کیا فرق ہے تم میں اور مجھ میں ؟؟
بس نام کا ؟؟؟
نام کے علاوہ کیا نشانی ہے ۔
پوجا کے کانوں میں اس کے اپنے ہی الفاظ گونجے ۔۔۔جو اس نے منّت سے کہے تھے
آج اسے اپنے سارے سوالوں کے جواب خود ہی مل گے تھے۔
ارسل ایک مسلمان مرد تھا
اس کے پاس کتنے دن قید رہی اس نے پوجا کی عزت محفوظ رکھی
زین نے کبھی بھی غلط نہیں سوچا
جتنا بھی غصہ تھا اس نے عزت رکھی
نہاد برے کاموں میں ضرور تھا
پر انجو کے لئے گرو دیو سے لڑتا لڑتا اپنی جان دے گا
چاہتا تو اگے نا بڑھتا
گرو دیو جو ہماری پتا کی عمر کا تھا درندہ نکلا
مسلم کی آنکھوں میں شرم دیکھی ہے
میں نے
پوجا نے کرب سے آنکھیں بند کی
ضیاء تہہ خانے کے راستے سے گیا ہوگا
وہی ہے جیسے گرو دیو کام دے سکتے ہیں
ارسل کی نظروں میں ضیاء کبھی نہیں آسکتا
ساری لڑکیاں یہاں سے بیج دی جائے گی
کتنی تکلیف میں ہو گی
اور انکے گھر والے کس اذیت میں ہوتے ہوگے آج مجھے محسوس ہوا
پوجا نے بے اختیار اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا
اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وه کیوں التجا نظروں سے دیکھ رہی تھی
کس کی تلاش تھی وه بے خبر تھی
سورج ڈوبنے کے ساتھ ساتھ پوجا میں اب چلنے کی ہمت ختم ہو رہی تھی ۔۔
اندھیرا پھیلنے کے بعد اسے بہت مسلا پیش آنے والا تھا
کیوں کہ اسے راستہ دیکھنے کے لئےکسی مشعل یا ٹارچ کی ضرورت تھی جو اس وقت اس کے پاس کچھ بھی مہیا نہیں تھا
ارسل بہت بزی رہا ان دو دنوں میں اسے کیسے بھی کر کے سب کو بچانا تھا
اب تک منّت کے آس پاس رہا پر کل اسے نکلنا تھا کیسے نکلے منّت کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔۔
ضیاء بھلے ہی منّت کو نقصان نا پہنچاے
پر جس کے ساتھ وه کام کرتا ہے اسکی نظر منّت کے ساتھ ساتھ اسکی نظر گھر کی عورتوں پر بھی ہو سکتی ہے جانے سے پہلے
ایک محفوظ جگہ پر لے کر جانا تھا اور محفوظ جگہ اسے نظر آگئی تھی ۔۔۔۔
پر ہم کہاں جارہے ہیں ارسل بھائی
شمع تم پیکنگ کرو جلدی ۔۔
ارسل نے ساتھ مدد کروائی ۔۔
زین البتہ خاموش رہا
نیلم اور منّت کی تیاری بھی مکمل ہوئی
حسن ارسل کے پاس آیا
ارسل ۔۔۔
جی چاچو ۔۔۔
بیٹا مجھے بہت فکر ہو رہی ہے
چاچو یہ سب محفوظ رہے گے زین بھی انکے ساتھ ہوگا
ارسل نے بنا کوئی تاثر دیے کہا
ارسل میں جانتا ہوں جب تک تم انکے ساتھ ہو مجھے انکی کوئی فکر نہیں
پر تم ارسل ۔۔۔۔
حسن ارسل کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ارسل کو بغور دیکھنے لگے
ارسل ۔۔تم ٹھیک نہیں ہو کیا بات ہے ارسل
ایسی کون سی بات ہے جو تمیں اندر ہی اندر کھاۓ جارہی ہے
کچھ بھی نہیں چاچو
ارسل نے مصنوعی مسکراہٹ سجاے کہا ۔۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔
ارسل کہہ کر چلنے لگا ۔۔
باہر کار میں ہارن دیا تو سب ہی اگے پیچھے چلتے باہر اگے
زین نے کار میں سامان رکھا ور جا کر اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔
منّت نیلم شمع پچھلی نشست پر بیٹھی ۔۔۔
ارسل نے زین کو دیکھا جس کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا
زین ۔۔۔ہم شاہ ہاؤس جا رہے ہیں ۔۔
