اللہ کے واسطے منّت گھر چلو
منّت پھتر بن چکی تھی
نیلم کی کوئی آواز اسے سنائی نا دے رہی تھی
صرف آنکھوں کے سامنے ارسل کا چہرہ تھا
اچھا تم نے مجھے اتنا مس کیا
ارسل کی شرارت بھری آنکھیں نظر آئی
کیوں کہ وه بس تمارا کزن ہے اور میں شوھر بھی ۔۔۔
ارسل کی آواز کہی آس پاس ہی تھی
اچھا چلو اب تماری ہوش میں نکاح کر لیتے ہیں
منّت نے کانوں پر ہاتھ رکھے
اور ایک چیخ نکلی
بس بس ۔۔۔
ارسل بس ۔۔۔
منّت دیوانہ وار رونے لگی
نیلم ارسل کو کیسے کچھ ہو سکتا ہے
نیلم جو منّت کو کب سے بولنے پر مجبور کر رہی تھی
اب سنمبھالنا مشکل ہورہا تھا
منّت سمبھالو خود کو ۔۔۔
پلیز سمبھالو
نیلم نے منّت کو زور سے جھنجوڑا
تو منّت بیگانی نظروں سے نیلم کو تکنے لگی
ہاں منّت ہوش کرو اور چلو گھر
ارسل بھائی کو کچھ نہیں ہوا ہوگا چلو
نیلم نے منّت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی تسلی دے رہی تھی
صحن میں ایک ساتھ کفن میں لیپٹے وجود پڑے تھے
زین ۔۔ضیاء ۔۔حسن
ٹوٹے دل کے ساتھ ایک طرف خاموش بیٹھے تھے
لبنیٰ کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے
منّت مرے مرے قدموں کے ساتھ دروازے تک پہنچی
کفن دیکھ کر اسکی سانسیں روکنے لگی
منّت ۔۔۔لبنیٰ نے اپنی بیٹی کو دیکھ کر جھٹ سے اسکی طرف بھاگی
اگر لبنیٰ نا سمبھالتی تو منّت گر جاتی
منّت ۔۔۔
ماما ۔۔۔
یہ کیا ہے ؟؟؟
منّت نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا
منّت اندر اؤ تم ۔۔
نہیں ماما ۔۔
یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔کیا ۔۔
پلیز ہٹاے یہ ۔۔۔
منّت کی آواز اسکا ساتھ چھوڑ چکی تھی الفاظ سے زیادہ اسکے اشارے کام کر رہے تھے
منّت ۔۔۔۔
حسن اٹھ کر پاس آے
پاپا ۔۔مجھے نہیں آنا
منّت واپس موڑنے لگی
تو ضیاء اگے بڑھا
منّت کچھ نہیں رہا ماموں جان
امی ۔۔سمعیہ ۔۔مامی ۔۔
ضیاء نے منّت کا ہاتھ پکڑ کر ان بے جان وجود کے پاس لے کر جانے لگا
منّت کو تو ارسل کا خوف کھاۓ جارہا تھا پر یہاں تو دنیا ہی ختم ہو چکی تھی
نہیں نہیں منّت نے ہاتھ چھڑوایا ۔۔
آنسوں سے پورا چہرہ بھیگ چکا تھا
یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔تایا جان ۔۔۔
منّت دوڑ کر قریب گئی
نظر سکندر پر پڑی
حسن ۔۔جو میری بیٹی چاہتی ہے وہی ہوگا
تمیں ہر جگہ جانے کی اجازت ہے
سالوں پرانی بات منّت کو یاد آئی
منّت تڑپ کر رہ گئی
چہرے کافی خراب ہو چکے تھے
تایا جان اٹھے
پلیز تایا جان
منّت زور زور سے ہلانے لگی
پھر بھاگ کر پاس پڑے وجود کی طرف بڑھی
تائ جان پلیز اٹھے ۔۔
ذرا سا پلٹی
پھوپھو . ۔۔۔منّت نے پھوپھو کے ماتھے کے ساتھ اپنا ماتھا ٹکا دیا
پلیز پھوپھو ۔۔۔
توبہ ۔۔آنے دو ارسل کو ایسے کیسے منّت کو یونیورسٹی میں شرمندگی ہوئی
پھوپھو کی آواز ہواؤں میں گونجنے لگی
منّت کے آنسو پھوپھو کے چہرے پر جذب ہونے لگے
تو نظر آخری کفن پر پڑی
منّت تڑپ کر اگے بڑھی
سمعیہ ۔۔۔
سوری یہ سارا پلین ارسل کا تھا
