کچھ دن گزرنے لگے
پر درد سب کا ویسا ہی تازہ تھا ہاں البتہ خاموش رہنے لگے تھے سب
منّت یونیورسٹی سے آف لے چکی تھی
ارسل کے لئے منّت کے دل میں ایک نرم گوشہ بھی پیدا ہو چکا تھا
اب بس وه ہمدردی تھی یہ پھر پلنے والی محبّت جنم لے رہی تھی
ابھی خود منّت اس بات سے انجان تھی
منّت ۔۔۔۔
میرے پاس بیٹھو گی
ضیاء نے اداس بھرے لہجے میں کہا
پھوپھو کے بعد ضیاء نے پہلی بار گھر کے فرد سے بات کی
منّت کچھ سوچ کر پھر ساتھ پڑے صوفے پر بیٹھ گئی
منّت اگر میں کہوں کہ مجھے تماری ضرورت ہے تو ۔۔۔
ضیاء نے منّت کو پر امید نظروں سے دیکھا
ضیاء ہم سب تمارے ساتھ ہے
منّت نے تسلی دی
پر تم ہو نا ؟ سوال اب بھی وہی تھا
ارسل کے قدم رکے شاید وه سن چکا تھا ضیاء کی بات ۔۔
منّت نے ارسل کو دیکھا
پھر ضیاء کو ۔۔۔
منّت سمجھ چکی تھی کہ ضیاء کیا پوچھنا چاہتا ہے ۔۔
پر اسے مناسب جواب نہیں مل رہا
ارسل نے افسوس سے منّت کو دیکھا
شاید اس لڑکی کا دل پھتر کا ہے
ارسل وہی بیٹھ گیا
آج اسے بھی منّت کا جواب جاننا تھا
ہممم کیا باتیں ہورہی ہیں ؟؟
ارسل نے ضیاء سے پوچھا
منّت سے پوچھ رہا تھا کہ وه میرے ساتھ ہے
ضیاء نے فورا کہا
جب کہ منّت کو ضیاء سے بلکل ایسی کوئی تواقع نہیں تھی
ارسل نے منّت کا چہرہ دیکھا جس حیرت واضح تھی
تو منّت نے کیا کہا ؟؟؟
ارسل نے منّت کو دیکھتے ہوئے ہی پوچھا
ہاں بلکل میں ساتھ ہوں ۔
منّت نے اپنے چہرے پر خوشی سجاتے ہوئے کہا
ضیاء کی آنکھوں میں خوشی جھلکنے لگی
جبکہ ارسل کے دل پر ایک مزید چوٹ لگی
ارسل اٹھ کر جانے لگا
میں بھی تمارے ساتھ ہوں ضیاء اور میرے ہسبنڈ بھی ۔۔
آواز اتنی اونچی تھی کہ ارسل کو صاف سنائی دی ارسل کے اٹھتے ہوے قدم رکے
اور پلٹ کر منّت کو دیکھا جو ارسل کو دیکھ کر نظریں پھیر گئی
تم پاگل ہو گئی ہو تماری شادی کب ہوئی ؟؟
ضیاء ایک دم غصے میں کھڑا ہوا
مجھ سے ہوئی ہے ارسل نے بات مکمل کی
اور کب کیسے یہ چاچو سے پوچھ لو
ارسل کے چہرے پر اتنے دنوں بعد مسکراہٹ آئی
جیسے منّت نے نوٹ کیا جیسے دیکھ کر منّت کو خوشی محسوس ہورہی تھی
ضیاء کا اب وہاں کھڑے رہنا بیکار تھا اور وہاں سے نکل گیا
ارسل ہاتھ باندھ کر منّت کو اب مسکرا کر دیکھنے لگا
کیا ۔۔۔پہلی بار دیکھ رہو ہو یا پھر آنکھیں جم گئی ہے
منّت کے تیور بدلے
تو تم مان گئی نکاح کو ؟؟؟
ارسل منّت کی طرف بڑھا
جی نہیں بلکل بھی نہیں میں ایسے نکاح نہیں مانتی
منّت کہہ کر جانے لگی
تو نرم کلائی ارسل کے ہاتھ میں آئی
تو کیسے مانو گی ؟؟
جب سب کے سامنے تم مجھ سے شادی کرو گے تب ۔۔
منّت کہہ کر فورا ہاتھ چھڑوا کر رک نا پائی
ایک بڑے دکھ کے بعد ارسل کے دل میں ایک سکون کی لہر دوڑ گئی
ایک اطمینان ہوا جیسے کوئی تو ہے اسکے پاس ۔۔
منّت
تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟
وه کچھ سامان لینے آئی تھی
زین
تو اکیلی کیوں آئی ہو ؟ کسی کے ساتھ جاتی ارسل کہاں ہے اسکی ذمداری ہے نہ ؟
زین کار سے باہر نکلا
اچھا تمیں کیوں غصہ آرہا ہے ؟
منّت نے منہ بنایا
زین نے خود کو نارمل کیا
اوکے اؤ میں گھر چھوڑ دوں لے لیا جو سامان لینا تھا
زین نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے ہوے شاپرز دیکھے
ہاں ہوگی ۔۔۔
منّت آکر کار میں بیٹھی ۔۔
تو زین بھی بیٹھ گیا
زین نے کار سٹارٹ کی ۔۔
تھوڑی دوری پر زین کا موبائل بجا ۔۔
منّت نے اگے بڑھ کر ڈیش بورڈ پر دیکھا
تو نیلم کا نام سکرین پر جگمگا رہا تھا
اہاں نیلم ۔۔۔۔منّت نے تنگ کرنے کے انداز میں کہا تو ہلکی سی مسکراہٹ زین کے چہرے پر آئی
منّت نے شرارت سے فون اٹھایا
