ساڑے گیارہ ہو چکے ہیں اف سمجھ میں نہیں آرہا کہ سارے گھر والے چلے کہاں گے آج ھی سب کو کام تھا جب میرے لئے اتنا خاص دن ہے
نیند بھی نہیں آرہی ہے
سردی کی وجہ سے شال کو مزید خود میں بھینچ لیا
ناول ھی پڑھ لیتی ہوں اس نے سوچ لیا تھا کہ وقت کیسے گزارو
بے دلی شلف کی طرف بڑھی
ناول پڑھنا ھی منّت کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے
بڑ ھتے قدم موبائل فون کے بجنے سے رکے
منّت نے ناول اٹھایا اور موبائل لے کر اپنے کمرے کے سامنے پسندیدہ جگہ بلکونی میں آکر کھڑی ہوئی
ماما کب تک آے گے ؟؟؟
کال کے دوسری جانب سے فکر مندی سے آواز ابھری
بیٹا ٹریفک میں ہم پھس گے ہے بس تھوڑی دیر میں ہم پہنچ جائے گے
اوکے ماما ۔۔۔
کچھ خاموشی پاکر نازیہ حسن نے اپنی بیٹی کو پکارا
منّت ۔۔۔
تم ٹھیک ہو میرے بچے ؟؟
اتنی خاموشی کیوں ؟
باقی سب کہاں ہیں ؟؟
منّت مزید خفا ہوئی
ماما ۔۔۔
باقی سب سے کیا لینا دینا ؟؟
آپ اور بابا جلدی نانو کو لے کر آجاے
اوکے میرا بچا ہم جلدی پہنچ جائے گے حسن نے نازیہ سے موبائل لے کر اپنی لاڈلی بیٹی کو منانا چاہا
اوکے بابا ۔۔۔
منّت نے فون سامنے میز پر رکھا
اور پاس رکھی کرسی پر بیٹھ کر ہمیشہ کی طرح دنیا سے بےخبر ہونا چاہتی تھی
اتنا بڑا سنسان گھر اسے ڈرا رہا تھا
ٹھندی ہوائیں سردی بڑھا رہی تھی
ایک ہوا کا جھونکا تیزی سے منّت کی طرف بڑھا جس سے اس کے سارے بال اوپر کی طرف بڑھے
منّت نے ایک جھٹکے سے پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا
منّت نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک عجیب سی وحشت ہوئی تو ناول اٹھا کر کمرے میں آئی
جیسے ھی ناول کی موٹی بک کھولی تو اوڑھ کر کچھ کالے ذرے خوبصورت سے چہرے پر آگے ۔۔۔
منّت نے گھبرا کر ناول دور پھینکا ....
اور چہرے کو ہاتھ سے صاف کیا تو نہ سمجھ میں انے والی سوکھی سیاہ انک لگی ۔۔۔
آئینے میں اپنا وجود دیکھا ۔۔تو اپنا ھی چہرہ منّت کو خوفزدہ لگا ۔۔۔
اچانک سے روم میں جلتا ہوا بلب بند ہوا
تو منّت کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی ...
اور ہڑ بڑاتی ہوئی گولی کی رفتار سے اپنے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔
تو باقی گھر میں جلتے بلب کو دیکھ کر منّت نے اپنا سانس بحال کیا
میں بھی نہ پاگل ۔۔۔منّت سے اپنے ھی سر ہلکی سی چپت لگائی
شاید میرے روم کا بلب خراب ہوگیا ہے ۔۔۔
منہ دھو لیتی ہوں ۔۔۔۔
11: 45
کلائی میں بندھی گھڑی دیکھی
کاش اس چاپڑ گھنجو کے ساتھ میں بھی چلی جاتی تو یوں اکیلی نہ رہتی ۔۔۔
منّت کے اٹھتے قدم کے ساتھ کسی اور کے ہونے کا بھی احساس کروا رہے تھے
منّت نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا سڑھیوں پر ھی قدم جم گے تھے ۔۔
کے اچانک کیچن سے کچھ گرنے کی آواز آئی تو منّت نے پلٹ کر لاونج اگے کی جانب نظر دوڑائی
کون ہے ؟؟؟
میں نے پوچھا ہے وہاں کون ہے ؟؟؟
منّت نے دل مضبوط کر کے دیکھنے کا ارادہ کیا۔۔۔۔
کون ہے ؟؟؟؟
کیچن تک با مشکل ڈرتے ڈرتے پہنچی ۔۔
پر گلاس نیچے پڑے دیکھا ۔۔۔
تو ایک لمبھی سانس خارج کی
اور سینک کی طرف بڑھی
تاکہ اپنا چہرہ دھو سکے ۔۔۔
جیسے نل کھول کر ہاتھوں کا پیالہ بنایا
تو ہاتھ سرخ ہو گے ۔۔
خون ۔۔۔۔
