ارسل پریشانی کے عالَم میں تیز تیز قدم چل رہا تھا
زین بھی قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا ساتھ ساتھ انفارم بھی کر رہا تھا
ارسل نیلم اور میں بھی ساتھ تھا صفا کے کل ہم سب مل کر پارٹی انجوے کر رہے تھے
سمجھ میں نہیں آرہا صفا غائب کیسے ہوئی
تمارے کہنے پر پوجا کو اٹھا کر لے آے ہیں
پر نہاد غائب ہے پوجا کا کہنا ہے کہ وه خود اس بارے میں نہ جانتی
نیلم نے ہر طرح سے اس سے پوچھ لیا ہے
ارسل خاموشی سے راہ عبور کر کے سیکرٹ روم میں آیا جہاں پوجا کو قید کیا ہوا تھا
دروازہ ایک جھٹکے سے کھولا
سامنے پوجا زمین پر ڈری سہمی بیٹھی ہوئی تھی
ارسل پلیز مجھے یہاں سے نکالے
بکھرے بال ہونٹ کا کونہ پھٹا ہوا
نیلم ارسل کو دیکھ کر ایک طرف کھڑی ہو گی
پوجا میں صرف سچ سننا چاہتا ہوں
بس سچ میں جانتا ہوں نہاد تمارا بھائی نہیں تمارے ماں باپ دونوں نون مسلم تھے
میں سب جانتا ہوں
صفا کہاں ہے ؟
یونیورسٹی کی جتنی بھی لڑکیاں غائب ہوئی ہے اس میں بھی تمارا ہاتھ ہے
بتاؤ مجھے ۔۔۔ارسل غصے سے دھاڑا ۔۔
پوجا کپکپای ۔۔
ارسل میں تمارے مذہب کی نہیں ہوں اسکا مطلب یہ نہیں کہ تم مجھ پر الزام لگاؤ
پوجا نے افسوس سے دیکھا
نیلم غصے میں اگے بڑھی اور پوجا کے منہ پر اپنی انگلیوں کے نشان چھوڑ دیے
سچ بتاؤ
کہاں ہے صفا ؟؟ نیلم کی آواز کے ساتھ آنسو بھی نکلنے لگے
آنسو کا ایک گولہ حلق میں پھنس بھی گیا
ارسل میں تم سے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولو گی
میرا یقین کرو
پوجا نے ارسل کی طرف امید سے دیکھا
جسٹ شٹ اپ
ارسل کی آواز بلند ہوئی
تمیں ایسے سمجھ نہیں آے گا
ارسل پاس رکھی کرسی پر بیٹھا
زین ۔۔۔
زین سمجھ کر روم سے باہر گیا اور 5 منٹ کے بعد واپس آیا زین کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی جس میں کچھ مائع نما چیز تھی
زین نے ارسل کی طرف بڑھائی
پوجا کی آنکھیں خوف کے مارے کھل گئی
ارسل پلیز ۔۔۔پوجا بس اتنا ہی کہہ سکی
جانتی ہو یہ کیا ہے پوجا
ارسل نے پوجا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
تیزاب ۔۔۔۔
اور تمارا یہ چہرہ ختم ۔۔۔
ارسل نے ایک خطرناک مسکراہٹ پیش نظر کی
ارسل دیکھو ہم سب پارٹی میں ساتھ تھے یونیورسٹی کے کافی سٹوڈنٹس بھی تھے
پوجا نے بوتل کو دیکھ کر اٹک اٹک کر بولنا شروع کیا
وش کلب میں تھے ہم
وہاں پر کیمرہ موجود تھا
ارسل وه کلپ دیکھ سکتے ہو
پلیز ۔۔۔پوجا نے اپنی جان بچانے کیلئے آخری کوشش کی
ارسل نے زین اور نیلم کو دیکھا کو دیکھا
اور پھر تینوں ایک ساتھ روم سے باہر نکل گے
سیکرٹ روم کو لاک کیا گیا
تھوڑی دیر میں وش کلب پہنچے
اور ارسل نے منیجر سے بات کر کے ایک ببند روم میں داخل ہوئے
اور سامنے سکرین تھی جس پر کل کی ویڈیو ایک فلم کی طرح چلنے لگی
ارسل ہم تقریباً ایک گھنٹہ ہی رکے تھے
11 سے 12 کے درمیان
زین نے ٹائم سیٹ کیا