تو زین نے سر جھٹک دیا
جی جناب ۔۔۔آپ کی بیچینی میں سمجھ سکتی ہوں پر موصوف ابھی بزی ہے اپنی کار کے ساتھ
مجھے کہہ سکتی ہو جو کہنا ہے بلا جہجک ۔۔۔۔
منّت نے سر سے گرتا ہوا ڈوپتہ ٹھیک سے لیا
اب منّت کی ڈریسنگ میں تبدیلی آچکی تھی
زین نے مصنوعی غصہ دکھایا
فون سے ایک ہلکی سیسکی سنائی دی
تو منّت کے چہرے کا رنگ فق پڑا
نیلم ۔۔۔کیا ہوا تم ٹھیک ہو ۔۔
زین نے ایک دم کار روکی ۔۔
منت ۔۔۔زین ۔۔نیلم کی آواز بھاری ہوئی
تو منّت نے فورا موبائل زین کی طرف بڑھایا
زین نے فورا موبائل پکڑا
نیلم ۔۔
کیا ہوا ؟؟؟
اوکے میں آرہا ہوں ۔۔
اوکے ارسل کو بھی کہتا ہوں ۔
زین نے کال بند کر کے ارسل کا نمبر ڈائل کیا
ہاں ارسل ۔۔
نیلم کے گھر پہنچو ۔۔
زین نے موبائل رکھ کر کار کی رفتار تیز کی
زین کیا ہوا ہے
منّت پریشان ہوئی
تمیں گھر چھوڑ دیتا ہوں مجھے نیلم کے گھر جانا ہے
نہیں مجھے بھی جانا ہے
منّت نے بضد کہا
نہیں منّت دیکھو ۔۔۔
کہا نہ زین مجھے بھی جانا ہے
اوکے ۔۔۔
منّت کا دل ڈر رہا تھا ۔۔اس دن بھی فون اٹھایا تو بری خبر ملی
آج پھر وقت اپنے آپ کو دہرا رہا ہے
اللہ تعالیٰ سب ٹھیک ہو منّت کے دل سے دعا نکلی
گاڑی نیلم کے گھر کے سامنے رکی
زین اور منّت کار سے نکلے
گیٹ پر دستک دی ۔
تو ساتھ ہی ارسل بھی پہنچا
زین ۔۔۔
ارسل نے کار سے نکلتے ہی آواز دی
تو زین اور منّت وہی رکے
کیا ہوا ہے ؟؟؟
پتا نہیں ارسل نیلم بے حد گھبرائی ہوئی تھی کال کی اس نے
اور تمارا کیا کام ہے یہاں
ارسل نے سنجیدہ ہو کر منّت سے پوچھا
جو گھبرا کر تھوک نگل رہی تھی اب ارسل کو کیا کہتی زبردستی آئی ہوں
اتنے میں دروازہ کھلا تو منّت کے جان میں جان آئی
السلام عليكم انکل ۔۔۔
نیلم کہاں ہے زین نے اگے بڑھ کر پوچھا
اؤ بیٹا
نیلم کے بابا مسٹر گیلانی نے ان تینوں کو وٹنگ روم میں بیٹھایا
اور ساتھ ہی خود بھی بیٹھ گئے
اتنے میں نیلم اور مسز گیلانی بھی آگئی
نیلم ۔۔۔منّت فورا اٹھ کر نیلم کے گلے لگی
نیلم کی آنکھیں رو رو کر لال ہو چکی تھی
بولو نیلم ۔۔۔
ارسل نے پوچھا
کچھ دیر پہلے ہم تینوں آرام سے بیٹھے ہوے تھے
اتنے میں دروازہ بجا
بابا نے کھول کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا
نیلم کے آنسو بہنے لگے
نیلم کی بات وہاں موجود ہر انسان بہت توجہ سے سن رہا تھا
پھر کون آیا ؟؟؟
زین نے پوچھا
کوئی نہیں تھا ۔۔۔
نیلم نے ایک ہاتھ سے بہتے آنسو صاف کئے
صرف ایک تابود تھا بس
رونے میں اب اضافہ ہوا
ہم پہلے حیران ہوے پھر جب اسے کھولا تو ۔۔۔
نیلم اب آواز سے رونے لگی تو پاس بیٹھی منّت نے فورا گلے لگایا
مجھے بہت ڈر لگتا ہے بیٹا یہ خطرے کی نوکری چھوڑ دو اب
مسٹر گیلانی نے اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا
زین اور ارسل نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا
نیلم کیا تھا اس میں ؟؟؟ ارسل کو کچھ غلط لگا
وه ۔۔۔۔
نیلم کی آواز اب ساتھ نہیں دی رہی تھی
نیلم کہاں ہے وه تابود
ارسل کھڑا ہوا
وه وہاں ۔۔۔۔
نیلم نے روتے ہوئے لان کی طرف اشارہ کیا
ارسل اور زین فورا اٹھے
تو منّت بھی دیکھنے کیلئے پیچھے چل پڑی
اور نیلم اور اسکی فیملی بھی ۔۔۔۔
زین اور ارسل ایک طرف کھڑے ہوے
منّت دوسری طرف
نیلم اپنے ماں باپ کے ساتھ ذرا پیچھے
زین نے تابود کھولا
تو منّت کے منہ سے خوفناک چیخ نکلی
زین اور ارسل نے دکھ سے آنکھیں میچی
یہ سب کیا ہے ؟؟؟ منّت زور سے چیخی ۔۔
یہ تو صفا ہے ۔۔۔
منّت دیوار کے ایک کونے کے ساتھ جا لگی ۔۔۔
تابود میں صفا کے ٹکڑے تھے
ساتھ میں ایک خط جیسے ارسل نے اٹھایا