ریان ابھی تو تم رکو نا ۔۔
کیا ہوگیا ہے تمیں ارسل اگر میں ایک دن بھی ہوسپٹل میں رکا نا تو میری بیوی نازک دل کی ہے وه بلکل بھر داشت نہیں کر سکتی
میں تو اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کے مجھے گولی لگی ورنہ تو
ریان نے مسکرا کر ارسل کو اپنی اور بیا کی داستان سنائی
جس پر ارسل نے ایک قہقہ لگایا
اچھا ٹھیک ہے ۔۔چلو ہم تمیں گھر چھوڑ دیتے ہیں پھر ارسل نے ریان کو کہا ۔۔۔
اوکے ارسل ۔۔۔
ویسے ارسل ڈاکٹر نے کیا کہا ان لڑکیوں کے بارے میں ؟؟؟
ریان ابھی پھر میری بات ہوئی ہے
فلحال بیہوش ہے
کافی سارے ان سب کو انجکیشن دیے گے ہیں جن کی وجہ سے وه بلکل بے جان سی ہو گئی ہے
ارسل نے افسوس سے کہا
ہممم چلو پھر ۔۔۔
چلتے ہیں ۔۔۔۔
ارسل سب کو ھی گھر لے آیا تھا
سب ھی افسوس میں تھے کہ ضیاء اس گناہ میں شامل تھا
ایک دن کے بعد اب ارسل کی ملاقات زین سے ہوئی
زین پلیز میری بات سنو
کیوں سنو تم میرے لگتے ھی کیا ہو ؟؟
کیا سوچا
اپنے خونی رشتے کے سامنے کمزور پر جاؤ گا ؟
ہاں اپنے فرض کے غداری کرو گا
زین نے ارسل کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکا دیا
اتنی غلط سوچ ارسل میرے بارے میں ؟
زین نے سارا غصہ نکالا
مجھے معلوم تھا تم کیا کر رہے ہو
تم پر نظر تھی میری
اور ریان نے مجھے جگہ اور پلین بتایا تب ھی پہنچ پایا ۔۔
زین نارضگی کے انداز میں کہہ کر جانے لگا
اچھا سنو ۔۔۔
اب معاف کر دے یار ۔۔
ارسل نے روکا
آج سے تمارے سارے راستے الگ ارسل
زین نے فیصلہ کیا ۔۔۔
زین اب کیسے مناؤ تمیں اور نیلم کو ہنی مون پر بھیج دوں ؟؟
ارسل نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شرارت سے کہا
زین نے آنکھیں دکھائی
تو ارسل نے معصوم نظروں سے دیکھا
زین باہر جانے لگا تو پیچھے مڑ کر ارسل کو دیکھا جو کافی پریشان تھا
زین کو دکھ ہوا
ارسل ۔۔۔
ویسے گرو دیو تک پہنچنے کا کیا سوچا
زین نے دور کھڑے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔۔۔
تو ارسل ہنس کر زین کو مارنے کے لئے اسکے پیچھے بھاگا
تو زین پہلے ہی سمجھ کر ہنس کر بھاگ نکلا
دونوں میں نارضگی آخر کب تک رہ سکتی تھی ۔۔
ٹھیک ہے جیسے ھی ہوش میں آے مجھے بتانا اذان
تم فکر مت کرو ارسل پوجا پر میری نظر ہے
چلو ٹھیک ہے میں فون رکھتا ہوں ۔۔
ارسل نے کہہ کر فون بند کیا
منّت تم آو
ارسل نے فون رکھا
تو منّت کو پکارا جو دروازے پر کھڑی تھی
منّت کیا بات ھے ؟؟؟؟
تم کیوں رو رہی ہو کیا ہوا ہے ؟؟
ارسل پریشان ہوا
ارسل اگر میں بھی ان لڑکیوں میں ہوتی تو پھر ؟؟؟
پاگل ہو گئی ہو جو ہوا ھی نہیں اسکے بارے میں کیا سوچنا ؟
ارسل نے دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے
پھر بھی ارسل ۔۔۔
منّت نے جھکی نظروں سے پوچھا
منّت میری ہمیشہ تم پر نظر رہی تھی
تماری حفاظت کی زمیداری میری ہے
ارسل نےایک قدم منّت کے قریب آیا
اتنا لڑنے کے باوجود بھی
منّت نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
تو ارسل نے کندھے اچکا دیے
منّت خاموش ہوئی