اور اس دوران کا منظر سامنے نظر آنے لگا
سب ساتھ تھے ۔۔
پوجا اور نہاد بھی ہے ارسل دیکھ دیکھ کر اپنی راۓ بھی دیتا جارہا تھا
ایک منٹ رکو ۔۔ارسل کے کہنے پر
کی بورڈ پر چلتی ہوئی نیلم کی انگلیاں رکی
یہ صفا کس کو اشارہ کر رہی ہے
کچھ کہہ رہی ہے ولیم نیلم ۔۔۔
ارسل نے ہیڈ فون پر بھی ہاتھ رکھا
تا کہ ہر آواز کلئیر آے
کیا تم ۔۔۔
نہیں ۔۔
ابھی نہیں ۔۔
آواز نہیں آرہی ۔۔
میوزک ہے ۔۔۔۔
نہیں کل ملے گے ۔۔
کل ۔۔۔
کیا ہے ۔۔۔
اوکے ۔۔آتی ہوں ۔۔
صبر کرو تم ۔۔۔
اس میں صرف صفا کی آواز ہے کسی سے بات کر رہی ہے اور ہر بار اپنے چاروں طرف دیکھ کر جواب دے رہی تھی تا کہ کوئی اور سن نا لے
پارٹی میں صفا کے ایک طرف پوجا اور نہاد باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ کھڑے تھے ڈانس میں مگن
نیلم اور زین اپنی باتوں میں مگن
جب صفا تھوڑا دور کسی سے اشارے اور کم کم بات کرنے میں مگن تھی
پر جس سے بات کر رہی تھی وه انسان نہیں دیکھا
مجھے اس جگہ جانا ہے ارسل نے زین سے کہا
اور نیلم اس کلپ کو مجھے سینڈ کرو
چلو زین
ارسل پھرتی سے کلب کے اس حصّے میں آیا جہاں وہ سب کل رات موجود تھے
صفا جس طرف دیکھ کر بات کر رہی تھی اس طرف کھڑکی تھی
اور کھڑکی کے اوپر کی جانب کیمرہ تھا
جس کی وجہ سے کھڑکی کے پیچھے کی طرف جو کوئی بھی تھا وه اس ویڈیو میں نہیں دیکھ سکتا تھا
ویڈیو دیکھ کر ارسل لگ رہا ہے صفا اپنی مرضی سے کلب سے باہر گئی ہے کسی کے ساتھ اب کس کے ساتھ یہ نہیں معلوم
اس وقت بھی ہم نے یہی سوچا شاید کسی کام سے نکلی
پر آج صبح جب صفا کے گھر گے تو پتا چلا کہ صفا رات سے گھر نہیں آئی
زین نے ارسل کو تمام انفارمیشن دی
کچھ سمجھ نہیں آرہا اگر پوجا ہے تو بہت چلاک ہے خود کو اس معاملے سے بلکل کلئیر کر گئی اور ساتھ میں نہاد بھی تھا
ارسل نے دونوں ہاتھ جیب میں ڈال کر سوچنے لگا
نہاد آج کہاں ہے ارسل نے پوچھا
پتا نہیں پوجا اس بارے میں انجان ہے اسکا کہنا ہے کہ جب پارٹی سے نکلے تو اپنے اپنے گھر چلے گئے
پارٹی میں زین پوجا تم لوگوں کے ساتھ نکلی تھی
ہاں ارسل
جب تک کچھ پتا نہیں چلے گا پوجا قید میں رہے گی
ارسل نے ارڈر دیا
اوکے ارسل ۔۔۔
4 دن ہوگے ہیں صفا غائب ہے اور نہاد پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے جاب سے گھر اور گھر سے جاب بس ۔۔۔
صفا کے گھر چلو ۔۔۔
اوکے ارسل
زین نے کار صاف کے طرف موڑ دی
انٹی ۔۔۔صفا کہی نہیں جاتی تو پھر اچانک ایسے
کیا کوئی رشتے دار ہیں جو دور دراز علاقوں میں ہو
ارسل نے نرم لہجے میں پوچھا
سامنے ایک بوڑھی عورت جو بڑی سے چادر میں تھی اور چادر کے ایک پلو سے اپنا چہرہ رگڑ رہی تھی جو بار بار آنسووں سے بھر رہا تھا
نہیں بیٹا ۔۔ہم دونوں ہی رهتے ہیں میں نے بہت سمجھایا یہ کام چھوڑ دے
یہ کام لڑکوں کو شعبہ دیتا ہے
لیکن کہتی تھی میرا وطن میرا عشق ہے
اسکے لئے جان بھی دے دوں
