فون کی ساتویں بیل پر کال اٹھا لی گئی
ہیلو ۔۔تم میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے ؟؟؟
یہ آپ سے تم تک کا سفر کیسے ہوا ؟؟ نیلم
کیوں میں آپ کو تم نہیں کہہ سکتی زین ۔۔
ہاہاہا جو حکم کہہ سکتی ہو آخر کار ساری زندگی تمارا ھی حکم چلنا ہے
زین نے شرارت سے کہا
اچھا مجھ سے ملو ۔۔زین
واقع ۔۔واو ابھی آجاؤ نیلم
اف کبھی تو سیریس ہوا کرو صفا کو کسی پر شک ہے
لڑکے کا نام نہاد ہے
یونیورسٹی میں کافی دوست ہے اسکے پر خود کم ھی دیکھتا ہے
آئی تھینک لڑکیوں سے کافی فرینڈ شپ ہے
تم اؤ پھر مزید اسکے بارے میں جانتے ہیں
اوکے گڈ میں آیا کچھ دیر میں
زین نے کہہ کر کال بند کی
اور ساری تفصیلات سے ارسل کو آگاہ کیا
ماما آپ سے بات کرنی ہے مجھے
ہاں منّت بولو ۔۔۔
ماما پہلے آپ الماری کو چھوڑو یہاں بیٹھو
اوکے بیٹا بولو
ماما ضیاء نے مجھے پرپوز کیا ہے
منّت نے بجاے بات گھمانے کے مدعے کی بات کی
لبنیٰ نے ایک نظر منّت کو دیکھا پھر فورا دروازہ بند کیا
منّت یہ بات کسی کو پتا تو نہیں ہے نا ؟
نہیں ماما آپ سے کی
ضیاء اچھا لڑکا ۔۔۔
بس منّت ایک لفظ بھی مت کہنا اب
لبنیٰ نے ہاتھ کے اشارے سے منّت کو روکا
پر ماما کیوں ؟ منّت حیران ہوئی
کیوں کہ تمارا نکاح بچپن میں ھی ہو چکا ہے
لبنیٰ نے جیسے بم پھوڑا
ماما یہ کیسا مذاق ہے ؟؟
منّت ایک دم کھڑی ہوئی
ہم تمیں یہ بات تمارے ایگزم ختم ہونے کے بعد بتانا چاہتے تھے
لبنیٰ نے منّت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا
منّت نے ایک جھٹکے سے ہاتھ ہٹایا
یہ کیسا نکاح ہے جس کے بارے میں میں جانتی تک نہیں مجھے یاد تک نہیں
نا میری مرضی شامل
کون ہے وه مجھے کچھ بھی نہیں پتا اور میں یہ نکاح نہیں مانتی
منّت کے آنسو کی قطار اسکے لبوں کو بھی بھیگو رہی تھی
ماما یہ سب جیسے آپ لوگوں نے کیا ویسے ھی ختم کرے
منّت کی ناک غصے میں سرخ ہوئی
اور کمرے سے جانے لگی
تم 3 سال کی تھی جب تمارے پاپا نے نکاح کر دیا تھا تمارا
لبنیٰ کی آواز منّت کے پیروں کی زنجیر بنی
اور پلٹ کر دیکھا
تماری دادی کی آخری خوائش تھی انکی آخری سانسیں چل رہی تھی تمارے پاپا انکے لاڈلے بیٹے تھے وه اپنی ماں کی بات کا احترام کیسے نا کرتے ؟
واہ ماما ۔۔پاپا نے دادی کی آخری خوائش پوری کرنے کے چکر میں میری زندگی برباد کر دی
منّت وہی زمین بوس ہونے لگی
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وه کیا کرے اپنا بھاری وجود بھی نہیں اٹھایا جارہا تھا
منّت ایسے مت بولو
تم ہماری زندگی ہو لبنیٰ نے منّت کو اپنے قریب کیا
اور آپ لوگوں نے ھی میری زندگی ختم کر دی ماما
منّت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
منّت ارسل بہت اچھا لڑکا ہے تمارا ہمیشہ خیال رکھے گا
لبنیٰ نے ایک اور راز فاش کیا