بہت اچھے لوگ ہیں
جب تک میں نا کہو وہی رہنا ہوگا
محفوظ رہو گے سب ۔۔
ارسل نے اپنی بات مکمل کی ور زین کی جانب دیکھا
تو اسکے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی
ارسل کے دل تکلیف سے تڑپ اٹھا
زین کی نارضگی وه سمجھ سکتا تھا پر زین کو ساتھ وه لے کر نہیں جانا چاہتا تھا
اس لئے یہ رویہ سہہ گیا
کار رکی ۔۔
شاہ وائٹ ہاؤس جو باہر سے بھی بے حد خوبصورت تھا
واو ۔۔منّت یہ گھر تو کتنا پیارا ہے
سب نے اپنا اپنا بیگ تھاما ور چل پڑے ۔۔
ارسل نے سیکورٹی گارڈ سے بات کی جس نے دروازہ کھولا ۔۔
گیٹ کھلتے ہی سامنے
داد جی تھے ۔۔
اسلام و علیکم ۔۔ارسل نے اگے بڑھ کر سلام دی
وعلیکم السلام بیٹا
اؤ
ریان نے ہمیں بتایا رہا آپ لوگوں کی آمد کا
آپ سے ملنے کا ارمان تھا ہمارے دل میں
شاہ ہاؤس میں آپ سب کا ویلکم ہیں ۔۔
داد جی خوشی سے سب کو دیکھ کر کہا
تم منّت ہو ؟؟؟
ایک معصوم سے لڑکی پنک سوٹ میں ڈھیلی پونی کئے مسکرا کر منّت سے پوچھ رہی تھی
جی ۔۔۔پر ۔۔۔منّت اسے دیکھ کر خوش بھی تھی ور حیران بھی کیوں کہ وه اسے جانتی نہیں تھی
میں بیا شاہ ہوں
ریان شاہ کی وائف ۔۔۔
بیا سب سے ملی ور انکو اندر لے چلی گئی
ریان گھر میں موجود نہیں تھا ۔۔
اوکے داد جی مجھے اب نکلنا ہے ارسل نے منّت کو دیکھا
جو اس بہت خوشی سے دیکھ رہی تھی منّت کو فخر تھا کہ وه ایسے انسان کو چاہتی ہے جو اپنی جان اپنے ملک کے لوگوں کے لئے وقف کر دینا چاہتا تھا ۔۔
اسے ناز تھا خود پر ۔۔۔
ارسل نے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا اور چلا گیا ۔۔۔
ضیاء کل سے گھر نہیں آیا وه اپنے پلین کو انجام دے رہا تھا
اس لئے اس شفٹنگ کے بارے میں وه انجان تھا
رات کافی ہو چکی تھی
ضیاء اپنے خوفیہ رستے سے نکلنے لگا ۔۔
ٹوٹل 15 لڑکیاں تھی جیسے ایک بہت بڑے کچروں کی تھیلوں میں بند کیا تھا
ہر لڑکی ایک تھیلے میں اور پھر اسکے ااوپر ڈھیر سا کچرا تھا
لڑکیاں بیہوش تھی جس کی وجہ سے وه بے خبر تھی
اور تھیلوں کو ایک مضبوط رسی کے ساتھ باندھا ہوا تھا
ضیاء کے ساتھ دس افراد اور تھے
جن میں کچھ لوگوں نے دو دو تھیلوں کو گھیسٹ رہے تھے
ضیاء سب سے اگے راستہ دیکھانے کا کام کر رہا تھا
جنگل میں زمین کے اندر ایک سرنگ بنائی ہوئی تھی جہاں سے یہ سب نکلتے تھے پر یہ جنگل کا آخری حصہ تھا
سرنگ میں اندھیرا تھا
اس لئے جن کے ایک ایک ہاتھ خالی تھے انکے ہاتھوں میں ٹارچ تھی
ایک لمبھی سرنگ تھی جیسے 48 گھنٹوں میں پار کیا گیا
اس کے بعد سرنگ کے آخر میں جہاں سرنگ ختم ہوتی تھی وہاں ایک چھوٹا سا نالہ تھا جو سوکھا ہوا تھا
اس نالے میں کبھی کبھار پانی آتا تھا ورنہ سوکھا رہتا تھا
ضیاء کی قسمت اچھی تھی کہ وه آج بھی خالی تھا
سرنگ سے باہر نکل کر ضیاء نے کچھ اپنے بندوں کو اشارہ کیا جو اسکے ساتھ مل کر نالے کے اوپر سے ڈھکن ہٹانے لگے
جس میں وه کامیاب ہوگئے
ایک ایک کر سب اس میں اتر گے
سوکھنے کے باوجود بھی نا بھرداشت ہونے والی بدبو تھی
چالیس منٹ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وه نالہ ایک دریا میں جا کر ختم ہوا اب انکو دریا پار کرنا تھا
کشتی تیار کھڑی تھی یہ انکی آخری منزل تھی