منّت کو سمعیہ کی شرارتیں یاد آئی
منّت کو پاگلوں کی طرح سب کو بار بار ہلا رہی تھی
ایک بار پھر سب اپنے آپ پر قابو نا رکھ سکے
اور رونے لگے
پورا گھر ماتم میں بدل چکا تھا
نیلم زین کو تسلی دے رہی تھی
تو فورا اٹھ کر منّت کی طرف گئی
منّت بس کرو
نیلم دیکھو یہ سب پھر کوئی مذاق ہے انکو کہو بس کرے مجھے نہیں ۔۔
نیلم نے منّت کو گلے لگایا
تو منّت کا ضبط پھر سے ٹوٹا
اور دل کھول کر رو دی
نیلم نے سامنے کھڑے وجود کو دیکھا
جس کی سانسیں اتھل پھتل تھی
ہکا بکا دروازے کو پکڑ کر سہارا لیا
صاف لگ رہا تھا کہ جسے بھاگ کر آیا ہو جبھی سانس پھول رہی تھی
نیلم کے منہ سے بے اختیار نکلا
ارسل بھائی ۔۔
منّت جو کے نیلم کے گلے لگی ہوئی تھی اسکی گرفت ڈھیلی پڑی
اور مڑ کر دیکھا
تو ایک سیکنڈ میں ارسل کی طرف بھاگی ۔۔
بنا کسی کے پروا کئے
اور ارسل کے وجود سے ٹکرائی
منّت ارسل کی دھڑکنوں کی اتھل پھتل محسوس کر سکتی تھی
اور منّت نے ارسل کے کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی
اور بے اختیار رو پڑی
جیسے سارے آنسو آج بہا دے گی
ارسل بے جان کی طرح اپنے ماں باپ کا چہرہ دیکھتا رہا اور وہی اپنا سر دیوار سے ٹکا دیا
آنسو کی لڑی منّت کے سے ہوتے ہوئے اسکے بالوں میں سماں رہی تھی
ارسل ٹوٹ چکا تھا ۔۔
پورا گھر تنکے کی طرح ایک ہی پل میں بکھر چکا تھا
تدفین ہو چکی تھی
پورا گھر سناٹے میں تھا
ارسل ۔۔زین گھر سے غائب تھے
ضیاء اور شمع حسن کے ساتھ بیٹھے اپنا غم ہلکا کر رہے تھے جو نا ممکن تھا
لبنیٰ اپنے کمرے میں خاموش بیٹھی تھی
ماما ۔۔۔
اؤ منّت
منّت پاس آئی تو لبنیٰ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی
ماما یہ کیسے ہو سکتا ہے کسی کی بھلا کیا دشمنی ہماری جو ایسے بم ۔۔۔۔
منّت کے الفاظ ختم ہوے
پتا نہیں منّت ۔۔یہ سوچ سوچ کر تو میں خود ہلکان ہوگئی ہوں
کیوں کسی نے ایسا کیا
بھائی صاحب کی کار میں بم کس نے لگایا
اور کیوں ؟؟
ایک بار پھر منّت کے آنسو بہنے لگے اور لبنیٰ نے اپنی بیٹی کو اپنے آغوش میں چھپا لیا
دو دن بعد ارسل منّت کو دکھائی دیا
جو بلکل ٹوٹ چکا تھا
ارسل ۔۔۔
میں کھانا لاؤ ۔۔
منّت نے بڑی مشکل سے بات شروع کی
نہیں ۔۔ارسل صوفے پر بیٹھا اور
سر پیچھے کی طرف ٹکا دیا
منّت ارسل کے پاس بیٹھ گئی
ارسل ۔۔منّت نے پھر پکارا
ہمم ۔۔ ارسل نے آنکھیں موندیں جواب دیا
شاید اب وه کسی کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا
تماری کس سے دشمنی تھی ؟
منّت نے ارسل کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
ارسل نے کوئی جواب نہیں دیا
وه کار تماری تھی وه بم تمارے لئے تھا ۔۔منّت کے حلق میں آنسوؤں کا گولہ پھنسا
تو ارسل نے آنکھیں کھولی
اور حیرت سے منّت کو دیکھنے لگا
کیا مطلب تمارا ؟
ارسل جب میں نیلم کے ساتھ تھی تو فون آیا نیلم کو
میں نے فون اٹھایا تھا
کوئی لڑکا تھا
مجھ سے کہا تمارا ارسل اب ۔۔
گیا ۔۔
اسکی کار میں بم ۔۔۔ہے ۔۔