منّت نے لبنیٰ کے کندھے سے سر اٹھایا
اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے لبنیٰ کو تکنے لگی
ارسل ۔۔۔
ہاں ارسل سے تمارا نکاح ہوا ہے
جبھی تمارے پاپا ارسل کے سوا تمیں کسی اور کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے
منّت نے آنکھیں بند کی
نہیں اللہ جانتی ہوں میں نے بہت غلطیاں کی
پر میری غلطیاں اتنی زیادہ تو نہیں تھی جو تو نے مجھے ارسل کی صورت میں سزا دے دی
منّت دل ھی دل میں ٹوٹ کر رہے گئی
لبنیٰ کی آنکھوں میں آنسو تھے وه جانتی تھی اسکی بیٹی پگل رہی ہے آگ میں
ایک ایسے انسان کے ساتھ نکاح ہوا جس کا نام تک نہیں سننا چاہتی تھی
ہر طریقہ آزما لیا تھا کہ منّت کی نفرت ختم ہو جائے
پر وه لوگ یہ جانتے بھی تھے کہ ارسل منّت کو کبھی تکلیف نہیں ہونے دے گا اور وقتی نفرت بھی ختم ہو جائے گی
کون ہو تم ؟؟ اور مجھے کیوں پکڑا ہے
نہاد نام ہے نا تمارا ؟؟؟
ہاں پر تم کون ہو
کھولو مجھے ۔۔۔رسیوں میں جکڑا وجود اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا
تم منہ چھپا کر یونیورسٹی کے آس پاس کیا کرتے ہو ذرا مجھے بھی تو بتاؤ
زین نے بالوں سے پکڑ کر گردن پیچھے کی طرف گرائی
اہ ۔۔ جسم میں ایک درد کی لہر دوڑ گئی
اور یہ لڑکی کون ہے تم ایسے زبردستی کہاں لے کر جارہے تھے
زین نے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو ڈری ہوئی بیٹی تھی سنہرے بال اسکے چہرے پر بکھرے ہوے تھے
پلیز مجھے جانے دو لڑکی نے بولنے کی ہمّت کی تو زین نے نہاد کے بالوں کو چھوڑا اور لڑکی کی طرف بڑھ گیا ۔۔
دیکھو تم فکر مت کرو تم ہمارے پاس محفوظ ہو ۔۔۔
لڑکی کی اب سیسکیاں اسکے ھی حلق میں پھس رہی تھی
پل ۔۔پلز ۔۔مجھے جانے دو ۔۔
اتنے میں اس اندھیرے کمرے میں دروازہ کھولنے کی وجہ سے روشنی آئی اور ساتھ ھی آتا ہوا وجود بھی ۔۔۔
لڑکی نے اس وجود کو دیکھا تو جیسے جان لوٹ آئی اس میں ۔۔
فورا بھاگ کر انے والے وجود کے گلے لگی
اور مضبوطی سے تھام لیا جیسے وه کہی چلا نا جائے
ارسل پلیز مجھے یہاں سے لے جائے پلیز ارسل ۔۔۔آنسو اب ارسل کی شرٹ کو بھیگو رہے تھے
پوجا تم فکر مت کرو اوکے ارسل نے پوجا کو خود سے دور کیا
ارسل تم جانتے ہو اس لڑکی کو
زین نے حیرت سے پوچھا
ہاں زین یہ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ ہے پوجا
اہ ۔۔یہ لڑکا اسے زبردستی کہی لے کر جارہا تھا
تو ہم نے دیکھ لیا ۔۔۔
شکر کرو پوجا تم ٹھیک ہو اور یہاں محفوظ بھی
پوجا پلیز ہیلپ می ۔۔۔نہاد نے پوجا کو پکارا
جس پر حیرت سے ارسل نے پوجا کو دیکھا
سر ۔۔اسے چھوڑ دے آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ مجھے کہی بھی لے کر نہیں جارہا تھا
کیسے جانتی ہو تم اسے ؟ ارسل نے اپنے آفسیر انداز میں پوچھا
وه سر یہ میرے بھائی ہیں ۔۔
جہاں زین کو جھٹکا لگا وہی ارسل بھی شاکڈ ہوا