کشتی میں بھی تقریباً انکو 9 گھنٹے لگنے تھے
جس سے وه لوگ اپنی منزل تک پہنچ جاتے ۔۔
کھانے پینے کا سامان ہلکا پلکا ساتھ رکھا تھا
کشتی اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی گرو دیو کا خاص آدمی جو اس کشتی کا مالک تھا پہلے ہی راستہ جانتا تھا
چار گھنٹوں بعد کشتی دریا سے ہوتے ہوئے دو پہاڑوں کے درمیاں گزری
ضیاء کو راستہ کچھ عجیب لگا کیوں کہ کشتی پہاڑوں کے درمیان نہیں گزرتی تھی ۔۔۔
پہاڑوں کے درمیان بھی دریا کا ایک حصہ تھا
سنو ۔۔۔
یہ کون سا راستہ ہے پہلے تو ہم یہاں سے نہیں جاتے تھے
ضیاء کو تشویش ہوئی تو پوچھ لیا
ارے بھایا ۔۔یہ راستہ شورٹ کٹ ہے
تم لوگوں کو سکون دینے والا
پی کیپ کی کو ذرا ٹھیک کر کے کہا اور پان منہ میں چباتے ہوئے کہا
تو ضیا نے اسے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا
کون ہو تم ؟؟؟؟
ارجن کہاں ہے ؟
ضیاء نے حیرت سے پوچھا
کیوں کہ یہ وه آدمی نہیں تھا جس کی کشتی میں پہلے سوار ہوتے تھے
ارے بھایا۔۔۔۔۔۔
ارجن ہو یا مرجن تم لوگ پہنچ جاؤ گے
کشتی ایک پہاڑ کی طرف رکی ۔۔
پانی سے کب خشکی میں آے انکو پتا نہیں چلا
یہ کشتی کیوں روکی ضیاء نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا
کیوں کہ اس کام ختم ۔۔
اب چلواترو بھایا ۔۔۔گرو دیو نے راستہ بدل دیا تھا
ضیاء گرو دیو کا نام سن کر تسلی بخش ہوا
تو سب کو اترنے کا اشارہ کیا سب اترے تو پان کھانے والے نے اپنی کشتی دریا میں چھوڑ دی
ارے تم پاگل ہو
اب کیسے جائے گے واپس
ضیاء غصے میں دھاڑا ۔۔
میں ہوں نا ؟؟؟ پان تھوکااور اپنی پی کیپ اتاری ۔۔۔
اس سے پہلے ضیاء کچھ سمجھتا ۔۔۔
کہ پولیس نے ہر ایک کو پکڑ لیا اور گن ان کے اوپر رکھی
ضیاء نے اپنے اوپر گن دیکھ کر
سامنے دیکھا
جو مسکرا رہا تھا کون ہو تم ؟؟؟
ارے بھایا ۔۔چلو اب ہم تم کو بتا ھی دیتے ہیں کہ ہم کو کیا کہتے ہیں
شاہ ۔۔۔۔ایس اے پی ریان شاہ ۔۔۔۔۔
ریان نے بناوٹی آواز نکالی ۔۔
اور اپنے پیچھے دیکھا
جہاں سے آفیسر ارسل سکندر نظر آیا ۔۔۔۔
ضیاء تمارا کھیل ختم میں تمیں پہلے ھی اریسٹ کروا سکتا تھا
پر تمیں رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا
ارسل ذرا قریب آیا تو ضیاء کے منہ پر ایک زور دار مکا مارا
ذرا شرم نہیں ای تمیں اتنا گھناونا کام کرتے ہوئے
تم نے ہمارے خون کو گندا کر دیا ہے
اس سے پہلے ارسل دوبارہ اسکے جھپٹا ۔۔
ریان نے ارسل کو پکڑا
ارسل اسکو سزا قانون دی گا
تم چھوڑ دو اسکو ۔۔
ارسل نے غصے میں خود کو چھڑوایا ۔۔
تو نفرت سے ضیاء کو ایک نظر دیکھا
پھر ایک پولیس والے کو اشارہ کیا کے کھولا جائے ان تھیلوں کو
ایک ایک کر کھولا گیا
جس میں بہت سارا کچرا بھی تھا اور کچرے میں لدی ہوئی لڑکیاں ۔۔۔
ضیاء ایک دم اٹھا ۔۔۔۔
اور ایک مکا ایک پولیس والے کو مارا جو بری طرح لڑکھڑایا
ضیاء نے بندوق چھینی
اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی
ارسل نے ریان کو جمپ مار کر نیچے گرایا اور لیٹتے ہوئے کالا بازیاں لگائی اور ایک پہاڑ کی اوٹ چھپ گئے
ضیا کی اندھا دھند فائرنگ سے اسکے اپنے ساتھی بھی مارے گئے اور کچھ پولیس والے بھی