پر کسی کے ہتھے چڑھ گئی
ماں کی آواز اب سیسکیوں میں بدل چکی تھی
ہمم ۔۔ہم چلتے ہیں اپنا خیال رکھیے گا
ارسل کے پاس الفاظ نہیں تھے
اسی لئے ایک بوجھ کے ساتھ واپس لوٹا
صفا کہاں ہو تم نیلم صفا کی تصویر دیکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کر رہی تھی
نیلم ۔۔صفا ٹھیک ہوگی
کیوں پوجا اور نہاد ہمارے ساتھ تھے
اور صفا جیسے بات کر رہی تھی صاف لگ رہا تھا کہ شاید جانتی ہو
شاید نہیں یقیناً ۔۔۔
زین نے خود ہی اپنی بات کی تصدیق کی
ہممم ۔۔۔نیلم کچھ نا کہہ سکی
تم یونیورسٹی بھی نہیں ارہے ہیں خیریت تو ہے نا ؟؟
اور صفا بھی نہیں
کیا چکر ہے کیا نارضگی ہے
منّت نے ارسل کو سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھا تو پاس سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی
اور مزے سے چاۓ کی سیپ لینے گی
کیوں تم مجھے مس کرتی ہو ؟
ارسل نے ساری سوچوں کو ایک طرف رکھ کر منّت کی جانب منہ کر کے بیٹھا
میں کیوں کرو گی تم ڈر کے مارے یونیورسٹی نہیں آے
اتنا ڈرتے ہو
منّت کی آنکھوں میں شرارت تھی
اتنا یاد مت کیا کرو ورنہ زین کے ساتھ میں بھی اسی ھال میں شادی کر لو گا تم سے
ارسل نے اسکا چاۓ کا مگ چھینا اور خود پینے لگا
تم ہو ہی انتہائی بدتمیز
منّت پیر پٹخ کر چلی گئی
جب کہ ارسل منّت سے بات کر کے کچھ سکون محسوس کرنے لگا
مگنی کی رسم رکھ دی گئی ہے
ارسل اور زین اپنی پریشانیوں میں تھے جبکہ گھر والے رسم کی تیاریوں میں مصروف تھے
زین میرا بلکل دل نہیں کر رہا
امی ابو نے رسم رکھ دی
نیلم کی آواز بھاری ہونے لگی
فون کے دوسرے جانب زین کا بھی یہی حال تھا
نیلم انشااللہ ہم صفا کو ڈونڈھ لے گے
اس ایجنٹ میں بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہے
کافی جگہوں پر ریٹ بھی کی ہے
ضرور مل جائے گی زین نے شاید خود کو بھی تسلی دی
ہممم ۔۔نیلم نے کہہ کر فون رکھ دیا
کب تک رکھو گے مجھے یہاں ارسل
جب تک صفا مل نہیں جاتی
پوجا نے آنکھیں بند کر کے ایک آہ بھری
ارسل میں تم سے پیار کرنے لگی ہوں مجھے نہیں پتا تھا مجھے تم اتنی بڑی سزا دو گے
پوجا نے شکایتی نظروں سے دیکھا
ارسل ایک طنزیہ ہسی ہنس دیا
اچھا مذاق ہے پر میں تماری باتوں میں نہیں آسکتا
صفا کو اگر کچھ ہوا
زندہ تم بھی نہیں رہو گی
ارسل وارن کرتا ہوا باہر نکلا
اور لاک کر کے چل دیا
پوجا نے دیوار کے ساتھ سر ٹکایا
ارسل میں واقع تم سے عشق کر بیٹھی ہوں
پوجا نے اعتراف کیا ۔۔۔۔۔
میں تو جارہی ہوں نیلم کے ساتھ پلر ۔۔
منّت نے اپنا فیصلہ سنایا جس پر سب راضی ہوے
آج زین کی منگنی تھی
گھر میں شور مچا ہوا تھا ہر ایک کو اپنی پڑی تھی
منّت جا چکی تھی
چلو پھر نکلتے ہیں کافی ٹائم ہوگیا ہے
زین تم میرے ساتھ آجاؤ ضیاء نے کار میں بیٹھتے ہوئے کہا
نہیں ضیاء میں تایا جان کے ساتھ نکلو گا اٹس اوکے
ضیاء اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا
