس کو کھری کھری سنا کر اچھا خاصا شرمندہ کر دیا تھا ، ان کو کچھ کہنے کی اس میں ہمت ہی نہ ہوٸی۔
”بیا۔۔۔! بیا بیٹا۔۔؟ کہاں ہے ہو۔۔۔؟“باہر سے زرینہ خالہ کی آواز آٸی تو وہ اپنے بے جان ہوتے قدموں کو گھسیٹتی ہوٸی ان کے کمرے سے باہر نکل آٸی ، اور جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کر کے باہر صحن میں آگٸی،
”ارے خالہ آپ یہاں۔۔۔؟“اس نے نم آلود آواز میں آہستہ سے پوچھا۔
”ہاں بیٹا۔۔۔! تم سے کچھ کام تھا تو خود ہی آگٸی۔۔اور یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا۔۔۔؟“ انہوں نے جواب دے کر اگلا سوال کیا۔
”وہ کک کچھ بھی۔۔۔۔“
”ارے پاگل لڑکی تمہیں تو اتنا تیز بخار ہے۔۔۔کب سے ہے بخار بتاٶ۔؟“ ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوٸی تھی کہ انہوں نے اس کے بخار سے سرخ ہوتے چہرے کو ہاتھ لگایا اور اس کے بخار سے تپتے چہرے کو دیکھ کر پریشانی سے بولی۔۔
”دوتین دن سے۔۔“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا،
”تو تم نے میڈیسن کیوں نہیں لیں پگلی۔۔؟“
”وہ خالہ مم میرے پاس پپ پیسے۔۔۔“ وہ کہتے کہتے رک گٸی۔
”اوہ۔۔۔!تم یہی رکو میں ابھی آٸی۔۔۔“ وہ اس کی امی کی بہت اچھی دوست تھیں ، ساتھ والے گھر میں ہی رہتی تھیں ' وہ سب کچھ جانتی تھیں اس لیے اس کی مدد کرتی رہتی تھیں۔۔کچھ دیر بعد وہ واپس آٸیں۔
”یہ لو پیسے۔۔۔! میں نے بچا کر رکھے ہوۓ تھے کہ کبھی ضرورت کے وقت کام آٸیں گے اور اب دیکھو آگٸے کام۔“ انہوں نے پیسے بیا کے ہاتھ پر رکھے ، وہ شرمندہ ہوگٸی تھی ہر بار ہی وہ ایسے ہی اس کی مدد کرتی تھیں ۔۔
”بہت شکریہ خالہ ۔۔۔“ اس نے روتے ہوۓ کہا۔
”ارے ! روتے نہیں اور نہ ہی شکریہ کی کوٸی ضرورت ہے میں نے کوٸی احسان نہیں کیا تم پر۔۔تم میری بھی بیٹی ہو۔۔ “ انہوں نے پیار سے اس کو ڈپٹا۔۔
”اب جاٶ جلدی سے دواٸی لو۔۔۔“
”لیکن خالہ مم میں اکیلی کک کیسے جاٶں؟ مم مجھے تو کچھ پتا بھی نہیں۔“ وہ بہت جلد گھبرا جاتی تھی۔۔
” تم گھبراٶ نہیں میں تمہیں رکشے پر بٹھا دیتی ہوں۔وہ تمہیں واپس بھی لے آۓ گا۔۔اگر گھر میں بچے ہوتے تو میں خود تمہارے ساتھ چلی جاتی۔۔“ انہوں نے فوراً ہی حل نکالا۔۔
”ٹھیک ہے پھر میں شال لے لوں۔۔“وہ کہہ کر اندر کمرے میں گٸی اور شال اوڑھ کر باہر آ گٸی۔ زرینہ خالہ نے اس کو رکشے پر بیٹھا دیا تھا۔۔تقریباً دو گھنٹے بعد وہ میڈیسن لے کر واپس بھی آگٸی تھی۔۔۔۔۔!
بخار کی وجہ سے اس کو کافی کمزوری ہوگٸی تھی، ڈاکٹر نے اس کو دو تین دن ریسٹ کا بولا تھا،اس لیے جب سے وہ ہسپتال سے آٸی تھی اپنے کمرے میں تھی اور اب بھی وہ میڈیسن لے کر لیٹی ہی تھی کہ اچانک ہی کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھلا اور صفدر ماموں غصے سے کمرے میں داخل ہوۓ۔ان کے پیچھے عابدہ مامی اور راٸمہ بھی تھیں،اس کو آج صفدر صاحب کے گھر آنے کا بھی پتا نہیں لگا تھا،
”ارے ماموں جی۔۔! آپ کب آۓ۔۔؟“ اس نے دھیمی آواز میں پوچھا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گٸی ، وہ ان کی بہت زیادہ عزت کرتی تھی۔
”میں کب آیا اس بات کو چھوڑو ۔ یہ بتاٶ آج کہاں گٸی تھی اور کس کے ساتھ گٸی تھی۔۔۔؟“ انہوں نے اس کی بات کے جواب میں غصے سے پوچھا وہ اک دم سے چونکی۔
”وہ مم ماموں میں ہسپتال گٸی تھی میڈیسن لینے۔۔“ وہ گڑبڑا کر بولی۔
”اکیلی۔۔۔۔۔؟“ انہوں کڑک آواز میں پوچھا۔
”جج جی ماموں۔۔۔۔“ وہ ڈر گٸی تھی۔
”جب تجھے تمہاری مامی نے کہا تھا کہ وہ تمہاے ساتھ جاٸیں گی تو تم کچھ دیر رک نہیں سکتی تھی۔مرنے لگی تھی کیا۔۔۔۔؟“ صفدر علی انتہاٸی بد دماغ اور اکھڑ مزاج انسان تھے ، جب وہ بولتے تھے تو پھر ان کی زبان زہر اگلتی تھی اور وہ یہ بھی نہیں دیکھتے تھے کہ سامنے کون ہے، بس جو وہ کہہ دیتے تھے وہی پھتر پر لکیر ہوتا تھا ، وہ شروع سے ہی بڑے ضدی اور غصیل تھے،لیکن بیوی کی بات وہ بہت مانتے تھے اور اب بھی ایسے ہی ہوا تھا،
”مم مامی نے کب کہا ساتھ جانے کا۔؟“ وہ ہکابکا ہی رہ گٸی۔
”تو تمہارا کیا خیال ہے وہ اس عمر میں جھوٹ بول رہی ہیں۔؟“ وہ اور بھی زیادہ غصے ہوگٸے،
”لل لیکن ماموں۔۔۔۔“
”بس خاموش آٸندہ میں تمہاری کوٸی شکایت نہ سنو۔ بہت تنگ کر رکھا ہے تم نے مجھے ۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو خاموش کروا دیا اور پھر اس کی طرف سر سری سی نظر ڈال کر بڑبڑاتے ہوۓ کمرے سے نکل گٸے۔۔
”اس کا تو اب کچھ نہ کچھ بندوبست کرنا ہی پڑے گا یہ تو ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔۔“ ان کے پیچھے ہی عابدہ مامی اور راٸمہ بھی کمرے سے باہر نکل گٸیں،وہ تو بس اس کی بےعزتی اور بے بسی کا تماشہ دیکھنے آٸی تھیں، اب کمرے میں بس وہ اکیلی تھی، دکھ سے اس کی آنکھیں بھر آٸیں اور آنسو پلکوں کے بند توڑ کر رخسار پر بہنے لگ گٸے لیکن اس بار اس نے اپنے آنسو صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ان کو بہنے دیا تھا ۔۔۔۔!
**...**...**