منّت چیخ کر ڈر کر پیچھے ہوتے ہوے لڑ کھڑائی ۔۔۔
جس کی وجہ سے نیچے گری
ایک دم سے سارا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا
تو منّت کو اپنا دل بند ہوتے ہوئے محسوس ہوا
کہ
اچانک
ایک ساتھ کچھ آوازیں چیختی ہوئی سنائی دی
تو منّت دیوانہ وار بھاگنا شروع کیا
بھاگتے ہوے نیچے گری پر اٹھ کر دوبارہ بھاگنا شروع کیا
ارادہ
گھر سی باہر نکلنے کا تھا
جیسے ھی بیرونی گیٹ تک پہنچی
ایک وجود کے ساتھ ٹکرائی
لیکن منّت بینا دیکھے آنکھیں بند کئے چیخے جا رہی تھی
منّت نے ایک منٹ کے بعد ہسنے کی آواز سنی ۔۔
وه آواز جانی پہچانی تھی
منّت نے آنکھیں کھولی
تو پورا گھر روشن تھا
اور سامنے وجود کو دیکھا
جو مسلسل ہسنا جارہا تھا
ڈری ہوئی منّت فورا اس وجود
کے حفاظتی بہانوں میں جا چھپی ۔۔۔
اچھا ۔۔۔ہوا۔۔۔ ارسل تم آگئے
یہاں۔۔۔ کچھ ۔۔۔ہے
کوئی ۔۔۔ہے ۔۔۔دیکھو ۔۔۔
منّت کے لفظ بھی ٹھہرے ہوے تھے
ارسل کی ہسی غائب ہوئی
اور حیرت سی منّت کو دیکھنے لگا جو اسکی دل کی دھڑکن آسانی سی سن سکتی تھی
ارسل نے منّت کو بازوں سی پکڑ کر دور کیا ۔۔۔
کون ہے ؟؟؟
ارسل نے گھر کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
چڑیل ۔۔۔
منّت نے آئستہ سے سر گوشی کی کہ ارسل کے علاوہ کوئی اور سن نہ لے
ارسل نے اسکا ڈرا ہوا چہرہ دیکھا ۔۔۔
اور اسکا سنجیدہ پن ایک قہقہ میں تبدیل ہوا ۔۔
ارسل ۔۔پاگل ہو گے ہو تم ؟؟
منّت کو غصہ آیا
ہاں چڑیل وه بھی تم ۔۔
کیا مطلب ۔۔۔
اور چھپی ہوئی جگہوں سے ایک ساتھ مزید قہقے گھونجے
منّت نے حیرت سے سب کو دیکھا ۔۔
اور ارسل کو پھر ۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے منّت ۔۔۔
شمع کان پکڑتے ہوئے سامنے کھڑی ہوئی
شمع اور ضیاء احمد لغاری چچا کی اولاد تھی
منّت نے اوپر کھڑے ولید کو دیکھا
جو ہسی با مشکل روکے کھڑا تھا
منّت نے لاؤنج سے نکلتے
ضیا ۔۔۔ زین ۔۔سمعیہ کو دیکھا جو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے
سوری منّت ۔۔۔
پر اپنی حالت دیکھو اف
اور ایک دوسرے کو تالی مار مار کر ہسی کو جارہی رکھا
زین ۔۔ولید ۔۔اور سمعیہ پھوپھو کے دو بیٹے اور ایک بیٹی
اور ارسل سکندر لغاری کے بیٹے
جو کے گھر کے بڑے سربراہ تھے
اور منّت حسن لغاری کی اکلوتی بیٹی ۔۔
پر منّت یہ پلین ارسل کا تھا
تماری برتھ ڈے خاص کرنے کا
منّت کو ارسل کا نام سن کر آگ لگ گئی
یہ کیسا بیہودہ مذاق ہے ؟؟
جہاں منّت کی غوصیلی ابھری
وہاں سب کے قہقے بند ہوے
ایسا بیہودہ مذاق تم جیسے گھٹیا انسان ھی کر سکتا ہے
منّت ۔۔۔
ارسل نے غصے میں کہا
ارسل منّت کا چہرہ دیکھ سکتا تھا
جو ابھی ابھی سیاہ گرد سے بھرا ہوا تھا
لیکن غصہ بخوبی نظر آرہا تھا
تمیں تو میں زندگی بھر نہیں چھوڑو گئی ۔۔
منّت پیر پٹخ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گئی
اسکی تو۔۔۔۔
ابھی بتاتا ہوں چڑیل کو ۔۔
ارسل غصے میں منّت کے پیچھے جانے لگا
ارے ارسل کیا ہوگیا ہے ؟
چھوڑو اسے غصہ تو آے گا نہ اب بس تم اپنی خیر مناؤ ۔۔شمع نے اپنی ہسی دبا کر کہا
تو ارسل اپنے سارے دانت دیکھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا جیسے وه کہہ رہا ہو منّت کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔۔
دونوں پاگل ہے ۔۔زین کے کہنے پر سبھی مسکرا دیے ۔۔۔