دوسری کار میں ارسل اپنے ماں باپ اور پھوپھو ساتھ میں سمعیہ بھی بیٹھ گئی
ہاؤس فل زین ۔۔۔سمعیہ نے ہنس کر کہا
تیسری کار میں منّت کے حسن اور لبنیٰ
ساتھ میں زین ، شمع بھی بیٹھ گے
کس کا نمبر ہے ؟؟
نیلم جو سجنے سنورنے میں مصروف تھی
منّت دیکھو کس کا فون ہے
منّت نے سر ہلا کر فون اٹھایا
ایک منٹ کے بعد منّت کے ہاتھ سے فون گرا
اور ساتھ میں خود بھی ڈھے گی
نیلم فورا منّت کی طرف بڑھی
منّت پلیز بولو ۔۔
کیا ہوا ہے
کس کا فون تھا
فون گرنے کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا
نیلم ۔۔۔نیلم ۔۔منّت اٹک اٹک کر بولنے لگی جبکہ آنسووں کی رفتار تیز ہوئی
پتا نہیں ۔۔بس اتنا کہا کہ ارسل کی کار میں بم ۔۔۔
منّت سے جملہ پورا نہیں ہوا
نیلم نے بجلی کی رفتار سے منّت کے کلچ سے موبائل نکالا ور ارسل کو کال کی جبکہ ارسل نے کال پک نہیں کی تو
نیلم نے تیزی سے زین کا نمبر ملایا
منّت کی کال ۔۔زین نے کال اٹھائی
ہاں منّت ۔۔
زین میں نیلم ۔۔ارسل کال پک نہیں کر رہا
اسکے ساتھ کوئی اور ہے جلدی بولو
ہاں
ارسل اپنے ماں باپ کے ساتھ آنا چاہتا تھا ھال میں تو
نیلم نے کال کٹ کی
جبکہ زین پریشان ہوگیا
نیلم نے منّت کے موبائل سے فون بک کھولی اور تایا جان کا نام سرچ کیا
تو فورا کال کی جبکہ زین دوبارہ منّت کے نمبر پر کال کرنے لگا تو مصروف جانے لگا
کال پک ہوئی
ہاں منّت بیٹا ۔۔۔
سکندر نے کال اٹھائی
انکل میں نیلم ۔۔
اور ساتھ ہی ایک دھمکا ہوا جس سے نیلم کے کان سرخ ہوے
نیلم بے جان کھڑے تھی
منّت نیلم کی طرف بڑھی
نیلم کیا ہوا ؟
بولو
ار ۔۔۔ار ۔۔ارسل ٹھیک
ٹھیک تو ہے نہ ؟
منّت نے بہت مشکل سے الفاظ ادا کئے
نہیں ۔۔منّت کچھ ٹھیک نہیں ہے
دھمکا ۔۔۔
منّت گھر چلو ۔۔
زین کی کال آئی تو نیلم نے روتے روتے پوری بات بتائی
پورے گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی
زین ضیاء اور حسن ہوسپٹل پہنچے
زین سمبھالو خود کو ۔۔
حسن نے زین کو گلے لگایا کیسے
میرا سب کچھ ختم ہوگیا
میں کبھی بھی اپنے گھر نہیں رہا
ہمیشہ آپ کو بابا سمجھا کبھی
بھی ماں بہن کے ساتھ وقت نہیں گزارا
پر آج سچ میں اکیلا رہ گیا
ضیاء نے بھی اپنی ماں کھو دی
پر زین کے مقابلے میں خود کو مضبوط بنا کر ثابت قدم رہا
اور خاموشی سے ہوسپٹل کی ساری کروائی کی
حسن کچھ دور بینچ پر جا بیٹھے
لبنیٰ حسن کے قریب جا کر بیٹھی
اور کندھے پر ہاتھ رکھا جیسے صبر کا کہہ رہی ہو
لبنیٰ ۔۔سکندر بھائی ہمارے بڑے بھائی ہی نہیں باپ تھے
بھائی اور بھابھی
اور بہن سب کھو بیٹھا میں
حسن کا ضبط ٹوٹا
تو آنسوؤں میں بہہ گیا
جسم کے ٹکڑے جمع کر کے کفن پہنا دیا گیا تھا
اور سب گھر پہنچے
چار جنازے ایک ساتھ گھر لاے گے
قیامت کا سماں برپا تھا
سخت سے سخت انسان ٹوٹ چکا تھا
نا رونے کے لئے آنسو نا کہنے کو کوئی لفظ بچا تھا
نا ہی کوئی صبر کی تلقین کر پا رہا تھا