دراصل سر ۔۔۔
میرے بابا ہندو تھے اور میری ماں مسلمان ۔۔
دونوں نے بھاگ کر چھپ کر شادی کی تھی
اور انکے درمیان یہ شرط رہی تھی کہ پہلی اولاد جو بھی ہو بابا کا درہم سے ہوگی اور دوسری اولاد ماما کے
اور میں بابا کے راستے پر چلی اور یہ ماں کے
پر آج تک مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں کون سا مذہب چن لوں میں عجیب الجھن میں رہی ساری زندگی ۔۔
سر پھر ایک کار ایکسیڈنٹ میں ماں اور بابا چل دیے
اور ہم دونو کے راستے بھی الگ ہوگے
نہاد چاہتا ہے کہ میں بھی مسلم ہوجاؤ پر میں کیسے ہو جاؤں جب تک میرا دل راضی نا ہو
بس اسی لئے نہاد مجھے زبردستی لے کر جارہا تھا اور مجھ سے ھی ملنے آتا ہے یہ
پوجا نے ارسل کو اپنی داستان سنا دی
زین نے ارسل کا اشارہ سمجھ کر نہاد کو کھول دیا
پر سر یہ سب کیا ہے ؟؟
آپ لوگوں نے ایسے کیسے اور کیوں اٹھایا
پوجا کو اس سارے قصے کی سمجھ نہیں آرہی تھی
اوکے پوجا تم اب جاؤ ۔
ارسل نے اسکی کسی بھی بات کا جواب نہیں دیا
سر ۔تھنکیوں
پوجا نے مسکرا کر کہا
ارسل نےجواب میں سر کو خم دیا
پر کچھ تھا جو غلط تھا
ایسا طوفان تھا جو سب ختم کرنے والا تھا
کچھ ایسا تھا جو نہیں ہونا چاہئے تھا
ویسے ارسل بھائی گھر میں رونق شونق ہونی چاہیے
شمع نے کھانا کھاتے ہوے کہا
اچھا تمیں کیسی رونق چاہیے ؟
بھائی کیوں نا آپ شادی کر لے
کھانا کھاتے ہوے سب کا ہاتھ رکا
زین بھائی کو کہہ کہہ کر تھک گئی
شمع نے زین کی طرف دیکھ کر شکوہ کیا
کھانے کی میز پر منّت کے سوا سب ھی موجود تھے
منّت کو تیز بخار کی وجہ سے کمرے میں ھی رہنا پڑ رہا تھا ویسے بھی اب وه ارسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی
تایا جان آپ بتاۓ کیا غلط کہہ رہی ہوں ؟ شمع نے سکندر کی طرف دیکھ کر پوچھا
نہیں نہیں بلکل نہیں انشااللہ بہت جلد کرے گے زین اور ارسل کی شادی ایک ساتھ ھی ہو گئی
جہاں ارسل خاموش رہا وہی زین کے ذہن میں نیلم کا چہرہ نظر آیا تو مسکرا دیا
ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں ارسل جانے کے لئے کھڑا ہوا تو پھوپھو سمعیہ اور ضیاء کو آتا دیکھ کر رکا
توبہ توبہ منّت کو تین دن سے بخار ہے اور مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا بھائی صاحب ۔۔
حسن کا نوالہ گلے میں ھی اٹک کر رہ گیا
ارے آپا کیسی بات کرتی ہے بس ذرا سی طبیعت خراب تھی تو آپ کو پریشان نہیں کیا
لبنیٰ نے بات سمبھالنی چاہی
بس کر دو سب سمجھتی ہوں تم لوگوں نے مجھے ضروری سمجھا ھی کب ہے جو بتاتے پھوپھو منہ بنا کر بیٹھ گئی
امی میں منّت سے مل کر آتی ہوں سمعیہ منّت کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی
رکو سمعیہ میں بھی ساتھ چلتا ہوں ضیاء بھی سمعیہ کے پیچھے ہو لیا
جب کہ ارسل کو کچھ برا لگا