منّت نے جیسے تیسے خود پر کنٹرول رکھ کر بات بتائی
ارسل کے ماتھے پر پڑے بل کم ہوے
اور اٹھ کر افسوس سے آنکھیں بند کی
جیسے گزری بات سوچنے لگا
منّت حیرت سے اسکے پیچھے کھڑی ہوگی
ارسل نے اپنے دماغ پر زور دیا
پاپا کیا ہوا ؟
ارسل میری کار تو منّت کے پیچھے بجوا دی تا کہ اسے ھال تک آنے میں مشکل نا ہو
اور ضیاء نکل گیا ہے شاید
کوئی بات نہیں پاپا میری کار میں آجاے ایڈجسٹ ہو جائے گے
ٹھیک ہے میں کار کی چابی مجھے دے دو پھر سکندر نے ہنستے ہوئے کہا
ارسل جانتا تھا کہ پاپا کے ہوتے ہوے کار ارسل خود نہیں چلا سکتا تھا
اوکے پاپا
سکندر کار میں بیٹھے تو ارسل بھی بیٹھ گیا
پچھلی نشست پر پھوپھو سمعیہ اور مسز سکندر بھی آبیٹھی
چلے ۔۔۔
ارسل نے پیچھے مڑ کر خواتین سے اجازت لی
تو پھوپھو کی نظر ارسل کے کلر پر پڑی
توبہ ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی تم چاھتے کیا ہو بخودار
پھوپھو نے آنکھیں دیکھاتے ہوے پوچھا
ارسل کی طرح سب انجانی نظروں سے دیکھنے لگے
یہ کیا ہے پھوپھو نے ارسل کی شرٹ کی طرف اشارہ کیا
تو ارسل کو منّت کی برتھ ڈے کا دن یاد آیا تو گھبرا گیا
بے اختیار اپنے آپ کو دیکھا
مہندی لگانے کا بڑا شوق ہے تمیں
پھوپھو نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
تو ارسل نے کے تناو ڈھیلے پڑے
میں چینج کر آتا ہوں پھوپھو
ہاں ہاں جاؤں
بلکہ یہ تماری سزا ہے اب آنا تم اکیلے
چلو سکندر ۔۔۔۔
پھوپھو کی بات پر سب ہنسے اور سمعیہ ارسل کو چڑا کر باے باے کرنے لگی
اوکے ۔۔
ارسل نے غور سے مہندی دیکھی تو یاد آیا صبح صرف منّت ہی مہندی لگا کر گھوم رہی تھی
منّت کی بچی تم بچو گی نہیں اب
ایک تم اور ایک پھوپھو میری جان لے کر ہی رہو گے
ارسل نے آنکھیں کھولی
وه تب ہی بچ گیا تھا منّت کی مہندی کی وجہ سے
اگر کار سے نا اترتا تو وه بھی زندہ نا ہوتا
پر میرا دشمن کون ۔۔۔
کون ہے جو منّت کو ایسے کہہ سکتا ہے
ارسل نے دروازہ کھلا
تو پوجا کو زخمی حالت میں پایا
پر ارسل کو اس پر کوئی ترس نہیں آیا
شاید ارسل کا غم پوجا کے زخم سے زیادہ تھا
ارسل دیکھو مجھے زین اور نیلم نے مارا ۔۔۔
پوجا نے اپنے زخمی ہونٹوں کو بولنے کی طاقت دی تو ساتھ ہی درد سے کراہ اٹھی
میں کبھی بھی تمارا نقصان نہیں کر سکتی ارسل
پوجا شاید تمیں اپنی جان کی پروا نہیں اس لئے ہر بار جھوٹ بول دیتی ہو
ارسل پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا
نہیں ارسل مجھے سچ میں نہیں پتا ۔۔۔۔
پوجا تمارے لئے بہتری اسی میں ہے کہ تم سچ سچ سب کچھ بتا دو
تماری حفاظت کی ذمداری پھر میری ہوگئی
اب تک لحاظ صرف اس لئے کر رہا ہوں کیوں ہمارے مذہب میں عورت کا احترام کیا جاتا ہے
اور تم مجھے حیوان بننے پر مجبور کر رہی ہو۔۔۔
ارسل کا غصہ پروان چڑھنے لگا
ارسل میں سچ میں نہیں جانتی کہ یہ حادثہ کس نے کیا
پوجا اپنے کام میں وفادار رہی ۔۔۔
ارسل نے طنزیہ ہنسی ہنس کر اٹھا
اب اسے ہر حال میں مجرم تک پہنچنا تھا