ارسل باہر نکلا اور ضیاء کو پیچھے سے پکڑا اسے قابو کرنے لگا
ضیاء کے کچھ لوگ جو بچے ریان نے انکو پکڑا اور مارنا شروع کیا ۔۔
ارسل نے ضیاء کو منہ کے بل گرایا ۔۔
ضیاء نے پاس پڑی بندوق اٹھائی اور سیدھا لیٹا نشانہ ارسل کو بنایا اور فائر کیا
ارسل ذرا سا جھکا
تو گولی پیچھے لڑتے ہوئے ریان کے کندھے پر جا لگی
ارسل نے ریان کو دیکھا تو ریان کی طرف بھاگا
ضیاء نے دوبارہ نشانہ ارسل کو بنایا اور فائر کیا
پر اس بار قسمت نے اسکا ساتھ نہیں دیا
آخری گولی تھی جو نکل چکی تھی۔۔
ارسل نے گرتے ریان کو تھاما
ضیاء نے پاس پڑی ایک اور بندوق اٹھائی اس سے پہلے دوبارہ چلاتا
ایک فائر کی آواز دوبارہ گونجی
اور فائر ضیاء کے ہاتھوں کی طرف ہوا ۔۔جس سے بندوق نیچے گری ۔۔
ضیاء نے بائیں جانب دیکھا تو فائر کرنے والا زین تھا
زین نے پسٹل اسکے کنپٹی پر رکھی
اور ہتھ کڑی لگائی
ضیاء حیران ہوا زین کو دیکھ کر
زین کھولو مجھے تم پاگل تو نہیں ہو
یہ لے آفیسر ارسل اپکا مجرم
زین نے سنجیدہ انداز میں کہا
تو ارسل نے مسکرا کر زین کو دیکھا
ریان کو گولی لگی ہے ۔۔زین
ارسل نے ریان کی طرف اشارہ کیا
کم آن ارسل ۔۔۔یہ ایک گولی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ابھی اور نا پاک لوگ ہماری سر زمین کو میلا کرنا چاھتے ہیں جن کو ابھی پکڑنا ہے
ریان نے ایک ہاتھ سے اپنا کندھا پکڑا ہوا تھا جس سے خون بہہ رہا تھا
جو پولیس والے بچے تھے فورا اٹھے اور سب کو ہتھ کڑیاں لگائی
تم بھی چلو یار ۔۔۔اذان نے گاڑی ڈ رائیو کرتے ہوئے کہا
ارے میں کیسے جا سکتی ہوں آپ کے دوست ہیں ریان بھائی
آپ ہوسپٹل جا کر ان سے مل لے
مجھے بس گھر چھوڑ دی
مہک نے نرمی سے جواب دیا
پر مہک تم میری بیوی ہو
تم جا ھی سکتی ہو میرے ساتھ
اذان اب بھی ضد پر اڑا تھا
اذان مانا کہ ریان بھائی اور ارسل بھائی آپ کے دوست ہیں
پر وه میرے لئے نا محرم ہیں
میں کیسے جا کر ان سے ملو ؟
مہک نے سوال کیا
تو اذان نے محبّت بھری نظروں سے اپنی بیوی کو دیکھا جو نقاب کئے ساتھ بیٹھی تھی
کہ اچانک اذان نے بریک لگائی
اذان دیکھ کر ۔۔مہک گھبرا کر بس اتنا ہی کہہ سکی
کار کے سامنے ایک زخمی لڑکی تھی جس کے ماتھے پر بھی خون جمع ہوا تھا
اللہ تعالیٰ کون ہے یہ لڑکی ؟
مہک نے گھبرا کر کہا
اذان نے دیکھا تو ماتھے پر بل پڑے
پوجا ۔۔
یہ تو پوجا ہے
ابھی ارسل کو فون کرتا ہوں اسے بھی ارسٹ کرے اذان نے موبائل نکالا
اور نمبر ملانے لگا
اذان رکے
انکی حالت دیکھے
کتنی خراب ہے ان کو پہلے گھر لے کر چلتے ہیں
مہک نے پوجا کے کپڑوں کی حالت دیکھی جو کافی خراب تھے
مہک اب تم اپنی ہمدردی شروع مت کر دینا یہ ویسے بھی نون مسلم ہے اذان کو پوجا کے لئے مہک کا یہ احساس برا لگا
اذان میرا مہذب یہ نہیں کہتا کہ میں صرف انکی مدد کروں جو مسلمان ہیں
میرا مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے
اور انسانیت کہتی ہیں کہ ان کو ہماری ضرورت ہے
ہمیشہ کی طرح اذان مہک کے اگے ہار گیا
اور پوجا کو لے کر گھر اگے
ڈاکٹر کو بولایا
چیک اپ کے بعد پوجا کو نیند کا انجکیشن لگا دیا تاکہ تھوڑا ریسٹ کر سکے