ویسے منّت ۔۔
ارسل نے مسکرا کر پکارا
منّت نے ارسل کی طرف دیکھا
اگر وه لوگ تمیں پکڑ بھی لیتے تو اگلے دن خود ھی چھوڑ کر جاتے
ارسل نے سنجیدہ انداز میں کہا
منّت نے خوشی سے ارسل کو دیکھا
ویسے ایسا کیوں ؟؟
منّت ارسل کا عشق دیکھنا چاہتی تھی
سننا چاہتی تھی کہ اسکا محافظ کیسے حفاظت کرتا ہے
محسوس کرنا چاہتی تھی کہ ارسل کو کتنا فرق پڑتا ہے
کیوں کہ منّت ۔۔۔
وه لوگ خوبصورت لڑکیوں کو کڈنیپ کر رہے تھے
چڑیلوں کو نہیں
ارسل نے ہنسی دبا کر کہا
منّت نے حیرت سے ارسل کو دیکھا
تم واقع انتہائی بد تمیز ہو ارسل
منّت پیر پٹخ کر چلی گئی
جبکہ ارسل ایک قہقہ لگا کر لیٹ گیا
صبح فجر کے بعد پوجا کو ہوش آیا ۔۔
تو اپنے کمرے سے باہر نکلی
تو سامنے مہک قرآن پاک پڑھ رہی تھی
پوجا نے حیرت سے مہک کو دیکھا اور پھر اپنے آپ کو تو حیران ہو گئی
پوجا نے مہک جیسے کپڑے پہنے تھے
جو ایک لمبھی فراک تھی
جو نا فٹ تھی نا زیادہ کھلی
پوجا کے کپڑے ان کپڑوں کے برعکس ہوتے تھے
مہک نے پوجا کو دیکھا
اؤ پوجا ۔۔
میرا نام مہک ہے
پوجا مسکرا کر بیٹھی
میں مسلمان نہیں ہوں
پوجا نے بتایا
جانتی ہوں
مہک کی آواز کانوں میں رس گولتی تھی
یہ کیا ہے ؟؟
کون سے کتاب ہے ؟
پوجا نے قرآن پاک کی طرف دیکھا
یہ قرآن پاک ہے
مہک نے قرآن پاک کو اپنے سینے سے لگایا
کیا ہے اس میں ؟؟
پوجا نا جانے کیوں پوچھ رہی تھی
مہک نے مسکرا کر پوجا کو دیکھا
اور اپنے لب قرآن پاک پر رکھے
پوجا کیا تم واقع جاننا چاہتی ہو
پوجا نے ہاں میں سر ہلایا
قرآن کوئی عام کتاب نہیں
اور نا ہی کسی عام ہستی کی ہے
یہ تو اللہ کی کتاب ہے
اس میں اللہ کی باتیں ہیں
اور اللہ کی باتیں عام تو نہیں نا ہو سکتی کہ یونہی پڑھ لی جائیں اور سمجھ آجائے
اسکے لیے وہ خاص سماعت چاہیے
وہ خاص حافظہ چاہیے
وہ خاص چاہت چاہیے
وہ دل چاہیے جو اسکی باتوں کو خود میں جذب کرسکے
وہ ہمت چاہیے اسکو سننے کی
کیونکہ یہ کتاب ہر ایک کو سمجھ نہیں آتی
جسے وہ رب چاہے
بس وہی سمجھ سکتے ہیں
مہک نے دیکھا کے پوجا کی آنکھوں میں آنسو تھے
میں بھی پڑھنا چاہتی ہوں
پوجا کے لبوں سے بے اختیار نکلا
میں
سننا چاہتی ہوں ۔۔
ہاں بلکل میں تمیں سناؤ . گی
مہک کی آنکھوں سے بھی آنسو نکلے
تو نے میری عزت رکھ دی اللہ
میں نے کبھی بھی تیرا حکم ٹھیک سے نہیں مانا
آواز سیسکیوں میں بدل رہی تھی
ارسل جو صبح نماز پڑھ کر لوٹ رہا تھا رونے کی آواز سن کر رک گیا
دیکھنے لگا
منّت کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا
میں اب اپنی مرضی چھوڑ کر تری رضا پر چلو گی
آواز پھر گم ہوئی
ارسل نے دیوار کے ساتھ سر ٹکایا
اور آنکھیں موند لی اور زبان شکر ادا کرنے لگی
اللہ میرے دل میں صرف اپنا نور ڈال دی
منّت نے سیسکیوں بھری آواز میں پھر سے دعا مانگی
ارسل نے آنکھیں کھولی تو دیکھا
اب منّت سجدے میں جھکی ہوئی ہے
ارسل ہمیشہ چاہتا تھا کہ منّت پردے میں رہے اور نماز پڑھے
پر ارسل کی خوائش آج پوری ہوئی
ارسل نے پیار بھری نظر ڈال کر چلا گیا
وه چاہتا تھا آج منّت صرف اللہ سے باتیں کرے بس